لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے اور رسالوں کے توسط سے ادبی دنیا میں اپنا اعتبار قائم کرنے والے رباب رشیدی شعرو ادب نہایت اعلی ذوق رکھتے تھے۔نعت، غزل ،نظم اور رباعی کے قادرالکلام شاعر تھے ۔اس زمانے میں وہ لکھنوی تہذیب کی نمایندہ شخصیت تھے ۔ان سے مل کر عجیب مسرت اور سرشاری کا احساس ہوتا تھا ۔افسوس کہ پنجشنبہ۶؍اکتوبر ۲۰۲۲ء کوان کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔عشاء کی نماز کے بعد عیش باغ قبرستان، لکھنؤ میں تدفین ہوئی۔
رباب رشیدی قصبہ پووایاں ضلع شاہ جہانپور میں ۱۰؍جنوری ۱۹۴۰ء کو ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم غلام جیلانی حاذق طبیب اور نامورشاعر تھے ،اسیرؔ تخلص کرتے تھے۔ طبابت، شاعری کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے اُن کی شناخت تھی۔اپنی وضع داری، مہمان نوازی ،اخوت و محبت اور رحمت و رافت کے لیے مشہور تھے۔ آئے دن گھر پر شعری نشستیں منعقد ہوتی رہتیں ۔رباب رشیدی کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم کا آغاز خانگی طور پر ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور ۱۹۵۱ء میں والد ماجد حکیم غلام جیلانی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے،اُس وقت رباب رشیدی محض ۱۱؍ برس کے تھے ۔بزرگ دادا اور مشفق چچا نے ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی۔
رباب رشیدی کا نام سلمان احمد تھا۔ یہ نام ان کے والدین نے رکھا تھا ۔لیکن خود انہوں نے فکر شعر و سخن میں ’رباب‘ؔ تخلص اور رشید احمد خاں رشید رامپوری(۱۸۹۲ء-۱۸؍اپریل۱۹۶۴ء) سے تلمذ کیا۔’ رشیدی ‘کا لاحقہ اسی تلمذ کا اعتراف ہے۔رشید رامپوری کی وفات کے بعدزبان و بیان کے سلسلے میں رشید حسن خاں (۱۰؍جنوری۱۹۲۵ء-۲۶؍ فروری ۲۰۰۶) سے مشورہ کرنے لگے۔اپنی غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’اوراق‘ (۲۰۲۰ء)میںرباب رشیدی نے لکھا ہے :
’’زبان و بیان کے اثرات استاد رشید رامپوری علیہ الرحمہ کے بعد خاں صاحب(رشید حسن خاں) ہی کے ذریعہ مجھ پر منکشف ہوئے۔ آج جو کچھ بھی ہوں انھیں اکابر کا فیضان ہے‘‘۔
۱۹۵۰ء کے فرقہ وارانہ فساد نے شاہجہانپور کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیبی تاریخ کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوشش کی اور انہیں اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی ۔رباب رشیدی کے افراد خاندان پوایاں چھوڑ کر شاہجہانپور آگئے اوریہیں تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھا اور شعری ذوق بھی پروان چڑھنے لگا اور والد حکیم غلام جیلانی کا ذوق شعری ان میں منتقل ہوگیا۔اس مشکل وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے اپنے پہلے مجموعے ’’ابرسفید‘‘ میں لکھا ہے :
’’والدین اوائل عمر میں ہی خدا کو پیارے ہوگئے۔۱۹۵۰ء کے ہنگامے میں خاندان تباہی سے دوچار ہوا۔ گھر کے بزرگ آہستہ آہستہ رخصت ہوتے گئے اور گردش حالات اپنا اثر دکھانے لگی۔ مگر اللہ کی عطا کی ہوئی عزت اس کے فضل و کرم سے وابستۂ دامن رہی‘‘۔
رباب رشیدی نے فسادات کا وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ہجرت کے کرب کو محسوس کیا تھا۔اپنے ان احساسات کو انھوں نے اشعار کے سانچے میں ڈھالا ہے ؎
فضا اداس تھکے پائوں اجنبی رشتے
ذرا چراغ تمنا کی لو بڑھاتے ہوئے
چلا گیا ہے جو چپکے سے ظلمت شب میں
نہیں نہیں، وہ کوئی اور کارواں ہوگا
رباب رشیدی کی شاعری کا خاص وصف زبان و بیان کی صفائی و سادگی ہے۔ان کے کلام میں دہلی اور لکھنؤ اسکول کا حسین امتزاج پایاجاتا ہے۔وہ دبستان داغ کے نمائندہ شاعر تھے۔ان کی غزلیں فکرکی پختگی ، مزاج کی شائستگی، اور اصابت رائے کی غماز ہیں۔ان کاحمدیہ و نعتیہ کلام اور رباعیاں اپنے کمال کا بے مثل مظہر ہیں۔ غزل کے چند اشعارملاحظہ کریں:
کہاں وہ حفظ مراتب کے جاننے والے
میں کس کے پیش نظر تیرے نقش پا رکھوں
٭
مرا سکوت سمندر کا ایک حصہ تھا
کوئی بکھیر گیا ہے مجھے بھی لہروں میں
٭
کبھی حیات کے خورشید و ماہ تاب ہوئے
کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ
٭
مہک خیال میں، لفظوں میں نور، شعر میں رنگ
شریک فکر یقینا وہی رہے ہوں گے
٭
تری گلی میں آتے ہی بدل گیا ہے ذہن بھی
نہ اب جنوں سرکشی ، نہ اب غرورِ آگہی
٭
جب بھی گھبرائے تو بس ان ہی کی باتیں کرلیں
یہ وہ لمحے ہیں، جو اکثر مرے کام آتے ہیں
٭
یہ تجربے بھی قیامت سے کم نہیں ہوتے
کہ چوٹ کھائے ہوئے دل پہ چوٹ کھانا کیا
٭
نہ رشتہ توڑیے کچّے مکان سے اپنا
وہیں تو جلتے ہیں اب تک چراغ قدروں کے
٭
بس کشتیوں کو آپ سمندر میں ڈال دیں
لیکن بجز خدا کے ،کوئی دل میں ڈر نہ ہو
’ابرسفید ‘ (۱۹۸۵ء)ان کا پہلا مجموعہ ہے ۔اس میں نعت، غزل اور رباعیات شامل ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں رباب رشید نے لکھا ہے :
ــ’’ جو اپنے بارے میں کم سے کم اور دوسروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سوچتا ہو ، وہ آپ بیتی کے مقابلے میں جگ بیتی موثر طریقہ سے لکھ سکتا ہے، میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بڑوں کی تعمیل حکم اور دوستوں کے اصرار پر یہ اوراق ’’ابر سفید‘‘ کی صورت میں پیش کررہا ہوں۔ ‘‘
’ حرف آغاز‘کے بعد۱۸؍ رباعیات پر مشتمل ’منظوم دیباچہ‘ ہے۔ اس سے دو رباعی ملاحظہ فرمائیں:
ہے ذہن میں گذرے ہوئے برسوں کا حساب
جب پھول مہکتے ہیں مہکتی ہے کتاب
لفظوں کا سہارا لئے یادیں اکثر
کرتی ہیں دل کو مسکراکر آداب
٭
کچھ روز سے اس فکر میں سرگرداں ہوں
وہ پھول جہاں کے بھی ہوں واپس کردوں
یا پھر نئے ساتھیوں کو تحفے کے بہ طور
الفاظ کے دھاگے میں پروکر دے دوں
حرف آغاز،دیباچہ ، نعتیں اور غزلوںکے علاوہ اس مجموعہ میں ۱۵۷؍رباعیاں بھی ہیں۔
ان کا دوسرا مجموعہ ’الف میم‘ (۲۰۰۱ء)ہے۔ کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ اس کا دوسرا اڈیشن ۲۰۰۵ء میں منظر عام پر آیا۔اس دوسرے اڈیشن میں مولانا عبداللہ عباس ندوی(۲۵؍دسمبر۱۹۲۵ء-یکم جنوری۲۰۰۶ء) کا ایک تبصرہ جو انھوں نے ’تعمیر حیات ‘ لکھنؤمیں کیا تھا،رشید حسن خاںکا ایک مضمون اورشمس الرحمن فاروقی (۳۰؍ستمبر۱۹۳۵ء- ۲۵؍دسمبر۲۰۲۰ء)کا ایک خط بھی چھپا ہے۔اس خط میں فاروقی صاحب نے لکھا ہے :
’’آپ کی خوب صورت نعتیہ اور حمدیہ نظموں کا مجموعہ ’الف میم‘ مل گیا تھا ۔ بہت ممنون ہوں اور اس بات پر بہت خوش ہوں کہ آپ نے یہ کلام ہم لوگوں کے لیے بھی عام کردیا ۔ کتاب بہت خوب صورت چھپی ہے اور نظمیں ، کیا آزاد اور کیا پابند، بہت خوب ہیں لیکن لمبی بحروں کو جیسا آپ نے نبھایا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔‘‘
رباب رشیدی بہت اہتمام کے ساتھ نعت رسول مقبول کہتے تھے ۔ رسول پاکﷺؐ کی ذات سے عشق اور محبت کی والہانہ کیفیت کو ان کے اشعار میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
پھر مرا جذبۂ بیچارگی کام آیا ہے
پھر مدینہ کی طرف اذن خرام آیا ہے
آنسوئوں کو در رحمت پہ بہانے کے لیے
پھر غلام، ابن غلام، ابن غلام آیا ہے
٭
کیا کریں اپنی طبیعت کہیں لگتی ہی نہیں
آستاں دیکھ لیے ہم نے سبھی کے آقاؐ
٭
قطرے دریا بن گئے، دریا سمندر بن گیا
آپ کی نسبت سے ہر ذرہ ستارا بن گیا
رباب رشیدی کو ارض طیبہ سے بے پناہ عشق تھا ۔انھوںنے حج کا مبارک فریضہ بھی اداکیا لیکن اس کے علاوہ انھیں عمرہ کی باربار سعادت حاصل ہوئی۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان کادل وہیں لگا رہتا ہے ۔ وفات سے ابھی کچھ دن پہلے ہی عمرہ کی سعادت اور دربار رسالت مآب میں حاضری کے شرف سے مشرف ہوکر لوٹے تھے۔3؍ستمبر کو اپنے ایک واٹس اپ میسج میں انھوں نے ڈاکٹر عمیر منظر (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو مانو لکھنؤ کیمپس )کو مدینہ منورہ سے غزل بھیجی تھی ۔امکان ہے کہ انھوں نے یہ غزل اپنے دوسرے چاہنے والوں کو بھی بھیجی ہوگی ۔خیال جاتا ہے کہ شاید یہ ان کی آخری غزل ہو ۔
وہ دن بھی آئے کہ ہم صف بہ صف نظر آئیں
جہاں میں صاحبِ عزو شرف نظر آئیں
کبھی ہم اپنے ہی ذوقِ جنوں کو دہرائیں
غبارِ شوق میں پھر سربکف نظر آئیں
جو ریگزار میں بکھرے ہیں سیپیوں کی طر ح
منور ان میں یقیں کے صدف نظر آئیں
حقیقت آشنا قلب و نگاہ ہو جائیں
نئے نئے ہمیں اپنے ہدف نظر آئیں
خیال ابھرے، مدینے پہنچ رہے ہیں حضور
لبوں پہ گیت تو ہاتھوں میں دف نظر آئیں
نگاہ و فکر کو محدود کرلیا خود ہی
کہاں یہ ذوق کہ ہم ہر طرف نظر آئیں
خدا کے فضل سے ایسا بھی ہو رباب کہ جب
سفر میں جانب شہرِ نجف نظر آئیں
رباب رشید کا تیسرا مجموعہ ’آنسو بولتے ہیں‘(۲۰۰۱ء )ہے، یہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ رباب رشیدی کی نعت گوئی کے حوالہ سے رشید حسن خاں کے یہ جملے بہت قیمتی ہیں:
’’۔۔۔ایک سچے عاشق رسول کو دلی جذبات کے اظہار کے لیے روایتی شاعرانہ بے امتیازیوں کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ سچی عقیدت نے لفظی صنعت گری اور غیر مناسب مدح طرازی دونوں کی ظاہر فریبی کو بیان پر حاوی نہیں ہونے دیا اور اس بے امتیازی سے اپنے آپ کو دور رکھا جسے عقیدت کے نام پر جائز سمجھ لیا گیا ہے۔ باشعور آدمی سے پابندی آداب کا مطالبہ ہمیشہ کیا جاتا رہے گا، وہ آداب زندگی ہوں یا آداب نعت و منقبت۔‘‘
۲۰۲۰ء میں رباب رشیدی کے یکے بعد دیگرے ۳؍شعری مجموعے شائع ہوئے۔ غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’اوراق‘،مجموعہ رباعیات ’رباعیات‘ اور نعتیہ مجموعہ ’نعتیں‘۔جن کی علمی اور ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی۔
ڈاکٹر تابش مہدی(پ:۱۹۵۱ء) نے ۲۰۰۶ء میںرباب رشیدی کی حیات و خدمات پر مشتمل ایک کتاب ’رباب رشیدی: ایک سخن ور پیارا سا‘ کے نام سے مرتب کر کے شائع کی ہے۔ یہ ۱۸۰؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں رباب رشیدی کی شخصیت اور فن پر۳۰؍علمی و ادبی شخصیات کے مضامین شامل ہیں، جن کے تناظر میں رباب رشیدی کی شخصیت اورفن کی تفہیم مدد ملتی ہے ۔اس کتاب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر تابش مہدی لکھتے ہیں:
’’رباب رشیدی ہمارے ان ادیبوں اور شاعروںمیں ہیں، جن کے بارے میں یہ بات ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے کہ وہ بہ حیثیت شاعر بڑے ہیں یا بہ حیثیت انسان۔ لیکن بحث کا کوئی واضح یا دو ٹوک نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہوسکا۔ رباب رشیدی جہاں رہے ہیں، انھوں نے شاعری اور انسانیت دونوں سطحوں پر لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ ایک طرف انھوں نے اگر اپنی معیاری شعری و ادبی نگارشوں سے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا ہے تو دوسری طرف آج کے منافقت زدہ اور خود غرض ماحول میں اپنی انسانیت دوستی ، ہمدردی، مہر ومروّت اور خلوص و محبت کے چراغ بھی روشن کیے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کا یہ پہلو ہی زیر نظر کتاب ’’رباب رشیدی: ایک سخن ور پیارا سا‘‘ کے وجود میں آنے کا سبب بنا۔‘‘
رباب رشیدی نے کم و بیش ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ماہنامہ ’نیادور ‘لکھنؤمیں ان کی ۶۶؍شعری تخلیقات اور ۴۲؍مضامین ا ور تبصرے شایع ہوئے۔رباب رشیدی نے شادی نہیں کی تھی ۔وہ گذشتہ ۵۰؍برس سے لکھنؤ ہی میں اپنے خالہ زاد بھائی کے ساتھ تازی خانہ میں رہتے تھے، وہیں ان کا تار نفس ٹوٹا ۔اللہ ان کی قبر کو انوار سے بھر دے۔آمین
Ovais Sambhli
178/157, Barood Khana, Golaganj,
Lucknow – 226 018 (U.P.)
Mobile: 9794593055
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page