کلاسیکی غزل کی تفہیم کادائرۂ عمل بہت پھیلا ہوا ہے۔اس دائرے میں بنیادی طور پر جو دو چیزیں شامل ہیں،انھیں غزل کی شعریات اور غزل کی رسومیات سے تعبیر کرتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی شعریات کہہ کر اسی میں رسومیات وغیرہ کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔واضح رہے کہ شعریات کا تعلق اصولِ فن سے ہے،یعنی اس میں وہ باتیں شامل ہیں،جن سے عام طور پر شعر کی فنی قدروقیمت کا تعین ہوتا ہے۔جہاں تک رسومیات کا معاملہ ہے، تو یہ دراصل ان تصورات کو کہا جاتا ہے،جن کی کارفرمائی کلاسیکی غزل کے مضامین کے بیان میں کثرت سے نظر آتی ہے۔ان تصورات کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ غزل کی دنیا میں انھیں اٹل اصول کی حیثیت حاصل ہے،یعنی ان کی خلاف ورزی بعید از امکان سمجھی جاتی ہے۔اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ کلاسیکی غزل کے مطالعے میں اگر ان تصورات کو اچھی طرح سامنے نہ رکھا جائے تو اشعار کی تفہیم میں بڑے پیچ پڑ جاتے ہیں،اور ان سے نکلنا عموما ً آسان نہیں ہوتا۔
میں یہاں اس بات کو واضح کر دوں کہ اس مضمون میں کلاسیکی غزل کی تفہیم کے معاصر رویے یا معاصر اندازِ نظر کا تعلق چند ان باتوں سے ہے،جو غزل کی رسومیات کا حصہ ہیں،اور یہ بھی واضح رہے کہ غزل کی رسومیات کا بڑا حصہ عشقیہ مضامین سے متعلق ہے۔انھیں آسانی کے لئے ہم غزل کی عشقیہ رسومیات یاغزل کے عشقیہ تصورات سے موسوم کرتے ہیں۔چونکہ غزل کی دنیابالخصوص عشقیہ دنیا مخصوص تصورات سے معمور ہے،اس لئے غزل بڑی حد تک ایسی تصوراتی شاعری کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے،جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔غزل کی عشقیہ رسومیات سے متعلق حسب ذیل چند باتیں بطور مثال بیان کی جا سکتی ہیں۔
۱۔ غزل کی عشقیہ دنیا میں مخصوص کرداروں کا وجود
۲۔ ان میں معشوق اور عاشق کے کرداروں کا مرکزی ہونا
۳۔ہر کردار سے وابستہ مخصوص صفات جن سے انحراف خلاف اصول سمجھا جاتا ہے۔مثلاً معشوق کے کردار کا غالب ہونا اورعاشق کے کردار کا مغلوب ومحکوم اور انفعالی ہونا۔
۴۔ غزل میں معشوق کے کردار کامتکلم کی صورت میں بیان نہ کیا جانا
۵۔ عشقیہ مضامین پر مبنی اشعار میں عام طور سے عاشق کا متکلم ہونا
۶۔ رقیب کا ہمیشہ منفی کردار کی صورت میں بیان ہونا
۷۔ شیخ،واعظ اور ناصح وغیرہ کے کردار کا ناقابل تحسین ہونااور انھیں قابلِ نفریں بیان کرنا
غزل کی عشقیہ دنیا میں مذکورہ بالا کرداروں کے علاوہ کچھ اشخاص بھی ہیں،جن کی حیثیت اگرچہ کردار کی نہیں،لیکن ان کی موجودگی بہت سے اشعار میں دیکھی جا سکتی ہے۔ان اشخاص میں عاشق کے مہربان رفیقوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو عاشق کی حالت زار سے فکر مند رہتے ہیں،اور اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ اور لوگ ہیں،جو معشوق کی جفا شعاری وغیرہ سے باز رہنے کی اسے تلقین کرتے ہیں۔خیال رہے کہ ان اشخاص کی حیثیت کردار کی نہیں ہے، اس لئے ان سے ویسی خصوصیات بھی وابستہ نہیں ہیں،جن سے مخصوص عشقیہ کردار پہچانے جاتے ہیں،اور ان کی پہچان ناقابل ترمیم ہوتی ہے۔اب میں یہاں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں،جس سے بات مزید واضح ہوگی۔
معشوق کے کردار کی ایک نمایاں صفت اس کا بے وفا ہونا ہے۔چنانچہ وعدہ وفا نہ کرنا بھی معشوق کی نمایاں ترین خصوصیات میں شامل ہے۔اب غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
جیسا کہ آپ نے دیکھا،یہاں بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔کہاں تو یہ تصور کہ معشوق وعدہ وفا کرتا ہی نہیں،اور یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک دو نہیں،بلکہ معشوق کے سینکڑوں وعدے وفا کرنے کا بیان کیا گیا ہے۔جیسا کہ اوپر کہا گیا،کرداروں سے وابستہ تصور کے خلاف غزل میں کوئی بات کہنا،مسلمہ اصول کے منافی ہے۔یہی سبب ہے کہ غالب نے شعر میں’’بھولے سے‘‘ کا فقرہ رکھ دیا، تاکہ معشوق کے وعدہ وفا نہ کرنے کااصول اپنی جگہ قائم رہے۔غالب ہی کا ایک اور مشہور مطلع دیکھئے، جس میں وعدۂ وصل کے وفا نہ ہونے کا مضمون لایا گیا ہے:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
اسی مضمون کو میر نے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے،جس سے معشوق کے وعدہ وفا کرنے کے امکان کا پہلو نکلتا ہے،لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا۔
اس کے ایفاے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
ظاہرہے، اس شعر کی بنیاد بھی اسی تصور پر ہے کہ معشوق وعدہ وفا نہیں کرتا۔لیکن اس تصور کو پلٹ کر میر نے نہایت چالاکی سے معشوق کی بے وفائی کو عمر کی بے وفائی کا نتیجہ قرار دے دیا ہے،اور دلیل یہ رکھی ہے کہ ہم معشوق کے وعدہ وفا کرنے تک زندہ ہی نہیں رہے۔
کلاسیکی غزل میں معشوق کے متکلم نہ ہونے کا تصور اس قدر پختہ اور اٹل ہے کہ اس سے انحراف کی کوئی مثال کم از کم مجھے نظر نہیں آئی۔غالب کے ایک مشہور شعر سے اس تصور کی عملی صورت کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے:
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا
یہ شعر اس تصور کی عمدہ مثال ہے،جس کی رو سے غزل میں معشوق کا متکلم نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔آپ غور کریں کہ شعر کے پہلے مصرعے کے فقرے’’ نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا‘‘ کے الفاظ معشوق کے ہیں،لیکن شعر میںان کا ادا کرنے والا معشوق نہیں،بلکہ عاشق کا کردار ہے۔یعنی شعر میں عاشق متکلم اور معشوق مخاطَب کی صورت میں ہے۔اس سلسلے میں ایک دلچسپ مثال ہمارے زمانے میں عادل منصوری کے یہاں ملتی ہے۔ان کی غزل کا مطلع ہے:
بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا
میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا
اس شعر کو کلاسیکی غزل کی رسومیات کی روشنی میں دیکھیں تو معاملہ بالکل الٹا نظر آتا ہے۔یعنی تلوار عاشق کے ہاتھ میں ہے اور معشوق زخمی ہے۔ہمیںایسی صورت میں یہی فرض کرنا پڑے گا کہ شعر کا متکلم عاشق نہیں ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ معشوق ہے، جس نے عاشق کو تلوار سے زخمی کر رکھا ہے۔اس مطلعے کے فوراً بعد کے شعر کو دیکھ کر ایک امکان یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید دونوں اشعار کسی خاص پس منظر میں کہے گئے ہیں۔دوسرا شعر حسب ذیل ہے:
گھونگھٹ میں مرے خواب کی تعبیر چھپی تھی
مہندی سے ہتھیلی میں مرا نام لکھا تھا
ان دونوں اشعار کو ایک ساتھ پڑھنے پر ایک ایسی صورت حال کا امکان پیدا ہوتا ہے،جس کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے۔بہرحال مطلعے کے بارے میں ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیںکہ اسے کلاسیکی غزل کی عشقیہ رسومیات سے باہر رکھ کر دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔
عشقیہ رسومیات کے تحت عاشق کے متکلم ہونے کا معاملہ جدید زمانے میں خاصا پریشان کن رہا ہے۔یہ معاملہ اس لئے مزید الجھ گیا کہ شاعر کو لازمی طور پر عاشق سمجھنے کارجحان عام ہوا۔خیال رہے کہ اس رجحان کے عام ہونے میں ان خیالات کا بنیادی کردار ہے ،جو انیسویں صدی کے اواخر میں مغربی تصور شاعری کے پھیلاؤ کے ساتھ ہمارے یہاں رائج ہوئے۔اس تصور کے تحت یہ بات زور دے کر کہی گئی کہ غنائی شاعری میں شاعر اپنے ذاتی جذبہ واحساس کا اظہار کرتا ہے۔یعنی اگر کلام میں عشقیہ جذبات کا بیان ہوا ہے، تو لا محالہ یہ شاعر کے اپنے ذاتی جذبات ہیں۔چنانچہ اس مغربی تصور کے پیش نظر جب غزل کو غنائی شاعری کی صورت میں دیکھا گیا تو یہاں بھی شاعر کے عاشق ہونے کا اصول نافذ کر دیا گیا۔بعد میں لاکھ کہا گیا کہ کلاسیکی غزل کے تصوراتی عاشق کا شاعر سے کچھ لینا دینا نہیں،پھر بھی یہ تصور کسی نہ کسی صورت میں مسئلے کو الجھاتا رہاہے۔ایسا نہیں ہے کہ جدید زمانے کے علماے ادب اس حقیقت سے ناواقف تھے۔قاضی عبد الودود نے ایک جگہ واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’اچھے عاشقانہ شعر کہنے کے لئے [شاعرکا] خود عاشق ہونا لازم نہیں‘‘۔
یہاں اس بات کی مزید وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ غزل کے اشعار میں بالعموم اور عشقیہ اشعار میں بالخصوص، یہ بات مضمون کی صورت سے طے ہوتی ہے کہ شعر کا متکلم کون ہے۔مثلاً شعر میں اگر غیر عشقیہ مضمون جیسے دنیا کی بے ثباتی وغیرہ کا بیان ہے، تو وہاں متکلم عام طور سے عاشق نہ ہوگا۔یہاں ہم شاعر کو بھی متکلم فرض کر سکتے ہیں،اور یہ بھی فرض کر سکتے ہیںکہ کوئی عام انسان یا کوئی شخص وہ بات کہہ رہا ہے۔مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے:
ہستی سے نیستی میں جو بہتر نہ ہو مزہ
ہنستا ہوا جہان سے ہرگز نہ جائے گل سودا
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو میر
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں ناسخ
طبل و علم ہی پاس ہیں اپنے نہ ملک ومال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا آتش
اسی طرح ایسے اشعار جن میں شاعر اپنی شاعری کے بارے میں یا شاعری سے متعلق کسی پہلو کا بیان کرتا ہے،تو ان میں عام طور سے خود شاعر متکلم ہوتا ہے۔البتہ کبھی وہ خود کو مخاطَب کرتا ہے اور کبھی دوسروں سے خطاب کی صورت میں اپنی بات کہتا ہے۔غیر عشقیہ مضامین کے بیان میں کبھی شاعر خود کو لازمی طور پر شاعر کی حیثیت سے نہیں،بلکہ عام انسان کی حیثیت سے لاتا ہے۔مثلاً یہ اشعار ملاحظہ کریں:
برجا ہے اگر جگ میں ولی پھر کے دُجے بار
رکھ شوق مرے شعر کا شوقی حسن آوے ولی
سخن کو ریختے کے کون پوچھے تھا سودا
پسندِ خاطرِ دلہا ہوا یہ فن مجھ سے
کب اس کو گوش کرے تھا جہاں میں اہل کمال
یہ سنگ ریزہ ہوا ہے دُر عدن مجھ سے سودا
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا غالب
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تونے داغ
داغ کے درج بالا مقطعے میں تخلص کا استعمال اس طرح ہوا ہے کہ اس سے لازمی طور پر شاعر مراد نہیں ہو سکتا، بلکہ یہاں داغ ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے، جو صرف اور صرف خدا کی عطا اور بخشش کااعتراف و اعلان کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں مجھے آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ کلاسیکی غزل کے مقطعوں میں شاعر کا تخلص جدید زمانے میں اکثر غلط فہمی کا سبب بنا ہے۔عشقیہ مضامین کے بیان میں بعض اوقات یہ غلط فہمی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ جب مقطعے میں عشقیہ مضمون لایا جاتا ہے، تو وہاں بھی عام طور سے غزل کے رسومیاتی عاشق کی کیفیت کا بیان یا اس کا ذکر بالواسطہ یا براہ راست صورت میں ہوتا ہے۔چنانچہ ایسی صورت میں شاعر کا تخلص اور عاشق کا کردار ایک ہو جاتے ہیں۔خیال رہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقطعے میں شاعر واقعی عاشق کے کردار میں تبدیل ہو کر اپنے جذبات واحساسات کا بیان کرتا ہے۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مقطعے میں یا جس شعر میں تخلص کا استعمال ہو اور وہ شعر عشقیہ مضمون کا حامل ہو،اس میں تخلص سے شاعر مراد نہیں ہوتا بلکہ اکثر غزل کا رسومیاتی عاشق مراد ہوتا ہے۔اوپر آپ نے غالب کا وہ مشہور شعر دیکھا، جس میںان کی شاعری کے بارے میں تحسینی بیان ہے۔ وہاں تخلص سے لازماً شاعر غالب مراد ہیں۔لیکن اب غالب کا درج ذیل مقطع ملاحظہ کریں:
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
سوال یہ ہے کہ کیا اس مقطعے میں بھی تخلص’غالب‘ سے شاعر اسد اﷲ خاں غالب مراد ہیں۔اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ کیوں کہ شاعر کے گریہ کرنے کا کوئی تصور ہماری کلاسیکی غزل کی رسومیات میں نہیں ہے۔محمد حسین آزاد نے’’ آب حیات‘‘ میں میر صاحب کو چاہے جتنا رلا دیا ہو،لیکن غزل کی رسومیات کی رو سے یہ خیال حقیقت سے بعید ہے۔
اب ہم ایک بار پھر غالب کے مذکورہ بالا مقطعے کی طرف آتے ہیں۔جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہاں غالب سے مراد غزل کی دنیا کا وہ عاشق ہے،جس کے معمولات میں کثرتِ گریہ شامل ہے۔دراصل اس مقطعے میں کثرت گریہ ہی کا مضمون بیان ہوا ہے۔واضح رہے کہ اسی گریے کے مضمون سے سیلاب اشک کا مضمون نکلا ہے، اور پھر سیلاب سے بستی اور شہر کے ویران ہونے کا مضمون پیدا ہوا ہے۔یہی سبب ہے کہ اس شعر میں رونے کی کثرت کے نتیجے میں بستیوں کے ویران ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔اسی مضمون پر میر کا غیر معمولی اور بیحد مشہور شعر بھی سنتے چلیں:
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اس سلسلے میں ایک آخری مثال پیش کرتا ہوں۔میر کامشہور زمانہ مقطع ہے:
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
میں نے مضمون کے شروع میں عرض کیا تھا کہ اگر کلاسیکی غزل کو مخصوص رسومیات اور شاعرانہ تصورات کی روشنی میں نہ پڑھا جائے، تو قدم قدم پر بہت سے پیچ پڑتے جاتے ہیں۔میر کا یہ شعر اس صورت حال کی بہت اچھی مثال ہے۔اس میں اگر تخلص کو شاعر میر سمجھ کر پڑھا جائے تو بہت سے ایسے سوالات آ کھڑے ہوں گے،جن کا کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔مثلاً یہی سوال کہ میر نے کیا واقعی اسلام ترک کیا تھا؟بات یہ ہے کہ یہاں بھی میر سے مراد غزل کی دنیا کا عاشق ہے۔یعنی میر خود عاشق نہیں ہیں،بلکہ عاشق کو تخلص کی صورت میں اسی طرح ظاہر کیا گیا ہے،جیسے اوپر غالب کے مقطعے میں آپ نے دیکھا۔آپ خود غور کریں کہ ہم جیسے ہی اس شعر میں تخلص سے عاشق مراد لیتے ہیں،تو شعرکی تفہیم میںمضمون اور معنی کے لحاظ سے کوئی مشکل یا پیچیدگی باقی نہیں رہتی۔یہاں عاشق کے کردار کو ایسے شخص کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ،جو عشق میں مبتلا ہونے سے پہلے ایک پابند صوم و صلوۃ مسلمان کی حیثیت سے لوگوں میں معروف تھا۔ظاہر ہے،جب وہ عشق سے دوچار ہوا تو معشوق جو بت اور کافر ہے،اس سے وابستہ ہو کر بت خانے میں بیٹھ رہا۔اب عاشق کے پرانے ساتھیوں کو تشویش ہوئی کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھنا شروع کیا، تب کسی نے جواب دیا کہ ؎
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا
اس طرح کی مثالیں ہماری کلاسیکی شعری روایت میںکثرت سے موجود ہیں۔اگر کلاسیکی غزل کو انھیں مخصوص تصورات کی روشنی میں پڑھا جائے تواس کی تفہیم کے معاصر انداز نظر میں خوش آئند تبدیلی آ سکتی ہے۔اس مضمون کو میں امیر خسرو کے ایک مشہور مقطعے پر ختم کرتا ہوں، جس میں میر کے درج بالا مقطعے کا مضمون نہایت پرلطف انداز میں بیان ہوا ہے ؎
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آرے آرے می کنم با خلق ما را کار نیست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسراحمد محفوظ
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page