Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      جدیدیت اور مابعد جدیدیت – وزیر آغا

      جون 20, 2025

      تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      بچوں کا تعلیمی مستقبل اور والدین کی ذمہ…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      صحت کے شعبے میں شمسی توانائی کا استعمال:…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      مخلوط نصاب اور دینی اقدار: ایک جائزہ –…

      جون 1, 2025

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
غزل شناسی

فراق اور نئی غزل- پروفیسر شمیم حنفی

by adbimiras جون 7, 2024
by adbimiras جون 7, 2024 0 comment

نئے عہد کی طرح نئی غزل کو بھی کچھ لوگ پرانے عہد یا پرانی غزل کا جواب سمجھ بیٹھے تھے۔ مگراب اسے کیا کہا جائے کہ نئی غزل ابھی اچھی طرح نئی ہو بھی نہیں پائی تھی کہ پرانی دکھائی دینے لگی۔ ایک ایسی صنف جو ایک پوری تہذیب کے نقطہ کمال کی نشاندہی کرتی ہو، اس کا یہ حشر افسوسناک ہے۔ ہرتہذیب اپنے ایک خاص زاویے کے ساتھ اپنی جینیس کا اظہار کرتی ہے۔ یہ زاویہ اس سے الگ ہوا نہیں کہ اس تہذیب کا اپنا اعتبار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ نئی غزل بھی اس زاویے سے محرومی کے نتیجہ میں بعض اوقات اپنا اعتبار کھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

نئی غزل کا اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی لسانی، فکری، حسیاتی حدیں قبل از وقت متعین ہو گئیں۔ اظہار کے نئے اسالیب کوکسی گہری بامعنی سطح پر اپنی جگہ بنانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ ہمارے اکثر نئے غزل گو تبدیلیوں کے عمل میں بہت عجلت پسند ثابت ہوئے۔ اسی لئے نئی غزل کو اپنے علائم اور عناصر کے انتخاب میں جس ضبط اور ٹھہراؤ سے کام لینا چاہئے تھا، ہمارے شاعر اس سے محروم تھے۔ عہد کی تبدیلی، تجربوں اور تصورات کے محور کی تبدیلی کا شور ایسا بے اماں تھا کہ نئی حسیت کے مجموعی مطالبات کی تکمیل کے شوق میں لوگ صنف غزل کے انفرادی تقاضوں پر توجہ نہیں کر سکے۔

اختر حسن کی غزل سے لے کر ظفر اقبال کی اینٹی غزل تک اسی خرابی کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ جن شاعروں نے اس خرابی سے اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کی اور اپنے حساب سے بہت سوچ سمجھ کر نئی غزل کے مزاج اور لفظیات کو بدلنے کا بیڑا اٹھایا، وہ ایک طرح کی بے حصولی کا شکار ہوئے۔ نئے پن کے پھیر میں ان کی غزل عام ڈھرے کی روایتی غزل سے زیادہ بے نمک اور رسمی بن کر رہ گئی۔ وہی بار بار کے دہرائے ہوئے تجربے، مضامین کی تھکا دینے والی یکسانیت، بندھے ٹکے لفظوں، ترکیبوں اور استعاروں کے بوجھ سے نڈھال جذبے، اتار چڑھاؤ سے عاری آہنگ، گویا کہ ترقی پسند اصحاب کے زیادہ تر شعروں کی طرح نئی غزل کا بیشترحصہ بھی بہت جلد فرسودہ ہو گیا۔

یوں بھی غزل کی شاعری دو چار سال کے بعد ذرا سی مدت میں ایک وسیع عرصہ حیات عبور کر لیتی ہے۔ اس کے نئے پن میں دیکھتے ہی دیکھتے پرانا پڑ جانے کی جو بے مثال صلاحیت رہی ہے، اسے سمجھنے کے لئے عام غزل گویوں پر بس ایک نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔ پھر اس حقیقت تک پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگےگی کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں مستثنیات سے قطع نظر غزل کہنے والوں سے زیادہ روایتی اوربے خبر مخلوق کسی اور صنف کے حصے میں کیوں نہیں آئی۔ رسمیت کے ماحول میں اپنی پہچان بنانے والی شاعری ایک نئے طرز احساس اور اسالیب اظہار کی طرف ایک نئے رویے سے جنم لیتی ہے۔ واجبی قسم کی ذہانت رکھنے والا نظم گو بھی اس سے واقف نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس بہت معمولی ذہن، معمولی لسانی شعور، معمولی تجربے اور تقریباً صفر کے برابر ادراک، احساس اور بصیرت سے بہرہ ور شاعر بھی اچھی خاصی کام چلاؤ قسم کی غزلیں کہتے ہیں۔

ایسی شاعری جو کسی وژن اور حسیت کے بغیر بھی صرف مشق اور عادت کے سہارے وجود میں لائی جا سکتی ہو، اس کے قہرے ڈرنا چاہئے۔ لیکن ہمارے زیادہ تر غزل گو، کیا نئے کیا پرانے، اس معاملے میں نہایت ڈھیٹ رہے ہیں اور غزل کی مجموعی فضا، آہنگ اور لسانی ماحول میں کسی طرح کی بامعنی ترمیم کے بجائے صرف اپنے تجربوں کا حوالہ بدل دینے کے بعد اس گمان میں مبتلا دیکھے گئے ہیں کہ غزل گوئی کا ایک نیا طوران کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اردو شاعری کی پچھلی تین ساڑھے تین سو سال کی تاریخ میں ایسے غزل گویوں کی تعداد بھلا کتنی ہے جس سے اس صنف کا کوئی منفرد معیار وابستہ کیا جاسکے؟ مشکل سے درجن بھر اور یہ گنتی کی تعداد سیکڑوں غزل گویوں کی بھیڑ سے چھن چھنا کے سامنے آئی ہے۔ غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ان درجن بھر شاعروں کے یہاں یاد رکھے جانے کے قابل اشعار کا تناسب بہ دقت سومیں ایک کا ہوگا۔

۱۹۶۵ء میں فراق صاحب نے اپنی غزلوں کا ایک اشاریہ بنوایا تھا۔ اس اشاریے کے مطابق ۱۹۶۵ء تک فراق صاحب نے کل چھ سوبیس غزلیں کہی تھیں۔ ۱۹۶۵ء کے بعد سے ۱۹۸۶ء یعنی فراق صاحب کے سال وفات تک اس تعداد میں کم سے کم سو غزلوں کا اور اضافہ کر لیجئے یعنی کہ تقریبا سواسات سو غزلیں۔ ان میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس غزلیں ایسی ہوں گی جنہیں فراق صاحب کے واسطے سے نئی حسیت کا ترجمان قرار دیا جا سکے۔

مگر کوئی تو بات ہے کہ اس کم عیاری کے باوجود نئی غزل کی روایت کے فوری پیش روؤں میں صرف دو نام ایسے ملتے ہیں۔ یگانہ اور فراق، جن سے اس صنف کے بدلے ہوئے مزاج کی نمائندگی بھی ہوتی ہے اور جن کی شاعری اپنی معروف کوتاہیوں اور ناہمواریوں کے باوجود نئی غزل کا راستہ بنانے میں اپنے تمام معاصرین سے آگے رہی ہے۔ اس سے زیادہ عجیب بات یہ رہی ہے کہ لکھنؤ کی معیار پارٹی کے غزل گویوں۔۔۔ صفی، ثاقب، عزیز سے لے کر فانی، حسرت، اصغر اور جگر تک یہ سب کے سب، اردو کے جلیل القدر نقادوں اورذمہ دار استادوں کی نظر میں بھی یگانہ اور فراق کی بہ نسبت وسیع تر ٹھہرے۔ سبب وہی رسمیت زدگی جو غزل گوئی اور غزل شناسی کے ذوق، دونوں کے ابتذال کی گواہی رہی ہے۔ ان شاعروں کا منصب و مرتبہ اپنی جگہ پر اور ان کی صلاحیتیں برحق، مگر ان کے کمال کی حد صرف یہاں تک ہے کہ اپنی روایت کے سائے میں یہ خوب سفر کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اپنے عہدکی دھوپ سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یگانہ اور فراق کے امتیازات کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ دلچسپ نتیجے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور یہ کہ یگانہ تو خیرضدی آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد جان بوجھ کر بنائی اور اپنی خودسری کے باعث غزلیہ شاعری کے کئی مانوس اوصاف کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اپنے معاصرین خاص طور سے اصغر، فانی اور جگر کی خیریت تو وہ پوچھتے ہی رہتے تھے، غالب سے بھی اکھڑ گئے۔ مگر جہاں تک فراق کا تعلق ہے، اس معاملے میں ان کا رویہ یگانہ سے بالکل مختلف تھا۔ اپنی شخصیت کے تمام ٹیڑھے پن کے باوجود فراق اپنے پیش روؤں کے سلسلے میں حفظ مراتب کے بہت قائل اور اردو کلچر یا غزلیہ شاعری کے کلچر کاحصہ تھے۔ یگانہ کی حیثیت اس کلچر کے اس باغی یا بے گانے شخص کی تھی، جسے حقیقت کے باوجود کہ غالب کی غزل اس صنف کے فکری سلسلے اور فنی مہارتوں کا نقطہ منتہا کہی جا سکتی ہے، غالب تک کو تسلیم کرنے میں تامل تھا۔

مگر فراق صاحب تو اپنی تمام تر ازخود رفتگی کے ساتھ اس معاملے میں ہمیشہ چوکنے رہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ غزل کے نام آوروں کی بابت اپنی اصل رائے کے اظہار میں وہ مصلحت کوشی کی حد تک محتاط رہے۔ میر اور غالب کا ذکر الگ رہا۔ داغ، میر اور ریاض خیرآبادی کے بارے میں بھی کوئی ایسی ویسی بات فراق صاحب نے کبھی کہی بھی تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بہت جی کڑا کرنے کے بعد کہی۔ یہ اردو شاعری اور اردو غزل کی عام روایت سے محبت اور نفرت میں ایک ساتھ اپنے طمطراق کے باوجود اپنی کم اعتمادی کو چھپانے سے قاصر رہے۔ اندازے کے مضامین سے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ فراق صاحب کی تخلیقی زرخیزی اور فکری وسعت بھی غزل کی عام روایت کے خوف سے انہیں نجات نہیں دلا سکی۔ انہیں صناعی کے ساتھ کہے ہوئے معمولی اور کم رتبہ قسم کے شعر بھی سحر اور اعجاز دکھائی دیتے تھے اور دوسری بلکہ تیسری صنف کے غزل گو بھی صاحب کمال۔ یہ خوف حقیقی سے زیادہ نفسیاتی تھا اور نتیجہ تھا اردوکے رائج الوقت اسالیب پر گرفت کی کمزوری کا۔

اسی لئے فراق صاحب بہت معمولی ذہنی سطح رکھنے والے معروف غزل گویوں کا کلام بھی نہایت توجہ سے پڑھتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ ان اصحاب کے پاس بڑا تجربہ اور بصیرت نہ سہی، تاہم کم سے کم زبان وبیان کی باریکیوں کا علم تو ہے۔ اردو کلچر میں قادرالکلامی کو ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ ضلع جگت، ایہام، فقرے بازی، قافیہ پیمائی، اینڈی بینڈی ردیفوں اور زمینوں میں طبع آزمائی، ذرا سے خیال کو لے کر لفظوں کا طومار باندھنے کی روش، ان سب کو نسبت اسی رویے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے شاعر جن کی اڑان بس کلام کی موزونیت تک تھی، میر غالب کے زمانے میں بھی داد پاتے تھے اور آج بھی شعر کی محفل میں ڈٹ کر اپنا کلام سناتے اور داد پاتے ہیں۔

فراق کی شاعری کو اعتبار نہ تو زبان و بیان کے کرتب دکھانے والوں میں میسر آیا، نہ منتخبات کے حلقے میں۔ تاحال اہل علم کی صفوں سے ایسی صدائیں اٹھتی رہتی ہیں کہ فراق نے غزل کو گنوا دیا۔ (اختر انصاری) یہ مسئلہ ادبی تنقید و تاریخ سے زیادہ نفسیات کاہے کہ اصغر، فانی، حسرت، جگر، یہاں تک کہ عزیز لکھنوی کو تو علی گڑھ اور الہ آباد کے برگزیدہ علمائے ادب نے سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر یگانہ اور فراق کے لئے یہ شہر شہر غریب ہی بنے رہے۔ روایت سے بے جا شغف اور فنی استعداد یا لسانی مہارت کا ناقص تصور ادب میں نئے تجربوں پر اسی طرح روک لگاتا ہے۔ اس صورت حال نے یگانہ اور فراق کو جو بھی تکلیف پہنچائی ہو، اصل نقصان غزل کی صنف نے اٹھایا اور بالآخر فائدے میں یہی دونوں رہے۔

اپنی فکر کی رسمیت زدگی اور اپنی بے روح نیز مقصود بالذات فنی چابک دستیوں اور اپنی بے لوچ لسانی عادتوں کے باعث ایک فانی کو چھوڑ کر یگانہ اور فراق کے کسی بھی ممتاز معاصر کی غزل تاریخ کے دائرے سے نہیں نکلی۔ مرکز گریزی کا خطرہ مول لے سکنے کی قیمت انہیں اس طرح چکانی پڑی کہ روایات نے ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ مگر یگانہ کی خودروی اور اناگزیدگی کی طرح فراق کی لسانی بے مشقی اور کچاپن اس میدان میں حصول امتیاز کا وسیلہ ٹھہرے۔ روایات بنانے والے اور روایت کو توڑنے والے کے مابین کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔

یگانہ کی طرح فراق پر بھی اپنے ماضی کی تاریخ کا جادو کبھی دور تک نہیں چل سکا۔ اسی لئے اپنے عہد کو متاثر کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے۔ اصل میں آزمودہ سہاروں سے دست بردار ہوئے بغیر تخلیقی آزادی نصیب میں نہیں آتی۔ فراق کا ذہن اپنے تما م ہم عصر غزل گویوں سے زیادہ زرخیز تھا اور فراق کی حسیت ان سب سے زیادہ وسیع اور کثیرالجہات۔ رہا قصہ زبان و بیان کے میدان میں پرچم کشا استادوں کا، تو انہیں زیر کرنے کے لئے فراق نے انہی کی دریافت کی ہوئی زمینوں میں نئے راستے نکال لئے۔ لمبی لمبی انوکھی ردیفوں والی غزل جس کا سلسلہ ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے عہد سے تعلق رکھنے والے حکیم آغا جان عیش سے لے کر جدید ٹکنالوجی کے عہد میں قافیہ پیما استاد نوح ناروی اور حضرت جوش ملسیانی تک پھیلا ہوا ہے۔

بیٹھے ہیں وہ کس کس جانب آگے پیچھے دائیں بائیں،

آکے وہ صورت دکھا جاتے ہیں چوتھے پانچویں

جس کو کہتے ہیں بشر اس میں ہے شر، دو بٹا تین

فراق نے تجربے اور بلند احساس کی تبدیلی کے واسطے سے اس رویے کے محور ہی بدل دیے۔ جھومر کا مرے چاند، آگے پیچھے دائیں بائیں اور ’’دو بٹا تین‘‘ کی جگہ ’بڑی اداس ہے رات‘، ’بہت اندھیرا ہے‘، ’ابھی یہاں سے نہ جاؤ اور یہاں نہ باندھو ناؤ‘ (زمین خلاف ہے بھائی یہاں نہ باندھو ناؤ) نے لے لی۔ یہ ردیفیں خارجی کرتب بازی کے بجائے بقول فراق صاحب مصرعوں کے پیٹ سے نکلی تھیں۔ غزلیہ شاعری کے سیاق میں فراق کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ ان کی حسیت اس صنف کی کسی بھی لسانی، فکری، فنی، تہذیبی حدبندی کو قبول نہیں کرتی۔ مقبول اسالیب کو برتنے کے لئے جو لسانی درکار تھی، فراق کو اس سے ایک حد تک اپنی محرومی کا احسا س بھی تھا اور وہ اس سے گریزاں بھی تھے۔ ردوقبول کی یہ کھینچ تان، دو سطحوں پر فراق کو راس آئی۔

ایک تو اس طرح کی روایتی غزل کے جن عناصر کو فراق لالچ بھری نظر سے دیکھتے تھے، اپنے امتیاز کی خاطر ان عناصر کو انہوں نے قبول بھی کیا تو اپنی شرطوں پر۔ اسی لئے فراق کی غزل، غزل کے متوازی خطوں پر چلنے کے بعد بھی روایتی نہیں رہ جاتی۔ دوسرے یہ کہ فراق نے غزل کی روایتی زبان، مضامین اور پیش پا افتادہ ثقافتی کلچر کے بنے بنائے دائروں کو توڑنے کے لئے غزل کا ایک نیا لہجہ اور ایک نیا ماحول مرتب کرنے کی کوشش کی۔ عسکری صاحب کا خیال تھا کہ فراق کی نظم کا یہ مصرعہ ’’کنول کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ‘‘ ایک نئے اور اردو کلچر سے یکسر مختلف تہذیبی خلقیے (ethos) کی دین ہے۔ چنانچہ غزل کے اس نو دریافت ماحول میں سانس لینا، جسے روایتی غزل کے علم بردار ایک شاعرانہ حرکت سمجھتے رہے، دراصل ایک نئے خلقیے کو برتنے اور ایک نئے تہذیبی تجربے سے گزرنے کے مترادف تھا۔

اور یہی وجہ ہے کہ فراق کی غزل اپنے بعد والوں پر تجربے اور اظہار کے تمام دروازے کھلے رکھتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ طوطے، قمیص اور ساریاں، جیسی ردیفوں والی نئی غزل کی گنجائش بھی (بمل کرشن اشک)، ناصر کاظمی کی پہلی بارش کی غزلوں کی آہٹ سے پہلے ہمیں فراق صاحب ہی کے یہاں سنائی دی تھی۔ (مشعل ۱۹۴۶ء) فراق کی غزل ایسا کوئی معیار قائم نہیں کرتی، مثال کے طور پر غالب کی طرح، جس کی تقلید میں خرابی کا خوف ہو یا خود کو گم کر بیٹھنے کا امکان۔ ایک نئی اور ناتمام حسیت جو ترقی پسند غزل کے بالمقابل حلقہ اربا ب ذوق کے قائم کردہ خطوط پر، اردو شاعری کی روایت میں رفتہ رفتہ اپنے قدم جماتی جا رہی تھی، اپنے ہم عصر غزل گویوں کی بہ نسبت فراق اس حسیت کا بہتر شعور رکھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس حسیت کا رشتہ اردو شاعری کو پس منظر مہیا کرنے والی عجمی روایت کے علاوہ کچھ ایسی روایتوں سے بھی تھا جن کی اپیل اردو والوں میں محدود تھی۔ اس حسیت کے رابطے مغرب کی مجموعی تخلیقی روایت سے بھی تھے اور اس ٹھیٹ ارضیت سے بھی جس کا ظہور اردو والوں کے لئے روایات کے تقریباً مانوس علاقے سے ہوا تھا۔ ناصر کاظمی نے اپنی ایک غزل،

تیرے سوا مجھے پہنے کون

میں تیرے تن کا کپڑا ہوں

میرا دیا جلائے کون

میں تیرا خالی کمرہ ہوں

کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی تحریک انہیں میرا بائی کے ایک بھجن سے ملتی ہے۔ اس ضمن میں فراق صاحب کے حوالے سے ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے فراق صاحب ہی کی تحریروں کے یہ اقتباس دیکھتے چلیں،

’’ہاں تو اردو شاعری میں گھر کا تصور اور عورت کا تصور بلکہ کائنات وحیات کا تصور کمزور اور ناقص ہونے کے سبب اردو کی عشقیہ شاعری بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بہت کچھ کمی رکھتی ہے۔ ایک وجدانی و جمالیاتی احسا س کبھی کبھی خوش نصیب لمحوں میں اردو شاعری کو ضرور ہاتھ آ جاتا تھا، لیکن مناظر قدرت، مادی اور عنصری کائنات، گھریلو اور سماجی زندگی کی جزئیات زندگی کے بھرپور اور ٹھوس حصوں اور پہلوؤں کو یہ وجدانی احساس بہت کم چھو پاتا ہے اور بسا اوقات ایک متصوفانہ حال وقال کی چیز ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ (مضمون، اردو کی عشقیہ شاعری کی پرکھ، مشمولہ فراق نمبر، شاہکار الہ آباد)

فراق صاحب نے مختلف لفظوں میں یہ بات کئی موقعوں پر کہی ہے۔ عجب قصہ ہے کہ ان کے معاصرین میں کسی اور نے بھی اس مسئلے کو ناقابل اعتنا نہیں سمجھا۔ گویا کہ اردو غزل کی روایت سے وابستہ ایک ایسی نمایاں کمزور ی جو اس صنف کی جمالیاتی اور معاشرتی قدر نیز اس کے مجموعی نظام پراثر انداز ہوتی ہے، اردو کے تمام غزل گو جو بیک وقت انحراف اور توسیع کے عمل سے غزلیہ شاعری کی روایت کو اپنے زمانے کی حسیت کا ترجمان بنانا چاہتے تھے، ناصر کاظمی غزل کی روایت کا گہرا شعور رکھتے ہوئے بھی یہ سمجھتے تھے کہ نئی غزل کی تشکیل کے لئے اپنے ماضی سے اس طرح استفادہ کرنا چاہئے کہ اپنے احساس و اظہار کا دریچہ بند نہ ہو۔

میر کے بعد غزل کے جس شاعر میں ناصر کاظمی کو اپنی حسیت کے مناسبات کا سب سے زیادہ سراغ ملا وہ فراق ہیں۔ اس واقعے کا اعتراف ناصر کاظمی نے دو واسطوں سے کیا ہے، ایک کی تائید کے ذریعے جس کی نشاندہی فراق کے مندرجہ بالا اقتباس سے ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ ناصر کاظمی کو بھی اردو غزل کی اس کمی کا احساس تھا کہ خیال پرستی سے بے محابہ شغف کے نتیجے میں اس کی ارضی اور طبیعی بنیادیں کمزور ہو چلی ہیں اور یہ کہ اس کمزوری کی وجہ سے غزل کی صنف اپنے روایتی آداب کی پابند ہوکر رہ گئی ہے۔ اس میں نہ تو نئے تجربوں کو برتنے کی سکت ہے نہ زبان اور بیان کے نئے سانچوں کو۔ چنانچہ ناصر کاظمی نے غزل کی ماہیت اور اس کے خارجی رنگ روپ کو ایک ساتھ بدلنے کا راستہ اختیار کیا۔ مجردات کی جگہ عنصری اور مادی حوالوں کو دی اور اشیا کے واسطے سے بھی احساسات کی عکاسی کا ہنر سیکھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ جدوجہد بے حصول رہ جاتی اگر اس کا پس منظر فراق کی غزل سے خالی رہ گیا ہوتا، بلکہ کیا عجب کہ فراق کی غزل نے ہی اس جستجو کے خواب کی صورت گری کی ہو۔

 

حوالہ : تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ، پروفیسر شمیم حنفی)

 

 

 

 

(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں    https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

 

 

ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com  پر بھیجنے کی زحمت کریں۔

 

Home Page

 

 

adabi meerasadabi miraasadabi mirasادبی میراثشمیم حنفی
0 comment
0
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اردو زبان کے فروغ میں ٹیکنالوجی کی اہمیت ناگزیر: ڈاکٹر شمس اقبال
اگلی پوسٹ
طلبا کی کامیابی شعبۂ اردو اور کالج کی بھی کامیابی ہے: کامران غنی صبا

یہ بھی پڑھیں

صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ –...

مئی 5, 2025

 ایک اسلوب ساز شاعر اور نثر نگار شمیم...

جنوری 20, 2025

حسرت کی سیاسی شاعری – پروفیسر شمیم حنفی

جنوری 15, 2025

غالب اور تشکیک – باقر مہدی

جنوری 15, 2025

غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات...

دسمبر 17, 2024

غالب اور جدید فکر – پروفیسر شمیم حنفی

دسمبر 9, 2024

اردو شاعری میں تصوف کی روایت – آل...

دسمبر 5, 2024

غالب کی شاعری کی معنویت – آل احمد...

دسمبر 5, 2024

بلند ؔ اقبال کی شاعری میں حسیاتی پہلو:...

نومبر 24, 2024

ناصر مصباحی: روایت اور جدت کا معتبر شاعر...

اکتوبر 4, 2024

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (116)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (471)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,124)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (33)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (228)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں