دُرویشؔ سندیلوی کی شاعری ’’اُنس بُتاں‘‘ کے حوالے سے – محمد اویس سنبھلی
دُرویش سندیلوی کا تعلق ہردوئی کے نواح میں واقع قصبہ سندیلہ کے ایک ذی علم وباثروت خانوادہ سے ہے، شعر وسخن کا ذوق ورثہ میں ملا اور مشق سخن سے اپنی شعری صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔اُن والد اشتیاق حسین بھی شاعر تھے اور سائل تخلص کرتے تھے۔ کتاب کے پیش لفظ میں اپنے خاندان سے متعلق دُرویش سندیلوی رقم طراز ہیں:
’’اشتیاق حسین سائلؔ میرے والد بتاتے تھے کہ میرے اجداد کتھاواں کے پاس موضع گگلا پور سے نقل مکانی کر کے سندیلہ میں آباد ہو گئے تھے۔ وہاں زمینداری تھی، سندیلہ میں کبھی محل تھا اس لئے میرا خاندان محلیہ خاندان کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
شعر وادب سے وابستگی کے تعلق سے آگے لکھتے ہیں:
’’میرے دادا فدا حسین فداؔ ،بڑے داد انظام الدین نظامیؔ تخلص کرتے تھے کلام دستیاب نہیں ہے۔ پر دادا اعظم علی عرف گھورے نور باف جن کو مولوی مظہر علی نے اپنے ایک نادر روز نامچہ میں مجرئی لکھا ہے چونکہ وہ وصی علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے آگے صوفیانہ کلام گاتے جاتے تھے۔‘‘
دُرویش سندیلوی نے انٹر تک تعلیم سندیلہ کے مختلف اسکولوں؍کالج میں حاصل کی اور اعلی تعلیم لکھنؤ کے شیعہ پی جی کالج اور کرسچین کالج میں ۔ تعلیم مکمل ہونے کے پہلے سنی انٹر کالج لکھنؤ اور پھر کچھ عرصہ بعد مہاتما گاندھی انٹر کالج ملیح آباد میں درس وتدریس سے وابستہ ہوکر 2013 میں ریٹائر ہوئے۔ شعری ذوق ورثہ میں ملاتھا جسے انہوں نے بخوبی آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ دُرویش سندیلوی نے اپنے پیش لفظ میں سندیلہ کی علمی وتہذیبی تاریخ اور اہم شخصیات کے بارے میں سرسری طور پر روشنی ڈالی ہے۔
’’اُنس بُتاں‘‘ آفتاب حسین دُرویش سندیلوی کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں 175 ؍ غزلوں کا انتخاب شامل ہے۔دُرویش سندیلوی نے ابتداء میں ڈاکٹر زبیر صدیقی سندیلوی سے مشورۂ سخن کیا بعد ازاں جاذب لکھنوی سے منسلک ہوگئے۔
زیر تبصرہ کتاب کی اچھی بات یہ ہے کہ مجموعہ میں کسی قسم کی تعارفی یا تعریفی تحریر کو جگہ نہیں دی گئی ہے، دُرویش سندیلوی کا کلام براہ راست قاری سے مخاطب ہوتا ہے جس میں عشق مجازی و حقیقی کی تڑپ بھی ہے، مشکل وقت میں استقامت اور خدا پر یقین کی کیفیت بھی۔اُن کی غزلیں غم جاناں کا بیانیہ ہے جس میں غم دوراں کی جھلک بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ غزلوں میں ہجر ووصال، عہد وپیمان، غم، خوشی، موت اور زندگی کی اداس راہیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ ان غزلوں میں عشق ومحبت کی باتیں بھی ہیں اور زمانہ کی بے رحمی کا گلہ بھی۔ درویش سندیلوی مانوس الفاظ میں سامنے کی بات سہل انداز میں کہنے کے ہنر سے واقف ہیں، وہ محبت، آپسی بھائی چارگی اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کو انسانی زندگی کا اٹوٹ حصہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
محبت کل بھی تھی اک جز و لازم
محبت کی ضرورت آج بھی ہے
اور پھر وہ آج کے زمانہ کی سرد مہری کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ:
اپنا ہمدرد کہیں اُن کو کہ جانی دشمن
اِس زمانے میں جو جینے کی دعا دیتے ہیں
٭
نہ وہ چاہتیں، نہ محبتیں، نہ نوازشیں، نہ عنایتیں
کیوں ہیں درمیاں یہ عداوتیں یہی آج سب کا سوال ہے
بڑی دور تک رہی تیرگی وہ فضا ہے دُرویش آج بھی
کہ نظر جدھر اٹھائیے وہی روشنی کا سوال ہے
٭
پہچاننا بھی آج یہ دشوار ہو گیا
ہمدم ہے کون، کون ہمارا رقیب ہے
اسی طرح دُوریش سندیلوی غم جاناں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خیالات کو کچھ اس طرح شعری پیکر عطا کرتے ہیں:
روز ملتے ہیں وہ رقیبوں سے
ہم سے نخرے ہزار کرتے ہیں
٭
بھیج دے دُرویش مکتب میرؔ کے
تیرا بچہ اب سیانا ہوگیا
٭
چھولے مرا ماتھا کہ ہے صندل تری اُنگلی
سر درد مٹادے مرا ایسی ہے دوا یاد
٭
رخ سے اپنے ہٹائیے گیسو
ماہ کو پھر میں بے نقاب لکھوں
٭
آپ کے رخ پر خوشی کی دھوپ نکلی دیکھ کر
غم کی بدلی میں ہمیں بھی مسکرانا آگیا
دُرویش سندیلوی کے کلام میں پندو نصائح اور اخلاقی اقدار کی اہمیت پر بھی کافی اشعار ملتے ہیں، رزق حلال، ایک دوسرے کے تئیں محبت، اخلاص، ایثار اور وفا کا جذبہ نیز خود داری، غیرت، جرات مندی و حق بات کہنے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک زندگی کی حقیقت کسی غبارہ میں بھری ہوئی ہوا کی طرح ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پانی کا بلبلا ہے ابھی بیٹھ جائے گا
درویش زندگی پہ بھروسہ نہ کیجئے
٭
کیا پیٹ میں جانے لگے مشکوک نوالے
ہونٹوں پہ دعائیں ہیں اثر کچھ بھی نہیں
٭
شرم سے تجھ کو بچاتے ہیں حجابات نظر
آبرو ہے تری جلوؤں کی یہ پردا تیرا
٭
جس پہ ہے تعمیر اُس کی، دوسرے کی ہے زمیں
گھر امیر شہر کا مسمار ہونا چاہئے
٭
زندگی، موت، غم، خوشی ان کی
نام کو زندگی ہماری ہے
اسلامی تلمیحات اور استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی ان کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے:
ہر جگہ ہر طرف فراتوں پر
اب یزیدوں کی تاجداری ہے
٭
جو عدل و مساوات کو ہم نے سوچا
نگاہوں میں دورِ عمرؓ آگیا ہے
سب کچھ فانی ہے اور ختم ہوجانے والا ہے، یہ دولت، یہ شہرت، یہ عہدے اور یہ چالبازیاں کسی کو دوام نہیں، اسی کو دُرویش سندیلوی کہتے ہیں:
اس شہر میں ہماری کبھی اِک شناخت تھی
دُرویش اب تو خاک کے اندر گڑا ہوں میں
’’اُنس بُتاں‘‘ سے چند متفرق اشعار پیش ہیں:
نہ جانے کونسی منزل مسافر کی نظر میں ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں قدم اس کا سفر میں ہے
٭
خواہشوں کی اڑان سے پہلے
آپ نے آسمان دیکھا ہے
جس میں دیوار ہیں نہ دروازے
تم نے میرا مکان دیکھا ہے
٭
دانا ہوکر جنت بیچے
دیوانہ پن دیکھا جائے
٭
یہی بات کل بھی رہی مری کہ کہوں گا دُرویش آج بھی
لہو دے دیا ہے نچوڑ کر کبھی فن کا حق نہ ادا ہوا
256 صفحات پر مشتمل غزلیات کا یہ مجموعہ اتر پردیش اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوکر امسال ہی منظر عام پر آیا، کتاب کی اشاعت عمدہ، صاف ستھری اور کمپوزنگ کی غلطیوں سے تقریباً پاک ہے، امید ہے یہ مجموعہ ادبی حلقوں میں داد تحسین حاصل کرے گا۔کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 6393723742پر رابطہ کریں
٭٭٭
رابطہ:9794593055
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page