گلدستوں میں شعرائے اعظم گڑھ اور ان کا نادر کلام – محمد اویس سنبھلی
رابطہ:9794593055
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا شمار زود نویس مصنفین میں ہوتا ہے، مصنف، مؤلف، مرتب اور مترجم کی حیثیت سے ان کا مقام اور مرتبہ متعین ہے۔ درس وتدریس کے ساتھ قدیم متون کی جمع وترتیب اور تحقیق وتدوین ان کا پسندیدہ شغل ہے ۔وہ اپنے علمی اور تحقیقی منہج و اسلوب کے لیے جانے جاتے ہیں، ان کی کم و بیش چار درجن کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ شبلی اوردارالمصنفین ان کی تحقیق کا اصل محور و مرکز ہے۔ شبلی شناسی نے ان کی شناخت کو مزید مستحکم کیا ہے اور اب تک غالباًبیس سے زائد کتابیں علامہ شبلی نعمانی اور متعلقات شبلی پر آچکی ہیں اورآج شبلی پر کوئی بھی گفتگوان کی تحریروں کے بغیر تشنہ سی ہوگی۔
ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی نے دوسرے موضوعات پر بھی قابل قدر کام کیا ہے۔زیر نظر کتاب ’’گلدستوں میں شعرائے اعظم گڑھ اور ان کا نادر کلام‘‘ ان کی تازہ تصنیف ہے، جس میں انہوں نے بے حد عرق ریزی اور تلاش وجستجو کے بعد اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایسے شعراء کا مختصر تعارف اور نایاب کلام پیش کیا ہے، جومختلف گلدستوں میں شائع ہوئے۔اس کتاب کا انتساب برادر خرد شیخ امتیاز احمد کے نام کرتے ہوئے انہوںنے حرف آغاز میں کتاب کی اشاعت کے محرکات پر گفتگو کرنے کے بعد چالیس صفحات سے زائد پر مشتمل مقدمہ میں اعظم گڑھ کے شعری منظرنامے کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔شعرائے اعظم گڑھ کی تجزیاتی روداد کے ساتھ پہلے دور میں علامہ شبلی نعمانی کے کلام اور ان کے در دولت پر منعقد ہونے والی شعری نشستوں کا مفصل تذکرہ اور عہد شبلی کے شعراء، ان کے شعری مجموعوں اور مثنویوں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔دوسرے دور میں علامہ شبلی کے شاگردوں ، احباب کے اور ان افراد کا تعارف اور کلام کا جائزہ لیا ہے،تیسرے دور میں شبلی کے شاگرد اقبال سہیل کے ہم عصروں اور ان کے تلامذہ کا دور آیا اور بہت سے شعراء اس منظر نامہ میں آئے ، شبلی نیشنل کالج سے وابستہ اساتذہ ،شمس الرحمن فاروقی، ایم ایم زبیری، ملک زادہ منظور احمداورصبا جائسی وغیرہ اس دور کا حوالہ بنے۔ چوتھے اور آخری دور میں عہد رواں کے چند اہم شعراء کا نام اور ان کے کلام پر گفتگو رہی۔
ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی نے کتاب کے مقدمہ میں گلدستوں کی ادبی تاریخ اور صحت مند روایت پر روشنی ڈالی ہے۔غیر منقسم ہندوستان سے نکلنے والے اہم گلدستوں کے اجمالی جائزہ کے علاوہ ان پندرہ گلدستوں کا بھرپور تعارف پیش کیا ہے، جن میں شعرائے اعظم گڑھ کے کلام شائع ہوئے۔ کتاب میں شامل زیادہ تر شعراء اور ان کی غزلیں’ پیام یار‘ میں شائع ہوئیں، جو لکھنؤ سے نکلتا تھا، اس کے علاوہ دامن گل چیں لکھنؤ، آفتاب ممبئی، ارمغان ہردوئی،افتخار جاورہ،القمر مراد آباد،باغ سخن میرٹھ،جلوۂ یار میرٹھ، ریاضِ سخن لاہور، گلستان سخن رنگون،گلدستہ دامن بہار آگرہ اور محبوب الکلام حیدرآباد وغیرہ شامل ہیں۔
اس کتاب میں ان چورانوے (94) شعرائے اعظم گڑھ کے مختصر احوال اور ان کا تخلصی کلام الف بائی ترتیب کے اعتبارسے پیش کیا گیا ہے، جن کا کلام مختلف گلدستوں میں شائع ہوا، اس لیے اس میں آپ کو بہت سے نام ور افراد کا ذکر نہیں ملے گا، علاوہ ازیں ان شعراء کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے، جن کا وطن اصل اعظم گڑھ تھا ، مگر وہ ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر جابسے۔طریقۂ کار یہ رہا کہ جس شاعر کے بارے میں جس قدر معلومات دستیاب ہوسکیں، مصدری حوالے کے ساتھ یکجا کردی گئیں۔
ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی نے اس کتاب میںمتعدد ایسے شاعروں کا کلام تلاش وجستجو سے جمع کردیا ہے، جن کے اشعار،بیاض اور مسودے دست برد زمانہ کی نظر ہوگئے۔ ایسے ہی شعراء میں ایک اہم نام شعر الہند اور ایسی ہی معتبر کتابوں کے مصنف و مؤلف مولانا عبدالسلام ندوی شمیمؔ کا بھی ہے، جن کی بیاض اُن کی وفات کے بعد غائب ہوگئی اور ان کا کلام گویا ناپید ہوگیا۔ادبی دنیا شکر گزار ہے ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی، کہ انہوں نے گلدستہ ’پیام یار ‘اور ’دامن گل چیں‘ لکھنؤ سے ان کی سات غزلیں ہدیۂ قارئین کردیں اور مولانا عبدالسلام ندوی شمیم ؔ کی شعری کائنات کا عکس جمیل ان پر عیاں ہوا۔ان کی ایک شوخ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
للہ آج رُخ سے نہ پردہ اٹھائیے
کچھ یاد ہے کہ کل سر بازار کیا ہوا
اس کے بھی چومنے سے خفا ہوگئے حضور
یہ سنگ در بھی آپ کا رُخسار کیا ہوا
بیتاب ہوکے لے لیا بوسہ تو بولے وہ
حق میں میرے بلا ہوئی یہ پیار کیا ہوا
میں جی اُٹھا جو سن کے مری موت کی خبر
بولے وہ ہائے میرا وفادار کیا ہوا
(دامن گل چیںلکھنؤ، فروری 1899ء، ص 13)
اس کتاب میں صرف ایک شاعرہ بی افضل جان کا تذکرہ ملتا ہے، جو ایک مشہور طوائف تھی، ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی نے ان کا ایک شعر ’’پیام یار، لکھنؤ سے نقل کیا ہے:
نہ کیوں تم پہ ہو شیفتہ سارا عالم
قیامت ہیں بانکی ادائیں تمہاری
(پیام یارلکھنؤ، اپریل1894ء، ص 15)
اسی طرح اعظم گڑھ کے غیر مسلم شعراء میں صرف کوبیر ناتھ علوؔ کا ذکر ملتا ہے، جن کی غزل کا ایک شعر ہی منتخب ہوکر ’پیام یار‘ لکھنؤ میں شائع ہوا، ملاحظہ ہو ؎
دلوں میں تہلکہ سا پڑگیا غل مچ گیا ہر سو
ہوئے غش یار کی جلوہ نمائی دیکھ کر
گلدستوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے صفحہ 50؍پر ’’اردوئے معلی ‘‘ علی گڑھ میں حسرتؔ موہانی کے شائع ہونے والے مضمون ’’اردو زبان کے قدیم گلدستے‘‘ کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا ہے ،لیکن ’’اردوئے معلی ‘‘علی گڑھ کی بجائے ’’اردو معلی ‘‘ کانپورلکھا ہے، جو صحیح نہیں ہے ۔ حسرتؔ موہانی نے اپنے اس مضمون میں جن 18؍گلدستوں کا تذکرہ کیا ہے، اس کی فہرست ڈاکٹرمحمد الیاس الاعظمی نے اپنے مقدمہ میں نقل کی ہے۔ اس فہرست کی نقل میں بھی کئی اغلاط راہ پاگئی ہیں، مثلاً پہلے گلدستہ کا نام ’’گلدستہ شعراء لکھنؤ 1874ء ‘‘ لکھا ہے، جب کہ ’’گلدستہ شعراء‘‘ انوارالاخبار کا ضمیمہ ہوتا تھا۔حسرت ؔموہانی نے اپنے مضمون میں اسے ’’گلدستہ شعراء ضمیمہ انوارالاخبار 1874ء‘‘ لکھا ہے۔ اسی فہرست میں تیسرے نمبرپر ’’نتیجہ سخن لکھنؤ‘‘ تحریرہے ،جب کہ یہ گلدستہ کلکتہ سے شائع ہوتا تھا۔ حسرتؔ موہانی نے اپنے مضمون میں اس گلدستہ کی اشاعت کا ذکرکلکتہ کے حوالے سے ہی کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کے صفحہ 69پر قاضی محمد احمد کوئریاپاری کا ایک شعر’’پیام یار لکھنؤ‘‘ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کا سنہ اشاعت 1892کی بجائے 1992لکھا گیا ہے۔صفحہ 172؍ پر خیالی ؔمبارک پوری کی تیسری غزل جو ’پیام یار‘ ہی کے حوالے سے نقل کی گئی ہے ، اس میں بھی سنہ اشاعت 1895کی جگہ 1995 درج ہے۔ ایسا ہی کوبیر ناتھ علوؔ کے تذکرہ میں ہوا کہ 1896کی جگہ 1996لکھ دیا گیا ہے۔کتاب کے صفحہ 295پر مولوی محبوب الرحمن کلیمؔ کی چھٹی غزل کے حوالے میں بھی یہی غلطی دہرائی گئی ہے اور 1892کی جگہ 1992لکھا گیاہے۔
ان تسامحات کی طرف توجہ دلانا اس لیے ضروری تصور کیا گیا کہ ایک بڑے محقق کی تحریر استناد کا مرتبہ رکھتی ہے اور اس کے مندرجات حوالہ بن جاتے ہیں، اسی لیے ان کی نشان دہی کردی گئی۔اس کتاب میں جگہ جگہ ٹائپنگ؍ کمپوزنگ کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں،جو ایک اچھی کتاب میں نہیں ہونی چاہئیں۔
ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ نہایت تلاش وجستجو اور تحقیق کے بعد اردو گلدستوں کے تناظر میںشعرائے اعظم گڑھ کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے، جس میں تحقیق کا سودا رکھنے والوں کے لیے بہت سے اشارے موجود ہیں، جن پرمزید کام کرنے کی ضرورت اور گنجائش ہے۔کتاب کے آخر میں’ کتابیات‘ بھی شامل ہے،جو مصنف کی تحقیقی کاوش اورژرف نگاہی کی حکایت بیان کرتی ہے۔ہمیں اُمید ہے کہ اعظم گڑھ کے ادبی وشعری منظرنامہ کو سمجھنے میں یہ کتاب سنگ میل ثابت ہوگی اور اسے ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوگی۔
ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی کی یہ تصنیف 360 صفحات پر مشتمل ہے اورفخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔قیمت 400؍روپئے ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے ’’ادبی دائرہ، اعظم گڑھ‘‘ (موبائل نمبر: 9838573645) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page