غالب کے کلام میں گل کے استعارے کو زیر بحث لانے سے پہلے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کلاسیکی غزل کی شعریات اور علم بیان سے متعلق چند بنیادی باتوں کو سامنے رکھ لیا جائے۔خیال رہے کہ استعارے کو علم بیان کے سب سے اہم جز کی حیثیت حاصل ہے۔اسی کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ مشرقی ادبی تہذیب میں شاعری کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہے، ان میں علم بیان کے اجزا یعنی تشبیہ،استعارہ، مجاز مرسل اور کنایہ کی کارفرمائی شاید سب سے زیادہ ہے۔پھر ان اجزا میں تشبیہ اور استعارہ کئی وجوہ سے خصوصی اہمیت کے حامل سمجھے گئے ہیں۔اپنی اصل کے اعتبار سے تشبیہ اور استعارہ ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں،کیوں کہ دونوں کی بنیاد دو چیزوں میں مشترک مشابہت پر قائم ہے۔اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ علم بیان میں مرکزی حیثیت لفظ کے مجازی معنی کو حاصل ہے۔یہی سبب ہے کہ علماے بلاغت نے استعارے کو اپنی اصل کے اعتبار سے مجاز کہا ہے، جب کہ تشبیہ کو اس لئے مجاز نہیں کہا جاتا کہ وہاں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں مذکور ہوتے ہیں۔لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا، استعارے کی بنیاد بھی چونکہ مشابہت پر ہے،اور تشبیہ اس کی پہلی منزل ہے، اس لئے علماے بلاغت نے دونوں کو علم بیان کے تحت ایک ساتھ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ استعارے کی کوئی بحث تشبیہ کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔
چونکہ ہمارے یہاں مطالعۂ ادب بالخصوص فن شعر سے متعلق گفتگو میں استعارے کو بہت کم موضوع بحث بنایا گیا ہے،اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں استعارے سے متعلق کچھ بنیادی باتیں بیان کر دی جائیں۔واضح رہے کہ بلاغت کی کتابوں میں استعارے کے بارے میں بہت تفصیل سے کلام کیا گیا ہے،اور نہایت باریک نکات زیر بحث لائے گئے ہیں۔یہاں سر دست اتنا جان لینا کافی ہے کہ نفس الامر میں استعارہ دو چیزوں پر قائم ہے ؛پہلی،دو چیزوں میں مشابہت کاپایا جانایا اس کا ادعا کرنا،اور دوسری چیز، استعارے کا مجاز ہونایعنی جو لفظ کسی شے کے لئے بطور استعارہ لایا جائے، وہ اپنے حقیقی معنی میں نہ ہو، بلکہ اس سے کچھ اور معنی مراد لئے جائیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ حقیقی اور مرادی معنی میں مشابہت کا رشتہ ہو۔
ہمارے یہاں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ نکتہ زیر بحث لایا گیا ہے کہ استعارہ کس طرح کامجازہے۔اس کے بارے میں حکیم نجم الغنی نے اپنی مشہور کتاب ’’بحرالفصاحت‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔یہاں اس بحث کا کچھ حصہ نقل کر دینا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ وہ لکھتے ہیں:
علماے فن بلاغت کا اختلاف ہے اس میں کہ استعارہ کون سا مجاز ہے،آیا لغوی ہے یا عقلی۔یہاں عقلی سے مراد یہ ہے کہ ایک امر عقلی میں تصرف کیا گیا ہو۔جمہور کا یہ مذہب ہے کہ استعارہ مجاز لغوی ہے،یعنی وہ ایسا لفظ ہے کہ جس معنی کے واسطے بنایا گیا ہے،اس معنی کے غیر میں مستعمل ہوا ہے مشابہت کے علاقے سے۔اور اس بات پر دلیل یہ ہے کہ ہم نے کسی آدمی کو شجاعت کی وجہ سے شیر کہا تو اس سے یہ مراد نہ ہوگی کہ ہیکل مخصوص کا استعارہ اس کے لئے ہے، بلکہ مشبہ یعنی مرد شجاع کو مشبہ بہ یعنی شیر کی جنس میں بہ طریق تاویل کے داخل کر لیا جاتا ہے۔اور تاویل کی یہ صورت ہے کہ مشبہ بہ کے افراد کو دو قسم پر مقرر کیا جاتا ہے۔
۱۔ ایک قسم متعارف و مشہور ہے، یعنی جانور درندہ جو نہایت شجاعت کے ساتھ ہیکل مخصوص میں پایا جاتا ہے۔
۲۔ دوسری قسم غیر متعارف،اور وہ ایسا شیر ہے کہ جس کو درندۂ معروف کی سی شجاعت حاصل ہے،لیکن اس خاص ہیکل میں ہو کر حاصل نہیں۔مرد شجاع اسی قبیل سے ہے،مگر لفظ شیر اصل لغت میں قسم دوم کے لئے موضوع نہیں ہے،بلکہ قسم اول کے لئے موضوع ہوا ہے۔پس اس لفظ کا استعمال قسم ثانی میں بہ اعتبار مجاز کے ہے،اور یہ اطلاق اس شے پر ہے،جو معنی لغوی کی غیر ہے۔پس مجاز لغوی ہوا اور صحیح یہی مذہب ہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ وہ مجاز عقلی ہے۔پس استعارہ امر عقلی میں تصرف کرنے کا نام ہے،اس لئے کہ جب کسی کو شیر کہتے ہیں تو اس کو بعینہ شیر(جانور درندہ) ٹھہرا لیتے ہیں،نہ مثل شیر کے۔اس صورت میں شیر کے لفظ کا وہ شخص موضوع لہ ہوا۔پس یہ دعویٰ کرنا عقل سے تعلق رکھتا ہے،نہ لغت سے۔حاصل یہ ہے کہ زید واقع میں شیر نہ تھا اور اس کو اپنے نزدیک شیر ٹھہرا لیا ہے۔اور جو چیز کہ واقع میں نہ ہو،اس کو واقعی ٹھہرا لینے ہی کو مجاز عقلی کہتے ہیں۔پس استعارہ مجاز لغوی نہ ہوا بلکہ مجاز عقلی ہوا۔اگر مشبہ کو بعینہ مشبہ بہ نہ ٹھہراتے ہوں تو آتش کے اس شعرمیں معشوق کا کذب کیسے ثابت ہو:
وعدۂ شب نہ کر اے ماہ لقا جھوٹ نہ بول
جلوہ گر رات میں خورشید کہاں ہوتا ہے
اس مثال سے مقصود یہ ہے کہ اگر قائل معشوق کو بعینہ خورشید نہ سمجھ لیتا تو معشوق کی وعدہ خلافی اور دروغ گوئی اس جگہ صحیح نہیں ہو سکتی،کہ جلوہ گر ہونا ایسے آدمی کا جو حسن میں مشابہت خورشید سے رکھتا ہو،شب میں ناممکن نہیں ہے،بلکہ طلوع خورشید ہی کا ناممکن ہے۔(۱)
اس کے بعد حکیم صاحب استعارے کے حامل کئی اشعار کی مزید مثالیں نقل کر کے مجاز لغوی کی تائید میں بحث کو ان الفاظ میں تمام کرتے ہیں:
محققین نے اس مذہب کو[یعنی مجاز عقلی کے مذہب کو]اس طرح رد کیا ہے کہ مشبہ کو بعینہ مشبہ بہ ٹھہرا لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مشبہ موضوع لہ ہو جائے،کیوںکہ یہ امر ظاہر ہے کہ لفظ خورشید جرم روشن معروف کے لئے بنایا گیا ہے،اور شخص حسین کے معنی میں استعمال کر لیا گیا ہے،اور تعجب کرنا اس لئے ہے کہ گویا مشابہت کو قطعاً فراموش کیا ہے تاکہ مبالغہ کما حقہ ادا ہو جائے۔یہی حال اور امثلہ کا ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ استعارہ مجاز لغوی ہے،یعنی موضوع لہ کے غیر میں استعمال کیا گیا ہے۔(۲)
صاحب ’’بحر الفصاحت‘‘ کے درج بالا اقتباسات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ استعارے سے متعلق مباحث بہت مفصل اور باریک نکات پر مشتمل ہیں۔
اس سلسلے میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اشعار میں مستعمل استعارے اور تشبیہ کی پہچان میں مشکل پیش آتی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اگرچہ تشبیہ کے لئے اداۃ تشبیہ یعنی حرف تشبیہ لازم ہے، لیکن کبھی کبھی حرف تشبیہ محذوف کر کے تشبیہ لائی جاتی ہے۔مثلاً’ زید شیرجیساہے ‘نہ کہہ کر ’زید شیر ہے‘ کہہ دیا جاتا ہے۔اس صورت میں یہ گمان ہوتا ہے کہ زید کو بعینہ شیر ٹھہرا لیا گیا ہے،اور اسے استعارہ فرض کر لیتے ہیں۔لیکن در حقیقت یہ بھی تشبیہ کی صورت ہے ،کیوں کہ یہاں مشبہ یعنی زید اور مشبہ بہ یعنی شیر دونوں مذکور ہیں، لیکن حرف تشبیہ یعنی لفظ’’جیسا‘‘ کو محذوف کر دیا گیا ہے۔ملحوظ رہے کہ ایسی تشبیہ کو ’’تشبیہ مضمر الاداۃ‘‘ کہتے ہیں،یعنی وہ تشبیہ جس میں حرف تشبیہ ظاہر نہ ہو۔استعارہ اور تشبیہ مضمر الاداۃ کے فرق کو سمجھنے کے لئے غالب کا درج ذیل شعر ملاحظہ کیجئے، جس میں استعارہ اور تشبیہ مضمر الاداۃ دونوں بیک وقت موجود ہیں ؎
وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالب
چٹکنا غنچۂ گل کا صداے خندۂ گل ہے
یہاں پہلے مصرعے میں ’’وہ گل ‘‘ معشوق کا استعارہ ہے،اور مصرع ثانی میں غنچۂ گل کے چٹکنے کو خندۂ گل کی صدا سے تشبیہ دی گئی ہے،جب کہ حرف تشبیہ کو محذوف رکھا گیا ہے، یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ غنچۂ گل کا چٹکنا خندۂ گل کی صدا کی طرح ہے۔اسی بنا پر غنچۂ گل کے چٹکنے اورخندۂ گل کی صدا میں تشبیہ مضمرالاداۃ کی کارفرمائی ہے۔ خیال رہے کہ گل کے کھلنے کو خندہ سے تعبیر کرتے ہیں،اور ہنسی میں آواز کا نکلنا بدیہی ہے۔
اب ہم یہاں استعارے سے متعلق ان چند بنیادی باتوں کو بیان کرتے ہیں، جن کا تعلق کلاسیکی غزل کی شعریات سے ہے۔یہ حقیقت اب پوری طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ مشرقی شعریات بالخصوص غزل کی بنیاد مضامین پر ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ غزل کے اشعار لازماً کسی نہ کسی مضمون پر مبنی ہوتے ہیں۔اس ضمن میںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غزل کے بیشتر مضامین مجازی معنی کے حامل ہیں،یعنی ان کی بنیاد استعارے پر ہے۔یہاں ایک مثال سے بات مزید واضح ہو جائے گی۔مثلاً عاشق کا دل ٹوٹناغزل کی دنیا کا ایک معروف مضمون ہے۔اب آپ غور کریں کہ دل ٹوٹنے کے مضمون میں لفظ ’’ٹوٹنا‘‘ واضح طور پر مجاز یعنی استعارہ ہے۔یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ ہماری شعریات میں مضمون کی توسیع کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، اس میں استعارے یعنی مجاز کو پلٹ کر لغوی معنی میں استعمال کرنا عام ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم مجاز کو پلٹ کر لفظ کو حقیقی معنی میں لے لیتے ہیںتو لفظ کے موضوع لہ سے متعلق دیگر پہلو بھی اس مضمون میں شامل ہو جاتے ہیں۔جیسے ’’دل ٹوٹنے‘‘ کے مضمون میںلفظ’ ٹوٹنے‘ کو جب ہم لغوی معنی میں لیتے ہیں تو ٹوٹنے کے دیگر متعلقات مثلاً’ ٹکڑے ٹکڑے ہونے‘ یا’ چٹک جانے‘ وغیرہ پر مبنی مضامین اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔یعنی دل ٹوٹنے کے ایک مضمون سے مزید کئی مضمون پیدا ہو جاتے ہیں۔یہی وہ بیحد اہم نکتہ ہے، جس کی رو سے کہا گیا ہے کہ ہماری کلاسیکی شعریات میں استعارے سے زیادہ اہمیت مضمون کی ہے۔کیوں کہ یہاں بیشتر استعارے غزل کی رسومیات اور تصوارت کے تابع ہیں، اور چونکہ یہی تصورات اکثر مضامین کی صورت میں بیان ہوئے ہیں،اس لئے اکثر استعارے بھی مضامین کے تابع ہیں۔
مجاز بالخصوص استعارہ اور مضمون کے بارے میں اوپر کی اجمالی بحث کے بعد،اب پہلے یہ دیکھ لینا مناسب ہوگا کہ کلاسیکی غزل میں گل کو بطور استعارہ کن کن صورتوں میں عموماً استعمال کیا گیا ہے۔فارسی اور اردو میں گل کو جن چیزوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ان کا اندراج ’’بہار عجم‘‘ میں ہے،اور وہ حسب ذیل ہیں:
گنبد، مخمل، صفحہ، مصحف، گوش، پیکان، مشعل، چراغ، مہتاب، سفرہ، کاسہ، سبو، شیشہ، ساغر، جام، پیالہ، پیمانہ، عروس، اطلس۔
ظاہر ہے، ان تمام صورتوں کی مثالیں اردو فارسی کی کلاسیکی شاعری میں موجود ہیں۔لیکن ان میں سے جن کا استعمال شعرا نے زیادہ کیا ہے، انھیں ذیل میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ معشوق کے کردار کی صورت میں
۲۔ حسین اور دلکش چہرے کی صورت میں
۳۔ دیوانے کی صورت میں
۴۔ خون سے لبریز پیالے کی صورت میں
۵۔ گوش شنوا کی صورت میں
۶۔ زخم اور داغ کی صورت میں
ان کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں ہے۔البتہ یہ حقیقت مسلم ہے کہ گل کو معشوق کے استعارے کے طور پر سب سے زیادہ استعمال میں لایا گیا ہے۔
استعارے کی حقیقت اور کلاسیکی شعریات میں گل بطور استعارہ کی کارفرمائی کی روشنی میں جب ہم غالب کے اردو کلام کو دیکھتے ہیں تو اس میں گل کے استعارے کی عام طور سے وہی صورت زیادہ نظر آتی ہے، جسے کلاسیکی شعرا استعمال کرتے آئے ہیں۔
غالب کے دیوان میں نو اشعار پر مشتمل ایک غزل گل کی ردیف میں شامل ہے۔اس غزل کے کئی شعروں میں گل کو بطور استعارہ بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔اس غزل کا مطلع حسب ذیل ہے:
ہے کس قدر ہلاک فریب وفاے گل
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہاے گل
ظاہر ہے،یہاں گل معشوق کا استعارہ ہے۔بلبل معشوق کی وفاداری کے دھوکے میں خود کو ہلاک کیے دے رہا ہے،اور اس عمل کو بلبل کے کاروبار سے تعبیر کیا گیا ہے۔بلبل کی اس سادگی کو دیکھ کر گل بے ساختہ ہنس رہے ہیں۔اس مطلعے کے مصرع ثانی کو غالب نے بعینہ ایک دوسری غزل کے شعر میں پہلا مصرع بناکر استعمال کیا ہے ؎
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہاے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
اب پھر سے زیر بحث غزل کا ایک شعر اور ملاحظہ کیجئے:
خوش حال اس حریف سیہ مست کا کہ جو
رکھتا ہو مثل سایۂ گل سر بہ پاے گل
اس شعر میں بھی گل سے معشوق کا استعارہ کیا گیا ہے۔ملحوظ رہے کہ یہاں ’’خوش حال‘‘ کا فقرہ غالب نے’’ اس کے حال کا کیا کہنا‘‘ کے معنی صرف کیا ہے۔اسی کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ’’حریف‘‘ کا لفظ یہاں دوست اور ساتھی کے معنی میں ہے، جس سے عاشق مراد ہے۔چونکہ گل کا سایہ نیچے ہے، اس لئے اسے معشوق کے قدموں میں عاشق کے سر رکھنے سے از روے تشبیہ تعبیر کیا گیا ہے۔
اسی سلسلے کایہ شعر بھی دیکھئے:
تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل در قفاے گل
مضمون کی تازگی اور ندرت کے لحاظ سے یہ شعر نہایت بلند رتبہ کہا جاسکتا ہے۔باغ میں یکے بعد دیگرے گلوں کے کھلنے کو اس صورت سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا گل کے پیچھے گل دوڑے جا رہے ہیں۔انھیں شاید یہ دھوکا ہو گیا ہے کہ معشوق باغ میں جلوہ فرماہے،اسی لئے اشتیاق دید میں گل بے اختیار ہو رہے ہیں۔خیال رہے کہ اس شعر میں گل کو معشوق مجازی بھی فرض کر سکتے ہیں،اور مضمون کے اعتبار سے یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ گلوں کو صاحبان حسن کا استعارہ مان لیا جائے۔
اب دیگر غزلوں سے چند اشعار اور ملاحظہ کریں، جن میں استعارے اگرچہ مانوس ہیں،لیکن غالب نے انھیں جس طرز کے ساتھبرتا ہے ،وہ قابل دید ہے:
رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتن گل ہاے ناز کا
اس شعر کی تشریح میں علی حیدر نظم طباطبائی لکھتے ہیں:
یعنی نظارہ اس کا موسم بہار ہے،اور نظارے سے اس کے میرا رنگ اڑ جانا طلوعِ صبحِ بہار ہے، اور طلوعِ صبحِ بہارپھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے۔غرض یہ ہے کہ بروقتِ نظارہ میرے منھ پر ہوائیاں اڑتے ہوئے اور مہتاب چھٹتے ہوئے دیکھ کر وہ سرگرمِ ناز ہوگا۔یعنی میرا رنگ اڑ جانا،وہ صبح ہے جس میں گلہاے ناز شگفتہ ہوں گے۔(۳)
اس تشریح سے اتنی بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’رنگ شکستہ‘‘ یعنی اڑا ہوا رنگ عاشق کے چہرے کا ہے۔معشوق جب صبح کے وقت نمودار ہوتا ہے تو اس کانظارہ صبحِ بہار کی کیفیت رکھتا ہے۔یہاں یہ بات خاص طور سے قابل توجہ ہے کہ معشوق کے نازوانداز کو گل سے تشبیہ دی گئی ہے۔کیوں کہ شعر میں مستعمل ترکیب’’ شگفتنِ گلہاے ناز‘‘ کے معنی ’’ناز کے گلوں کے کھلنے‘‘ کے ہیں۔اس سے یہی مراد ہے کہ معشوق جس نازوانداز کے ساتھ جلوہ فرما ہے ،وہ تازہ تازہ کھلے ہوئے گلوں جیسی کیفیت رکھتا ہے۔ایسی صورت میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس شعر میں گل بطور استعارہ نہیں،بلکہ تشبیہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو
یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا
اس شعر میں بھی’’ گل‘‘ کا لفظ بطور استعارہ نہیں،بلکہ بطور تشبیہ لایا گیا ہے۔باغ میں گلوں کی کثرت ہے اور ان کا عکس آبجو میں روشن چراغ کی طرح ظاہر ہو رہا ہے۔واضح رہے کہ اس صورت میں گل کی تشبیہ روشن چراغ سے قائم کی گئی ہے،لہٰذا یہاں گل کی حیثیت استعارہ اور تشبیہ(یعنی مشبہ بہ) کے بجائے مشبہ کی ہے۔
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا
یہاں بھی’’ گل تر‘‘ لغوی معنی میں یعنی بطور مشبہ آیا ہے،اور ’’چشم خوں فشاں‘‘ اس کی تشبیہ ہے۔درج ذیل دونوں شعروں میں’’ جلوۂ گل‘‘ کی ترکیب سے غالب نے بصری پیکر خلق کیا ہے۔واضح رہے کہ دوسرے شعر میں ’’خیال جلوۂ گل‘‘ کہہ کر پیکر کو تجریدی جہت دی گئی ہے۔
بخشے ہے جلوۂ گل ذوق تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
۔۔۔
خیال جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار ودر میں خاک نہیں
غالب کے کلام میں گل کے استعارے کی جو صورت حال ہمارے پیش نظر ہے، اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ غالب نے گل کو بطور استعارہ ذرا کم استعمال کیا ہے۔اس کے برعکس انھوں نے گل کے مختلف پہلوؤں کو تشبیہ کی صورت میں زیادہ برتا ہے۔گل بطور استعارہ غالب کے یہاں حسب معمول زیادہ ترمضمون کی صورت میں استعمال ہوا ہے،اور معشوق کے استعارے کی حیثیت سے گل کا استعمال زیادہ ہے۔خیال رہے کہ غالب نے گل کے استعارے کو کلاسیکی دائرے میں رہ کر استعمال کیا ،لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اپنی ندرت بیان اور مضمون میں نئے نئے پہلو رکھ کر انھوں نے جگہ جگہ اس پیش پا استعارے میں جان ڈال دی ہے۔میں اس مضمون کا اختتام غالب کی فارسی غزل کے ایک مطلعے کے ساتھ کرتا ہوں،جس میں گل کا استعارہ نہایت خوبی اور تاثیر کے ساتھ لایا گیا ہے:
اے دل از گلشن امید نشانے بمن آر
نیست گر تازہ گلے برگ خزانے بمن آر
۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
(۱) بحر الفصاحت، جلد دوم، حکیم نجم الغنی خاں نجمی رام پوری، تدوین ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، قومی کونسل براے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی، طبع اول مارچ ۲۰۰۶، ص ص ۱۰۹۱۔۱۰۹۰
(۲) ایضاً ص ۱۰۹۲
(۳) شرح سیوان اردوے غالب از سید علی حیدر نظم طباطبائی مرتبہ ظفر احمد صدیقی،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، دہلی، طبع اول ۲۰۱۲، ص ۹۳
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page