ڈاکٹر شاہد حبیب
(مدیرِ اعزازی، سہ ماہی ادبی نشیمن ، لکھنؤ۔ موبائل: 8539054888)
دہلی اردو اکادمی کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک فعال اور متحرک ادارے کا تصور ابھرتا ہے۔ اس کے مسلسل ہونے والے متنوع اور معیاری پروگراموں نے اردو والوں کے ذہن میں ایک خاص جگہ بنائی ہے۔ اس لیے جب جب راقم کے لیے ممکن ہوتا ہے تو اکادمی کے پروگراموں میں شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب سوشل میڈیا کےمختلف فارمس کے توسط سے۱۶ ستمبر سے ۲۰ ستمبر تک چلنے والے اکادمی کے ۳۴ ویں” اردو ڈراما فیسٹیول“ کی خبر ملی تو دہلی میں موجود ہونے کے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے احباب کے ساتھ شرکت کا فیصلہ کر لیا۔ جب ۱۶ ستمبر کی تاریخ آئی اور چلنے کا وقت ہوا توافسوس ایک ایک کر کے سبھی احباب نے مختلف عذر پیش کر کے عدمِ شرکت کی راہ اپنالی ۔راقم کئی ڈراموں کو”بُک مائی شو“ جیسے پلیٹ فارموں کی مدد سےمہنگے ٹکٹ خرید کر دیکھ چکا تھا تومفت ہاتھ آرہے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ بادلِ نا خواستہ تنہا شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ نیورو لنگوسٹک پروگرام (NLP) کے ایک ورکشاپ میں ٹرینر کی کہی ہوئی یہ بات یاد آئی کہ ”زندگی ایسے جیو کہ اداکاری کر رہے ہو اور اداکاری ایسے کرو کہ گویا زندگی جی رہے ہو، اگر آپ ایسا کر لے گئے تو یقیناََ زندگی سے آپ کی بہت سی شکایتیںختم ہو جائیں گی اور آپ زندگی میں بہت آگے تک پہنچیں گے “۔ ٹرینر کے اس قول کو یاد کرکے یہ خیال آیا کہ ایک بار پھر سے دیکھا جائے کہ منڈی ہاؤس جیسے رنگ منچ کے ہَب سے وابستہ اداکار کس سطح کی اداکاری کر ہے ہیں اور ہم ان کی اداکاری کو اپنی زندگی میں کس قدر برتنے کا تجربہ کر سکتے ہیں، اس کا جائزہ لیا جائے۔ چنانچہ فیسٹیول کے مقام شری رام سینٹر آف پرفارمنگ آرٹس ، منڈی ہاؤس کے آڈیٹوریم کی طرف نکل پڑا۔ وہاں پہنچا تو شیشے کاگیٹ مقفل ملا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ابھی وقت نہیں ہوا ہے اس لیے مہمانوں کو باہر کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑ رہاہے۔ کئی بزرگ حضرات نے گزارش کی کہ باہر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے، اندر آنے کی اجازت دی جائے لیکن منتظمین نے ایک نہ سنی اور ساڑھے چھ بجے ہی گیٹ کھولے جانے کی بات دوہرائی۔ بہرحال چار وناچار ہم بھی باہر کھڑے ہو کر انتظار کرنے لگے۔ ہمارے سامنے ہی سیفٹی ڈیٹکٹر مشین وغیرہ لگائی گئی اور سیکوریٹی کے عملے نے اپنی پوزیشن سنبھالی۔ اس نے سارا کچھ سیٹ اپ کر کے جب اطمینان کر لیا تو دروازہ کھولا گیا۔شائقین اچھی سیٹ کے لیے دوڑ لگاتے ہوئے دیکھے گئے۔ لیکن یہ کیا، آڈیٹوریم کے اندر والا دروازہ تو ابھی بھی نہیں کھلا، وہ بند ملا۔ وہاں پر پھر سے قطار لگ گئی۔ وہاں ہم کھڑے ہو کر انتظار کر ہی رہے تھےکہ اندر کی طرف ایک دوسرے دروازے پر استادِ محترم پروفیسر شہپر رسول صاحب(نو منتخب وائس چیئرمین، دہلی اردو اکادمی) نظر آئے۔ وہ دروازے سے اندر آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سیکوریٹی کا عملہ انھیں روک رہا ہے کہ آپ باہر والے دروازے سے جائیں۔ انھوں نے اپنا تعارف کرانے کی کوشش کی لیکن سیکوریٹی عملہ نہیں سن رہا۔ پروفیسر شہپر صاحب فون نکال کر کال لگانے لگے۔ یہ دیکھ کر میں نےراہ روک کر کھڑے اردو اکادمی کے عملہ کو اس طرف اشارہ کیا تو انھوں نے فوراََ جا کر سیکوریٹی عملہ سے بات کر کے انھیں باعزت طریقے سے اندر لایا۔ بہرحال ہم ساڑھے چھ بجے آڈیٹوریم پہنچے۔ تقریباََ پانچ منٹ کے انتظار کےبعدایک کھنک دار آواز گونجی ”خواتین و حضرات!“ یہ آواز تھی مشہور ناظمہ اور اینکر محترمہ ریشماں فاروقی صاحبہ کی۔ انھوں نے مختصر ابتدائیہ کے ساتھ حاضرین کا استقبال کیا اور آج پیش ہونے والے ڈرامے کا تعارف کراتے ہوئے پرفیسر شہپر رسول صاحب کو باضابطہ استقبال کے لیے مدعو کیا۔ پروفیسر شہپر صاحب نے موقع کی نزاکت کو جان کر تین چار منٹ میں اپنے استقبالیہ کلمات کو اختتام تک پہنچایا۔ پھر ایک تیز گھنٹی بجنے کی آواز آئی اور پردہ ہٹنا شروع ہوا۔ غالب کی شخصیت و فن پر مبنی پروفیسر صادق کا تحریر کردہ ڈراما ”فریبِ ہستی“ ڈراما فیسٹیول کے پہلے دن سکشم سوسائٹی آف آرٹ کلچر کے ذریعے جناب سنیل راوت کی ہدایت میں پیش ہونا تھا۔ پیشکش شروع ہوئی تو نوجوان اداکار جناب رتیش یادو غالب کے کردار میں بالکل غالب کے ہمزاد معلوم ہو رہے تھے۔ زبان، انداز، تلفظ اور کاسٹیوم سبھی کچھ دلوں کو مسحور کر رہا تھا۔ جب چترا سنگھ کی آواز میں غالب کی مشہور غزل ”یہ نہ تھی ہماری قسمت“ کانوں تک پہنچی اور اس پر کتھک کی پیشکش ہونے لگی تو اگلے شعر پر لوگوں کے ہاتھ خود بخود موبائل تک پہنچ گئے اور ویڈیو ریکارڈ ہونے شروع ہو گئے۔ دو گھنٹے میں غالب کی شخصیت کے مکمل احاطے کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا اور اس طرح کی کوشش تو ظاہر ہے کارِ عبث ہی ٹھہرے گی۔ لیکن ایک عرصے تک غالب انسٹی ٹیوٹ کے ”ہم سب ڈرامہ گروپ“ کی پیشکش ”غالب کی واپسی“نے ڈراما شائقین کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کر رکھی تھی۔ پروفیسر صادق کے اس ڈرامے کے اختتام پر یہ محسوس کیا گیا کہ اس کی اسکرپٹ میں غالب پر ہوئے اعتراضات کے جوابات زیادہ حاوی ہیں۔ ڈرامے کے نام اور اس کے آغاز سے بالکل واضح نہیں ہو رہا تھا کہ ڈراما غالب کی شخصیت پر مبنی ہے۔ لیکن جیسے جیسے پلاٹ آگے بڑھا اپنے سحر میں جکڑتا چلا گیا اور آخر تک ناظرین کو اپنی شاندار پیشکش سے جوڑے رکھا۔ امید ہے کہ آگے چل کر اس ڈرامے کو بھی غالب پر مبنی نمائندہ ڈراموں میں شمار کیا جائے گا۔
اگلے دن یعنی ۱۷ ستمبر کو پھر سے وقت مقررہ پر پہنچا تو ”ہنگامہ ہے کیوں برپا“ نامی ڈراما آج پیش ہونا ہے۔ پیشکش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ دراصل اکبر الہٰ آبادی کی زندگی پر مبنی ہے ۔ ڈراما اکبر الٰہ آبادی کی شاعرانہ خوبیوں کو طنز ومزاح کے پیرائے میںپیش کرنے میں کامیاب رہا۔ ان کی کئی غزلوں کو معروف موسیقاروں نے اپنی آواز دی ہے۔ اسٹیج پر بیک گراؤنڈ آواز کے ساتھ جب ان کی غزل ”بازار سے گزرا ہوں ، خریدار نہیں ہوں“ کی تال پر ایک حسینہ نے رقص کرنا شروع کیا تو پورا ہال ہمہ تن گوش ہو گیا اور مزاح کے ماحول سے نکل کر یک بیک سب سنجیدہ ہو گئے۔ ڈرامے کو جناب سید اعجاز حسین نے تحریر کیا ہے اور ہدایت کارتھے جناب احد خان صاحب۔ ان کی کامیاب رہنمائی میں” فیڈ ان فیڈ آؤٹ ڈراما گروپ“نے بڑی ہی ریلسٹک اور اوریجنل پیشکش دی،اس قدر کہ مرکزی کردار ادا کرنے والے جناب فہد خان اپنے طور طریقے، آؤ بھاؤ اور وضع قطع سے بالکل اکبر الٰہ آبادی ہی معلوم ہو رہے تھے۔ ان کی اس کوشش کو سلام پیش کرنے کے لیے ڈرامے کے اختتام پر ناچیز نے اسٹیج پر پہنچ کر ان سے ملاقات کی، اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور یادگار کے لیے ان کے ساتھ تصویر بھی اتروائی۔ ہال سے نکلتے ہوئے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ”شکریہ دہلی اردو اکادمی ایک اور خوبصورت شام کے انعقاد کے لیے“۔
ڈراما فیسٹیول کے تیسرے دن ”کریٹیو اڈّا ڈراما گروپ“نے جناب جاوید سمیر کی ہدایت میں”سرابِ تمنا“ کے نام سے ایک چشم کشا ڈراما پیش کیا۔ جاوید سمیر خود ڈرامے کے پہلے حصے میں مرکزی کردار میں نظر آئے اور اپنی فطری اداکاری کے جوہر دکھا کر ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ روسی افسانہ نویس اور ڈراما نگار انتون چیخوف (1904-1860) کی دو تحریروں (دی سیڈکشن اور بینک مینیجر) کو اردو کی معروف افسانہ نویس، شاعرہ اور ڈراما نگار محترمہ بلقیس ظفیر الحسن صاحبہ نے ”سرابِ تمنا“ کے نام سے اردو میں منتقل کیا۔ ترجمے پر تخلیق کا رنگ غالب تھا اور ہندوستانی پس منظر پر مشتمل تھا۔ اس کے پہلے حصے میں عشق باز سمیر بخشی شہوانی جذبات سے مغلوب ہو کر دوسروں کی بیویوں کو بہکا کر اپنی جال میں پھنساتا ہے لیکن جب اپنے ایک قریبی دوست کی بیوی کو اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ہے تو آخری وقت میں اس کی محبوبہ کہتی ہے کہ اگر تم میرا جسم چاہتے ہو تو میری بانہوں میں آ جاؤ لیکن اگر تم سچے دل سے محبت کرتے ہو تو میری طرف پیٹھ کر لو تاکہ تمہاری محبت کو اپنے دل میں بٹھا کر اپنے محبوب شوہر کے پاس سکون سے لوٹ جاؤں۔ یہ سن کر سمیر بخشی کی پوری ہوتی ہوئی تمنا مانندِ سراب بکھر جاتی ہے لیکن جب اسے حقیقت کی دنیا کا اعتراف ہوتا ہے تو وہ دوسرے راستے کو چن لیتا ہے اور ہمیشہ کے لیےاپنی محبوبہ کے دل میں جگہ بنانے کا فیصلہ کر لیتا۔ اسی طرح دوسرے حصے میں ایک بینک مینیجر ایک بے سہارا عورت کی بینک میں آمد کی خبر سن کر امید بھرے جذبات کے ساتھ اپنے دفتر میں آنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن جب وہ اپنے بے جا مطالبات کی فہرست پیش کرنا شروع کر دیتی ہے تو بینک مینیجرسوچتا ہے کہ کسی بھی طرح یہ عورت اس کی جان چھوڑے۔ پھر اپنے اسسٹنٹ کو بلا کر اس کے مالی مطالبات پورے کرنے کی ہدایت دینے پر مجبور ہوتا ہے ۔ یہاں پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے دل میں جو بھی تمنا تھی وہ محض ایک سراب تھی۔ اس طرح یہ ڈراما ناظرین کے لیے سبق آموز اور حکمت و موعظت سے بھرپور تھا۔ اردو دنیا کو محترمہ بلقیس ظفیر الحسن صاحبہ کا ممنون ہونا چاہئے کہ ان کی ژرف نگاہی نے اردو میں ایک بہترین فن پارے کو منتقل کر کے اس کے سرمایے کو ثروت مند کیا ہے۔ اس سے قبل محترمہ کے طبع زاد اور ترجمہ کردہ ڈراموں کا ایک مجموعہ ”تماشا کرے کوئی“ کے نام سے 2012 میں اور ”بےبس عورت“ کے نام سے دوسرا مجموعہ حال ہی میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔ غور طلب ہے کہ محترمہ بلقیس ظفیر الحسن نے ایک انٹرویو میں بڑی ہی حیرت انگیز وضاحت کی ہے کہ ان کی کوئی فارمل تعلیم نہیں ہوئی ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی بھی ڈگری نہیں ہے۔ لیکن ان کی بیٹی محترمہ نغمہ صاحبہ ذاکر حسین کالج (دہلی یونیورسٹی) میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے کر دو سال قبل وظیفہ یاب ہو چکی ہیں۔ اس سے محترمہ بلقیس ظفیر الحسن صاحبہ کی تعلیم و تربیت سے گہرے شغف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈراما فیسٹیول کے چوتھے دن یعنی ۱۹ ستمبر کو ہنرک اِبسن کا تحریر کردہ اور پروفیسر محمد کاظم کا مترجمہ ڈراما ”ایک خوبصورت عورت“ پیش ہونا تھا۔ اس ڈرامے کا بہت پہلے سے انتظار تھا تو وقت سے ذرا پہلے پہنچنے کی کوشش کی۔ اسےپروفیسر محمد کاظم کا ایک اور کمال ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے اس اہم ڈرامے کو اردو دنیا سے متعارف کرایا۔ نارویجین ڈراما نگار اور تھیئٹر ڈائریکٹر جناب ہنرِک جان اِبسن (1906-1828) کا شمار ماڈرن تھیئٹر کے بانیوں میں ہوتا ہے اور انھیں رِیَلزم کی تھیوری کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 1890 میں ہیڈا گیبلر((Hedda Gabler نام سے ایک خودسر، جذباتی، لبرل اور حسین دوشیزہ جو شادی کر کے شوہر کے تابع نہیں ہونا چاہتی تھی، کی زندگی کے نشیب و فراز کو سپردِ قلم کیا جسے کلاسک ٹریجڈی ڈراما کے طور پر اس وقت پہچان ملی جب اسے پہلی بار 31 جنوری 1891 میں میونخ (جرمنی) میں اسٹیج کیا گیا۔ مشرق میں کامیڈی واقعات کا تو مغرب میں ٹریجڈی کا چلن زیادہ رہا ہے، اس لیے یوروپ و امریکہ میں اسے غیر معمولی مقبولیت ملی اور تمام بڑے پلیٹ فارم پر اسے اسٹیج کیا جانے لگا۔ اتنا ہی نہیں اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہالی ووڈ نے متعدد بار بڑے پردے پر بھی اسے اُکیرا۔ اس کے اعترافات کے بار (Bar) کو دیکھ کر ہالی ووڈ کی اداکاراؤں میں ایک ہوڑ سی مچ گئی کہ اس کے مرکزی کردار کا رول کرنے کا موقع اسے مل جائے۔ چنانچہ کلارے بلوم، ازابیلا ہَپرٹ اور اناٹے بیننگ سمیت تین درجن سے زائد ہالی ووڈ کی معروف حسین اداکاراؤں کو اس کردار کو نبھانے کا اعزاز حاصل ہوا اور آفاقی شہرت و مقبولیت کی مستحق ٹھہریں۔ یہ ڈراما چونکہ انگریزی ادبیات کے نصاب کا حصہ ہے اس لیے طلبہ کی سہولت کے لیے اردو سمیت ہر زبان میں اس کا تفہیمی مواد یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے لیکن بطورِ ڈراما اس کا تخلیقی ترجمہ اب تک ہماری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ اردو دنیا کو پروفیسر محمد کاظم کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کے گُہر بار قلم نے اس شہرۂ آفاق ٹریجڈی ڈرامے کا فنی ترجمہ ان کے سامنے ”ایک خوبصورت عورت“ کے نام سے پیش کیا اور انھیں عالمی ادبیات میں کلاسک کا درجہ حاصل کر چکے ایک فن پارے سے کما حقہ واقف کرایا۔
ہنرک اِبسن کے تحریر کردہ اور پروفیسر محمد کاظم کے مترجمہ اس شاہکار کو جناب اروند سنگھ کی ہدایت میں ”سوموکھا ڈراما گروپ“ نے کامیاب طریقے سے پیش کیا۔ ڈرامے میں ہیڈا گیبلر کا کردار ادا کرنے والی حسینہ پوجا دھیانی نے اپنے کردار سے پورا پورا انصاف کیا اور اردو کے تلفظ کی صحیح ادائیگی کر کے جی خوش بھی کر دیا۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مشرق میں کامیڈی کا چلن زیادہ رہا ہے، اس لیے یہ ٹریجڈی ڈراما بھی یہاں اسی طبیعت کا شکار ہوا۔ مشرق میں ٹریجڈی کہانیوں سے لوگ جلدی جُڑ نہیں پاتے تو یہاں بھی ہال کی نشستیں گزشتہ دنوں کے مقابلے میں خالی رہیں اور پیشکش کے بیچ سے لوگوں کو باہر جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ حالانکہ چار ایکٹ پر مشتمل یہ ڈراما اپنے انجام کے لحاظ سے ان اشخاص اور بطورِ خاص دوشیزاؤں کے لیے ایک آئینہ ہے جو خود سری، انا پروری، خاندانی جاہ و حشم یا اپنے کسی کمال کے زعم میں دوسروں کو خاطر میں نہیں لاتیں، یہاں تک کہ شادی جیسی بنیادی اور سماجی ضرورت کی اہمیت کوبھی نہیں سمجھتیں اور فطرت سے بغاوت کی راہ اپناتی ہیں۔ ڈرامے میں مرکزی کردار ہیڈا گیبلر ان ہی سوچ کی حامل ہے اور ان ہی راہوں پر چل کر مایوس ہو کر آخر میں شادی تو کرلیتی ہے لیکن اپنے من پسند کا شوہرنہ پاکر پھر سے معاشقے کے دلدل میں پھنس جاتی ہے اور انجامِ کار خودکشی کے راستے اپنی جان لے کر اس کی قیمت چکاتی ہے۔ اس طرح یہ ڈراما ہر خاص و عام کے لیے ایک سبق ہے۔ مغرب میں اس کے کلاسک کا درجہ حاصل ہونے میں اس کے اس پیامی حیثیت کا بھی بڑا دخل ہے۔ شاید اس کے اسی افادی پہلو کی وجہ سے پروفیسر محمد کاظم نے اس کو اردو میں منتقل کرنا ضروری سمجھا۔ کیونکہ آج ہمارے اردو معاشرے میں بھی ہیڈا گیبلر جیسی سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ انھیں اس طرح کی فکر کے نتائج سے آگاہ کرنا بھی ضروری تھا۔ ادب پڑھنے کا فائدہ تو یہی ہے کہ اس کی بدولت قاری، سامع و ناظر کتھارسس کے عمل سے گزر کر کامیاب زندگی کی طرف گامزن ہونے کی راہ کو سمجھ پاتا ہے۔ بہرحال جن شائقین کو ہیڈا گیبلر کی پوری کہانی جاننی ہو یاپورا ڈراما ملاحظہ کرنا ہو ، وہ یوٹیوب پر Hedda Gabler سرچ کر کے اسے ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
ڈراما فیسٹیول کے پانچویں اور آخری دن (۲۰ ستمبر کو) جناب راج نارائن دکشت کی ہدایت میں ”پرستاؤ ڈراما گروپ“ کی کاوش ڈرامہ ”بے لباس“ پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کے تخلیق کار ہیں جناب عزیز قریشی صاحب۔ سماج میں بدلتے قدروں کو موضوع بناکر ڈرامے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح ہمارا عہد اخلاقی حدوں کو روند کر بے لباس ہوتا جا رہا ہے۔ فن کاروں نے چار چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے توسط ان حالات کی وضاحت کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ کس طرح ایسی چیزیں ہمارے عہد میں گھٹ رہی ہیں جو نہیں گھٹنی چاہئے تھی۔
سب سے پہلی کہانی میں گھر کی ملازمہ کو مالدار باپ کا بگڑیل بیٹا اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے اور اسے چپ رہنے کے لیے کچھ پیسے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ملازمہ پیسے لینے سے انکار کر دیتی ہے اور اس گھر کی ملازمت بھی چھوڑ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔
دوسری کہانی میں ایک بڑا بزنس مین اپنی کمپنی کے کام سے دوسرے شہر جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ اپنی رات کو رنگین بنانے کے لیے کال گرل منگواتا ہے۔ اس کی گھریلو زندگی بہت زیادہ پر سکون نہیں ہوتی ہے، اس کی بیٹی ایک بڑے کالج میں زیر تعلیم ہے۔ وقفے وقفے سے وہ اسے ضرورت کے لیے پیسے بھی بھیجتا ہے لیکن بیٹی کی فیشن ایبل زندگی کے اخراجات کے لیے وہ ناکافی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ سہیلیوں کی دیکھا دیکھی کال گرل بننے کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اور جب اس کا بزنس مین باپ کال گرل بُک کرتا ہے تو انجانے میں ہی وہ خود وہاں پہنچ جاتی ہے۔ ہوٹل پہنچ کر باپ بیٹی کا آمنا سامنا ہوتا ہے، اس طرح دونوں پر ایک دوسرے کی بے دردانہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے اب بے لباس ہو چکے ہیں۔
تیسری کہانی میں شراب کی لت کا شکار ایک مفلوک الحال مکان مالک اپنے کرایے دار کے پاس اپنی بیٹی کو کچھ پیسے کے لیے بھیجتا ہے۔ بیٹی ہمت کر کے کئی بہانے بنا کر اسے اعتماد میں لیتی ہے اور کرایہ دار قرض سمجھ کر کچھ روپے اسے دے دیتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے قرض کا یہ مطالبہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، وہ اپنی شرافت میں کچھ نہ کچھ دے دلا کر اس سے چھٹکارے کی ترکیب نکالتا رہتا ہے۔ لیکن جب اس نے ایک دن صرف پچاس روپے دے کر ٹرخا دیا تو شرابی باپ کا تحمل جواب دے جاتا ہے اور غصے میں وہ اپنے کرایہ دار کے دروازے کو کھٹکھٹا کر کہتا ہے کہ ”رکھو اپنے پچاس روپے۔ کیا میں نے پچاس روپے کے لیے تمہارے پاس اپنی بیٹی کو بھیجا تھا! بد تہذیب، نامرد کہیں کے“ ۔ اس کی زبان سے یہ سب سننے کے بعد کرایے دار پر واضح ہوتا ہے کہ دراصل دھندے کے لیے وہ اپنی بیٹی کو بھیجتا رہا ہے۔
چوتھی کہانی میں آفس میں باس اپنی پرسنل سکریٹری کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن وہ لڑکی خود اعتمادی میں ڈوبی ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنی خودداری اور عزت نفس کا خیال کر کے خود کو اس کا شکار بننے سے بچا لیتی ہے اور باس کو کھلے لفظوں میں ”نہ“ بول کر اپنے گھر چلی جاتی ہے۔ جب وہ جانے لگتی ہے تو باس غصے میں آپا کھو کر اسے کل سے آفس آنے سے منع کر دیتا ہے۔ اپنے آشیانے پر پہنچ کر یہ ساری روداد جب وہ اپنی سہیلی کو سناتی ہے تو اس کی سہیلی اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے اس کے خاندانی حالات یاد دلاتی ہے اور جاب کی ضرورت اس پر واضح کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پیسوں کی اسے کس قدر حاجت ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ مخصوص انداز میں ایک شعر پڑھتی ہے:
مفلسی پاس لاتی ہے انسان کو حیوان سے
کمبخت مسلسل ہو تو کافر بھی بنا دیتی ہے
یہ سب سن کر وہ لڑکی اپنے باس کی بانہوں میں جھولنے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اُس وقت تک باس کا مزاج بدل چکا ہوتا ہے۔ وہ باس کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس بار باس اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا اور کہتا ہے کہ آپ جیسی بے ہودہ اور بد چلن عورت کے لیے آفس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ کل سے آفس نہ آئیں۔ یہاں پر ناظرین کے سامنے ایک سوال قائم ہو جاتا ہے کہ آخر کس کردار کے ساتھ اس کی ہمدردی ہونی چاہیے، باس یا پرسنل سیکرٹری؟ ڈرامے کا راوی کہتا ہے کہ زندگی میں کچھ ایسے بھی لمحے آتے ہیں جب لوگ بے لباس بھی ہو جاتے ہیں لیکن فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس نے صحیح کیا یا غلط۔ زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لیے کبھی کبھی ضروری ہو جاتا ہے اسے اَن سلجھا ہی چھوڑ دیا جائے ۔ اسی پیغام کے ساتھ ڈراما اختتام پذیر ہوتا ہے۔
چونکہ آج دہلی اردو اکادمی کے 34ویں اردو ڈراما فیسٹیول کا آخری دن تھا تو اردو اکادمی کے وائس چیئرمین استادِ محترم پروفیسر شہپر رسول صاحب نے تمام ناظرین اور فن کاروں کا شکریہ ادا کیا اور اگلے سال پھر بڑی تیاری کے ساتھ دوبارہ حاضر ہونے کے وعدے کے ساتھ فیسٹیول کے اختتام کا اعلان کیا۔ آج کے پروگرام کی نظامت بڑے بھائی ڈاکٹر جاوید حسن (استاد شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اپنے منفرد انداز میں کی۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page