مانو لکھنؤکیمپس میں ہارون شامی کے مجموعہ کلام ’بازگشت ‘کی رسم رونمائی
لکھنؤ۔۳،مارچ ۲۰۲۳
ہارون شامی کی غزلیں خارجی حسن و جمال سے زیادہ داخلی کمال کی جمالیات پر محیط ذہن جدید اور نئی صورت حال کا حزنیہ ہیں ۔امید ہے کہ اس مجموعے کی اشاعت سے اردوادب کی سنجیدگی اور وقار میں اضافہ ہوگا ۔ان خیالا ت کا اظہارپروفیسر عباس رضا نیر نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ہارون شامی کے مجموعہ کلام کی رسم رونمائی کے موقع پر صدارتی خطاب کے دوران کیا ۔لکھنؤ کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب صاحبہ نے مہمانوں اور حاضرین کا خیر مقدم کیا ۔ڈاکٹرعمیر منظر نے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔تقریب اجرا کا آغازکیمپس کے طالب علم محمد عاصم نے قرآن پاک کی تلاوت سے کیا ۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسر عباس رضا نیر نے کہا کہ شامی کا یہ مجموعہ کلام جدید احساسات کا حامل ایسا ادبی نمونہ ہے جو اپنے عہد کے انسان کو ماضی کے آئینے میں موجودہ صورت حال سے روبر و کراتا ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہارون شامی کی شاعری عام انسانی ذہن کے رویوں اور بدلتی ہوئی فکر کا منظرنامہ بھی ہے ۔
ڈ اکٹر عصمت ملیح آبادی نے کہا کہ ہارون شامی معتدل شخصیت کے مالک ہیں ۔انھوں نے کہا یہ مجموعہ کلاسیکیت اور رومانیت دونوں کا امتزاج ہے ۔ ان کی شاعری میں رومانیت کے خوب جلوے ہیں۔
ڈاکٹر ہما یعقوب نے کہا کہ بازگشت میں انسانی تجربے اور مشاہدے کی ایک کہکشاں ہے۔ نیز اپنے عہد کے مسائل کو جس خوبصورتی سے ہارون شامی نے شعری پیکر عطا کیا ہے یہ انہیں کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر مجاہدالاسلام نے بازگشت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاعر نے حیات سے لے کر ممات تک جو بھی مشاغل ہیں سب پر طبع آزمائی کی ہے۔ شامی کی شاعری میں جہاں ایک طرف خوش سلیقگی ہے وہیں ان کے ہجریہ بیانیہ سے قوت مشاہدہ کا اظہار ہوتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ انھیں قوت بیان کے اعتبار سے ایک قادرالکلام شاعر کہا جاسکتا ہے۔
جناب پرویز ملک زادہ نے کہا کہ ہارون شامی کی شاعری کئی پہلوؤں سے متاثر کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف وہ بہت اچھے شاعر ہیں وہیں ایک بلندپایہ انسان بھی ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن وعشق اور کائنات کے ذکر خوبصورتی کے ساتھ ملتے ہیں۔
ڈاکٹرعمیر منظر نے کہا کہ ’بازگشت ‘کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہارون شامی شعری ہنر مندیوں کو بروئے کار لانے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں میں جہاں ایک طرف روایتی مضامین باندھے گئے ہیں تو دوسری طرف جدت کے نمونے بھی کم نہیں ہیں۔ عمیر منظر کے بقول ہارون شامی کا انداز بیان سادہ اور عام فہم ہے ۔
ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے کہا کہ دورحاضر میں شعرا کی بھیڑ میں ہارون شامی کی آواز منفردنظر آتی ہے ۔وہ حوادث زمانہ پر ہوش و حواس نہیں کھوتے اور نہ چیخ و پکار کرتے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ ہارون شامی اپنی ذات کے نہاں خانے میں اپنے فن کو تحلیل کرتے ہیں اور غور و فکر کے نتیجے میں حاصل آگہی کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں ۔کیمپس کے ریسرچ اسکالر مجتبی حسن صدیقی نے ہارون شامی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہارون شامی سادگی میں بھی فن کاری کو نبھانا خوب جانتے ہیں ۔وہ اپنے شعری اقدار کی نہ صرف پاس داری کرتے ہیں ۔وہ ایک اصول پسند انسان ہیں اور اسی لیے کسی بھی مسئلہ پر سرسری نگاہ نہیں ڈالتے ۔
اس موقع پر ڈاکٹر ثروت تقی ،جناب قدوس ہاشمی ،جناب خالد فتح پوری ،انجینئر انوار خاں ،محترمہ طاہرہ صدیقی ، راجیو پرکاش ساحر، ڈاکٹر احتشام خاں ،ڈاکٹر رضو ا ن الرضا ،ڈاکٹر عزیز احمد خاں وغیرہ موجود تھے ۔کیمپس کے اساتذہ ،مانو لکھنؤکیمپس اور لکھنؤ یونی ورسٹی شعبہ اردو کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوئے ۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page