شمار سجہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا
غالب کے بارے میں ذوق نے کہا تھا کہ مرزا نوشہ کو اپنے اچھے شعروں کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ بات تقریباً صحیح ہے، لیکن غالب کو اپنے مافی الضمیر کی پوری خبر تھی۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے مافی الضمیر کو پوشیدہ رکھنے یعنی Camouflage کرنے کا بھی فن خوب آتا تھا۔
چنانچہ انھوں نے بار بار یہ بات کہی کہ ان کے دور اول کے اشعار (جو پیچیدگی فکر اور نازک خیالی اور استعارہ کے اعلیٰ نمونے ہیں۔) بیدل اور شوکت اور اسیر کی تقلید میں تھے اور تقریباً بے معنی بھی تھے۔ عبد الرزاق شاکر کو لکھتے ہیں کہ، ’’جب تمیز آئی تو اس دیوان کو دور کیا۔ اوراق یک قلم چاک کیے۔ دس پندرہ شعر واسطے نمونے کے دیوان حال میں رہنے دیے۔‘‘ نواب شمس الامراء کو لکھا کہ پچھلے دیوان کو انھوں نے ’’گل دستہ طاق نسیاں‘‘ کر ڈالا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متداول دیوان کے بھی سیکڑوں شعر اپنے اشکال کے باعث مسترد شدہ دیوان سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ لیکن انتخاب واصلاح کی اس تشہیر کا یہ نتیجہ ہوا کہ ایک طرف تو لوگوں کو خیال ہوا کہ مرزا نوشہ نے طرز سخن عام کی پیروی کو آخر کار مستحسن سمجھا اور دوسری طرف یہ محسوس ہوا کہ جب منظور شدہ دیوان میں مشکل شعروں کا یہ رنگ ہے تو مسترد کردہ دیوان کا کیا عالم ہوگا۔
چنانچہ ایک طرف تو یہ افواہ گرم ہوئی کہ غالب جو خود اپنے قول کے بموجب ایام جوانی میں ’’بہت کچھ بکتے‘‘ رہے تھے، آخر سادگی اور سلاست کو پیچیدگی اور معنی آفرینی پر ترجیح دینے ہی لگے۔ اور دوسری طرف یہ رائے عام ہوئی کہ غالب بہت مشکل پسند شاعر تھے اور طرز بیدل کے آخری اور شاید سب سے بہتر نمائندہ تھے۔ ایک ہی تیر سے دو شکار اور وہ بھی ایسے کہ ان کی سمتوں میں بعد المشرقین ہو، غالب کی ذہانت اور محال پسندی کا اچھا نمونہ ہے۔
لیکن مسترد شدہ دیوان اگر واقعی یا وہ گوئی پر مبنی ہے تو معنی آفرینی پر یہ بار بار اصرار کیوں؟ اس بات پر ضد کیوں کہ ’’مولوی صاحب کیا لطیف معنی ہیں!‘‘ یہ دعویٰ کیوں کہ ’’شعر میرا مہمل نہیں، اس سے زیادہ کیا لکھوں۔‘‘ اس بات پر مباہات کیوں کہ ’’جملے کے جملے مقدر چھوڑ گیا ہوں؟‘‘ یہ شکایت کیوں کہ ’’بھائی! مجھ کو تم سے بڑا تعجب ہے کہ اس بیت کے معنی میں تم کو تامل رہا۔‘‘ یہ جملے منظور شدہ اشعار کے بارے میں ہیں۔ اگر صفائی اور واشگافی ہی بہت بڑا ہنر تھا تو ان جملوں کا محل نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب شروع سے آخر تک ایک ہی طرز کے پیرو رہے۔
ان کا ارتقا خوب سے خوب تر کی طرف ہوا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے غیرعام اور محاورے سے خارج الفاظ کا بوجھ، جو انھوں نے اپنے اردو کلام میں محض اس وجہ سے رکھا تھا کہ ان کے باپ دادا کی زبان اردو نہ تھی اور انھیں مروجہ اردو محاورے پر مکمل دست رس نہ تھی، وہ بوجھ اردو کے محاورے سے پیہم مزاولت کی وجہ سے کم ہوتا گیا، ورنہ جہاں تک سوال اشعار کے مشکل ہونے کا ہے، ان کا دیوان سراپا اشکال ہے، کیونکہ ان کی مابہ الامتیاز خصوصیت ذہن کی ایک ایسی روش ہے جو بہ یک وقت کئی تجربات کا احاطہ کر لیتی ہے اور ان تمام تجربات کا بہ یک وقت اظہار کرنے پر قادر ہے۔
میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے غالب کے کلام کے ساتھ ’’مشکل‘‘ کی صفت عام معنوں میں استعمال کی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں ان کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کو اشکال سے کہیں زیادہ بلند منصب کی چیز سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں اشکال عموماً شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن۔ اشکال ایک قطعی صورت حال کا نتیجہ ہوتا ہے، ابہام کی بنیادی خصوصیت غیرقطعیت ہے۔ اشکال کی نوعیت معمے یا Code کی ہوتی ہے، جسے حل کرکے مافی الضمیر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ابہام ایک ایسا معمہ ہے جس میں ہر طرف اشارے ہی اشارے ہیں اور ہر اشارہ صحیح ہوتا ہے۔ اشکال صرف ایک سطح کو پہچانتا ہے، ابہام بہ یک وقت مختلف سطحوں پر حاوی ہوتا ہے اور اس ذہن کی خصوصیت ہوتا ہے جو مختلف المعنی یا مختلف الکیفیت حقائق کو ایک ساتھ ظاہر کر سکے۔
چونکہ غالب ابہام اور اشکال کے اس لطیف فرق سے ناواقف تھے، اس لیے انھوں نے اپنے ابہام کو بھی اشکال ہی سے تعبیر کیا ہے، لیکن وہ ابہام کی حقیقت سے فی نفسہ واقف تھے کیونکہ انھوں نے اشکال کی جو تعریف کی ہے وہ دراصل ابہام ہی پر پوری اترتی ہے۔ ابہام کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ شعر ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ معنی رکھتا ہو۔ اشکال کا تقاضا ہے کہ شعر کے معنی اس کو معلوم ہوں جو اس کے معمے کو حل کر سکے اور جب وہ معنی کھل جائیں تو وہ قطعی اور آخری ٹھہریں۔ ممکن ہے کہ کوئی شعر میرے لیے مشکل ہو (کیونکہ میں اس کے الفاظ کے معنی نہیں جانتا یا محاورے سے بے خبر ہوں یا اس میں صرف کی ہوئی تلمیح تک میری نظر نہیں ہے۔) لیکن دوسروں کے لیے آسان ہو۔ مندرجہ ذیل مثالیں دیکھیے،
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
ثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلق
لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
اس بات سے قطع نظر کہ پہلے شعر میں کچھ ابہام بھی ہے، شعر کا اشکال اس کی تلمیح میں مضمر ہے۔ اگر تلمیح صاف ہو جائے تو ظاہری معنی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ دوسرے شعر میں ’’جگر تشنہ‘‘ کے صحیح معنی (بہت پیاسا) معلوم ہوں تو بات صاف ہو جاتی ہے۔ تیسرے شعر میں معمائی کیفیت ہے جس کا اشارہ معشوق کی مست رفتاری ہے، لہٰذا ان اشعار کا مشکل ٹھہرنا خود ان اشعار پر نہیں بلکہ پڑھنے والے کی ذہنی اور علمی استعداد پر منحصر ہے یا پھر اس کے ذہن کی ساخت پر۔ بعض لوگ معمے جلد حل کرلیتے ہیں لیکن دوسرے معاملات میں معمولی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض لوگ معمے حل کرنے میں احمق ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کی ذہانت مسلم ہوتی ہے۔ مشکل شعروں کی کچھ اور مثالیں دیکھیے،
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
نہ بٹھا حلقہ ماتم میں گرفتاروں کو
نیل گوں خط توبہ گرد خط رخسار نہ کھینچ
کیا کہوں بیماریٔ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خون دل بے منت کیموس تھا
اس قسم کے اشکال کی مثالیں قصیدے اور مرثیے میں قدم قدم پر ملتی ہیں۔ خود غالب کے قصیدے ایسے شعروں سے بھرے پڑے ہیں جن کا مفہوم سمجھنے کے لیے محاورے اور اصطلاح کا علم ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ سطحی اور خارجی اشکال محض غالب کا طرۂ امتیاز نہیں، ناسخ اور مومن کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جن میں یہی کیفیت ملتی ہے۔ غالب کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے اپنی مشکل گوئی ترک کردی، گویا یہ کہنا کہ انھوں نے فطرت بدل دی۔
چونکہ غالب کے کلام کی اساس جذبے سے زیادہ تجربے اور جذباتیت سے زیادہ عقلیت پر ہے، اس لیے انھیں وہ پیچیدگیاں بھی عزیز تھیں جو شعر میں ظاہر کیے ہوئے تجربے کو لفظی صنعتوں کے ذریعے ایک ایسی کیفیت بخش دیتی ہیں جو پڑھنے والے کے رد عمل کو مختلف راہیں تلاش کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ قاری سمجھتا ہے کہ شعر کا متقضا وہ نہیں ہے جس کی طرف اس کا ذہن منتقل ہو رہا ہے، لیکن مفہوم کے واضح ہوتے ہوئے بھی وہ نسبتاً غیرمتعلق رد عمل جو ذہن میں پیدا ہو رہے ہیں، شعر کے لطف کو دوبالا کر رہے ہیں، اس لیے وہ ان غیرمتعلق رد عمل کو بھی اپنے محسوسات میں در آنے دیتا ہے۔
میں نے اوپر کہا ہے کہ غالب اس لیے مشکل گو تھے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ ان کی فطرت میں منفرد ہونے کا تقاضا شدت سے ودیعت ہوا تھا، اس لیے انھوں نے خود کو دوسروں سے مختلف وممتاز کرنے کے لیے ایسی راہ جان بوجھ کر اختیار کی جو مذاق عام کے منافی تھی۔ گویا انھوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ مجھے دوسروں کے مقابلے میں مختلف شعر کہناہیں اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے مروجہ اسلوب کے برخلاف ایک پیچیدہ اسلوب اختیار کیا۔ محمد حسین آزاد کی تشخیص یہی ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ تشخیص اپنی منطقی انتہا تک نہیں لے جائے گئی ہے، کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ غالب نے مختلف ہونے کے لیے پیچیدہ اسلوب ہی کیوں اختیار کیا؟
میر کا دیوان ’’کم از گلشن کشمیر‘ نہیں تھا، لیکن غالب کے ہم عصر میر کو صرف اوپری دل سے خراج دیتے تھے۔ نہ ذوق کا اسلوب میر سے مستعار تھا، نہ مومن کا، نہ ناسخ کا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ غالب کا زمانہ آتے آتے لوگ میر کو بھول چکے تھے۔ شعر کی ہیئت میں میر کا سب سے بڑا کارنامہ یعنی ہندی بحروں کو اردو کے سانچے میں ڈھالنا لوگ اس درجہ فراموش کر چکے تھے کہ اس عہد کے صدہا غزل گویوں نے بھول کر بھی ان بحروں میں غزل نہیں کہی۔ (غالب نے البتہ ’’کام تمام کیا‘‘ کی زمین میں اپنے خاص رنگ کے چند شعر کہے ہیں)۔ میر کے لہجے کی اپنائیت اور احساس ہم جلیسی اب اس درجہ متروک ہو چکے تھے کہ پہلوان سخن کی بے کیف مضمون آرائیاں اور انشا کے خم ٹھونکنے کے انداز اور مومن کی زنانہ نازک خیالیاں اور ذوق کے اخلاقی مضامین، یہ سب مروج تھے، مگر میر کا کہیں پتہ نہ تھا۔
مصحفی جو اپنے دہلوی ہونے پر فخر کرتے رہے، میر کے اصل مقبوضہ علاقے میں در آنے سے ہمیشہ کتراتے رہے۔ آتش اپنی قلندرانہ رعونت کے باوجود (جو میر کے مزاج سے مشابہ ہے) لفظی اور جسمانی بازی گری کے والہ وشیدا رہے۔ ایسے عالم میں غالب کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ میر کی طرح کے شعر کہتے اور محی طرز میر کالقب حاصل کرکے نام کماتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ دہلی کے متین اور محفوظ لہجے کو ترک کرکے اپنے استاد نظیر اکبرآبادی کی ارضیت اور جسمیت پر توجہ کی جاتی۔ غالب یہ بھی نہ کر سکے۔ تیسری صورت یہ تھی کہ جرات کی چوماچاٹی میں طنزومزاح کی آمیزش کرکے اس کی چال ڈھال میں وقار اور اس طرز گفتار میں معنویت پیدا کی جاتی۔ غالب اس سے بھی معذور رہے۔
لہٰذا یہ بات مسلم ہے کہ غالب نے جان بوجھ کر ایک ایسا اسلوب اختیار کیا جو اس وقت مقبول نہیں تھا اور آج بھی بہت حد تک نامقبول ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایسا انھوں نے اس وجہ سے کیا کہ انھیں پابستگیٔ رسم ورہ عام گوارا نہ تھی۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ انھوں نے بہت سے اسالیب میں وہی ایک اسلوب کیوں اختیار کیا جو اردو شاعری کی روایت سے تقریباً قطعاً منافی تھا؟ منفرد ہونے کے اور بھی طریقے تھے۔ یہی ایک طریقہ کیوں؟
اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے یہ طرز تقلید بیدل میں اختیار کیا اور وہ اس وجہ سے کہ غالب فارسی شاعری کی روایت کے پروردہ تھے اور بیدل ایک فارسی شاعر تھے، تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر بیدل ہی کیوں؟ حافظ وسعدی و نظیری کیوں نہیں؟ غالب کے یہاں تصوف عالیہ کے اثرات پائے جاتے ہیں لہٰذا عراقی وعطار کیوں نہیں؟ خسرو کے وہ بڑے معتقد تھے، لہٰذا خسرو کیوں نہیں؟ ہندوستانی فارسی گویوں میں فیضی ممتاز تھا، لہٰذا مکتب فیضی کیوں نہ اختیار کیا؟
ان سوالات کا شافی جواب ایک ہی ممکن ہے اور وہ بھی بہت شافی نہیں ہے یعنی غالب اپنی فطرت سے مجبور تھے۔ ان کے مزاج کا خاصہ ہی یہ تھا کہ وہ ایک بلند آہنگ لہجہ اختیار کریں جس کی تعمیر میں ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کا ہاتھ ہو جو تمام دنیاوی مسائل پر محیط ہوں، لیکن جن کا جزو اعظم عام انسانوں کی دنیا نہ ہو بلکہ ایک فکری اور کشفی Visionary کیفیت ہو۔ ان ذہنی اور عقلی مشاہدوں کی مثال روشنی کی ان شعاعوں کی ہے جو کسی مشین سے برآمد ہوتی ہیں۔
وہ گرد وپیش کو تو منور کر دیتی ہیں لیکن خود مشین کو گردوپیش سے کوئی علاقہ نہیں ہوتا۔ اس مزاج کا شاعر داخل سے خارج میں نفوذ کرتا ہے لیکن خود اس کا وجود برقرار رہتا ہے۔ وہ داخل کو خارج میں ضم کرنے کے بجائے خارج سے الگ ہٹ کر اپنے وجود کو Liver کی طرح استعمال کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے خارج کی حقیقت کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے۔ یہ لا شخصیت کی ایسی انوکھی مثال ہے جس کی نظیر اردو شاعری تو کیا دنیا کی شاعری میں بھی کم ملتی ہے۔
یہاں پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب باتوں کی بنیادی اصل یہ ہے کہ چونکہ غالب نے بیدل کا مطالعہ بہت کم عمری میں کیا تھا اور ان کی زندگی کے نشو ونمائی سال Formative Years کلام بیدل ہی کی صحبت میں گزرے تھے، اس لیے کیا تعجب ہے اگر انھوں نے بیدل کا اثر قبول کیا۔ اول تو یہی بات محل نظر ہے کہ غالب نے سراسر بیدل کا اثر قبول کیا۔ لیکن دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر حقیقی شاعر اپنے اوائلی دور کے غلط یا نامتناسب اثرات سے بہت جلد آزاد ہوتا ہے۔ کیٹس نے ملٹن کی نظم معرا کا شدید اثر قبول کیا تھا، لیکن اس نے اپنی طویل نظم Hyperion اس لیے نامکمل چھوڑ دی کہ وہ اس کے خیال میں بہت زیادہ ملٹن زدہ تھی۔ اقبال نے داغ کا اثر قبول کیا لیکن چند ہی دنوں میں وہ ان سے اس طرح الگ ہو گئے کہ داغ کے زیر اثر کہی ہوئی غزلیں اب اقبال کی غزلیں معلوم ہی نہیں ہوتیں۔
بودلیئر، گوئٹے کی رومانیت سے متاثر ہوا اور اڈگر ایلن پو کے کلام سے اس کا تعارف خاصی شعوری عمر میں ہوا۔ لیکن پو کا کلام پڑھتے ہی اسے محسوس ہوا کہ وہ اب تک اندھیرے میں تھا۔ خود ہمارے عہد میں میراجی نے ترقی پسند محاورے کے برخلاف میر سے فیض حاصل کیا (ان کی غزلیں اس کی بین مثال ہیں)، لیکن انھوں نے اپنے اصلی اظہارات کو میر کی ہوا بھی نہ لگنے دی، لہٰذا صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلےگا کہ چونکہ غالب نے نوعمری میں بیدل کو بہت پڑھا تھا اس لیے وہ ان کے دل دادہ ہو گئے۔ ہم سب نے ساحر لدھیانوی کو نوعمری میں بہت پڑھا تھا، لیکن اب شاید ہی ان کا کوئی دل دادہ ہو۔
محمد حسین آزاد کی تشخیص پر اتنا اضافہ کرنے کے بعد کہنے کی ایک دو باتیں اور ہیں، تاکہ غالب کے شعری مزاج کو پہچاننے میں آسانی ہو۔ سب سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، یعنی غالب پر بیدل کا اثر۔ خامۂ بیدل کو شعری سفر میں اپنا عصا فرض کرنے کے باوجود غالب بیدل پر کلیتاً تکیہ نہیں کیے ہوئے تھے،
اسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگ بہار ایجادیٔ بیدل پسند آیا
مجھے راہ سخن میں خوف گم راہی نہیں غالب
عصائے خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا
ان اشعار اور اپنے اعترافات کے باوجود غالب کو سمجھنے کے لیے صرف بیدل کا حوالہ کافی نہیں۔ اول تو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، غالب پروپیگنڈا کے ماہر تھے۔ انھوں نے لوگوں کو برگشتہ دیکھ کر کہہ دیا کہ بھائی ہم تو بیدل کے پیروکار تھے، اب جب عقل آئی ہے تو اس سے منحرف ہوئے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہے کہ غالب بیدل سے منحرف نہیں ہوئے تو یہ بات بھی ماننا ضروری نہیں کہ وہ بیدل کے کلیتاً غلام تھے۔ بیدل کی سرشت میں ایک صوفیانہ پراسراری تھی جس سے غالب بالکل خالی نظر آتے ہیں۔ بیدل صرف شاعر نہ تھے، وہ ایک طرح کی مابعد الطبیعیات کے اگر موجد نہیں تو ماہر ضرور تھے۔ یہ ما بعد الطبیعیات علم وجود Ontology سے بھی آگے کی چیز تھی۔ 1 غالب پر عقلیت اور ہوش مندی حاوی تھی۔ بیدل اس سے تقریباً بالکل معرا تھے، لہٰذا کلام غالب کے لیے صرف کلام بیدل استعارہ نہیں ہو سکتا۔
غالب نے بیدل سے بہت کچھ سیکھا تھا، لیکن اپنے مزاج میں عملی فکر کے غالب عنصر کی وجہ سے انھوں نے جو دنیا خلق کی وہ ہمارے لیے بیدل سے زیادہ Relevant ہے۔ غالب نے بیدل سے شعر کا فن ضرور سیکھا لیکن انھوں نے بیدل کا اثر اس لیے قبول کیا کہ بیدل صائب اور عرفی سے زیادہ پیچیدہ خیال تھے۔ اگر بیدل نہ ہوتے تو غالب عرفی اور صائب کو اپنا استاد مانتے۔ شعر میں لفظ کو برتنے کا اسلوب بیدل سے سیکھ کر غالب نے اس میں اپنی ہوش مندی داخل کی۔ جن چیزوں کو وہ ’’خیالی مضامین‘‘ کہہ کر ٹال گئے ہیں، دراصل وہ اسی ہوش مندی اور عقلیت کا اظہار ہے جو بیدل کے یہاں نہیں ملتی۔
بیدل کے بلند اور دور رس طرز اظہار کو اپنانے کی ایک اور وجہ ہو سکتی ہے، غالب اردو کے ان چند بڑے شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جاگیردارانہ ماحول میں آنکھ کھولی۔ انھیں اپنے حسب ونسب پر بھی فخر بہت تھا۔ ذوق کے ہاتھ میں استرا تھا یا زیادہ سے زیادہ تلوار۔ مومن میں رئیسانہ آن بان تھی لیکن ان کا سلسلۂ نسب غالب کی طرح ممتاز و مفتخر نہ تھا۔ اقتدار و اختیار کی جس فضا میں غالب نے پرورش پائی اور جس خاندان سے وہ تعلق رکھتے تھے، اس میں شاعر کا وجود تقریباً قول محال تھا۔ لیکن ایسی فضا میں آنکھ کھولنے والا شاعر،
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
کی طرح کا شعر نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس حقیقت پر کم نقادوں کی نظر گئی ہے کہ غالب کا گھریلو ماحول اس بات کا طالب تھا (جس طرح جوش کا گھریلو ماحول بھی اس بات کا متقاضی تھا) کہ اس میں پروان چڑھنے والا شاعر قلندرانہ آزادہ روی کے بجائے شاہانہ آزادہ روی اور بلند کوشی کا حامل ہو۔ نظیر اکبرآبادی اگر جوش کے گھرانے میں جنم لیتے تو شاید وہ بھی کڑکتے گرجتے ہوئے شعر کہتے۔
غالب کی دانش ورانہ واقعیت جس میں حدود وقیود کو توڑ نکلنے کے رومانی ادا بھی ملتی ہے، ایسے ماحول کی آئینہ دار ہے جو ذہنی اور عقلی برتری کا پروردہ تھا۔ غالب کے یہاں جس ہوش مندی کی کارفرمائی ملتی ہے اس کے لیے دانش ورانہ، مبہم اور پیچیدہ اسلوب کے سوا کوئی اور اسلوب مناسب ہی نہ تھا۔ اشیاء کو تہ بہ تہ سمجھنا اور انھیں اس طرح پیش کرنا کہ ان کی تمام تہیں بہ یک وقت دکھائی دے سکیں، یہ جنون کے انداز نہیں ہیں۔ جنون (مثلاً میر کا جنون) اشیاء کی وحدت کو پہچانتا ہے، پیچیدہ حقیقتوں کو آئینہ کرکے پیش کرتا ہے۔ عقل اشیاء کی نیرنگی کو پہچانتی ہے اور سہل حقیقتوں میں بھی وہ جہتیں ڈھونڈتی ہے جو دوسروں کی نظر سے پوشیدہ تھیں۔ عقل کا اسلوب سادہ نہیں ہو سکتا۔
شاعری، اور خاص کر اردو شاعری میں جنون کو بڑا اہم مرتبہ حاصل رہا ہے۔ ارسطو نے تو شاعروں کو مجنون قرار ہی دیا تھا، شیکسپیئر نے بھی عاشق، مجنون اور شاعر کو ایک ہی صف میں رکھا تھا۔ تمام بڑے شاعر اور خاص کر تمام بڑے رومانی شاعر، کسی نہ کسی حد تک عقل کے اس غیرتوازن کے آئینہ دار ہیں جو ابتدائی شکل میں عقلی طرز افہام کی نفی کرتا اور تخئیلی یا وجدانی طرز افہام پر اصرار کرتا ہے، نیز اپنی آخری شکل میں عقلی بیوہار سے مکمل انکار کرکے باقاعدہ جنون میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ جنون اور عقل دراصل اشیاء کے افہام کے دو طریقے ہیں اور شاعری اور مابعد الطبیعیات میں جنون کو عقل پر فوقیت حاصل ہے، جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں۔
تخیل اور وجدان کی قوت پر اس اصرار کی وجہ سے جو غیرتوازن پیدا ہوتا ہے وہ اکثر شعراء کی ذاتی زندگی میں نظر آتا ہے اور اس کا اظہار لرزہ خیز وخوف آگیں بھی ہو سکتا ہے۔ بودلیئر نے اپنے روزنامچے میں ان کیفیات کا ذکر ایک انوکھی شدت اور دل ہلا دینے والی بےچینی کے ساتھ کیا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے، ’’میں نے اپنے ہسٹریا کو رونگٹے کھڑے کر دینے والے خوف اور اہتزاز کے ساتھ پالا ہے۔ اب مجھے مسلسل دوران سر کی شکایت رہتی ہے۔ آج ۲۳جنوری ۱۸۶۲ء کو مجھے ایک انوکھی طرح کا احساس ہوا۔ میں نے جنون کے بال وپر کو اپنے سر پر سے گزرتے ہوئے محسوس کیا۔‘‘ آغاز جنون سے پہلے کی ایک نظم میں وہ کہتا ہے،
ہم اسی وقت صحت مند ہوتے ہیں جب ہم زہر پیتے ہیں
یہ آگ ہمارے دماغ کے خلیوں کو اس طرح جلا ڈالتی ہے
کہ ہم چاہتے ہیں اس قعر میں غرق ہو جائیں
جنت ہو یا دوزخ؟ کسے اس کی فکر ہے؟
لامعلوم سے گزر کے ہم نئے کو پالیں گے
بلاواسطہ علم پر اس شدت کا اصرار غالب کے یہاں مفقود ہے۔ بال عنقا اور سایۂ ہما کا ذکر بار بار کرنے کے باوجود وہ شاید ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ کیٹس کو اپنے آخری دنوں میں اندھیرے سے بہت وحشت ہونے لگی تھی، اس لیے اس کا تیمار دار دوست شمعوں کو دھاگے سے اس طرح باندھ کر رکھ دیتا تھا کہ ایک بعد دوسری خود بہ خود جل اٹھے۔ ایک رات جب کیٹس کی آنکھ اچانک کھل گئی اور اس نے خود بہ خود روشن ہوتی ہوئی شمع کو دیکھا تو ایک دم پکار اٹھا، ’’جان! جان! دیکھو پریاں میری روح سلب کرنے کو آئی ہیں۔‘‘ غالب اگر یہ منظر دیکھتے تو موجۂ گل کے چراغاں کا ذکر کرتے۔ موت جس کاتذکرہ میر نے اس ذوق وشوق سے کیا ہے،
لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپاجانا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا
کچھ نہ دیکھا پھر بہ جز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
مت کر عجب جو میر ترے غم میں مر گیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا
جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر ز بس
ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
اس کی ایفائے عہد تک نہ جئے
عمر نے ہم سے بےوفائی کی
یہی موت غالب کے لیے ذہنی چلبلے پن، تازہ گفتاری اور عقلی شکست وریخت کے موقع فراہم کرتی ہے،
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائےگی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
بہار حیرت نظارہ سخت جانی ہے
حنائے پائے اجل خون کشتگاں تجھ سے
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
زمیں کو صفحۂ گلشن بنایا خوں چکانی نے
چمن بالیدنی ہا از رم نخچیر ہے پیدا
بود لیئر کی ڈائری کے تقریباً چھ مہینے پہلے یعنی ۲۳ مئی ۱۸۶۱ء کو غالب نے لکھا تھا، ’’نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی، کس برتے پرتتا پانی۔ ہائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی!‘‘ غالب کا جنون اس سے آگے کبھی نہ بڑھا۔ میر کی طرح انھیں بھی اوراق مصور کے پارہ پارہ ہونے کا غم تھا لیکن انھوں نے میر کی طرح کسی چاند میں کسی کی شکل نہ دیکھی تھی۔ دلی کا مرثیہ جو انھوں نے اس خط میں لکھا تھا، دوسروں کو رلا دیتا ہے۔ یہ وہ جنون ہے جو کثرت غم سے پیدا ہوا ہے، وہ جنون نہیں جو بودلیئر نے عقل کی نفی کرکے Delight اور Terror کے ساتھ پالا پوسا تھا۔
چنانچہ غالب کا کلام ایک ایسے ہوش مند اور تعقل کوش انسان کا کلام ہے جو کائنات کے مظاہر میں خود کو گم نہیں کر دیتا۔ ان کی تمام رومانیت بغاوت کی رومانیت ہے، لیکن رومانی ہونے کے باوجود وہ دل کو روکے رہتے ہیں، دماغ کو آگے لاتے ہیں، اس لیے ان کا کلام مشکل ہے۔ یہ اشکال پیچیدہ عبارت آرائی کا مرہون منت نہیں ہے، بلکہ ایک فکری سلسلے کی آخری کڑی ہے، جس میں وجدان ایک ایسی عقل کا تابع ہے جو ہمہ جہت ہے،
بر روئے شش جہت در آئینہ باز ہے
یاں امتیاز ناقص و کامل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا
غالب نے معشوق کو مشکل پسند کہاہے، لہٰذا دیکھنایہ ہے کہ مشکل پسندی کی تعریف انھوں نے کیا کی ہے۔ یہ بات طے کرنے کے بعد کہ غالب مشکل پسند کیوں تھے اور یہ کہنے کے بعد کہ ان کا اشکال دراصل صد جہت ابہام کا مرہون منت ہے، اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کے شعر کی وہ داخلی مشینیات کیا ہے جس کے ذریعہ سے یہ صد جہت ابہام بروئے کار آتا ہے،
شمار سجہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا
معشوق کو بہ یک کف بردن صد دل کی ادا خوش آتی ہے۔ اپنی اس ادا کو ظاہر کرنے کے لیے وہ مجرد الفاظ سے کام نہیں لیتا، بلکہ ہاتھ میں عقیق سرخ کی تسبیح لے لیتا ہے۔ گویا وہ اپنی سرشت کا استعاراتی اظہار کرتا ہے۔ یہ کہنے کے بجائے کہ میں مشکل پسند بھی ہوں اور ایک ہاتھ سے سیکڑوں دل اڑا لے جانا مجھے اچھا لگتا ہے، وہ اپنے ہاتھوں میں تسبیح لے کر بہ یک وقت دو حقائق کا اظہار کرتا ہے، اور ایسا اظہار جو بلاواسطہ الفاظ کا مرہون منت نہیں ہے۔ اس طرح استعاراتی انداز بیان مشکل پسندی کا معیار ٹھہرا۔ استعاراتی انداز بیان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ استعارہ اس حقیقت سے بڑا ہوتا ہے جس کے لیے وہ لا گیا ہوتا ہے، چنانچہ جس حقیقت کی نمائندگی کرنے کے لیے استعارہ لایا جاتا ہے، وہ حقیقت اپنے عمومی Dimension سے بڑی ہو جاتی ہے، یا اس میں کسی ایسی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے جو اس میں پہلے نہیں تھی۔
دوسرا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک استعارہ بہ یک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ اس طرح شعر کی روایتی خوبی، یعنی ایجاز تو حاصل ہوہی جاتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اکثر یہ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ دو متضاد حقائق کو ایک ہی ساتھ ظاہر کر دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر منزل یہ ہوتی ہے کہ دو متضاد حقائق کو اس طرح ظاہر کیا جائے کہ وہ دراصل ایک ہی نظر آئیں۔ بودلیئر نے رومانیت کی تعریف یوں کی تھی کہ یہ ’’محسوس کرنے کا ایک ڈھنگ ہے۔‘‘ اس پر یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ انسان کا ذہن اکثر مختلف کیفیات یا مشاہدات کو ایک ساتھ اپنے دائرے میں لے لیتا ہے، اس لیے محسوس کرنے کے اس نئے ڈھنگ کو ظاہر نے کے لیے استعارے کی زبان استعمال کرنا پڑتی ہے۔
میں نے ابھی متضاد حقائق کو ایک کرکے دکھانے کی بات کی ہے۔ ہیئت اور موضوع بھی متضاد حقائق ہیں اور استعارہ ان کو بھی ایک دوسرے میں ضم کر دیتا ہے۔ شلیگل نے ڈیڑھ سو برس پہلے کہا تھا کہ جدید ادب ’’ہیئت اور موضوع کے، بہ حیثیت ضدین آپس میں Intimate Peneteration کی کوشش کرتا ہے، جس چیز کا استعارہ کیا جائے اسے موضوع اور استعارے کو ہیئت فرض کیا جائے تو استعارے کی کارفرمائی کا عجیب عالم نظر آتا ہے۔
موجودہ شعر میں معشوق نے اپنی صد دل ستانی کا استعارہ از راہ مشکل پسندی تسبیح کو ہاتھ میں لینے سے کیا ہے۔ اس طرح تسبیح کے سرخ دانے دل کا مقام اختیار کر لیتے ہیں، جس طرح تسبیح کے دانے معشوق کی انگلیوں کے لمس سے گرمی اور حرکت پاتے ہیں، اسی طرح عاشقوں کے دلوں کو محبت کی انگشت نگاہ سے گرمی اور حرکت نصیب ہوتی ہے۔ جس طرح تسبیح کا ہر دانہ انگلیوں کی حرکت کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے تک کا سفر کرتا ہے لیکن جہاں کا تہاں رہتا ہے، اسی طرح عاشقوں کے دل اپنی تمام وحشت خیزیوں، امید وبیم، قرب وبعد کے زیر وبم کے باوجود وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ محبوب کی حنا آلودہ، سفید اور مخروطی انگلیاں تسبیح کے سرخ دانوں کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہیں جو صبح اور شفق کا ہوتا ہے۔ شفق کے خونیں ہونے کے باوجود صبح کی سفیدی کم نہیں ہوتی۔ اس طرح تسبیح کا ہاتھ میں لینا، جو استعارہ ہے، اور دل بری جو شے مشہود ہے، ایک ہی ہو جاتے ہیں۔
لہٰذا غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعارہ ہے، لیکن اس استعارے میں اس مخصوص ہوش مندی کی بھی کارفرمائی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اور جو میر کے یہاں مفقود نظر آتی ہے۔ اس ہوش مندی یعنی دانش وارانہ حاکمیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ غالب کا استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس امتزاج کو حاصل کر لیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ورنہ استعارے کا روایتی استعمال تو استعارے کو لباس کی طرح برتتا ہے جس کو شعر سے الگ بھی کر سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے استعارہ الگ کرنے سے شعر کے زور یا حسن میں کمی آ جائے، لیکن بنیادی مفہوم میں کمی نہیں آ سکتی۔
غالب کے یہاں استعارہ چونکہ الگ نہیں ہوسکتا، اس لیے الگ کرنے کی کوشش شعر کا خون کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہو جائے، لیکن اور کچھ نہیں ہاتھ آ سکتا۔ یہی غالب کے شعر کا اشکال ہے۔ ہم استعارہ الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور شعر کو تلف کر دیتے ہیں۔ اگر استعارے کو الگ کرکے صرف یوں کہا جائے کہ معشوق مشکل پسند ہے اور اسے بہ یک کف صد دل بردن کی ادا پسند ہے تو وہ تمام معنویتیں جواس عمل میں شمار سجہ نے پیدا کی ہیں، غائب ہو جائیں گی۔
استعارے کے ذریعے موضوع اور ہیئت کا امتزاج ان شاعروں نے بھی حاصل کیا ہے جو جنون کے شاعر ہیں، یعنی جن کے یہاں تخئیلی طرز افہام وآگہی کو اس درجہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دانش مندانہ تفکر کی نفی کرتے ہیں۔ میر اور فیض کی مثالیں سامنے کی ہیں۔ لیکن انوکھی بات یہ ہے کہ اس امتزاج کے باوجود ان کے یہاں استعارے کا وہ فائدہ کم کم نظر آتا ہے جس کی طرف میں نے شروع میں توجہ دلائی تھی۔ یعنی ان کا استعارہ حقیقت کو اس درجہ بڑا نہیں کر دکھاتا کہ اس میں حقائق کی کئی ایسی جہتیں نظرآنے لگیں جو پہلے ناپید تھیں۔ غالب کے ابہام کا راز اسی نکتے میں ہے اور یہ کیفیت ان کے کلام میں الفاظ کے ماورائی مفاہیم سے اس غیرمعمولی اشغال کے ذریعے پیدا ہوتی ہے جو دوسرے شاعروں کے یہاں نہیں ملتا۔ ایک شعر جو میں نے پہلے غالب کے عقلی اشغال کی مثال کے طورپر پیش کیا ہے، پھر دیکھیے،
جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
اس شعر کے استعارے کی اساس چند حقائق پر ہے جو بہ ذات خود فرضی ہیں اور چند اور حقائق کا استعارہ ہیں۔ یہ فرضی حقائق عام ہیں اور وہ حقائق بھی جن کا یہ استعارہ ہیں۔ عاشق محبوب سے محبت کرتا ہے، یہ بنیادی اور اصلی حقیقت ہے۔ اس کا استعارہ یہ ہے کہ عاشق محبوب پر جان دینے کو تیار ہے یا اس پر محبوب کے حسن کا اس قدر شدید اثر ہوتا ہے کہ اسے موت سے مشابہ کہا جا سکتا ہے۔ اس استعارے کو پلٹ دیجئے تو ظاہر ہوتا ہے کہ معشوق عاشق کی جان لیتا ہے۔ اس استعارے کو اور پھیلائیے تو ظاہر ہوتا ہے کہ معشوق کی بے رخی عاشق کو شاق گزرتی ہے اور اس کے لیے موت کے برابر ہے۔
شاعری میں یہ استعارے حقائق کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اب ان حقائق کا استعارہ یہ ہے کہ معشوق، عاشق کی موت کے لیے تلوار یا اس طرح کے دوسرے ساز وسامان رکھتا ہے اور عاشق چونکہ معشوق پر مرتا ہے اس لیے وہ اس کی تلوار سے قتل ہونے کو تیار ہے۔ قتل ہونے پر آمادگی اس شوق کا ظہار ہے جو معشوق کے لیے عاشق کے دل میں ہے اور معشوق بھی چونکہ بےرخی کا شیوہ رکھتا ہے، اس لیے اسے قتل کرنے میں کوئی عار نہیں۔
استعارہ درحقیقت بمنزلہ حقیقت ہے، اس درجے پر غالب کا شعر ظہور میں آتا ہے۔ شدت شوق وجذبہ کے عالم میں تنفس تیز ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت جنسی ہیجان کی حالت میں خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ تلوار جو ہوا میں لپ لپاتی ہوئی گردش کر رہی ہے اور عاشق کی گردن پر گرنے والی ہے، ہیجان تنفس کا منظر پیش کرتی ہے، گویا تلوار عاشق کی گردن اتار دینے کو بےچین ہے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جذبۂ بے اختیار شوق کس کا ہے؟ یہ جذبہ تلوار کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کو بےچین ہے۔
یہ عاشق کا بھی ہو سکتا ہے جو مرنے کو بےچین ہے اور اس کی بے چینی نے تلوار کو بھی متاثر کر دیا ہے۔ یہ جذبہ معشوق کا بھی ہو سکتا ہے جو گردن اڑانے کے لمحہ میں اس قدر شدید جذباتی ہیجان کا شکار ہے کہ اس کا اثر تلوار پر بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ گو حقیقت صرف اس قدر ہے کہ عاشق قتل ہونے کو تیار ہے، لیکن استعارے نے اسے اتنا بڑا کر دیا کہ اب اس میں ایسی بہت سی کیفیتیں موجود نظر آنے لگیں جو فی الواقع اس میں نہیں تھیں۔
اگر اس شعر میں فارسی یا عربی کا کوئی مغلق لفظ یا کوئی دور از کار تلمیح رکھ دی جاتی تو شعر صرف مشکل ہو جاتا لیکن یہاں عام الفاظ کے ان مفاہیم سے دل چسپی ظاہر کی گئی ہے جو فی الواقعہ ان الفاظ کے ماورا ہیں۔ ’’جذبۂ بے اختیار شوق‘‘ کی ماورائیت یہ ہے کہ اگرچہ ’’شوق‘‘ کا لفظ عاشق کے دل کا حال بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن اس جگہ اسے یوں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اگر اس معنی کی بالکل نفی نہیں کرتا تو کم سے کم دوسرے معنی کو آنے سے روکتا بھی نہیں۔ تنفس کی بے ربطی اگر غیرمعمولی جوش وشوق کی طرف اشارہ کرتی ہے تو اس کے ساتھ جنسی ہیجان کا پہلو بھی در آتا ہے جو ’’شمشیر‘‘ کے علامتی لفظ سے استحکام پاتا ہے۔
’’شمشیر‘‘ کا ماورائی مفہوم شدید جنسیت کا حامل ہے۔ اس طرح ’’شمشیر‘‘ اور ’’دم شمشیر‘‘ ایک دوسرے کے جنسی معنی کو مستحکم کر رہے ہیں۔ جنون کے خلق کردہ اشعار ان پیچیدگیوں کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ان کی مثالیں دیکھنے کے لیے تو بس شیکسپیئر ہی کے پاس جانا ہوگا۔ استعارے کو عقل سے مدغم کرنے کا یہ تیور غالب کی مشکل گوئی کی اساس ہے۔ اس کے مطالعے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اسے قصیدے اور مرثیے کے تکنیکی مشکل پن سے الگ چیز سمجھا جائے۔ غالب کا اشکال بالذات مقصود نہیں تھا بلکہ اس کا مقصود مشاہدات کی مختلف سطحوں کو یکجا کرنا تھا۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ مشکل شعر خراب ہوتا ہے اور آسان شعر خراب تر۔ آسان (یعنی مبہم کی ضد) شعر بھی اچھا اور بڑا شعر ہو سکتا ہے۔ مشکل شعر بھی اچھا ہو سکتا ہے، لیکن مبہم شعر اور مشکل شعر ہم معنی اصطلاحات نہیں ہیں۔ غالب کو مشکل گو کہہ کر ٹال دینے کے معنی یہ ہیں کہ انھیں غزل میں قصیدہ نگار فرض کیا جائے یا انہیں الفاظ کو ٹکرا ٹکرا کر زبردستی ایک بھونڈی شعری عمارت تعمیر کرنے کا مجرم ٹھہرایا جائے۔
ایلزبتھ بیرٹ براؤٹنگ نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا تھا کہ بہت سے شاعر چمکتی دھوپ میں کھڑا ہونا پسند کرتے ہیں اور بہت سوں کو تاریک گھر کی نیم روشنی اچھی لگتی ہے۔ میرا شوہر موخر الذکر میں سے تھا۔ تاریخ نے عموماً یہ فیصلہ کیا ہے کہ دھوپ میں کھڑے ہونے والوں کے شعر بہتر تھے۔ لیکن ایلزبیتھ نے ایک تیسری قسم کے شعرا کو نظرانداز کر دیا تھا۔ یعنی وہ شاعر جو تاریک گھر کی نیم روشنی میں رہتے ہیں لیکن ان کا وجود نیم روشنی کو دھوپ میں تبدیل کر دیتا ہے۔ غالب انھیں میں سے تھے۔
حاشیہ
(۱) ملاحظہ ہو، ’’چہار عنصر‘‘ از بیدل۔ ان تفصیلات کے لیے میں اپنے دوست ڈاکٹر نیر مسعود کا ممنون کرم ہوں۔
مأخذ:
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page