نئے عہد کی طرح نئی غزل کو بھی کچھ لوگ پرانے عہد یا پرانی غزل کا جواب سمجھ بیٹھے تھے۔ مگراب اسے کیا کہا جائے کہ نئی غزل ابھی اچھی طرح نئی ہو بھی نہیں پائی تھی کہ پرانی دکھائی دینے لگی۔ ایک ایسی صنف جو ایک پوری تہذیب کے نقطہ کمال کی نشاندہی کرتی ہو، اس کا یہ حشر افسوسناک ہے۔ ہرتہذیب اپنے ایک خاص زاویے کے ساتھ اپنی جینیس کا اظہار کرتی ہے۔ یہ زاویہ اس سے الگ ہوا نہیں کہ اس تہذیب کا اپنا اعتبار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ نئی غزل بھی اس زاویے سے محرومی کے نتیجہ میں بعض اوقات اپنا اعتبار کھوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
نئی غزل کا اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی لسانی، فکری، حسیاتی حدیں قبل از وقت متعین ہو گئیں۔ اظہار کے نئے اسالیب کوکسی گہری بامعنی سطح پر اپنی جگہ بنانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ ہمارے اکثر نئے غزل گو تبدیلیوں کے عمل میں بہت عجلت پسند ثابت ہوئے۔ اسی لئے نئی غزل کو اپنے علائم اور عناصر کے انتخاب میں جس ضبط اور ٹھہراؤ سے کام لینا چاہئے تھا، ہمارے شاعر اس سے محروم تھے۔ عہد کی تبدیلی، تجربوں اور تصورات کے محور کی تبدیلی کا شور ایسا بے اماں تھا کہ نئی حسیت کے مجموعی مطالبات کی تکمیل کے شوق میں لوگ صنف غزل کے انفرادی تقاضوں پر توجہ نہیں کر سکے۔
اختر حسن کی غزل سے لے کر ظفر اقبال کی اینٹی غزل تک اسی خرابی کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ جن شاعروں نے اس خرابی سے اپنا دامن بچائے رکھنے کی کوشش کی اور اپنے حساب سے بہت سوچ سمجھ کر نئی غزل کے مزاج اور لفظیات کو بدلنے کا بیڑا اٹھایا، وہ ایک طرح کی بے حصولی کا شکار ہوئے۔ نئے پن کے پھیر میں ان کی غزل عام ڈھرے کی روایتی غزل سے زیادہ بے نمک اور رسمی بن کر رہ گئی۔ وہی بار بار کے دہرائے ہوئے تجربے، مضامین کی تھکا دینے والی یکسانیت، بندھے ٹکے لفظوں، ترکیبوں اور استعاروں کے بوجھ سے نڈھال جذبے، اتار چڑھاؤ سے عاری آہنگ، گویا کہ ترقی پسند اصحاب کے زیادہ تر شعروں کی طرح نئی غزل کا بیشترحصہ بھی بہت جلد فرسودہ ہو گیا۔
یوں بھی غزل کی شاعری دو چار سال کے بعد ذرا سی مدت میں ایک وسیع عرصہ حیات عبور کر لیتی ہے۔ اس کے نئے پن میں دیکھتے ہی دیکھتے پرانا پڑ جانے کی جو بے مثال صلاحیت رہی ہے، اسے سمجھنے کے لئے عام غزل گویوں پر بس ایک نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔ پھر اس حقیقت تک پہنچنے میں بھی دیر نہیں لگےگی کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں مستثنیات سے قطع نظر غزل کہنے والوں سے زیادہ روایتی اوربے خبر مخلوق کسی اور صنف کے حصے میں کیوں نہیں آئی۔ رسمیت کے ماحول میں اپنی پہچان بنانے والی شاعری ایک نئے طرز احساس اور اسالیب اظہار کی طرف ایک نئے رویے سے جنم لیتی ہے۔ واجبی قسم کی ذہانت رکھنے والا نظم گو بھی اس سے واقف نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس بہت معمولی ذہن، معمولی لسانی شعور، معمولی تجربے اور تقریباً صفر کے برابر ادراک، احساس اور بصیرت سے بہرہ ور شاعر بھی اچھی خاصی کام چلاؤ قسم کی غزلیں کہتے ہیں۔
ایسی شاعری جو کسی وژن اور حسیت کے بغیر بھی صرف مشق اور عادت کے سہارے وجود میں لائی جا سکتی ہو، اس کے قہرے ڈرنا چاہئے۔ لیکن ہمارے زیادہ تر غزل گو، کیا نئے کیا پرانے، اس معاملے میں نہایت ڈھیٹ رہے ہیں اور غزل کی مجموعی فضا، آہنگ اور لسانی ماحول میں کسی طرح کی بامعنی ترمیم کے بجائے صرف اپنے تجربوں کا حوالہ بدل دینے کے بعد اس گمان میں مبتلا دیکھے گئے ہیں کہ غزل گوئی کا ایک نیا طوران کے ہاتھ آ گیا ہے۔ اردو شاعری کی پچھلی تین ساڑھے تین سو سال کی تاریخ میں ایسے غزل گویوں کی تعداد بھلا کتنی ہے جس سے اس صنف کا کوئی منفرد معیار وابستہ کیا جاسکے؟ مشکل سے درجن بھر اور یہ گنتی کی تعداد سیکڑوں غزل گویوں کی بھیڑ سے چھن چھنا کے سامنے آئی ہے۔ غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ان درجن بھر شاعروں کے یہاں یاد رکھے جانے کے قابل اشعار کا تناسب بہ دقت سومیں ایک کا ہوگا۔
۱۹۶۵ء میں فراق صاحب نے اپنی غزلوں کا ایک اشاریہ بنوایا تھا۔ اس اشاریے کے مطابق ۱۹۶۵ء تک فراق صاحب نے کل چھ سوبیس غزلیں کہی تھیں۔ ۱۹۶۵ء کے بعد سے ۱۹۸۶ء یعنی فراق صاحب کے سال وفات تک اس تعداد میں کم سے کم سو غزلوں کا اور اضافہ کر لیجئے یعنی کہ تقریبا سواسات سو غزلیں۔ ان میں زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس غزلیں ایسی ہوں گی جنہیں فراق صاحب کے واسطے سے نئی حسیت کا ترجمان قرار دیا جا سکے۔
مگر کوئی تو بات ہے کہ اس کم عیاری کے باوجود نئی غزل کی روایت کے فوری پیش روؤں میں صرف دو نام ایسے ملتے ہیں۔ یگانہ اور فراق، جن سے اس صنف کے بدلے ہوئے مزاج کی نمائندگی بھی ہوتی ہے اور جن کی شاعری اپنی معروف کوتاہیوں اور ناہمواریوں کے باوجود نئی غزل کا راستہ بنانے میں اپنے تمام معاصرین سے آگے رہی ہے۔ اس سے زیادہ عجیب بات یہ رہی ہے کہ لکھنؤ کی معیار پارٹی کے غزل گویوں۔۔۔ صفی، ثاقب، عزیز سے لے کر فانی، حسرت، اصغر اور جگر تک یہ سب کے سب، اردو کے جلیل القدر نقادوں اورذمہ دار استادوں کی نظر میں بھی یگانہ اور فراق کی بہ نسبت وسیع تر ٹھہرے۔ سبب وہی رسمیت زدگی جو غزل گوئی اور غزل شناسی کے ذوق، دونوں کے ابتذال کی گواہی رہی ہے۔ ان شاعروں کا منصب و مرتبہ اپنی جگہ پر اور ان کی صلاحیتیں برحق، مگر ان کے کمال کی حد صرف یہاں تک ہے کہ اپنی روایت کے سائے میں یہ خوب سفر کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ اپنے عہدکی دھوپ سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یگانہ اور فراق کے امتیازات کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ دلچسپ نتیجے نکلتے ہیں۔ مثال کے طور یہ کہ یگانہ تو خیرضدی آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد جان بوجھ کر بنائی اور اپنی خودسری کے باعث غزلیہ شاعری کے کئی مانوس اوصاف کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اپنے معاصرین خاص طور سے اصغر، فانی اور جگر کی خیریت تو وہ پوچھتے ہی رہتے تھے، غالب سے بھی اکھڑ گئے۔ مگر جہاں تک فراق کا تعلق ہے، اس معاملے میں ان کا رویہ یگانہ سے بالکل مختلف تھا۔ اپنی شخصیت کے تمام ٹیڑھے پن کے باوجود فراق اپنے پیش روؤں کے سلسلے میں حفظ مراتب کے بہت قائل اور اردو کلچر یا غزلیہ شاعری کے کلچر کاحصہ تھے۔ یگانہ کی حیثیت اس کلچر کے اس باغی یا بے گانے شخص کی تھی، جسے حقیقت کے باوجود کہ غالب کی غزل اس صنف کے فکری سلسلے اور فنی مہارتوں کا نقطہ منتہا کہی جا سکتی ہے، غالب تک کو تسلیم کرنے میں تامل تھا۔
مگر فراق صاحب تو اپنی تمام تر ازخود رفتگی کے ساتھ اس معاملے میں ہمیشہ چوکنے رہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ غزل کے نام آوروں کی بابت اپنی اصل رائے کے اظہار میں وہ مصلحت کوشی کی حد تک محتاط رہے۔ میر اور غالب کا ذکر الگ رہا۔ داغ، میر اور ریاض خیرآبادی کے بارے میں بھی کوئی ایسی ویسی بات فراق صاحب نے کبھی کہی بھی تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بہت جی کڑا کرنے کے بعد کہی۔ یہ اردو شاعری اور اردو غزل کی عام روایت سے محبت اور نفرت میں ایک ساتھ اپنے طمطراق کے باوجود اپنی کم اعتمادی کو چھپانے سے قاصر رہے۔ اندازے کے مضامین سے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ فراق صاحب کی تخلیقی زرخیزی اور فکری وسعت بھی غزل کی عام روایت کے خوف سے انہیں نجات نہیں دلا سکی۔ انہیں صناعی کے ساتھ کہے ہوئے معمولی اور کم رتبہ قسم کے شعر بھی سحر اور اعجاز دکھائی دیتے تھے اور دوسری بلکہ تیسری صنف کے غزل گو بھی صاحب کمال۔ یہ خوف حقیقی سے زیادہ نفسیاتی تھا اور نتیجہ تھا اردوکے رائج الوقت اسالیب پر گرفت کی کمزوری کا۔
اسی لئے فراق صاحب بہت معمولی ذہنی سطح رکھنے والے معروف غزل گویوں کا کلام بھی نہایت توجہ سے پڑھتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ ان اصحاب کے پاس بڑا تجربہ اور بصیرت نہ سہی، تاہم کم سے کم زبان وبیان کی باریکیوں کا علم تو ہے۔ اردو کلچر میں قادرالکلامی کو ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ ضلع جگت، ایہام، فقرے بازی، قافیہ پیمائی، اینڈی بینڈی ردیفوں اور زمینوں میں طبع آزمائی، ذرا سے خیال کو لے کر لفظوں کا طومار باندھنے کی روش، ان سب کو نسبت اسی رویے سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے شاعر جن کی اڑان بس کلام کی موزونیت تک تھی، میر غالب کے زمانے میں بھی داد پاتے تھے اور آج بھی شعر کی محفل میں ڈٹ کر اپنا کلام سناتے اور داد پاتے ہیں۔
فراق کی شاعری کو اعتبار نہ تو زبان و بیان کے کرتب دکھانے والوں میں میسر آیا، نہ منتخبات کے حلقے میں۔ تاحال اہل علم کی صفوں سے ایسی صدائیں اٹھتی رہتی ہیں کہ فراق نے غزل کو گنوا دیا۔ (اختر انصاری) یہ مسئلہ ادبی تنقید و تاریخ سے زیادہ نفسیات کاہے کہ اصغر، فانی، حسرت، جگر، یہاں تک کہ عزیز لکھنوی کو تو علی گڑھ اور الہ آباد کے برگزیدہ علمائے ادب نے سر آنکھوں پر بٹھایا، مگر یگانہ اور فراق کے لئے یہ شہر شہر غریب ہی بنے رہے۔ روایت سے بے جا شغف اور فنی استعداد یا لسانی مہارت کا ناقص تصور ادب میں نئے تجربوں پر اسی طرح روک لگاتا ہے۔ اس صورت حال نے یگانہ اور فراق کو جو بھی تکلیف پہنچائی ہو، اصل نقصان غزل کی صنف نے اٹھایا اور بالآخر فائدے میں یہی دونوں رہے۔
اپنی فکر کی رسمیت زدگی اور اپنی بے روح نیز مقصود بالذات فنی چابک دستیوں اور اپنی بے لوچ لسانی عادتوں کے باعث ایک فانی کو چھوڑ کر یگانہ اور فراق کے کسی بھی ممتاز معاصر کی غزل تاریخ کے دائرے سے نہیں نکلی۔ مرکز گریزی کا خطرہ مول لے سکنے کی قیمت انہیں اس طرح چکانی پڑی کہ روایات نے ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ مگر یگانہ کی خودروی اور اناگزیدگی کی طرح فراق کی لسانی بے مشقی اور کچاپن اس میدان میں حصول امتیاز کا وسیلہ ٹھہرے۔ روایات بنانے والے اور روایت کو توڑنے والے کے مابین کوئی رشتہ ضرور ہوتا ہے۔
یگانہ کی طرح فراق پر بھی اپنے ماضی کی تاریخ کا جادو کبھی دور تک نہیں چل سکا۔ اسی لئے اپنے عہد کو متاثر کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے۔ اصل میں آزمودہ سہاروں سے دست بردار ہوئے بغیر تخلیقی آزادی نصیب میں نہیں آتی۔ فراق کا ذہن اپنے تما م ہم عصر غزل گویوں سے زیادہ زرخیز تھا اور فراق کی حسیت ان سب سے زیادہ وسیع اور کثیرالجہات۔ رہا قصہ زبان و بیان کے میدان میں پرچم کشا استادوں کا، تو انہیں زیر کرنے کے لئے فراق نے انہی کی دریافت کی ہوئی زمینوں میں نئے راستے نکال لئے۔ لمبی لمبی انوکھی ردیفوں والی غزل جس کا سلسلہ ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے عہد سے تعلق رکھنے والے حکیم آغا جان عیش سے لے کر جدید ٹکنالوجی کے عہد میں قافیہ پیما استاد نوح ناروی اور حضرت جوش ملسیانی تک پھیلا ہوا ہے۔
بیٹھے ہیں وہ کس کس جانب آگے پیچھے دائیں بائیں،
آکے وہ صورت دکھا جاتے ہیں چوتھے پانچویں
جس کو کہتے ہیں بشر اس میں ہے شر، دو بٹا تین
فراق نے تجربے اور بلند احساس کی تبدیلی کے واسطے سے اس رویے کے محور ہی بدل دیے۔ جھومر کا مرے چاند، آگے پیچھے دائیں بائیں اور ’’دو بٹا تین‘‘ کی جگہ ’بڑی اداس ہے رات‘، ’بہت اندھیرا ہے‘، ’ابھی یہاں سے نہ جاؤ اور یہاں نہ باندھو ناؤ‘ (زمین خلاف ہے بھائی یہاں نہ باندھو ناؤ) نے لے لی۔ یہ ردیفیں خارجی کرتب بازی کے بجائے بقول فراق صاحب مصرعوں کے پیٹ سے نکلی تھیں۔ غزلیہ شاعری کے سیاق میں فراق کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ ان کی حسیت اس صنف کی کسی بھی لسانی، فکری، فنی، تہذیبی حدبندی کو قبول نہیں کرتی۔ مقبول اسالیب کو برتنے کے لئے جو لسانی درکار تھی، فراق کو اس سے ایک حد تک اپنی محرومی کا احسا س بھی تھا اور وہ اس سے گریزاں بھی تھے۔ ردوقبول کی یہ کھینچ تان، دو سطحوں پر فراق کو راس آئی۔
ایک تو اس طرح کی روایتی غزل کے جن عناصر کو فراق لالچ بھری نظر سے دیکھتے تھے، اپنے امتیاز کی خاطر ان عناصر کو انہوں نے قبول بھی کیا تو اپنی شرطوں پر۔ اسی لئے فراق کی غزل، غزل کے متوازی خطوں پر چلنے کے بعد بھی روایتی نہیں رہ جاتی۔ دوسرے یہ کہ فراق نے غزل کی روایتی زبان، مضامین اور پیش پا افتادہ ثقافتی کلچر کے بنے بنائے دائروں کو توڑنے کے لئے غزل کا ایک نیا لہجہ اور ایک نیا ماحول مرتب کرنے کی کوشش کی۔ عسکری صاحب کا خیال تھا کہ فراق کی نظم کا یہ مصرعہ ’’کنول کی چٹکیوں میں بند ہے ندی کا سہاگ‘‘ ایک نئے اور اردو کلچر سے یکسر مختلف تہذیبی خلقیے (ethos) کی دین ہے۔ چنانچہ غزل کے اس نو دریافت ماحول میں سانس لینا، جسے روایتی غزل کے علم بردار ایک شاعرانہ حرکت سمجھتے رہے، دراصل ایک نئے خلقیے کو برتنے اور ایک نئے تہذیبی تجربے سے گزرنے کے مترادف تھا۔
اور یہی وجہ ہے کہ فراق کی غزل اپنے بعد والوں پر تجربے اور اظہار کے تمام دروازے کھلے رکھتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ طوطے، قمیص اور ساریاں، جیسی ردیفوں والی نئی غزل کی گنجائش بھی (بمل کرشن اشک)، ناصر کاظمی کی پہلی بارش کی غزلوں کی آہٹ سے پہلے ہمیں فراق صاحب ہی کے یہاں سنائی دی تھی۔ (مشعل ۱۹۴۶ء) فراق کی غزل ایسا کوئی معیار قائم نہیں کرتی، مثال کے طور پر غالب کی طرح، جس کی تقلید میں خرابی کا خوف ہو یا خود کو گم کر بیٹھنے کا امکان۔ ایک نئی اور ناتمام حسیت جو ترقی پسند غزل کے بالمقابل حلقہ اربا ب ذوق کے قائم کردہ خطوط پر، اردو شاعری کی روایت میں رفتہ رفتہ اپنے قدم جماتی جا رہی تھی، اپنے ہم عصر غزل گویوں کی بہ نسبت فراق اس حسیت کا بہتر شعور رکھتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس حسیت کا رشتہ اردو شاعری کو پس منظر مہیا کرنے والی عجمی روایت کے علاوہ کچھ ایسی روایتوں سے بھی تھا جن کی اپیل اردو والوں میں محدود تھی۔ اس حسیت کے رابطے مغرب کی مجموعی تخلیقی روایت سے بھی تھے اور اس ٹھیٹ ارضیت سے بھی جس کا ظہور اردو والوں کے لئے روایات کے تقریباً مانوس علاقے سے ہوا تھا۔ ناصر کاظمی نے اپنی ایک غزل،
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں تیرے تن کا کپڑا ہوں
میرا دیا جلائے کون
میں تیرا خالی کمرہ ہوں
کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی تحریک انہیں میرا بائی کے ایک بھجن سے ملتی ہے۔ اس ضمن میں فراق صاحب کے حوالے سے ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے فراق صاحب ہی کی تحریروں کے یہ اقتباس دیکھتے چلیں،
’’ہاں تو اردو شاعری میں گھر کا تصور اور عورت کا تصور بلکہ کائنات وحیات کا تصور کمزور اور ناقص ہونے کے سبب اردو کی عشقیہ شاعری بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بہت کچھ کمی رکھتی ہے۔ ایک وجدانی و جمالیاتی احسا س کبھی کبھی خوش نصیب لمحوں میں اردو شاعری کو ضرور ہاتھ آ جاتا تھا، لیکن مناظر قدرت، مادی اور عنصری کائنات، گھریلو اور سماجی زندگی کی جزئیات زندگی کے بھرپور اور ٹھوس حصوں اور پہلوؤں کو یہ وجدانی احساس بہت کم چھو پاتا ہے اور بسا اوقات ایک متصوفانہ حال وقال کی چیز ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ (مضمون، اردو کی عشقیہ شاعری کی پرکھ، مشمولہ فراق نمبر، شاہکار الہ آباد)
فراق صاحب نے مختلف لفظوں میں یہ بات کئی موقعوں پر کہی ہے۔ عجب قصہ ہے کہ ان کے معاصرین میں کسی اور نے بھی اس مسئلے کو ناقابل اعتنا نہیں سمجھا۔ گویا کہ اردو غزل کی روایت سے وابستہ ایک ایسی نمایاں کمزور ی جو اس صنف کی جمالیاتی اور معاشرتی قدر نیز اس کے مجموعی نظام پراثر انداز ہوتی ہے، اردو کے تمام غزل گو جو بیک وقت انحراف اور توسیع کے عمل سے غزلیہ شاعری کی روایت کو اپنے زمانے کی حسیت کا ترجمان بنانا چاہتے تھے، ناصر کاظمی غزل کی روایت کا گہرا شعور رکھتے ہوئے بھی یہ سمجھتے تھے کہ نئی غزل کی تشکیل کے لئے اپنے ماضی سے اس طرح استفادہ کرنا چاہئے کہ اپنے احساس و اظہار کا دریچہ بند نہ ہو۔
میر کے بعد غزل کے جس شاعر میں ناصر کاظمی کو اپنی حسیت کے مناسبات کا سب سے زیادہ سراغ ملا وہ فراق ہیں۔ اس واقعے کا اعتراف ناصر کاظمی نے دو واسطوں سے کیا ہے، ایک کی تائید کے ذریعے جس کی نشاندہی فراق کے مندرجہ بالا اقتباس سے ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ ناصر کاظمی کو بھی اردو غزل کی اس کمی کا احساس تھا کہ خیال پرستی سے بے محابہ شغف کے نتیجے میں اس کی ارضی اور طبیعی بنیادیں کمزور ہو چلی ہیں اور یہ کہ اس کمزوری کی وجہ سے غزل کی صنف اپنے روایتی آداب کی پابند ہوکر رہ گئی ہے۔ اس میں نہ تو نئے تجربوں کو برتنے کی سکت ہے نہ زبان اور بیان کے نئے سانچوں کو۔ چنانچہ ناصر کاظمی نے غزل کی ماہیت اور اس کے خارجی رنگ روپ کو ایک ساتھ بدلنے کا راستہ اختیار کیا۔ مجردات کی جگہ عنصری اور مادی حوالوں کو دی اور اشیا کے واسطے سے بھی احساسات کی عکاسی کا ہنر سیکھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ جدوجہد بے حصول رہ جاتی اگر اس کا پس منظر فراق کی غزل سے خالی رہ گیا ہوتا، بلکہ کیا عجب کہ فراق کی غزل نے ہی اس جستجو کے خواب کی صورت گری کی ہو۔
حوالہ : تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ، پروفیسر شمیم حنفی)
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page