’’آپی ژھو‘‘ لداخ کی تیسری داستان ہے۔ یہ داستان بھی لداخ کی دوسری داستانوں کی طرح زمانہ قدیم سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آئی ہے۔ اس داستان کو پہلی بار کاچو اسفندیار خان نے 2022میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کرکے دنیائے ادب کے سامنے پیش کیا۔ اس سے پہلے مصنف نے لداخ کی دو اور داستانیں ’’گیالم کیسر‘‘ اور نوربو زانگپو اور اِت ٹھوق لہامو‘‘ کو بھی انگریزی میں لکھا ہے۔ لداخ کی دوسری داستانیں جن میں ’’کیسر‘‘ اور ’’نوربو زانگپو اور ات تھوق لہامو‘‘ شامل ہیں ، کی طرح یہ داستان بھی قصہ در قصہ کی تکنیک میں لکھی گئی ہے۔ اس داستان میں بھی دوسری داستانوں کی طرح مافوق الفطری عناصر کی بھرمار ہے جس سے حیرت و استعجاب کا سامان بھی مہیا ہوگیا ہے اور اسی سے داستان کی دلچسپی بھی قائم ہے۔
داستان ’’آپی ژھو‘‘ دو الفاظ کا مرکب ہے جس میں آپی کے معنی بوڑھی عورت اور ژھو بمعنی پوتا ہے۔ آپی ژھو در کو در اصل حضرت خضر ؑ کا سہارا ملتا ہے اور وہ غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔کہانی ایک بوڑھی عورت سے شروع ہوتی ہے جس کے گھر میں اور کوئی نہیں ہے۔ بوڑھی عورت کے پاس ایک بکری ہے اور وہ اسے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ پہاڑ پر گھاس چرانے کے لئے بھیج دیتی ہے۔ بکری دودھ کم دینے لگتی ہے تو بوڑھی عورت خود پہاڑ پر دیکھنے جاتی ہے اور بکری کا پیچھا کرتی ہے۔ بکری ایک غار میں چلی جاتی ہے اور وہاں ایک گنجے سر والا بچہ اس بکری کا دودھ پی رہا تھا۔ بوڑھی عورت اس گنجے سر والے بچہ کو اپنے ساتھ گھر لے آتی ہے اور وہی بچہ آگے جاکے ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جو ایک عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ بوڑھی عورت اس بچہ میں ایک خاص بات یہ دیکھتی ہے کہ یہ دوسرے بچوں کی بہ نسبت میں دوگناہ بڑا ہو رہا ہے۔ عورت چونکہ غریب تھی تو یہ لڑکا کسی شادی میں دادی کے لئے کھانے لانے جاتا ہے۔ وہاں سے تو اس کو نکال دیا جاتا ہے لیکن وہ ایک مدرسہ میں رات گزارتا ہے اور اس مدرسہ میں رات کو وہاں کا ملا اپنے شاگردوں سے کہہ رہے تھے کہ اس گنجے سر والے لڑکے کو مت ستانا ، یہ لڑکا پانی کے خضر کے معجزے سے پیدا ہوا ہے اور ایک دن یہ بادشاہ بنے گا۔ آپی ژھو ملا سے اسرار کر کے سارا راز جان لیتا ہے اور اس ملا کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کر کے ایک غار میں سات دن تک عبادت کرتا ہے۔ آخر میں وہ دریا پر جب لکڑی چننے جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ دریا دو حصوں میں بٹ گیا ہے ۔ پھر اس نے دیکھا کہ دریا کے بیچ میں ایک چپٹی چٹان نمودار ہوئی اور اس چٹان پر بہت سارے روحانی لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہونے پر آپی ژھو نے دریا کے کنارے سے آواز لگائی اور کہا کہ اے بابا میں چھوٹا ہوں، مجھے ایک آدمی کے پچاس ہاتھ کے برابر قد عطا فرما، پچاس گز لمبا بازو عطا فرما، دروازہ کے برابر پاؤں عطا فرما، میرے گنجے سر پر پچاس من بال عطا فرما،تالاب جتنی بڑی آنکھیں عطا فرما، مجھے ایک بجلی کی طرح چمکتی ہوئی تلوار دے دے، آسمان کو چھونے والا نیزہ دے دے، مجھے عصا دے دے، ایک شریک حیات اور ایک اولاد عطا فرما، ایک محل عطا فرما وغیرہ وغیرہ۔ غرض اس طرح کی بہت ساری حاجتیں بتائی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تمام حاجتیں پوری ہو گئیں۔ اب وہ ایک غیر معمولی شخصیت کا مالک بن چکا تھا۔ بادشاہ بننے کے بعد وہ اپنے لڑکے کے لئے دلہن تلاش کرنے نکلتا ہے ۔ اس سفر میں اسے مختلف قسم کے مصائب، پریشانیاں اور امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ۔ وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر طرح کے امتحان میں کامیابی حاصل کرتا ہے، جن میں اسے پریوں سے بھی سابقہ پڑتا ہے اور دیوں کو بھی مارنا پڑتا ہے۔ آخر کار وہ اپنے بیٹے کے لئے تین خوبصورت لڑکیوں کو لے کر اپنے ملک ’’شیر علی کچے‘‘ واپس آتا ہے۔
اس داستان کا محور کرگل اور بلتستان ہے۔ یہ داستان ایک اہم چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ لداخ کی دوسری داستان کیسر یا نوربو زانگپو اور اِت ٹھوق لہا مو کی نمود اس وقت شروع ہوئی تھی جب تبت کلان اور تبت خورد میں ’’بون‘‘ مذہب عام تھا۔ یعنی ان دستانوں میں بون مذہب کا عمل دخل زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن برخلاف اس کے ’’آپی ژھو‘‘ میں مذہبِ اسلام کا عمل دخل زیادہ ہے۔ علاوہ اس کے اس داستان کے اکثر کردار بھی مسلمان ہیں۔ اندرونی شواہد کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ داستان تیرہویں یا چودہویں صدی میں شروع ہوگئی ہے اور سولہویں صدی تک آتے آتے کرگل کے اکثر علاقوں تک پہنچ گئی ہوگی۔ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس داستان میںمسلمان کرداروں کے ساتھ کئی غیر مسلم نام بھی آتے ہیں جن میں زنگی مو، اپو گونبا، اپی یانگزن، ابا یبس تھونما، امایوم سنونما، رُدت چورولوگو، گنگس سینگے راجہ، گربانگ چونگ ، اوسے بزباوغیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ داستان کے ہیرو آپی ژھو جن کا اصلی نام’’شیر عباس خان‘‘ ہے مگر اس کے بیٹے کا نام نمالدے بلدے ہے۔ آپی ژھو اس کے لئے تین رانیاں تلاش کرتے ہیں اور ان تین شہزادیوں کے نام پالکی مندوک چوچو، گل خندن چوچو اور ردونگ رگوما چوچو ہیں۔ یہ بات قابلِ غور کے کہ کرگل کے مختلف علاقوں میں پرانے زمانے میں لوگوں کے نام آدھا مسلمان اور آدھا بودھ ہوتے تے، جیسے حسن ژھرینگ، رگیالدے علی، ٹشی علی وغیرہ۔ یہ نو آموز مسلمان تھے جنھوں نے اسلامی تبلیغات کے زیر اثر مذہب اسلام کو اپنا لیا تھا۔ اس داستان میں بھی مسلمان ناموں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم نام بھی ملتے ہیں۔ دوسری اہم بات اس داستان کی یہ ہے کہ اس کے مرکزی کردار آپی ژھو کو کیسر ساگا کے حریف کے طور پر پیش کیا ہے۔ کیسر جو کہ لداخ کی دوسری داستان ’’گیالم کیسر‘‘کا مرکزی کردار ہے۔ کیسر جو کہ انسان نہیں تھا بلکہ انسانوں کی دنیا میں آیا تھا جبکہ آپی ژھو ایک عام انسان ہے جو حضرت خضر کی بدولت دولتمند، طاقتور اور غیر معمولی انسان بن جاتا ہے۔ کیسر اس داستان کے آخر میں آتا ہے اورآپی ژھو کے سوتے وقت تین شہزادیوں کو لے کر بھاگ جاتا ہے، لیکن آپی ژھو نیند سے جاگنے کے بعد ہاتھ پھیلا کرکیسر اور تینوں کو اپنے ہاتھ سے پکڑ لاتا ہے اور کیسر کو اپنے جیب میں بند کرتا ہے۔ داستان میں آپی ژھو کو کیسر سے طاقتور دکھایا ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آخر میں دونوں دوست کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان تمام اندرونی شواہد کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ داستان زیادہ پرانی نہیں ہے اور یہ کرگل اور بلتستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شروع ہوئی ہے۔
داستانوں میں سب سے اہم بات تہذیب کا ذکر ہے۔ دوسری داستانوں کی طرح اس داستان میں بھی کرگلی تہذیب، رسم و رواج اور معاشرتی نظام دیکھنے کو ملتت ہیں۔یہاں تک کہ اس کہانی میں کرگل کا علاقہ دراس اور کشمیر کا ذکر بھی آیا ہے۔ اپی ژھو جب کھانا لانے کے لئے شادی کی تقریب میں گئے تو وہاں دراس اور کشمیر سے بھی مہمان آئے ہوئے تھے۔ کھان پان کا ذکر بھی اس داستان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ کرگل میں یہ رسم ہے کہ خاص مواقع پر اور خاص لوگوں کے استقبال کے لئے جو کی روٹی اور مقامی مکھن پیش کیا جاتا ہے، سو اس داستان میں بھی اس رسم کے ادا کرنے کا بیان ملتا ہے۔ جب آپی ژھو کی مرادیں پوری ہوئیں تو وہ اپنی بیوی اور بچہ کو لے کر دادی کے پاس آتا ہے تو دادی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
’’اے میری دادی، مہربانی کرکے محل سے باہر آجاؤ!
۔۔۔ مجھے گنگس سو کر چوچو اپنے شریک حیات کے طور پر ملی ہے۔
مجھے ایک بیٹے سے نوازا گیا، نملدے بلدے۔
ستاکلو(چیتا کا سال)میں پیدا ہونے والے اٹھارہ لڑکوں کے ساتھ اور رسمی روٹی اور مکھن لے کرمجھے لینے آئیں!
لوکلو(بھیڑ کا سال) میں پیدا ہونے والی اٹھارہ لڑکیوں کے ساتھ رسمی روٹی اور مکھن لے کر میری سواگت کریں۔ ‘‘
(آپی ژھو کی کہانی، کاچو اسفندیار خان، ذکریٰ انٹرنیشنل پبلشرز دہلی۔ صفحہ نمبر 32-33)
اسی طرح جب آپی ژھو آہا یول(گاؤں) میں پہنچتا ہے تو وہ حسن منڈیل سے اس کی بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے نملدے بلدے کے لئے مانگتا ہے تو وہ بہانہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم پہلے لڑکی کی خالہ کو لینے جاؤ جو یہاں سے دور رہتی ہے۔ اس موقع پر بھی اسی رسم کا بیان ملتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’وادی کے بہت دور اندر میں بائیں طرف لڑکی کی خالہ رہتی ہیں۔
کچھ پھوق پھیاق تت لے کر آپ کو وہاں ضرور جانا چاہئے۔(روایتی روٹی اور مکھن)‘‘
(آپی ژھو کی کہانی، کاچو اسفندیار خان، ذکریٰ انٹرنیشنل پبلشرز دہلی۔ صفحہ نمبر 55)
پھیاق تت یا پھیاق تبس پرگی لفظ ہے جس کے معنی وہ تحفہ ہے جو،جب کوئی شخص اپنے کسی خاص سے ملنے جاتاہے تو اپنے ساتھ لے جاتا ہے جس میں عام طور پر روٹی اور مکھن ہوتی ہیں۔ ان رسوم کے علاوہ اس داستان میں ایک خاص کھیل کا ذکر بھی ہے جو جانوروں کی ہڈیوں کے جوڑوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یاد ہے کہ بچپن میں ہم نے بھی یہ کھیل کھیلا ہے لیکن آج کل یہ کھیل ناپید ہے۔ جب آپی ژھو ایک راکشس کو مارنے جارہا تھا تو راستے میں اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ یہ ہڈیوں والا کھیل کھیل رہے تھے۔ اس کے علاوہ پولو بھی ایک کھیل ہے جو گھوڑے پر کھیلا جاتا ہے جو اب بھی جاری ہے۔ اقتباس دیکھئے۔
’’بوڑھی خاتوں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو پولو کھیل رہے تھے اور ہڈیوں کا کھیل کھیل رہے تھے۔‘‘
(آپی ژھو کی کہانی، کاچو اسفندیار خان، ذکریٰ انٹرنیشنل پبلشرز دہلی۔ صفحہ نمبر 65)
پہلے عرض ہوا کہ اس داستان میں بھی دوسری داستانوں کی طرح فوق فطری عناصر کی بھرمار ہے، جس سے داستان میں دلچسپی کا سامان پیدا ہوگیا ہے۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس داستان کا ہیرو ہی قد و مامت کے اعتبار سے ایک غیر معمولی انسان ہے۔ وہ اپنے بیٹے نمالدے بلدے کے لئے دلہن کی تلاش میں نکلتا ہے اور اس سفر میں انہیں مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اسے ہر امتحان میں کامیابی ملتی ہے۔ یوں تو داستان کا آغاز ہی عجیب طریقے سے ہوتا ہے۔ آپی ژھو کس کی اولاد ہے ، یہ ایک معمہ ہے، ہمیں اتنا پتہ چلتا ہے کہ آپی ژھو پہاڑ کے ایک غارمیں ایک بوڑھی عورت کو ملتا ہے جہاں وہ اس بوڑھی عورت کی بکری کا دودھ پی رہا تھا۔ وہ خود کو اس بکری کا بچہ بتاتا ہے۔ داستان میں یہ دکھایا گیا ہے کہ حضرت خضر ؑ کی بدولت وہ اس قدر طاقت ور انسان بن گیا ہے کہ وہ ایک اوگری ’’رنموزنگی‘‘ ااور ایک راکشس کو مارڈالتا ہے۔ رنمو زنگی جو پہاڑ کی چوٹی پر سو رہا تھا، اس کا ایک سینہ مشرقی پہاڑ پر اور ایک سینہ مغربی پہاڑ پر رکھا ہوا تھا اور اس کا سر تین پہاڑیوں کے نیچے ٹکا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپی ژھو کو چورلوگو نامی ایک راکشس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دیو بھی اس قدر بڑا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ مشرقی پہاڑ پر اور ایک ٹانگ مگربی پہاڑ پر ٹکی ہوئی تھی۔ جب آپی ژھو آہا یول کی طرف جارہا تھا انھوں نے راستے میں سات پریاں دیکھی اور آپی ژھو نے ان سے آہا یول کا راستہ پوچھا ، تو ابتدا میںانھوں نے راستہ دکھانے سے انکار کیا مگر جب آپی ژھو نے اپنے کھوڑے کو چابک مار کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچادیا تو چٹانیں ہلنے لگے اور جھیل لرزنے لگی تو سات پریاں بھی پانی میں بہہ گئیں۔ انہیں آپی ژھو کی طاقت کا اندازہ ہوگیا اور انھوں نے راستہ دکھایا۔
اس داستان کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی کردار جب کسی سے مخاطب ہوتا ہے وہ اپنی باتوں کو گا کر دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ پُرگ یعنی کرگل کی داستان گوئی میں یہ روایت رہی ہے کہ کہانیوں جب کوئی کردار کسی سے مخاطب ہوتا ہے تو وہ اپنی باتوں کو گا کر پیش کرتا ہے۔اس گا کر پیش کرنے کو ’’لُھو‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہانی سننے اور سنانے کا چلن یہاں زمانہ قدیم سے رہا ہے۔ موسم سرما کی لمبی راتوں میں داستان گو کہانیوں کے اکثر مکالمے خود گا کر ’’لُھو‘‘ کی صورت میں پیش کرتا تھا۔ زیر نظر داستان میں بھی یہی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ گرچہ اس داستان کا اردو میں ترجمہ ہوا ہے لیکن داستان نگار نے بہت ہی محنت سے ان ’’لُھو‘‘ کو اردو میں پیش کیا ہے۔ گوکہ اردو میں ترجمہ ہونے سے ان میں وہ تاثیر اور جاذبیت نہیں رہتی ہے جو مادری زبان میں ہوتی ہے، لیکن یہ داستان نگار کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اسے پر تاثیر بنانے کی ازحد کو شش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ہم داستان ہی میں سے کچھ مثالیں پیش کریں گے کہ کس طرح ایک کردار دوسرے کردار سے مخاطب ہوتا ہے۔ مثلا جب اوگری یا راکشس نے آپی ژھو کو دیکھا تو اپنا سر اٹھا کر بولا۔
’’آہاہا لی آہاہا! اے چھوٹے گھوڑے کے ساتھ آئے آدمی،
میری بات سنو۔۔۔۔
آہاہالی آہاہا! میں حسن منڈیل کو نہیں جانتی ہوں۔‘‘
(آپی ژھو کی کہانی، کاچو اسفندیار خان، ذکریٰ انٹرنیشنل پبلشرز دہلی۔ صفحہ نمبر 57)
اسی طرح اس داستان میں اکثر جگہوں پر اسی طرح کا مکالمہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور مثال کہ جب آپی ژھو اپنے بیٹے کے لئے تین شہزادیوں کو لے کر واپس آرہا تھا تو وہ ایک گاؤں (پرکوتا)میں پہنچا جہاں سے موسیقاروں کا اہتمام کرنا تھا۔آپی ژھو نے ایک پیشہ ور موسیقار کے دو بیٹوں سے مخاطب ہو کرکچھ اس انداز میں کہا۔
’’اے مون پناگ کے بیٹے، کیا تم اپنے باپ کی مہارت رکھتے ہو،تاراراتنگ تانگ تانگ۔
اے مون پناگ کے بیٹو ، کیا تمہیں اپنی ماں کا ہنر یاد ہے۔
ٹولولو ٹونگٹونگ ٹونگ۔ ‘‘
(آپی ژھو کی کہانی، کاچو اسفندیار خان، ذکریٰ انٹرنیشنل پبلشرز دہلی۔ صفحہ نمبر 72)
اقتباس میں جو ’’آہاہا لی آہاہا‘‘ اور ’’تارارا تانگ تانگ تانگ‘‘ آیا ہے ،یہ وہی لے اور سُر ہے جو گاتے وقت داستان گو اسی موسیقیت کو برقرار رکھنے کے لئے پیش کرتا تھا۔ یہ پریگ میں کہانیاں پیش کرنے کا نہایت ہی دلچسپ طریقہ تھا۔
اس کے علاوہ اس داستان میں کچھ مقامی لفظیات کا استعمال بھی ہوا ہے، کچھ الفاظ جن کو داستان نگار نے جوں کا توں رکھا ہے۔ مثلاََآپی ژھو کے گھوڑے کا نام ’’چپس چن نربو‘‘ ہے، ایک راکشس کا نام ’’گانگس سینگے ہے، چھونگ پیلے(ایک قیمتی پتھر)، نربو(جواہرات)، رزاسا مرپوئے یول(سرخ مٹی ولاگاؤں)، مون پناک (موسیقار)،لہابوکیسر(لہاؤںکابیٹاکیسر)، گیاپو(بادشاہ)، اپو(داد)، اپی(دادی)، ردوا(پتھر)،گنگس(برف) شینگ (لکڑی)، پھیاق تت(تحفہ)، چوچو(شاہزادی) وغیرہ وغیرہ۔
القصہ یہ داستان پُریگ کے لوک ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔اس کہانی کو صفحہِ قرطاس کرکے کاچو اسفندیار خان نے ایک اور اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس داستان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہوجاتی ہے ، کیونکہ یہ داستان تہذیبوں کا سنگم ہے جس میں ایک طرف سے تبتی تہذیب کی جھلک ہے تو وہیں اسلامی تہذیب کا ارتقا بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ داستان کے آخر میں لہابو کیسر کا آنا ، شہزادیوں کو اپنے ساتھ لے جانا، آپی ژھو کا ہاتھ پھیلا کر ان سب کو واپس لانااور جیب میں بند کرنا اور آخرمیں کیسر اور آپی ژھو شیر عباس خان کا ایک ساتھ مل کر رہناصرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ اس میں تہذیبوں کے تصادم کے بہت سارے راز پنہاں ہیں۔ ادب اور لوک ادب کی اہمیت اسی لیے ہے کہ یہ قوموں کی تہذیب اور تاریخ پرایک مستند حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب میں آپی ژھو کی داستان کے علاوہ پریگ(کرگل)کی کچھ اور مختصر کہانیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔قارئین کو اس کتاب کا مطالعہ صرف اس لئے نہیں کرنا چاہئے کہ ایک دلچسپ کہانی ہے بلکہ اس لئے کرنا چاہئے کیوں کہ اس میں پُریگ اور بلتستان میں اسلام کی آمد اور ارتقا ء کے نقوش دیکھنے کو ملتا ہے۔
محمد الیاس کرگلی۔
ریسرچ اسکالر۔
دہلی یونی ورسٹی۔
Mohd Ilyass Research Scholar DU
mohdilyas047@gmail.com
mob,no.: 6005412339
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
دلچسپ داستان۔۔۔ داستان سے متعلق تفصیلی معلومات۔۔۔۔۔ مبارک باد مسکراہٹ