زیرِ نظر مضمون علم و ادب کے گہوارے ، سرزمین ِ ملتا ن پر پیدا ہونے والے ایک معلم ،ناقدِ ادب اور تخلیق کار ڈاکٹر طاہر عباس طیب کی ادبی وعلمی خدمات کا مختصر سا خاکہ پیش کرنے کی ایک سعی ہے۔ آپ کا پورا نام ڈاکٹر طاہر عباس طیب اور قلمی نام طاہر طیب ہے۔انہوں نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم۔اے اردو کیا۔اسکے علاوہ بی۔ایڈ،شارٹ ہینڈ کورس اور اس کے علاوہ بھی کئی کورسزوغیرہ بھی کیے۔ ایم۔اے کے بعد ہی تدریسی شعبہ سے منسلک ہوگئے۔دو سال اسلام آباد کے معروف کالجز میں بطور لیکچرر خدمات انجام دیں اور ۲۰۰۲ء میں پاکستانی انٹرنیشنل ہائی سکول و کالج شارجہ میں بطور استاد ان کی تقرری ہوئی۔پندرہ سال کے تدریسی سفر جو انہوں نے وہاں قیام کیا،پھر صدر شعبہ اردو بھی رہے۔ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ۲۰۱۸ء میں وطن واپس آکر شہرِ سیالکوٹ کی معروف علمی درسگاہ جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ سے منسلک ہوئے۔اور آجکل بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو میں اپنی خدمات انجام دے رہیں۔ وہ ایچ۔ای ۔سی اپرووڈ سپروائزر ہیں اور ۲۵سے زائد ایم۔ایس اور کئی پی۔ایچ ڈی کی طالبات ان کی زیرِ نگرانی مقالہ جات مکمل کرچکی ہیں،اور مزید کررہی ہیں۔
نمل یونیورسٹی سے ایم۔فل کیا جس میں ان کی تحقیق کا موضوع وقار بن الٰہی کی افسانہ نگاری تھا۔اور بعدازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے پی۔ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔جس کے مقالے کا عنوان ”لاہور میں اردو افسانے کی روایت کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ“ تھا۔آپ نے یہ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد کی سرپرستی میں مکمل کیا اور وہ اوپن یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلے طالب علم تھے جنہوں نے پی ۔ایچ ڈی کی ڈگری چار سال کے اندر مکمل کی۔
ڈاکٹر طاہر طیب نے جس جوش ،جذبے اور لگن سے تدریسی فرائض انجام دئیے ہیں ۔اس سے کہیں زیادہ عمیق نظری اور ژرف نگاہی سے انہوں نے اپنا تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی کام ترتیب دیا ہے۔جو ان کی ادب سے محبت اور خلوص کی ضمانت ہے۔وہ ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار،معتدل رائے رکھنے والے محقق و ناقد ہیں۔ڈاکٹر طاہر طیب کی کتب کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
”لاہورمیں اردو افسانے کی روایت“:
یہ ڈاکٹر طاہر طیب کی سب سے اولین اور معتبر کتاب ہے جس نے انہیں نہ صرف ادبی دنیا میں متعارف کرایا بلکہ شرفِ قبولیت بھی بخشا۔یہ مثال پبلشرز سے ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی ہے۔اور پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد،ڈاکٹر ضیاء الحسن جیسے معتبر ناقدین ادباء سے دادو تحسین کی مستحق قرار پائی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے جتنی اہم ہے اتنی ہی ضخیم بھی ہوسکتی تھی لیکن یہ قابل مصنف کے قلم کا جادو ہے کہ اس قدر وسیع موضوع کو جس خوبصورتی اور مہارت سے ۴۲۰ صفحات میں سمیٹا ہے وہ خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیتا ہے۔ڈاکٹر طاہر طیب نے کتاب پوری صدی یا اس سے بھی زیادہ جو تاریخ لاہور میں رہی ہے اور جو جو افسانہ نگار آتے رہے کام کرتے رہے،سب کو فرداً فرداً جگہ دی ہے۔صرف یہی نہیں ساتھ ساتھ ان کے افسانوں اور فن کا تجزیہ بھی کیا ہے۔
یہ دراصل ان کا پی۔ایچ ۔ڈی کا مقالہ تھا جو ترمیم و اضافہ جات کے ساتھ شائع ہوئی۔متنوع موضوعات کے باعث ادبی حلقوں میں اس کتاب کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ بنیادی طور پر پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔جو اوّل لاہور کا تاریخی ،سیاسی ،ثقافتی اور ادبی پس منظر ،دوّم اردو افسانے کی روایت،سوّم قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں اردو افسانے کی روایت،چہارم اسّی کی دہائی اور مابعد :لاہور میں اردو افسانے کی صورتِ حال،اور باب پنجم مجموعی جائزہ ہے۔آخر میں کتابیات درج ہیں۔
ان میں پہلا باب لاہور کے تہذیبی و تاریخی پس منظر کے ضمن میں اہمیت کا حامل ہے۔اوربے شمار بکھری اور گم شدہ معلومات ہیں جن کو مجمتع کیا ہے۔یہ طویل مگرجامع اور اپنے موضوعات اور مندرجات کے سبب بہت اہم باب ہے۔اس میں لاہور کا سیاسی ،سماجی،ثقافتی،تہذیبی پس منظر ابھارنے کے بعد،اسی پس منظر میں پھوٹنے والی ادبی روایت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اور ایسے میں لاہور کے دبستان میں افسانے کی روایت کا بیان آغاز سے عصرِ حاضر تک کیا ہے ۔جس میں خصوصی توجہ انجمنِ پنجاب،بیسویں صدی میں لاہور کی علمی اور ادبی صورتحال،دبستانِ لاہور کی ادبی خصوصیات ،اس کے لکھنے والے کی قلمی مشاقی اور وسعتِ علم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کتاب کا ہر باب ہی اپنی انفرادیت کے باعث قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے۔دوسرے باب میں بھی اوّل افسانے کی تعریف و مفہوم پر روشنی ڈالی ہے،اور بعدازاں افسانہ نگاری کے فن،اس کی روایت و آغاز ،خصوصاً لاہور میں اس کی روایت اور وہاں رومانیت و حقیقت نگاری کے رویوں کا تجزیہ کیا ہے۔اور قیامِ پاکستان سے پہلے لاہور میں افسانے کی مجموعی صورتِ حال کو بیان کیا ہے۔
تیسرے باب قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں اردو افسانے کی روایت ، میں قیام پاکستان کے بعد ادبی منظر نامہ قیام پاکستان کے بعد لاہور کے اہم افسانہ نگار،روایت سے منسلک افسانہ نگار،ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری ،علامتی اور تجریدی افسانہ نگاری،ساٹھ اور ستر کی دہائی کے حقیقت نگار افسانہ نگار ،قیامِ پاکستان سے لے کر اسّی کی دہائی تک لاہور میں افسانہ کی مجموعی صورتِ حال پر مشتمل یہ باب معاصر اور جدید افسانہ نگاروں اور بہت سے گمنام تخلیق کاروں کو بھی متعارف کراتا ہے۔اور ان کی تخلیقی و ادبی کاوشوں کو ادب میں روشناس کرانے کا سہرا بھی ڈاکٹر طاہر طیب ہی کے سر جاتا ہے۔
چوتھا باب اسّی کی دہائی اور مابعد :لاہور میں اردو افسانے کے صورتِ حال مابعد جدید افسانہ ،اسّی کی دہائی کے بعد کے افسانہ نگار ،اور آخری باب یہ نہایت اہم ہے۔جس میں مخصوص دور میں پاکستان کا سیاسی و سماجی پس منظر پر بھی اجاگر ہوجاتا ہے اور خصوصاً اسّی کی دہائی میں اس تمام تاریخ کو اور جو اس صورتحال میں مزاحمتی رویے اُبھرے ان کا بھی بیان ہے۔بعد ازاں مجموعی جائزہ پیش کرکے کتاب مکمل کی ہے۔آخرمیں کتابیات درج ہیں۔ہر باب کے آخر میں بھی مکمل طور پر حوالہ جات درج ہیں ۔
ان تمام ابواب میں افسانے کی روایت پر بات کرتے ہوئے مصنف نے محض نام ہی نہیں گنوائے بلکہ ان کے افسانوں کا تجزیہ اور مجموعی خاکہ بھی پیش کیا ہے۔اور تجزیے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کیا ہے۔اسّی کی دہائی اور مابعد کے تبصرے پر مشتمل باب خاص معنویت اور وقعت کا حامل ہے۔جو اہم تجربے اور تجزیے کی حیثیت رکھتا ہے۔جس سے مصنف نے اپنی قابلیت اور مہارت کا ثبوت دیا ہے۔اس کتاب کے جائزہ پر پورا مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔
یہ بلحاظ موضوع اور مصنف کی کاوش سے وہ بہترین کتاب ہے جو ادب کے ہر طالبِ علم کے لیے گراں قدر تحفے سے کم نہیں۔اس قدر مستند،متعدد اور مختلف النوع معلومات اسی ایک کتاب میں یکجا کردی گئیں ہیں۔کہ اد ب اور خصوصاً افسانے پر کام کرنے والے یا دلچسپی رکھنے والے طالب علموں کی یہ اولین ترجیح کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر طیب نے شگفتگی،کفایت ِ لفظی و معنوی سے کام لیتے ہوئے اپنی تمام تر فکری،تخلیقی علمی و تنقیدی صلاحیت و استعداد کو بروئے کار لا کر اس کتاب کی ترتیب دی ہے۔ کتاب کو لکھنے میں جتنی حوالہ جاتی کتب استعمال ہوئی ہیں یہ مصنف کی علمیت پر دال ہیں ۔ انہوں نے اپنی تمام ہمت اور قوت اس میں صرف کر کے تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔
”بیادِ پروفیسر ڈاکٹررشید امجد ادبی نگارشات“:
یہ وہ کتاب ہے جو ڈاکٹر طاہر طیب نے اپنے ساتھی ڈاکٹر محمد افضال بٹ صاحب کے اشتراک سے مرتب کی ہے۔ جو دی ہاؤس آف رائٹرز سے ۲۰۲۲ء میں شائع ہوئی ہے۔۱۸۵صفحات کی کتاب اپنے آپ میں قدرو اہمیت کی حامل ہے۔اس میں ڈاکٹر رشید امجد کی افسانہ نگاری فن اور شخصیت پر مختلف شخصیات اور نقادوں کے مضمون و مقالہ جات ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ان سب کو بڑی محنت اور صحتِ لفظ و معنی کا خیال رکھتے ہوئے کتاب میں یکجا کیا ہے۔جو ایک خوش آئند امر ہے۔ابتداء میں تعارفِ کتاب ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد کا مختصر تعارف و سوانح بعنوان ”حیاتِ رشید امجد پر ایک نظر!“ ڈاکٹر طاہر طیب کے قلم کی تخلیق ،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کا ایک ایک لفظ محبت ،احترام اور خلوص میں ڈوبا ہے۔ تاہم عام طریقہ سے تعارف لکھنے یا شخصیت کے حوالے سے زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے بلکہ سادہ اسلوب ہے ۔ ان کے افسانوی اقتباسات ہی سے شخصیت کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے جو کافی محنت طلب کام ہے۔اور ایک سلجھے ہوئے ادبی رویے کی علامت بھی ہے۔
کتاب میں شامل ڈاکٹر طاہر طیب کا مضمون ”رشید امجد کے افسانوں میں مزاحمتی عناصر“ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اورایک ایسے پہلو کی جانب بھی قارئین کی توجہ مائل کرتا ہے جو نشاندہی میں تو کئی بار زیرِ تبصرہ آیا لیکن باقاعدہ طور پر کسی نے قلم کو جنبش نہیں دی تھی۔یہ استادِ محترم ہی کے قلم کا اعجاز ہے کہ ایک مشکل اور قدرے دقیق افسانہ نگار کی اصطلاحات وعلامات کو بھی اس طرح کھول کھول کر بیان کیا ہے کہ قاری اس کی مکمل تفہیم پا لے ۔اور اسے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔مضمون کے آغاز میں مزاحمت کی تعریف ان کے لفظی اور فنی ریاض کو ظاہر کرتی ہے۔مضمون میں حسنِ ترتیب ،جامع اور مختصر انداز اختیار کیا گیا ہے۔ان کی تنقیدی نثر بھی بیک وقت تخلیقی اور افسانوی اسلوب رکھتی ہے ،اور قاری کو مکمل طور پر اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
مضمون کے خالق نے بتدریج تمہید اور پس منظر کے بعد رشید امجد کے افسانوں کا تجزیہ کیا ہے۔جس میں کئی ناقدین کے اقوال بھی ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ان کی آراء کافی غوروحوض اور افسانے پر گہری نظر کی غماض ہے۔ ڈاکٹر طاہر طیب کی فکرِ رسا نے رشید امجد کے اس پہلو تک رسائی حاصل کی ہے جو انہیں انکار اور ناساز گار ماحول میں احتجاج کی جرأت اور طاقت مہیا کرتا ہے۔انہوں نے جو بھی بات کی ہے اس کو منطقی انداز میں دلائل سے ثابت بھی کیا ہے کہ وہ کس حد تک اور ان کے افسانوں کے تناظر میں کتنی درست ہے۔ ان تمام افسانوں اور کتابوں کے پس منظر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، کس زمانے اور ماحول کی پیدا وار ہیں اسی لیے یہ ردِ عمل بھی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”افسانہ ‘ سناٹا بولتا ہے’میں چالیس سال سے لوگوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو دیکھنے ،شناخت کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی دینے کےانتظار میں پتھرا گئیں۔معاشرتی بے حسی کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں فرد کو اپنی شناخت کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔لفظ بے معنی اور آوازیں کھوکھلی دکھائی دیتی ہیں۔“
(طاہر طیب،ڈاکٹر،رشید امجد کے افسانوں میں مزاحمتی عناصر،مشمولہ: بیادِ پروفیسر رشید امجد، ص ۱۰۷)
ڈاکٹر طاہر طیب تنقیدی و تحقیقی نثر میں بھی الفاظ کے چناؤ ،درو بست اور حسنِ ترتیب پر کافی وقت صرف کرتے ہیں جو جابجا ان کی تحریروں سے جھلکتا بھی ہے۔وہ ان چند گنے چنے ادیب و ناقدین میں سے ہیں جو مقدار کے برعکس معیار کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔عصرِ رواں میں ایک روش چل پڑی ہے کہ ہر شخص چاہے کسی کا مواد لیا ،کچھ سرقہ ،کوئی مرتب کرتے ہوئے اور کسی طرح بس مصنفین کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے۔اور دھڑا دھڑ کتابیں شائع کرنے پر زور رہتا ہے کہ اتنی بازار میں آچکی ہیں، اس سے قطع نظر کہ ان کی قدر کتنی ہے یا وہ کس حد تک ادب ، آنے والی نسل اور محققین کے لیے معاون ثابت ہوں گی بھی یا نہیں۔اس امر کا ڈاکٹر طاہر طیب کو بھرپور احساس ہے اور شاید یہی ان کے کم لکھنے کی وجہ بھی ہے۔ان کی دیگر ساتھیوں کی بہ نسبت کم کتب منظرِ عام پر آئی ہیں لیکن جو ہیں ان کے موضوعات،کام کا طریقۂ کار ان کے خالق کی وسعتِ نظر اورعمیق ادبی و علمی نظر کا غماز ہے۔
انہوں نے کتاب” وقار بن الٰہی کے افسانوں میں عصری حسیت“ میں بھی اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے جس پر کم کام یا نہ ہونے کے برابر ہے۔لیکن اس ادیب کی تخلیقی اُپج نے انہیں قلم اٹھانے پر اکسایا تو سر نے بھی پھر اس موضوع پر لکھنے کا حق ادا کیا ہے۔وقار بن الٰہی جیسے افسانہ نگار کی تخلیقی جہت کی تفہیم کا بیڑا اٹھایا جن سے نئی نسل تو دور کی بات کئی ادب سے وابستہ افراد بھی نہ آشنا ہیں۔ایک طرح سے وقار بن الٰہی نے اپنی عمر کا تقریباً زیادہ حصہ گوشۂ گمنامی ہی میں بسر کیا ہے۔گو کہ کچھ حلقوں میں ان کی پذیرائی بھی ہوئی ۔پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد جیسے بڑے تخلیق کار و ناقد نے ان کے کام کو سراہا۔دادو تحسین کی لیکن جتنا کیا گیا وہ اس سے زیادہ کے مستحق تھے۔
اسی امر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر طاہر طیب نے قلم آزمائی کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ان کی کتاب ناقدینِ ادب کے سامنے کیا اہمیت رکھتی ہے وہ تو بعد کی بات ہے لیکن یہ امر تو طے ہے کہ اس کتاب کو وقار بن الٰہی کی افسانہ نگاری کی اس جہت میں خشتِ اوّل کی حیثیت حاصل ہے۔سادہ اور آسان پیرائے میں لکھی گئی یہ تجزیاتی ،تحقیقی اور تنقیدی نظریات کا مجموعہ کتاب واضح ادبی اہمیت کی حامل ہے۔ شرینی و شگفتگی جو ان کی روزمرہ بول چال کا خاصہ ہے تحریرمیں بھی در آئی ہے۔اس کے آغاز میں ڈاکٹر رشید امجد اور احمد جاوید کے وہ مضامین ہیں جو وقار بن الٰہی کے فن اور افسانوں پر انہوں نے لکھے۔اور بعدازاں مندرجہ ذیل ترتیب سے وقار بن الٰہی کے افسانوں میں عصری حسیت کو اُبھارا ہے۔
وقار بن الٰہی کا ذہنی و فکری پس منظر،اُردوافسانے کی روایت کا اجمالی جائزہ!،وقار بِن الٰہی کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ،وقار بِن الٰہی کا فنِ افسانہ نگاری، اُردو افسانے میں وقار بِن الٰہی کا مقام و مرتبہ،ماحصل
اس میں مصنف نے وقار کے ذہنی و فکری ارتقاء اور پس منظر کو ان کے زمانے،ماحول اور حالات و واقعات کے ضمن میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔اسی باب کے دوسرے حصے میں افسانے کی روایت کا اجمالی لیکن بہت خوبصورتی کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔روایت کم اور ایک کہانی کا سا اسلوب زیادہ ہے۔اگلا حصہ وقار بن الٰہی کے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں وہ تمام افسانے اور موضوعات شامل ہیں جن کو وقار بن الٰہی نے برتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر طیب نے اپنے انداز میں فکر و تدبر کے بعد اس طرح بیان کیا ہے کہ ان کی تفہیم اور متنوع گوشے قارئین کے سامنے آشکار ہوگئے ہیں۔
اگلے حصے میں فنی حوالے سے جائزہ لیا ہے ۔اور جو بھی نکتہ اُبھارا ہے اس کے ساتھ ساتھ اقتباسات ثبوت کے لیے درج کیے ہیں۔ ان سب جائزوں کو پڑھ کر ہی قاری ان افسانوں کے چھپے بھید سے آگاہ ہوجاتا ہے۔آخر میں قابل مصنف نے وقار بن الٰہی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ان کے مقام و مرتبے اور ادبی قد کاٹھ کی جانب اشارے کیے ہیں۔جو تمام بہت اہم ہیں۔زیادہ ان کی توجہ روایت اور اس کے بعد افسانوی تجزیہ ہی پر رہی ہے۔اور روایت کا باب بھی عام اسلوب اور طریقہ کار سے ہٹ کرہے ۔اس میں زمانی،تحریکی اور موضوعاتی حوالے سے افسانے کی تمام روایت آغاز سے تاحال تک بہت خوبصورت پیرائے میں پیش کی گئی ہے۔کہ قاری نہ زیادہ تفاصیل سے ابہام و الجھاؤ کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی شے یا نکتہ تشنہ رہتی ہے۔
افسانوی تجزیہ ایسا رواں اور ُشستہ کہ بسا اوقات یونہی محسوس ہوتا جیسے افسانہ ہی پڑھ رہے ہوں۔یہ علمی کمال ہے۔اورخاصیت یہ ہے کہ تمام رائے اپنی ہے اور ایک ایک افسانے ،کہانی اور تمام مواد پر ذہنی اور علمی تگ و دو کے بعد ہی وہ درج کیا ۔جس سے ہر فقرہ ،سطر ، باب یا حصہ اپنے آپ میں انتخاب ہے۔ڈاکٹر طاہر طیب کے الفاظ ،جملے ،پیراگراف سب گنے چنے اور سادہ ہی رہتے ہیں۔طویل اور مرکب جملوں سے وہ افسانوں اور تنقید و تحقیق سب میں احتراز برتتے ہیں۔لفظ کے گوناگوں معنی اور امکانات پر بار بار منطقی انداز میں فکرو تدبر کے بعد وہ الفاظ یوں استعمال میں لاتے ہیں کہ ان کی تمام تر معنوی جہات اس تناظر میں واضح ہوجاتی ہیں۔
یہ کتاب بہت کار آمد اور خاصے کی شے ہے۔جو ان کے ادبی ذوق کا بھی پتا دیتی ہے۔اور دوسرا یہ کہ انہیں اردو کے اس ادبی خلا کا بھی احساس بھی ہے ، اسی لیے ہمیشہ انہی موضوعات پر طبع آزمائی کی جو کم کم بحث میں آئے ہوں۔ہمیشہ منفرد اور مختلف کام کرنا ہی ان کی منشا رہی ہے ۔یہ کتاب بھی ان کی اسی سوچ اور خواہش کی مظہر ہے۔
مذکورہ بالا تمام کتب کا جائزہ الگ الگ تجزیے یا تبصرے کا متقاضی ہے۔جو پھر کبھی بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔فی الوقت اتنے ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ آرٹیکلز وغیرہ تو بےشمار ہیں جن کا احاطہ یہاں کرنا مشکل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ایچ۔ای سی کے معیار پر پورا اترنے والے Yیا Xکیٹیگری کے رسائل میں شائع شدہ ہیں۔یوں ان کے معیاری ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔
آپ ایک شاعر نقاد ،فکشن نگار ،محقق اور اردو ادب کے ماہر استاد ہیں۔لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر طیب شاعر کے بجائے بطور فکشن رائٹر اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں ۔ ان کے افسانے متفرق انداز میں کئی مؤقر رسائل وجرائد جن میں ملکی اور غیر ملکی دونوں شامل ہیں چھپ چکے ہیں۔ان میں ادبِ لطیف لاہور ،دھنک رنگ،ترجیحات وغیرہ سرِ فہرست ہیں۔
ان کے افسانوں میں کہیں بھی لطافت،جنسیت یا رومان کا پہلو غالب نہیں ہونے پاتا بلکہ مصنف نے بہت ہی سادہ لیکن شگفتہ اور سہل اسلوب میں ہمارے روزمرہ اور گردو پیش کی صورتِ احوال کو منعکس کیا ہے۔یہ کہانیاں بعض ان مسائل کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں جو ہمارے سامنے تو ہیں لیکن شاید کبھی محسوس نہ کیے گئے ہوں،رشتوں کی ناقدری،کہیں شکست و ریخت،حرص وہوس،ایثار،طمع،عیاری مکاری ،غربت کی چکی میں پستے کردار غرض سب ان افسانوں کا مرکز ہے۔ قابلِ توجہ امر یہ بھی ہے کہ اب تک کی ان چھ سات کہانیوں میں کہیں بھی ایلیٹ کلاس کی کہانی یا کردار نہیں ہیں بلکہ ایک متوسط طبقہ یا پھر غریب طبقہ اور عام آدمی کے خواب،اس کی خواہشات اور مسائل سے مکالمہ کرتے افسانے ہیں۔جن کا مختصر سا تبصرہ درج ذیل ہے۔
قصہ اک خواب کا!:
یہ افسانہ خوبصورت منظر کشی سے شروع ہوتا ہے۔جس میں ماں بیٹے کی گفتگوسے دلچسپ انداز میں کہانی آگے چلتی ہے۔بیٹا قسمت آزمانے کی بات کرتا ہے تو وہ اسے محنت اور ایمانداری کا درس دیتی ہے۔افسانے میں دراصل انسانی ہوس ،حرص اور ہمیشہ جو وہ پیسے اور زیادہ کی چاہ ہی میں رہتا ہے کا بھی ذکر کیا ہے۔اس کا سارا اسلوب داستانوی اور قدیم قصوں سے ملتا ہے۔سانپ ،ڈبوں اور دریا میں سے کئی چیزیں نکالنا ،سانپ کا بولنا ، زبان سے بات کرنا بہت داستانوی اور تخیل کی پیداوار ہے ۔پھر ناگ کی زبانی انسانی رویوں پر طنزیوں کیا ہے:
”ہم انسان تھوڑی ہیں جو اپنی زبان سے پھر جائیں ۔ہم تو شیش ناگ ہیں،ناگوں کے سردارہیں،ہم زبان کے پکے ہیں۔“( قصہ اک خواب کا!)
کہیں کہیں مصنف ایسی باتیں اور نصیحت کرکے اپنے آدرش کی تکمیل چاہتے ہیں ۔جو وہ اپنے پڑھنے والوں کو بذاتِ خود سمجھانا چاہتے ہیں۔
”کبھی خواہشات کا غلام مت بننا ،ورنہ تم ہمیشہ خالی ہاتھ رہو گے کیونکہ حرص ایک ایسی چیزہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ۔“( قصہ اک خواب کا!)
افسانے میں بادشاہ ،شہزادے سب اسلوب ہمیں قدیم قصوں کہانیوں میں لے جاتا ہےاور یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے حرص و ہوس سے کنارہ کشی رکھیں تو ہی کچھ حاصل ہوتا ہے۔بیٹا جو ایک جادوئی انگوٹھی کے ذریعے سب حاصل کر لیتا ہے لیکن اس عیش و عشرت کے نتیجہ میں جب مشکلات آتی ہیں تو ان سے نمٹ کر دوبارہ اسی پرانے گھر اور سادہ زندگی کی جانب آجاتا ہے۔اس سب کے بعد بالآخر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔یہ مصنف کی کمال مہارت ہے کہ قاری اس کے سحر میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔اور جیسے ہی نوجوان خواب سے بیدار ہوتا ہے تبھی قاری بھی حال میں واپس آتا ہے۔
تشنہ لبی:
رشتوں کے تقدس کی پامالی ،اور انسانی بے حسی کی داستان ہے۔اس میں فہمیدہ اور گڈو دو بہنوں کی کہانی سے اس طرزِ فکرو احساس کو ابھارا ہے جو ہمارے معاشرتی نظام اور بدلتے ہوئے اقداری معیارات کے سبب معدوم ہوتی جارہی ہے۔ یہ بھی دکھایا ہےکہ خودغرضی اور دھوکا دہی پر جب آئے تو انسان سے کریہہ بھی کوئی شے نہیں ہے۔علاوہ ازیں اولاد کی تربیت کے موضوع کی جانب بھی توجہ دلائی ہے۔
افسانے کی خاصیت اس کا تجسس ہے۔پڑھنے سے قبل قاری سوچ ہی نہیں سکتا کہ اختتام یوں ہوگا ۔غیر متوقع انجام اور بے حسی پر چبھتا طنز ہے اگر محسوس کیا جائے۔لیکن یہ نشتر زنی اتنی پوشید ہ بظاہر نرم و ملائم ہے کہ بیک نظر محسوس نہیں ہوتی۔بلکہ اسلوب کی سادگی اور شگفتگی غالب رہتی ہے۔جس کا انجام کہانی میں بڑی بہن کے گھر کی تباہی سے ہوتا ہے اور خلافِ فطرت یہ کہ اور کوئی نہیں بلکہ اس کی سگی بہن ہی گھراجاڑنے کی ذمہ دار تھی جو اس کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ ہے۔افسانے میں کہیں کہیں مصنف وہ باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو اقوالِ زریں کے طور پر لی جا سکتی ہیں۔یہ باتیں ،جملے یا اقوال ان کی تمام عمر کے مشاہدے اور تجربے کا حاصل ہیں۔
”روپے پیسے کا رعب بھی عجیب اور ظالم شے ہے۔وقتی طور پر یہ ہر چیز کا نعم البدل فراہم کردیتا ہے۔۔۔رشتے ناتے سب اسی کی بدولت قریب ہوجاتے ہیں۔“(تشنہ لبی)
”مرد بھی عجیب شے ہے۔زیادہ پھسلن پر بھی خود کو سنبھال لیتا ہے۔اور گرنے پہ آئے تو ہلکی سی پھسلن پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔“(ایضاً)
”بعض اوقات جب کچھ غلط ہوتا ہے۔۔تو ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔انسان کو کچھ سوجھائی نہیں دیتا۔۔بلکہ یوں کہیں عقل پر پردے پڑتے چلے جاتے ہیں۔“(ایضاً)
وارث:
ایک اہم مسئلہ جو بیٹی اور بیٹے کی تفریق اور ان کی پیدائش پر کیا جاتا ہے،اس سے خطاب کرتا ہے۔افسانہ وارث میں جاگیردار بیٹے کی خواہش میں دوسری شادی بھی کرتا ہے۔مگر وہ خوشی اس کی قسمت میں نہیں تھی۔لیکن یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وقت بدلنے تک ،اتنی ترقی بھی ہوگئی ابھی بھی ہمارا وہ ذہن نہیں بدلا کہ وارث بیٹا ہوتاہے ۔اور لوگ اس خواہش میں کس حد تک چلے جاتے ہیں۔یہی اس کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ اور یہ افسانہ ان رکاوٹوں اور اسٹگموں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
دستک:
اہم افسانہ ہے ۔ جس میں برادری اور ذات پات کے بنائے گئے نظاموں کے تحت جو شادیاں نہیں ہوتیں اس کی جانب توجہ دلائی ہے۔
”آپ کو تو پتا ہے کہ ہم ذات برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔۔۔یہ کہہ کر اس کا باپ اٹھ کر چلا گیا۔“(دستک)
اور پھر ذات پات کے بہانے جو دولت اور پیسے کا رعب ہے اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔ یہ طنزیہ اسلوب میں اقتباس ہے:
”وہ تو نے ان شاہوں کو نہیں دیکھا جن سے ہم دودھ لیتے ہیں۔ہاں اماں! وہ بھی پیسہ آتے ہی سید بن بیٹھے۔۔اصل میں ان کی ماں تو کمھارن تھی۔اس نے شاہ جی سے نکاح کرلیا۔شاہ جی کے مرنے کے بعد ساری زمینیں اور جائیدادیں ان کے بھائیوں نے لے لیں اور یہ کمھار سے سید بن گئے۔۔۔“(دستک)
اور یہ بھی کہ جب ماں باپ سختی کریں تو اولاد کئی چور دروازے ڈھونڈھ لیتی ہے۔جو کہ افسانے میں نادیہ کے خفیہ نکاح کی صورت میں ردِ عمل آیا ۔اور یہ جو لوگ کیا کہیں گے کے خوف میں ہم ساری عمر گنوا دیتے ہیں ،اس رکاوٹ کو عبور کرنےکی کوشش کی گئی ہے۔ آخری کلمات بھی بڑے قابلِ قدر ہیں:
”میری تو اب ہر کسی کو یہ نصیحت ہے کہ جو پہلی دستک آئے اس پر ہاں کہہ دینی چاہیے۔نہیں تو پچھتاوا رہ جاتا ہے۔“(دستک)
افسانہ انسانی معاشرے اور سماج میں رہتےہوئے ذات پات،برادری ، دولت اورمسلک کے معیارات کو توڑتے ہوئے انسانی اقدار اور تربیت کی بنا پر رشتوں اور افراد کو پرکھنے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان بے بنیاد اور خود ساختہ پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے جو بے جا طور پر عائد کرلی گئی ہیں۔
نظر کا دھوکا!:
سب سے اہم افسانہ جس میں جعلی پیرو ں اور ان کے مریدوں کے کریہہ چہرہ اور اقدامات کو بے نقاب کیاگیا ہے۔یہ بہت گہری طنز و کاٹ لیے ہوئے ہے۔افسانے کی پیش کش ،اس کی اسلوبِ ادا ،مکالمہ سب بہت خوبصورت اور منظر کشی حدِ کمال کو چھوتی ہے۔یہ ایسی کہانی جس کا انجام المیاتی نوعیت کا ہے۔ مصنف نے بہت محنت سے پیر صاحب کی وضع قطع اور حرکات و سکنات کو تراشا ہے۔ان کا اٹھنا بیٹھنا،سونا جاگنا،کھانا پینا اور وہ بناوٹ کی منظر کشی سے اس پیر کی رعونت کا پردہ چاک کیا ہے۔پھر جس طرح نصیرے کی موت پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت عمل میں آتی ہے قاری کو درد ناک کیفیت میں مبتلا کردیتی ہے۔اور پڑھنے والے سے یہ عقدہ پوشیدہ نہیں رہتا کہ یہ ایک حقیقت پر مبنی کہانی ہے۔ اس میں کرداروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی مظلومیت کا اظہار یوں کیا ہے کہ قاری بھی اس دکھ درد میں شریک ہوجاتا ہے ۔ کہانی کی دردناکی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ اس کا مصنف اس سانحے یا واقعے کا بذاتِ خود ناظر و سامع ہے۔ ہمارا معاشرتی و سماجی المیہ ہے کہ کسی ایک شخص کے کہنے پر لڑنے مرنےاور گھر کا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر زیادہ تر پیر بھی ایسے ظالم کہ انسانوں کی غربت کا خیال نہیں کرتے بلکہ کھانے پینے اور اپنے ہی آرام و آسائش میں مگن رہتے ہیں۔ آخر میں نصیرے کی موت ،گاؤں والوں اور پیر صاحب کا رویہ ایک صدمے اور کرب میں مبتلا کردیتا ہے۔
اس افسانے کی لفاظی،جزئیات نگاری اور منظر کشی دیدنی ہے۔قاری بشیرے ،نصیرے اور پیرسائیں کے کرداروں کے ساتھ جیتا ہے۔اس کا مکالمہ اور جملے اپنے آپ میں انتخاب ہیں۔ گاؤں والوں کی ضعیف الاعتقادی اور سادگی و معصومیت کا نوحہ ہے۔مقتول کے پوسٹ مارٹم سے لے کر یہ تمام صورتحال بہت دردناک ہے۔
”وقت نے گزرنا ہے اور گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔۔۔ناگہانی موت کا دکھ وہی محسوس کرسکتا ہے جس کا کوئی اپنا چلا جائے۔۔۔اوروں کے لیے وہ صرف ایک سانحہ یا حادثہ ہے۔“(نظر کا دھوکا)
نئی نسل کی مادیت پرستی کا بھی احوال ہے۔
”گامو نے گھر آکر اپنی بہو اور پوتے کو بلوایا وہ آئے تو کہا۔۔۔کیا تم خون بہا پر راضی ہوگئے؟بہو خاموش رہی۔۔۔البتہ پوتا بولا۔۔۔دادا!جانے والا تو چلا گیا۔ہم سے اب کورٹ کچہری کے چکر نہیں لگتے۔دادا:یہ کہو تمھیں سعودیہ جانے کے لیے پیسے چاہیں۔“(نظر کا دھوکا)
”وہ بھی کیا دن تھے کہ جب بڑے بولتے تو باقی سب چپ کرکے سنتے۔اب تو بڑے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب چھوٹوں کا موڈ ٹھیک ہوتو وہ بولیں۔“(نظر کا دھوکا)
کہانی کا آغاز بہت ہی غیر رسمی اور متجسسانہ انداز میں ہوتا ہے ۔جبکہ انجام المیہ لیے ہوئے ہے۔
بے گناہی:
ایک معصوم اور بے گناہ باپ کی کہانی ہے، افسانہ صرف جیل ہی کی نہیں تمام سرکاری ادارو ں کے کھوکھلےنظام کو سامنے لاتا ہے۔یہ ہر سرکاری ادارے کے عملے کی منافقت اور دوغلے پن کو بے نقاب کرتا ہے۔ تمام خرابیوں اور ناہمواریوں کے باوجود جب کوئی جیل یا کوئی بھی ادارہ وزٹ کرنے آتا ہے تو اس کی تمام کجرویوں پر قالین ڈال دیے جاتے ہیں۔
لیکن یہ محض وقتی ہوتا ہے اس میں سے بھی آنکھ رکھنے والے افسر بے بس اور بے گناہ آنکھوں کو پہچان لیتے ہیں اور ان کے لیےکام بھی کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے جج صاحب نے بے گناہ ملزم صابر کے لیےکوشش کی اور اسے رہائی دلوائی۔جو ایک جھوٹے کیس میں بے گناہ سزا کاٹ رہا تھا۔یہ بھی مصنف کے تیز مشاہدے اور شعور کی باریکی کی دلیل ہے کہ گردو پیش کی روزمرہ صورتِ حال کو بہت مؤثر مگر سادہ انداز میں پیش کردیا ہے۔اس سے سرکاری ادارے،جیل وغیرہ،ججز،عدالتوں کا بے ہیمانہ چہرہ بھی سامنے آتا ہے جن کی مفاد پرستیوں اور مادیت پسندی کے باعث کئی بے گناہ عمر بھرناکردہ جرم کی سزا پاتے ہیں۔لیکن اس افسانے میں صابر کی رہائی اور جج صاحب کا احسن قدم اس جانب اشارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ بھی بہتر ہوں تو معاشرتی صورتحال بدل سکتی ہے۔یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک ساتھ دو موضوعات کی جانب اشارہ ہے۔دوسرا ہلکا سا اشارہ جہیز کی لعنت کی جانب بھی ہے۔جس کے بوجھ تلے دبتا ہوا شخص پولیس اسٹیشن آجاتا ہے۔یہ وہ تمام برائیاں ہیں جن کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔
سفر باقی ہے! بیرون ملک جانے والوں اور غیر قانونی طور پر یورپ جانے والوں کی حالتِ زار کی جانب اشارہ ہے۔کہ اتنے لوگ مر گئے ہیں۔ یونانی حدود میں کشتی بھی ڈوبی ہے لیکن یہ موت کا جوا اور کھیل اب بھی جاری ہے۔اور سفر باقی ہے! جو یونہی چلتا رہے گا۔
اس تمام جائزے کے بعد یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈاکٹر طاہر عباس طیب بطور محقق،ناقد ،فکشن نگار اور شاعر اور ادبی تحقیق و تنقید میں اپنا ایک منفرد معیار رکھتے ہیں۔ان کا نام ہی کسی ادبی و علمی کام کے منفرد،مستند اور مکمل ہونے کی دلیل ہے۔وہ پوری امانت ودیانتداری سے ،ادب کی خدمت کی لگن ،اور اس میں کچھ نیا،انوکھا اور معیاری کر دینے کی دھن لیے اپنے کام میں مصروفِ عمل ہیں۔اور اس کی پروا کیے بنا ہی کہ ان کی خدمات یا کوشش کا اعتراف کوئی کر رہا ہے یا نہیں۔ ان کے لیے یہ شعر صادق آتا ہے :
نہ ستائش کی تمنا ،نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن ثانوی امر یہ کہ ان کے اشعار اور نثر میں معنی بھی موجود ہیں۔اور وہ بھی بہت واضح۔۔اس مضمون میں کسی قسم کی بھی مبالغہ آرائی یا خو شامد کا دخل نہیں ہے ۔یہ جائزہ دراصل ادبی ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے غیر جانبداری کا حامل ہے۔اور اس سے مصنف کا مطمع نظر یہی ہے کہ قابل محقق،ناقد اور تخلیق کار کی ادبی مساعی سے وابستگانِ ادب نہ صرف روشناس ہوں بلکہ اس ادبی سرمائے سے تاحدِ مقدور مستفید بھی ہوں۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر طاہر عباس طیب کو صحت و تندرستی اور عمرِ خضر عطا فرمائے کہ اسی طرح علم و ادب کی خدمت میں مشغول رہیں ۔آمین ثم آمین!
زیبا گلزار
استاد شعبہ اُردو
گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین سمبڑیال
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |