۲۰۲۳ء کے اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی کی ساکھ اور راہل گاندھی کی نئی حکمتِ عملی دونوں کا امتحان مقرر ہے
کانگریس نے شاید سوچ سمجھ کر ہی راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا منصوبہ تیّار کیا۔ ایک سو دن گزر جانے کے بعد اِس یاترا کی ابتدائی مقبولیت اورتنقید و تبصرے کو سامنے رکھ کر تولا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ راہل گاندھی یا کانگریس کو اِس یاترا سے نقصان تو نہیںہوا مگر کتنا فائدہ ہوا، اِس کے لیے ۲۰۲۴ء سے پہلے ۲۰۲۳ ء میں ہونے والے وہ انتخابات میزان بنیں گے کہ کیا کانگریس نے اپنے لیے نئی دنیا اور کھوئے ہوئے وقار کی پھر سے حصولیابی کا راستہ تلاش کر لیا ہے۔ سیاست میں نجومیوں کی طرح سے آخری نتائج بیان نہیں کیے جا سکتے مگر جن اصحاب کی تبدیلیوں پرگہری نگاہ ہے، اُن کا یہ ماننا ہے کہ نریندر مودی کے ساتھ ساتھ راہل گاندھی کے لیے یہ آخری امتحان کا مرحلہ ہوگا کیوں کہ اِس مرحلے میں جن کے ہاتھ سے اقتدار کی زمام پھسلی، اُنھیں ۲۰۲۴ء میں بھی شاید ہی کامیابی کے راستے پر دیکھا جا سکے گا۔
جن بڑے صوبوں میں آیندہ سال انتخابات کی تیّاریاں مکمّل ہوں گی، اُن میں دو ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے پچھلی بار فیصلہ کن کامیابی حاصل کی تھی۔ کامیابی تو اُسے مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی حکومت سازی کے مرحلے میں حاصل ہو گئی تھی مگر وہ اپنے غیر سیاسی فیصلوں اور بے وقوفیوں کی وجہ سے وہاں سے دست بردار ہو گئی اور دونوں جگہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں حکومت قایم ہو گئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ راجستھان میں پچھلے پانچ برسوں میں کانگریس ہائی کمان کی نگاہوں کے سامنے جو اُونچ نیچ اور اُٹھا پٹک کی کیفیت رہی ہے، اُس سے آنے والا انتخاب متاثر ہوگا۔تلنگانہ میں کے۔ چندر شیکھر راؤ نے کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کے لیے عرصۂ حیات کو تنگ کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں تقریباً نو سو اسمبلی حلقوں میں کانگریس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ راجستھان، چھتیس گڑھ،مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں اُس نے جو اچھی خاصی سیٹیں جیت لی تھیں، کیا ۲۰۲۳ء کے انتخاب میں اُن میں وہ کتنا اِ ضافہ کر پائے گی۔ ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا اِن مجموعی سیٹیوں کو بچا پانا اتنا آسان ہے؟ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ میگھالیہ، تری پرا، ناگا لینڈ اور میزورم میں بھی آیندہ سال انتخابات ہوں گے۔ اِن صوبوں میں رفتہ رفتہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اُس کی حلیف جماعتوں نے جو اپنی طاقت بڑھائی ہے اور جیسے تیسے حکومتیں بنا لینے میں کامیابی پائی ہے، اِس کے سبب یہ آسان نہیں معلوم ہوتا کہ اِن علاقوں میں کانگریس اپنی کھوئی ہوئی دنیا کو پھر سے واپس لے کر سامنے آئے۔ اِن چار ریاستوں میں ۲۲۰ ؍اسمبلی سیٹیں متعین ہیں۔ اِن میں معقول کامیابی کے بغیر آگے کے راستے اور اقتدار کی قوّت کے مسدود ہونے کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔
یہ درست کہ راہل گاندھی کی اِس یاترا سے اُن کی عوامی امیج بدلنے کے راستے ہم وار ہو رہے ہیں۔ اپنے لباس، چلنے پھرنے کے طریقے، باڈی لینگویج اور جسمانی فٹ نس کے ساتھ حسنِ سلوک کے ثبوت فراہم کرنے کا کوئی بھی موقع کانگریس تنظیم اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہے۔ یاترا کے دوران راہل گاندھی ایک رحم دل، انسانیت نواز اور محبت دار کے ساتھ ساتھ ایک منکسر المزاج شخصیت کی شکل میں اُبھر رہے ہیں۔ اُن کی موجودہ کھچڑی داڑھی والی شکل، پختہ عمری اور ملک کی ذِمّہ داری سنبھالنے والی حیثیت کے اظہار کا اعلانیہ ہے۔ ۲۰۱۴ ء میں نریندر مودی نے اُنھیں ’پپّو‘ اور’ شہزادے‘ نام سے یاد کیا تھا مگر اب وہ اُس طرزسے باہر نکلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوچے سمجھے انداز سے یہ امیج بنانے کی ایک صورت ہے مگر اِس سے کیسے انکار کیا جائے کہ نریندر مودی ہوں یا ماضی میں اٹل بہاری واجپئی ؛سب نے اِس سلسلے سے بڑی مشقّت کی تھی کہ اُنھیں کن خطوط پر سماج میں پہچان حاصل ہو اور اِنھی راستوں سے وہ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اِس لیے راہل گاندھی بھی ایسا کوئی ہتھ کنڈانہ اپنائیں تو یہ بات قابلِ اعتراض ہونی چاہیے۔ موجودہ عہد کی سیاست میں یہ ایک لازمی کام کی طرح سے آزمایا جانے والا نسخۂ کیمیا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی جگہ جگہ عوام و خواص اور پریس سے ملتے رہتے ہیں اور دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں۔ کووڈ کے آغاز سے پہلے ہی چین کے سوالوں اور پھر کووڈ کے تعلق سے ابتدائی اقدام کے بارے میں اُن کے مطالبات حقیقت سے زیادہ قریب تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک منظم طریقے سے نریندر مودی کی حکومت اُس سے لاتعلق بنی رہی اور خطرات سے انکار کرتی رہی۔ کئی عالمی مسئلوں پر راہل گاندھی نے اچھا خاصہ دانش ورانہ تصوّر پیش کیا اور ملک کے نا وابستہ افراد کو یقین دلانے میں وہ کامیاب ہوئے کہ وہ اپنے ملک اور بدلتی ہوئی دنیا کے ہر طور سے واقف ہیں اور حزبِ اختلاف کے قائد کی حیثیت سے حکومت کی ہر خامی پر بر وقت انگشت نمائی کرنے میں کامیاب ہیں۔ اپنے والد کی موت کے بعد بہ راہِ راست سیاست میں جب وہ آئے، اُس کے پچیس برسوں سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اُن میں جو سیاسی سنجیدگی اور پختگی آئی ہے، اُس سے صرفِ نظر کرنا نا مناسب بات ہے۔
راہل گاندھی اور کانگریس کا حقیقی مسئلہ اپنے گھر اور کنبے کی لڑائی سے کامیاب گزرنا ہے۔ کانگریس پرانی سیاسی پارٹی ہے اور اقتدار کے ذائقے سے آشنا افراد کی ایک بڑی جماعت ہر وقت حاشیے میں رہتے ہوئے دن گزار رہی ہے۔ اِن میں سو صف اوّل کے ایسے لیڈر ہیں جو راہل گاندھی کے بجائے سونیا گاندھی کو قائد سمجھ سکتے ہیں مگر راہل گاندھی کی قیادت کو دل سے ماننے کے لیے تیّار نہیں۔ کانگریس میں بزرگ لیڈروں کی موجودگی سے جو اتحاد میں رخنہ پیدا ہوتا ہے اور پارٹی کی مستقبل شناسی پر جو حرف آتا ہے، وہ کینسر ہے جس کی وجہ سے راجیو گاندھی کی وفات کے بعد سے آج تک اِس پارٹی میں سڑاندھ پیدا ہو رہی ہے۔ نرسمہا راؤ اور من موہن سنگھ اپنے علم، بزرگی اور سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ سے پارٹی اور سرکار کی ناؤ کو کھینچ لے جانے میں کامیاب رہے مگر پچھلے آٹھ برسوں میں پارٹی جس زوال تک پہنچی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سامنے اعداد و شمار کے اعتبار سے جھک گئی ہے، وہ اِسی بے شعوری کا نتیجہ ہے۔
راہل گاندھی اپنی ذاتی امیج کو بڑھانے اور متحرک کرنے کے لیے جس طرح کوشاں رہتے ہیں، اُس کے مقابلے پارٹی کی گُٹ بندی اور الگ الگ خیموں کے درمیان باضابطہ توازن قایم کرنے کے حتمی اُصول بنانے میں اُن کی کوئی دل چسپی نہیں۔ گذشتہ دنوں کانگریس کے عہدۂ صدارت کے سلسلے سے جس انداز سے چیزیں بدلتی گئیں، اُس میں بھی اُن کی بے نیازی اور بے لوثی سیاسی طور پر خطرے کی گھنٹی بجا کر گئی ہے۔ ایسی پارٹی جس کے پاس محدود سطح پر اقتدار ہو، اُس میں ایسی خیمہ بندی اور پارٹی قائد کا اِ ن تمام باتوں سے عوامی سطح پر خود کو الگ تھلگ کر لینا یہ بتاتا ہے کہ یا تو اپنی پارٹی پر اُس کا کنٹرول نہیں ہے یا وہ سب کی حیثیت کو متزلزل رکھنے کی ایک اسکیم پر کام کر رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں خطرے کا واضح اشاریہ ہیں۔
بھارت جوڑو یاترا میں راہل گاندھی کانگریس کی تنظیم کے لیے بھی کچھ خاص متوجہ دکھائی نہیں دیتے۔ کیا صرف ایک قائد کی ذاتی مقبولیت کی بدولت پورے ملک میں اقتدار کے مقابلے کوجیتا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پنچایت اور شہر کی سطح پر اگر آپ نے اپنی پارٹی کے تنظیمی نظام کو چست درست اور اپنے اعتبار سے سر گرم بنا نہیں رکھا ہے تو آپ کی مقبولیت کسی بھی قیمت میں ووٹ کی شکل میں بدل نہیں سکتی۔ ۲۰۲۳ء کے صوبائی انتخابات میں کانگریس نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو چست درست، گُٹ بازیوں سے پاک اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلہ کرنے کے لایق نہیں بنایا تو آپ جان لیجیے کہ ایسی ایسی کتنی بھارت جوڑو یاترائیں وقت کی گرد میں سما جائیں گی اورکانگریس اور ملک کے سیکولر عوام ہاتھ مَلنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔
بھارت جوڑو یاترا میں کانگریس اپنی حلیف جماعتوں کو جوڑنے اور اُن کی طاقت میں اِضافہ کرنے کے لیے بھی کوئی کار گر کام نہیں کر رہی ہے۔ بڑی پارٹی کے طور پر اُس کا یہ فرض تھا۔ اب بھی اِ س یاترا کے اگلے مراحل باقی ہیں۔ کانگریس کو تنہا چلنے کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی کی تمام مخالف طاقتوں کا ترجمان بن کر ہندستانی سیاست میں اُبھرنا چاہیے۔ بھارت جوڑو یاترا کے اگلے مرحلے میں اگر یہ نشانہ ٹھیک طریقے سے بیٹھ گیا تو ہم سمجھتے ہیں کہ ۲۰۲۳ء اور ۲۰۲۴ ئکے نتایج اب سے مختلف ہوں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page