اردو افسانوی ادب کی کہکشاں بنانے والوں میں آجکل جو افسانہ نگار اہم ہیں ان میں انجم عثمانی، ساجد رشید، پیغام آفاقی، غضنفر، ترنم ریاض، ذوقی، احمدصغیر، صغیررحمانی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان سے پیشتر لکھنے والوں میں حسین الحق، شوکت حیات، انورقمر، سلام بن رزاق، مظہرالزماں خاں، عبدالصمد، مشتاق احمدنوری، رضوان احمد، علی امام نقوی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔80ء کے بعد والی پیڑھی میں ایک نام خالد جاوید کا بھی آتا ہے۔ یوں تو انھوں نے 90ء کے بعد افسانوی ادب کی طرف رخ کیا لیکن ان کی دو ایک کہانیوں سے ہی فکشن کے نقادوں کی نظریں اس طرف متوجہ ہوگئیں۔
سچی بات تو یہی ہے کہ میں خالد جاوید کی کہانیوں کو لائق اعتنا سمجھتا ہی نہیں تھا۔ میں ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھا کیوں کہ میں نے ان کی کہانیاں پڑھی نہیں تھیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ بغیر پڑھے ہوئے ہم کسی کے حوالے سے کچھ بھی رائے زنی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ میں نے جب ان کی کہانیاں پڑھنا شروع کیں تو جیسے خود کو Trapہوتا ہوا محسوس کیا بلکہ میں تو کہوں گا خالدجاوید کے پاس Hypnosis ٹائپ کا کوئی عمل ہے جس کے سبب میں اب حصارجاوید میں آچکا ہوں جہاں سے خود کو باہر نکالنا آسان نہیں۔
یہاں ان کی ایک کہانی ’تفریح کی ایک دوپہر‘ کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ پہلے یہ دو اقتباسات ملاحظہ کرلیں:
’’دیکھیے جب بھوت کہانی بیان کرے گا تو اس میں بے چینی، جھلاہٹ، کرب اور بے ربطی کے عناصر ناگزیر ہوجائیں گے،کیوں کہ بھوت کا ضمیر ہی ان چیزوں سے تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے اس جرم کا احساس مجھے ہے کہ میں لاکھ شعوری کوشش کرنے پر بھی زندہ اور صحت مند لوگوں کی طرح نہیں لکھ پا رہا ہوں…‘‘
’’اس کہانی کی بے ربطی صرف آپ کے لیے ہی بے ربطی ہے کیوں کہ آپ کو کائنات کے بارے میں علم ہی کتنا ہے یا آپ اپنی ٹھوس اور احمقانہ دنیا سے ماورا جانتے ہی کتنا ہیں۔ مجھے کبھی کبھی آپ پر شک آتا ہے کہ آپ کتنے اعتماد کے ساتھ منطقی جواز، علت و معلول اور لفظ و معنی وغیرہ کے باہمی رشتوں پر مبنی اپنے سماجی، سیاسی اور مذہبی اخلاق پر فیصلے اور حکم صادر کرتے رہتے ہیں۔‘‘
——
میرا گوشت چیل کوؤں نے کھایا تھا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ عرصے تک لوگ یہی سمجھتے رہے کہ اُدھر جھاڑیوں میں کوئی جانور سڑ رہا ہے۔ مرتے وقت میں پاک صاف نہیں تھا…
میں بھوت بننے کے بعد تفریح کا اور شائق ہوگیا ہوں قبرستان یا کسی مقبرے سے یا کھنڈر سے چمگادڑ بن کر سیدھا اڑتا ہوں اور کسی سنیما گھر کی چھت پر بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباسات میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جنھیں نشانہ زد کرتے ہوئے فنکار کے باطن میں اترنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ جیسے بے چینی، جھلاہٹ، کرب، بے ربطی وغیرہ۔ پھر یہ لکھنا کہ بھوت کا ضمیر ہی ان چیزوں سے تشکیل پاتا ہے۔ بھوت انسانی شعور پر، اس کے منطقی جواز پر، علت و معلول اور لفظ و معنی کے باہمی رشتوں پر طعنہ زنی کرتا ہے۔ یہ رویہ فنکار کی اپنی قلب ماہیت بھی ہوسکتا ہے۔ فنکار جب زندگی اور معاشرے کی بدعنوانیاں، غلاظتوں، اور انتشار ذہنی سے حددرجہ اوب جاتا ہے تو اپنے باطن کے غیرآلودہ فنکار کو کوئی ایسا روپ دے دیتا ہے جس کی طرف ہم آپ متوجہ بھی ہوتے ہیں اور اس کی باتیں بغور سنتے بھی ہیں۔ بھوت جب یہ کہتا ہے کہ آپ کو کائنات کے بارے میں علم ہی کتنا ہے یا یہ کہ آپ اپنی ٹھوس اور احمقانہ دنیا سے ماورا جانتے ہی کتنا ہیں‘‘ تو بے چارے انسان کی فضیلت مآبی کا مکھوٹا پھسل کر زمین پر آرہتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ، بھوت کے اس طعنے کو اہمیت نہ دیتے ہوں لیکن بھوت جو ہمارے لیے غیرمرئی ہے، اس کی ایسی باتوں پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ خالدجاوید کی جو تخلیقی ساخت اور بیانیہ طرز ہے اس پر بھی بھوت نے یہ خیال ظاہر کیا ہے:
’’یہ جو میرا قصہ نویس ہے، کہا جاتا ہے کہ کمبخت کہانی میں فلسفیانہ لاف و گزاف سے بہت کام لیتا ہے۔ اس لیے آگاہ کردوں کہ جہاں آپ کو اس قسم کی باتیں ملیں تو سمجھ لیجیے گا کہ یہ اسی مردود قصہ نویس کا کام ہے۔ میرا نہیں… یہ بدمذاق قصہ نویس تو اچھی خاصی شگفتہ اور روشن کہانی میں بھی اداسی، مایوسی اور تاریکی وغیرہ کو اس طرح چسپاں کردیتا ہے جس طرح آج کل گھٹیا قسم کے موسیقار پرانی فلموں کے گیتوں کو ’ری مِکس‘ کرکے انھیں ’پوپ‘ بنا دیتے ہیں۔ افسوس میری قسمت میں یہی غبی قصہ نویس لکھا ہوا تھا۔‘‘
(کہانی: تفریح کی ایک دوپہر، ص139)
بھوت نے ساتھ ساتھ چلنے والے فنکار کو مرد ود اور غبی قصہ نویس کہا ہے۔ یہ بھوت نہیں کہہ رہا ہے بلکہ خود قصہ نویس خالد جاوید خود کو بالواسطہ طور پر Defend کررہے ہیں۔ لیکن یہ اندازہ کچھ ایسا پیارا اور برملا ہے کہ یہ سب کچھ بھوت کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ یہاں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ فلسفیانہ طرزاظہار اور مایوسی، اداسی اور تاریکی سے متعلق جزیات نگاری خالد جاوید کی کہانیوں کو استحکام بخشتی ہے اور اسی اداسی اور تاریکی سے فرحت و شادمانی اور روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ انھوں نے اپنے بیانیے کی بنت کچھ اس گہرائی و گیرائی کے ساتھ کی ہے کہ کہانی افقی (Horizontal) کے ساتھ ساتھ عمودی (Vertical) بھی چلتی ہے۔ اس کے پیر سمندر کی تہوں میں تواُوپری حصہ بلیووہیل کے بڑے فِن (Fin) کی طرح سطح آب سے اوپر ہوتے ہیں اور آس پاس ایک طرح کا فکری تموج ہوتا ہے جس سے باہر آنے کے لیے اچھے غواص کا ہونا ضروری ہے۔
خالد جاوید نے اس کہانی میں کھیل اور تفریح کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور سنیما ہال اور بازار دونوں کے تفریحی پہلو پر روشنی ڈالی ہے— کہانی کبھی سیدھی چلتی ہے کبھی فلش بیک کی طرح چلنے لگتی ہے۔ اس کہانی کا راوی ’’میں‘‘ ہے جو اب بھوت بن چکا ہے۔ وہ اپنے ماضی کی یادوں کو کرید کرید کر ہمارے سامنے لاتا ہے۔ ’میں‘ جب پندرہ سال کا تھا تو اسے پروین نام کی ایک لڑکی ملی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اس کے برابر پڑھے گی لیکن گردش ایام نے انھیں ملنے نہیں دیا۔ آخری بار جب اس نے اس غریب لڑکی کو دیکھا تو اُسے دمّہ ہوچکا تھا، جو اُسے وراثت میں ملا تھا اس کی ماں بھی ہمیشہ اپنے خستہ حال گھر کی چوکھٹ پر بیٹھی کھانستی اور تھوکتی رہتی تھی۔ جب وہ دس برسوں بعد شہر واپس آیا تو اس نے پروین کو کسی کی چوکھٹ پر کھانستے ہوئے دیکھا۔ سنئے:
’’اس کا گول چہرہ اس کی کمزور گردن پر کاغذ کے مکھوٹے کی طرح ہل رہا تھا۔ سامنے پڑے گھورے پر ایک کتے کی لاش سڑ رہی تھی۔ میں نے منہ پر رومال رکھ لیا۔ اس نے مجھے اجنبی نظروں سے دیکھا پھر دوسری طرف منہ کرکے زور زور سے کھانسنے لگی۔ اس کی کھانسی بہت دور تک میرے جوتے کے تلے میں چپک کر ساتھ ساتھ چلتی گئی۔ تب میں نے جوتوں کو کولتار کی جلتی ہوئی سڑک پر زور سے رگڑ دیا۔‘‘ (تفریح کی ایک دوپہر: ص141)
کھانسی کو Personify کرنا اور اس کا جوتوں کے تلے سے لگ کر چلنا اور پھر آخرکار اس کردار ’میں‘ کا اس کھانسی کو کولتار کی جلتی ہوئی سڑک پر زور سے رگڑ دینا— کیا ہے؟ کتنے سوالات ذہنوں میں ابھرتے مٹتے ہیں۔ راستہ چلتے چلتے جب کوئی گندی چیز ہمارے پیروں میں لگ جاتی ہے تو ہم اُسے زور زور سے زمین پر رگڑتے ہیں۔ شاید اس کی طرف دیکھتے بھی نہیں کہ کراہیت محسوس ہوگی۔ ماضی کی محبوبہ کا گول چہرہ اس کی کمزور گردن پر کاغذ کے مکھوٹے کی طرح ہل رہا تھا اور سامنے گندگی کے ڈھیر پر کتے کی سڑی ہوئی لاش تھی جسے دیکھ کر کردار ’میں‘ اپنے منہ پر رومال رکھ لیا تھا— آپ اگر غور کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ خالد جاوید کا بیانیہ خودکلامی کی شکل میں تیار ہوتا ہے۔ ژینے (Genette) نے اس نوع کے بیانیے کو Skaz narrative کہا ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ کردار کا اپنی محبوبہ سے نظریں بچا کر نکلنا اور سامنے کتے کی سڑی ہوئی لاش کے سبب منہ پر رومال رکھ لینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان بنیادی طور پر خودپرست اور خود غرض واقع ہوا ہے۔ لیکن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ خالد جاوید نے انسانی دردمندی کے سبب ہی انسان کے چہرے سے مکھوٹے کو نوچ پھینکنے کے لیے بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ اوپر کے اقتباس میں جو بصیرت اور Insight ہے وہ افسانہ نگار کی نفسیات اور فلسفیانہ اساس کا زائیدہ ہے۔ کوئی بھی وصف تحریر میں یا تقریر میں ازخود پیدا نہیں ہوجاتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی اساس ضرور ہوتی ہے۔ یہی اساس تخلیقی جبلت کو ارتفاع کی منزل تک لے جاتی ہے۔ آئیے دیکھیے کہ بازار اور سنیما کی تفریح اور دونوں کے حدود پر کہانی کار کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پرانی جگہوں پر بنی ہوئی عمارتیں یا سنیما گھرو ںکو مسمار کرکے وہاں بڑے بڑے Mall بنائے جارہے ہیں۔ تماشا اور کھیل کے انہدام سے بازار کا جنم ہوتا ہے لیکن یہاں جس تفریق کو خالد جاوید نے پیش کیا ہے وہ بصیرت افروزی کا کام کرتی ہے:
’’بازار ایک عجیب شے ہے۔ وہاں تفریح نہیں، تفریح کاالتباس ہے۔ وہ ان بے تکی فلموں سے زیادہ گھٹیا ہے۔ وہ سنیماہال کے اندھیرے سے زیادہ غیرانسانی ہے۔ اس گاڑھے اندھیرے میں تو سسکیاں ابھرتی تھیں، قہقہے گونجتے تھے۔ مگر بازار میں کسی دکان پر کوئی شخص رومال سے اپنے آنسو پونچھتا نظر نہیں آتا۔ نہ کوئی اس طرح ہنستا ہے کہ پیٹ پھول جائے۔ یہاں ہوشیاری کے علاوہ اور کوئی منظر نہیں۔ یہ اصلی مصنوعی پن ہے اور ہڈیوں تک اتر جانے والی بے رحمی ہے۔ یہاں خرید و فروخت کے واسطے مریضانہ انا اور غرور کے ساتھ نپے تلے انداز کے ساتھ چڑھتے اترتے قدم ہیں۔ ہر انسان امکان اور جذبے سے یکسر خالی، ہڈیوں کے پنجر کی طرح خوفناک ادھر سے اُدھر کڑکڑاتے ہوئے اور بجتے ہوئے۔ ہم بھوتوں کو بھی ان سے شرم نظر آتی ہے۔‘‘ (ص247)
اس کہانی میں خالد جاوید نے ترقی پذیر شہر کی نقلی تہذیبی و ثقافتی نیرنگیوں کو بے نقاب کرنے کی خلاقانہ کوشش کی ہے۔ کردار کی روح بھوت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ یہ بھوت کبھی چیل، کبھی بھورے رنگ کا چوہا تو کبھی بلّی کا روپ دھارن کرکے انسانی معاشرے اور اس کی جبلی قوتوں اور ارادوں کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے۔ آج کل جو سنیما گھر میں یا ان میں جو فلمیں دکھائی جاتی ہیں ان میں اور باہر کی دنیا میں کچھ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ افسانہ نگار کا مشاہدہ ہے کہ:
’’ان نام نہاد سنیما گھروں میں چلتی ہوئی یہ فلمیں اُس دنیا کو پیش کرتی ہیں جو دنیا سنیما ہال کے باہر ٹہلتی نظر آتی ہے… بلکہ وہ تو آپ کے بیڈروم میں چلی آئی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ سودا بیچنے والوں کی صدائیں بھی آپ کے گھر میں آگئی ہیں… کیا آپ اسے تفریح سمجھتے ہیں؟… ذرا فیشن ٹی وی پر دکھائی جانے والی تقریباً عریاں لڑکیوں کے چہرے تو دیکھیے۔ ان سے زیادہ خوش مزاح اور شگفتہ چہرے تو ہم بھوتو ںکے ہوتے ہیں…‘‘ (ص154)
جگہ جگہ خالد جاوید نے کمرشیل پلازہ اور مصنوعی پن کی زندگی پر تیکھا اور بامعنی طنز کیا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیوں پر پہلے بھی افسانہ نگاروں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ فنکار بہرحال فنکار ہوتا ہے، وہ تبدیلیوں کو آسانی سے قبول نہیں کرلیتا۔ ہر زمانے کا فنکار اپنی روایات اور تہذیبی انسلاکات کا پاسدار رہا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:
’’تم جس علاقے میں بستی کو ڈھونڈ رہے ہو اُسے عرصہ پہلے بلڈوزروں نے چٹیلی میدان میں تبدیل کردیا… میں بھی ہفتوں اسی طرح پورے شہر میں دیوانہ وار پاگلوں کی طرح چکر کاٹتا ہوا بار بار اُسی میدان تک پہنچتا تھا، بلڈوزروں نے سب کچھ اجاڑ دیا۔ میری دکان، میرا گھر اور تمام اہل و عیال زندہ درگور ہوگئے۔‘‘ (گھونسلا: شوکت حیات)
’تفریح ‘ کی جہتوں کو اس کہانی میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ سنیما کی تفریح، بازار کی تفریح، یہاں تک کہ بیوی سے قربت کی تفریح کو نئے معانی دینے کی کوشش کی گئی ہے:
’’سیکس بھی تفریح ہی ہے، جمالیاتی تشدد سے بھری ایک تفریح مگر اس تفریح میں ایک قباحت ہے۔ یہاں بھی اکتا جانے پر اپنی ’واپسی ٹکٹ‘ کسی کو تھما دینا آسان کام نہیں ہے۔‘‘ (ص156)
’واپسی ٹکٹ‘ سے جو واقف ہوں گے وہ مذکورہ بالااقتباس کے مفہوم تک پہنچ سکتے ہیں۔ زندگی کی تہوں اور حقیقتوں تک پہنچنے کے لیے افسانہ نگار ذہنی صعوبتوں سے گزرتا ہے۔ خالد کے یہاں جو سماجی شعور اور Moral values ہیں وہ جگنو کی طرح جگہ جگہ چمک اٹھتے ہیں۔ ذہنی الجھنوں اور گتھیوں کو سلجھانے کے لیے افسانہ نگار خود بھی الجھتا ہے۔ یہ محض Modest art نہیں ہے۔ خالد نے کبھی سرریلسٹ (Surrealist) ہوکر لکھا ہ تو کبھی شعور کی رو سے کام لیا ہے تو کبھی بدایتی (Intiation) کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ کسی کردار کے شعور کے ارتقائی مرحلے میں کوئی شدید واقعہ پیش آجائے اور جو اس کے مستقبل کو متاثر کرتا رہے Intiation کہلاتا ہے۔ پیش نظر افسانہ میں جس بے دردی اور بے رحمی سے کردار ’میں‘ کو اُس کی بیوی اپنے عاشق کے ساتھ مل کر قتل کرتی ہے، اس سے بھوت بننے کے بعد اس کی روح متاثر رہتی ہے جس کا اظہار وہ بار بار کرتا ہے۔ اس کی بیوی کے شدید رویے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بھوت کی تعریف بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ بھوت دراصل وہ ذہن ہے جو دوران موت پاگل ہوگیا ہو۔ موت کی تکلیف کو ہر ذہن برداشت نہیں کرسکتا۔ موت تفریح سے ایک دم خالی ہے۔ موت کی صورت حال پر بھی افسانہ نگار نے روشنی ڈالی ہے۔ راوی کے گھر میں اس کی بیوی کے رشتے کا کوئی بھائی آکر رہنے لگتا ہے جس رات اس کا قتل ہوتا ہے اس رات اس کی بیوی بہت پیار سے اُسے دودھ کا گلاس پیش کرتی ہے:
’’تم نے کھانا نہیں کھایا ہے۔ کمزوری لگ رہی ہوگی، تھوڑا دودھ پی لو…بیوی جب دودھ کا گلاس لے کر آئی تو اس کے ہاتھ میں پنکھا بھی تھا… ہاتھ کا پنکھا ہمیشہ سے عورت اور مرد کے محبت بھرے تعلقات کی علامت رہا ہے۔ مرد کے سفر سے واپس آنے پر، پرانے زمانے کی عورت ایک ہاتھ میں دودھ کا کٹورہ اور دوسرے میں پنکھا لے کر اس کا استقبال کرتی تھی… میری بیوی کے ہاتھ میں جو پنکھا تھا اس میں ایک خوشبودار گھاس بھری ہوئی تھی۔ اس پر جو غلاف چڑھا تھا وہ ریشمی اور رنگین تھا۔ یہ پنکھا ’لوک کلا‘ کا بہترین نمونہ تھا۔‘‘ (ص160)
یہاں دودھ کا گلاس اور پنکھا دونوں ہماری دیسی تہذیب کو پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی راوی نے اس کے بعد بیوی کی بے وفائی کو دکھایا ہے۔ اس کے گھر میں جو لڑکا آکر رہنے لگا تھا، وہ اسی وقت اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتا ہے جس کا ساتھ اس کی بیوی بھی دیتی ہے۔ یہاں اس تشدد کو دیکھیے اور کس طرح پنکھے کو پرتشدد آرٹ کا نمونہ قرار دیا گیا ہے:
’’جب چھرے سے وار کیا گیا تھا تو بیوی نے جھپٹ کر پنکھے کی ڈنڈی میرے منہ میں گھسیڑ دی۔ حلق تک میں نے اس ڈنڈی کو محسوس کیا۔ میرے اندر سے خون کی قے باہر آئی جو شاید پنکھے کے شوخ رنگوں والی کشیدہ کاری پر جم کر رہ گئی ہوگی…‘‘
——
کہیے… اب دیکھا آپ نے لوک کلا کا تشدد؟ یہ زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیوں کہ اسے بس ایک غلط زاویے سے موڑ دینے پر ہی وہ تباہ کن بن جاتا ہے… مجھے بے اختیار افسوس ہورہا ہے کہ میں نے شادی کیوں کی، ایک بندر کیوں نہ پال لیا جو سیکھ جانے کے بعد مجھے پنکھا بھی جھل سکتا تھا۔‘‘ (ص162)
خالد کی کہانیوں میں جو بھی عورت آتی ہے خواہ وہ محبوبہ کی شکل میں ہو یا بیوی کی، اس کی الگ الگ سیرت اور صورت ہوتی ہے ساتھ ہی اس میں کوئی نہ کوئی گندگی، غلاظت، چڑچڑاہٹ یا بے وفائی کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔
یہاں جس عورت کا وجود ابھرتا ہے وہ مرد اساس معاشرے کی نفی کرتا ہے۔ یہاں مرد کسی نہ کسی صورت مجبور محض ہے ’برے موسم میں‘ اس کی بیوی بھی جگہ جگہ بار بار اپنے شوہر کو طعنے دیتی رہتی ہے یا اس کے خاندان یا پھر اپنی قسمت کو کوستی رہتی ہے۔ میاں بیوی کے مابین ایک مکالمہ سنیے:
’’بیوی نے اس کی طرف تیکھی نظروں سے گھورا
مجھے ان دقیانوسی باتوں کا کوئی علم نہیں نہ میرے گھر میں کسی کے اس قسم کے جاہلانہ خیالات تھے۔‘‘
نہیں دراصل بزرگ اس بیماری کو آسیب سے ملتی جلتی کوئی شے سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گوشت وغیرہ پکنے سے اس کی شیطانی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
تم ہی کو روز گوشت چچوڑنے کا شوق ہے۔ مجھے کیا سمجھا رہے ہو۔‘‘ بیوی بیزار تھی۔‘‘ (کہانی ’برے موسم میں‘ ص10:2)
خالد جاوید نے معاشرے میں پھیلی بدعنوانیوں اور انسانی جبلت کے اندھیروں کو انگیز کرکے اپنی تخلیقی ہنرمندی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر پیش کیا ہے۔ ان کی کہانی اعصاب زدہ اور حواس باختہ انسان کی کہانی ہوتی ہے اور اسی لیے کہیں کہیں بے ربطی اور اعصابی تشنج میں ڈوبا ہوا کردار پوری کہانی میں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے۔ کردار عورت ہوکہ مرد، ہر ایک اسی کی زد میں ہے۔ یہ کہانی ہمارے ذہن و دل پر خراشیں پیدا کرتی ہے، جیسے کوئی ہمیں گرم ریت پر گھسیٹ رہا ہو۔ یہ جو بھوت بنا ہوا کردار ہے وہ ہمارے معاشرے اور ہمارے اعمال کو بغور دیکھ اور پرکھ رہا ہے۔ خالد جاوید نے اس کہانی کی عورت کو حد درجہ ظالم دکھایا ہے جو شوہر کے قتل کیے جانے کے بعد بھی نیم کے خلالوں کے گچھے اس کی آنکھوں میں دیوانہ وار چبھوتی رہی تھی۔ شاید اسے یہ خدشہ رہا ہو کہ اس کی آنکھیں اس کی حرکتوں کو دیکھ نہ لیں۔ ایساکرنا کسی بھی قاتل کی حددرجہ باریک نفسیات کو پیش کرتا ہے۔ یہ کردار اگر چاہتا تو بھوت بننے کے بعد اپنی بیوی اور اس کے عاشق سے بدلہ بھی لے سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ یہاں افسانہ نگار زندگی کے ایک اہم فلسفے کا ذکر کرتا ہے، بلکہ ایک طرح کا پیغام ہے جو طعنہ کی شکل میں ہے:
’’ان سے بدلہ لینے کے بجائے میں نے تفریح کرنا ہی بہتر سمجھا۔ آپ کی کائنات میں انتقام، انصاف، سزا وغیرہ بڑے الفاظ ہیں مگر ہم بھوت انھیں بہت کھلنڈرے انداز میں قبول کرتے ہیں۔ انتقام لینا سوائے وقت کی بربادی کے اور کچھ نہ تھا…
میں مرنے کے بعد پھر اس گھر کی طرف کبھی بھٹکا بھی نہیں جو کبھی میرا ہی تھا اور جہاں اب دونوں بہت آرام سے رہ رہے ہیں۔‘‘ (ص163)
اور بھوت جب یہ کہتا ہے:
’’آپ کی دنیا کا آخری خوبصورت منظر وہ تھا، جب کچھ دن پہلے میں نے کوڑھیوں کو رات میں نہاتے دیکھا۔ وہ اپنی خارش کو کم کرنے کے لیے نہا رہے تھے اور خوش ہوکر کوئی گیت بھی گا رہے تھے۔ بس یہی منظر تھا جسے دیکھ کر مجھے زندگی پر رشک آیا اور پھر میں اداس ہوگیا۔‘‘ (ص163)
زندگی کے المیہ اور نشاطیہ دونوں پہلوؤں کو کس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ کوڑھیوں کا بارش میں نہانا اور خوشی کے گیت گانا صحت مند لوگوں کے لیے کس نوع کا تازیانۂ عبرت ہے جو ہزارنعمتوں کے باوجود شہر ملال کے باشندے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی بدہیئتی دراصل ہمارے احساس اور ہماری چشم باطن کے سبب ہے۔جو بھی Monstrosity ہے اسے خوبصورتی میں بدلنا ہمارے بس میں ہے۔ دراصل ہم تضادات ہی میں اسرارِ حیات سمجھ سکتے ہیں۔ اسی لیے خالد جاوید کی کہانیوں میں مثبت اور منفی رویے آپس میں گتھم گتھا اور Juxtaposed نظر آتے ہیں۔ اسرار حیات اور تضادات زندگی کو خالد جاوید بار بار مختلف روپ میں کبھی بیانیہ کی شکل میں تو کبھی کرداروں کے ذریعہ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے ہیں۔ عورت کی بدہیئتی کو اس کہانی میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ کوفت سی ہونے لگتی ہے۔ کیا عورت اس قدر ظالم و جابر بھی ہوسکتی ہے؟ لیکن جو فضا بندی کی گئی ہے، اس سے کچھ بھی غیرفطری نہیں لگتا۔ اگر اسے دوسری طرح دیکھا جائے تو تشدد کا رنگ ابھرتا ہے۔ آج ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں ہر موڑ پر، ہر شعبۂ حیات میں تشدد نظر آتا ہے۔ گھر میں بھی اور گھر سے باہر بھی۔
خالد جاوید نے تشدد کی بہت سی جہتیں دکھائی ہیں۔ کبھی بیانیہ میں تو کبھی کسی کردار کے مکالمے میں۔ یہ رنگ دیکھیے:
’’جب انسان اپنے عقب میں تیز بھاگتی ہوئی روشنیوں کو کچلتا ہے تو یہ تشدد ہے۔ جب انسان اپنے میلے جانگیے کو رگڑ کر صاف کرتا ہے تو یہ تشدد ہے۔ جب انسان آدھی رات میں دور سے آتی ہوئی کسی ننھے بچے کے رونے کی آواز کو نظرانداز کرتا ہے تو یہ تشدد ہے۔‘‘ (کہانی، روح میں دانت کا درد، ص89)
’’اس لڑکی کی محبت بھی اس کے لیے ایک پیچیدہ تشدد سے کم نہ تھی۔ وہ تو اچھا تھا کہ وہ خوبصورت نہ تھی ورنہ خوبصوتی بجائے خود ایک تشدد ہے جس طرح امیری اپنے آپ میں ایک تشدد ہے۔‘‘ (ایضاً، ص80)
خود اس کہانی ’تفریح کی ایک دوپہر‘ میں جگہ جگہ تشدد کا رنگ نظر آجاتا ہے۔ دراصل یہ تشدد اداسی اور اضمحلال سے تعمیرشدہ قوس قزح ہے جو ہمارے باطن کے افق پر ابھرتی ہے۔ اس کہانی کے لب لباب پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے جو خود افسانہ نگار کی اسلوب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’نفرت، جھلاہٹ اور جنگ کا مقابلہ صرف تفریح سے کیا جاسکتا ہے۔‘‘ )ص159)
خالد جاوید کے یہاں جو معنوی لہریں اٹھتی ہیں وہ مرکز جو یعنی Centripetal ہوتی ہیں۔ باہر سے اندر کی طرف کو اور وہ بھی کریکٹ گیند کی طرح Spin کرتی ہوئی۔ یہ معنوی لہریں مرکز کی طرف جاتی ہیں، جہاں یہ معنوی لہریں مرکز سے دور یعنی مرکز گریز ہوتی ہیں یعنی Centrifugal ہوتی ہیں، وہ بے جان سی یا ایسی معنوی لہریں ہوتی ہیں جو صرف نام کو لہریں ہوتی ہیں۔ یہاں جب آپ خالد جاوید کی کہانی میں داخل ہوں گے تو اندر سے باہر آنا مشکل ہوگا کیوں کہ باہر جب تک لہروں کا مہاجال آپ کو اپنے حصار میں لے چکا ہوگا اسی لیے تو انھوں نے خود لکھا بھی ہے کہ ’’ہر آرٹ کی طرح فکشن بھی انسان کی مکتی یا نروان کا وسیلہ ہی نہیں، وہ ایک بددعا ہے، ایک بدشگونی اور ایک چیخ بھی ہے۔‘‘(عرض مصنف:آخری دعوت، 9)
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page