ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی(بنگال)
گذشتہ یکم اگست2022سے 10ستمبر 2022 تک بزم عالمی ادبستان مئوکے بینر تلے واٹس اپ پر افسانوں کی ایک نشست منعقدہوئی جس کی صدارت مایہ ناز افسانہ نگارپروفیسرڈاکٹر غضنفر صاحب نے فرمائی۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین آزاد شامل ہوئے اور خصوصی مبصر کے طور پر محترمہ عائشہ فرحین(علی گڑھ)،عمران جمیل صاحب(مالیگاؤں) اور عظیم اللہ ہاشمی(بنگال) شریک بزم ہوئے۔اس بزم کے روح رواں شاعر،ادیب،ناقد جناب دانش اثری صاحب کے علاوہ دوسرے ایڈمین حضرات کے تعاون سے نشست بڑی کامیابی کے ساتھ کم وبیش چالیس دنوں تک جاری رہی ۔اس دوران اندرون وبیرون ملک ملاکر کل پچیس افسانے واٹس اپ کے وال پر لگےجس پر قاری و مبصر حضرات نےاپنے پرخلوص خیالات کا اظہار کیا۔مبصر حضرات میں سب سے زیادہ فعال انجم قدوائی صاحبہ ،احسان الاسلام صاحب ڈاکٹرریاض توحیدی کاشمیری صاحب،سید حسن قائم رضاصاحب ،ڈاکٹر صفیہ بانوصاحبہ،فریدہ نثار انصاری صاحبہ،حماد احمد حماد صاحب،ناہید طاہرصاحبہ،طلعت فاطمہ صاحبہ،محمدقمرسلیم صاحب،ندیم اختر صاحب رہے۔اگر سچ پوچھاجائے تو انہیں کے دم سے قائم تھارنگ وبوئےچمن ۔!!آخر میں صدارتی خطبے کے ساتھ اس نشست کا اختتام ہوا۔اس نشست کا پہلا افسانہ سلمیٰ صنم کا "آرگن بازار”پیش ہوا۔اس افسانے میں سلمی صنم نے معاشرے کے اس پہلو کو پیش کیا ہے جہاں یہ بتانے کی کوشش ہورہی ہے کہ زمانہ اس موڑ پر آگیا ہے جہاں بیٹیوں کے جہیز کے لیے ماں اپنے گردے کا سوداکرتی ہے ۔ا س کے کینوس پر زمانے کی جست کو د کھانے کی کوشش ہوئی ہے کہ آج ہم ترقی کےاس میزان پر کھڑے ہیں جہاں الماری،پلنگ،صوفے کی جگہ اعضاکی سودے بازی ہورہی ہے۔اس افسانے میں انسانیت کی بے بسی ہےلیکن خواتین کی بیداری بھی سرچڑھ کربول رہی ہے۔
’’ چلائیے مت امیر صاحب‘ وہ سفاکانہ لہجے میں بولی ’’ جائیے اپنی راہ لیجئے‘ ہماری شادی ممکن نہیں‘ میں نہیں چاہتی کہ ہماری آنے والی نسل اس بات پر شرمندہ ہو کہ وہ آدھے ادھورے انسانوں کی اولاد ہے‘‘۔
’’ کہیے آپ کو کیا درکار ہے گردہ تو آپ خرید چکے۔ اب یہاں خوشیوں سے خالی آنکھیں ہیں۔ درد سے بھرا جگر ہے۔ سانسوں سے عاری پھیپھڑے ہیں۔ تڑپ میں لپٹی آنتیں۔ کرب سے آشنا معدہ اور‘‘ ’’ آج میں کچھ لینے نہیں ثمو ۔۔۔ دینے آیا ہوں ‘‘ وہ اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولا’’محبت میں ہارا ہوا ایک دل‘‘۔
آرگن بازارمیں انٹرنیٹ کے عہد میںسماجی زندگی کامطالعہ،مزاحمتی عنصر اور صورت حال کی عکاسی ہوئی ہے کہ زمین زادوں نے اپنی کامیابی کا پرچم کہاں نصب کیاہے۔!اسلوب بیانیہ ہےلیکن اس افسانے کا ایک ایک لفظ اپنےاندررمزکاسمندرسمٹےہواہے۔تنویرتماپوری کا افسانہ” وائرس "کے بیانیے میں راوی سادہ اسلوب اپناتے ہوئے اپنے اردگرد کے مختلف جزیات کو سمیٹ کر ایک فضا تیار کرتا ہےاور اختتام تک آتے آتے ای وی ایم ،وائرس ،ایٹی وائرس جیسے لفظوں کی شمولیت سے علامتی کہہ لیجیے یا استعاراتی بیانیہ کے سانچے میں ڈھا ل کر موضوع کو ایک ایسے نکتے پر کھڑا کرتے ہیں جس پر ایک جمہوری ملک کا مقدر مرتکز ہوتا ہے۔یہ ایک شعلہ بار موضو ع ہے جس پر ہر الیکشن کے دوران ووٹروں کی نگاہ مرکوزہوتی ہے اور کافی واویلا مچتا ہے ۔ افسانہ اپنی بنت اور ترسیل میں کامیاب ہے۔کسی بھی فن پارے کی اپنی ایک مخصوص نفسیائی ماہیت ہوتی ہے جو ایک احساس کے زیر اثر وجود میں آتی ہے۔ اس میں خالقِ فن پارہ کے محسوسات وجذبات کاخمیر شامل رہتاہے ۔ اس عمل کے دوران ایک قلم کار اپنے معاشرے یا سماجی سطح پر وقوع پزیر واقعے سے متاثرہوتاہے ۔اس کا وہ مطالعہ کرتاہےپھر فیصلہ کرتاہے کہ اس کے اثرات سے انسانی زندگی کس قدر متاثر ہوئی ہے۔ افسانہ ۔”سانڈ”کو رقم کرتے وقت غضنفر صاحب کے یہاں یہی جذبہ عمل پیہم رہا ہے ۔
۔”سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اور سینگ مارنا شروع کیا تو سورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پورگاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اور تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ وبرباد ہونے لگے۔ ”
مذکوہ بالامتن میں جن مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی ہے وہ زندگی کے خارجی مظاہر کے خمیر سے تیار ہوئے ہیں۔ان مسائل سے آج کا انسان نبردآزماہے۔ سانڈ ایک علامت کے طور پر افسانے کے کینوس پر ابھراہے۔جو عام انسانوں کی زندگی کودوبھر بنائے رکھتاہے لیکن افسوس اس پر ہے کہ ان عناصر کی پشت پناہی ایسے ہوئی ہے۔
۔”اپنی بربادی سے تنگ آکر آس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کر سانڈوں کو مارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگر کسی طرح یہ خبر محکمۂ تحفظ وحشیان تک پہنچ گئی اور اس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپہ لگا دیا جو اس بات کا اعلان تھاکہ یہ جانور محکمۂ تحفظ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مارپیٹ نہیں سکتا۔ ”
اس افسانے میں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جب سورج پوروالوں نے دھام پور کے سانڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سانڈ کو تیار کیا تو وہ بھی ایک دن دھام پورکے سانڈ سے مل کر پہلے سے زیادہ تباہی مچانے لگا۔یعنی غضنفر صاحب اس متن میں کہناچا ہتے ہیں کہ غلط کی کاٹ غلط سے نہیں ہوناچاہے۔افسانہ مذہبی جنونیت کی نشاندہی بھی کرتاہے جہاں ضعف الاعتقادی اپنے شباب پر ہے۔بحرحال کسی فن پارے کا متن کئی نسلوں سے ہم کلام ہوتاہے ۔اس افسانے کے متون بھی یقیناکئی نسلوں سے ہمکلام ہوں گے کیونکہ زیرنظر افسانہ "سانڈ” میں یہ خوبی ہے۔ایسا اس لیے نہیں کہ اس افسانے کا خالق پروفیسر ڈاکٹرغضنفر صاحب ہیں بلکہ ایسا اس لیے کہ یہ ہمارے عصر کی کڑوی سچائی ہے جس سے نجات ملنی چاہے۔محمد حسین آزاد کا افسانہ” بندوبست "جنسی نفسیات کی گرہ کھولتا ہے۔یہ افسانہ منٹو کے افسانوں کی یاد دلاتا ہے۔افسانہ معاشرے کی ایک ایسی کریہہ تصویر قاری کو دکھاتا ہے جس کو دیکھ کر قاری کو اس پر ابکائی آتی ہے کہ ناری کے جنسی استحصال کا ذمہ وار خود ناری ہے۔افسا نے کا بیانیہ مقنا طیسی خصوصیت رکھتا ہے۔گلبدن کا کردار غلیظ لگا۔شوکت کے کردار سے نفرت پیدا ہوئی۔جمال صنف کرخت پر بدنما داغ بن گیا۔افسانے کی طوالت سے ذہن بوجھل ہوا ۔ اختتام پر پنچ لا ئن سے اشارہ ملتا ہے کہ مردہ ضمیر بیدار ہو گیا ہے۔بہر حال افسانہ ہمارے معاشرے کا درپن ہےاس لیے کریہہ ہوتے ہوے بھی آخر آخر تک دلچسپی برقرار رہی کہ دیکھیں ہم کیسے سما ج ومعاشرے میں رہتے ہیں جہاں خود کے مہذب ہونے پر ہم ناز کرتے ہیں اورگلے میں اشرف المخلوقات کا سائن بورڈ لٹکا ئے پھرتے ہیں۔اختتام پر نہ جانے کیوں بے ساختہ زبان پر آیا۔۔۔۔۔۔۔ہائے رے عورت تیرے انجام پہ رونا آ یا۔۔۔!! ڈاکٹر اعظم (بھوپال )کا افسانہ” مسجدکا نام” کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے جس میں بیانیے کا فسوں ہے۔حقیقت کا اظہاربرملاہواہے۔جس کے سبب بے باکی کا درآنا لازمی ہوجاتاہے۔اس فن پارے میں فن واقعہ نگاری کاعنصر صاف صاف جھلک رہاہےجو یہ پیغام دے رہا ہے کہ فریب دے کر عبادت گاہ کی تعمیر نہ کی جائے۔جب تک کسی فن پارے سے جمالیاتی آسودگی نہ ملے وہ فن پارہ دیرپا تاثر قاری کے ذہن پر نہیں چھوڑتاہے۔ادبی فن پارے میں ایک کشش ہوتی ہے جو قاری کو تادیر اپنی گرفت میں رکھتی ہے اس کا خیال ہر قلم کار کو رکھناچاہیے۔کسی بھی ادبی فن پارے میں دو نکتے قابل غورہوتے ہیں ایک یہ کہ اس فن پارے میں کیاکہاگیا ہے اوردوسرایہ کہ وہ کیسے کہا گیاہے۔یہ دونوں نکتے متن کی تفہیم میں قابل قدر ہیں۔ ادب میں کیا کہا گیا اس کا تعلق فکر سے اور ادب میں کیسے کہا گیا اس کا تعلق جمالیا ت سے ہے۔پروین شاکر” خوشبو "کے دیباچے میں لکھتیں ہیں کہ :
۔”آشوب آگہی سے بڑ اعذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا۔”
افسانہ "دہائی اس کی” کے کینوس پرفریدہ نثار احمد انصاری اسی آشوب آگہی کے کرب سے دوچار ہیں۔انسانی وجود کو جب محبت کا وجدان ملتاہے تودنیا ست رنگی نظرآتی ہے۔اس ست رنگی کا نظارہ کرنے کے لیے لمبی لمبی جٹائیں والانیلی چھتری کی جانب کئی صدیوں سے دیکھ رہاہے۔جب اس کا بیان افسانہ نگارلفظوں میں کرتاہے اس وقت حرف حرف دل کے زخموں کی لودیتے نظرآتے ہیں جس سے روشنی جب پھوٹتی ہے تو قاری کو احساس ہوتاہے کہ بے پردگی عذاب الہی کا پیغام دیتی ہے۔نیزلفظوں کے یہ موتی اس راز کو بھی عیاں کرتے ہیں کہ محبتیں چاہتی ہیں کہ دل کے غلاف میں ملفوف رہیں۔چہرے چھپے رہیں لیکن افسوس معاصرزندگی کی پگڈنڈی پر اس دولت کو سرے عام بے پردہ کیا جارہا ہے۔بے پردگی کے محور پر اس افسانے کاتھیم محو رقص ہےجس کا تفہیم اس متن سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔:
۔”جہاں جگ یہ دیکھ رہا تھا وہیں ریگ زار کے ذرے گواہی دے رہے تھے کہ محبت کتنی صاف و شفاف، پاک ہوتی ہے جب آپ صلی الله علي وسلم نے اُمہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عبداللہ اُم مکتوم نابینا صحابی کے لئے پردے کا حکم دیا تھا۔اس وقت پوچھا گیا کہ وہ نابینا ہیں پھر پردہ کیوں؟ جواب ملا ” وہ نابینا ہیں لیکن تم تو دیکھ سکتی ہو۔” اور چہرے پر گھونگھٹ ڈال دیا گیا۔”
مالک کائنات نے اس دنیا کو بھی اوزون کے پردے میں چھپایا ہے لیکن دھرتی کےباسیوں نے اسے چاک کیا ہےجس سے گیتی بے حجاب ہورہی ہےجوالقہار! الجبار کے غصے کا سبب بن رہاہے۔المختصر بے پردگی کے عذاب کااشارہ اس افسانے میں فنی انداز سے پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہےجس میں بیانیے کا فسوں خوب ہےاور زمین زادوں کو یہ پیغام ہے کہ :
۔”محبتوں سے سجائی اس دھرتی کے وناش پر کس قدر خود پر جبر سے وہ ناقوس کی آواز سے سب کچھ منتشر کر دے گا اور پھر اس کی محبتوں کا اصل امتحان ہوگا کہ اس کی چاہت کو سجانے والے ابد العبد محبتوں کی جنت میں رہیں گے۔*”
افسانے کی نیم سفافیت سے قاری کو وہی جمالیاتی آسودگی ملتی ہے جوچلمن کے بطن سے پیداہوتی ہے۔حماد احمد حمادکاافسانہ”تصویر درد”اپنی بنت اور بیانیہ کی سادگی ،شگفتگی ودلکشی میں کامیاب رہا،جس کی روانی جیسے گنگا کی سبک لہریں خاموشی سے بہے جارہی ہوں۔منظر نگاری ایسی جیسے قاری محسوس کررہا ہے کہ وہ تما م مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔افسانے کے کینوس پر جیسے جیسے قاری آگے بڑھتاہے ایک ایک کردار سامنے آتے جاتے ہیں اور اپنا جلوہ د کھاتے ہیں۔بہواور بیٹے کے کردار بے رخی کے استعارہ ہیں۔آج کی ناخلف اولاد شادی کے بعد جس طرح اپنے والدین کے ساتھ سلوک کرتی ہے اس کے پیش نظر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں ان کی تربیت میں کوئی کمی تو نہیں رہ جاتی ہےیا پھر ہمارے پچھلے اعمال ہی ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔شمشاد بیگم نے اپنی ساس کے ساتھ جو سلوک کیا، وقت نے ان کو اسی شکل میں واپس لوٹادیاکیونکہ یہ دنیا مکافات عمل بھی ہے۔!افسانے کا اختتام سبق آموز ہے جہاں احساس گنا ہ ہویدا ہوا ہے لیکن تب تک دیر ہوچکی ہے۔افسانے کے درمیان میں جہاں بڑھیا منظرنامے پرآتی ہے وہاں افسانہ کھلتانہیں ہے بلکہ ایک تجسس پید اہوتاہے کہ آخر یہ کون ہے اور عرفان صاحب سے اس کے کیا رشتے تھے۔؟جس کا خلاصہ تین چوتھائی حصے کے بعد ہوجاتاہے۔اقبال کی نظم تصویردرد "میں بھی ایک ماں زمانے کے ستم سے تصویر درد بنی ہے لیکن وہاں بیٹے کی جدائی اس کا مقدر ہے جبکہ یہاں بیٹے اور بہو کی بے رخی۔۔۔!بہوکی آواز سن کر شمشاد بیگم نے جس رد عمل کا اظہار کیاوہ ماضی میں ساس کے ساتھ کئے گئے اخلاقی جرم کا اعتراف نامہ ہے تب ہی تو کہتی ہے۔:
۔”بیٹا! وقت شاید لوٹ کر پھر وہیں آ ٹھہرا، قدرت اپنا فیصلہ شاید پھر دوہرانا چاہتی ہے.. وہ بھی مئی کی ایک ایسی ہی دوپہر تھی….. یہی خشک ترین دوپہر… جب…. جب میں اس عورت کو اس کے اسی گھر سے جس کی وہ مالک تھی…. اس حویلی پر جس کام کندہ تھا… نکال دیاتھا۔”
اختتام پرشمشاد بیگم کے جسم کا اگلاحصہ ماضی کے شکستہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جواپنے ہی عمل کے تعاقب کے حصار میں گم ہے۔ امیر حمزہ اعظمی کا افسانہ "آخری کنکر” درد و کسک میں ڈوباایک باپ اور اس کے ناخلف اولاد کی ایسی روداد زندگی ہے جس کو پڑھ کرمعاشرے میں پھیلی اس بیماری پر کف افسوس ملنے کوجی چاہتاہے۔کئی مکالمے دل کو چھوئے۔زبان سلیس اور رواں ہے۔مشاہدہ گہراہےاور پنچ لائین پر دل مچل اٹھتاہے۔افسانے کے درپن میں ہم اپنے معاشرے کی تصویر دیکھ سکتے ہیں،جہاں افسانے کا راوی اپنے قاری کویہ اطلاع فراہم کرتاہے۔
۔”اب تیرے بالوں میں سفیدی تیرنے لگی ہے پیسے بٹور لے آخرت کی فکر کر آدمی جن اولادوں کو بڑھاپے کی لاٹھی سمجھ کر پالتا ہے جن کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے وہی لاٹھیاں بڑھاپے میں سرپر پڑتی ہیں اور سر کی ٹوپی دور چھٹک جا تی ہے ۔”
یہ اسی اولاد کی رودادہے جس کے دامن کو ایک باپ کائنات کے ست رنگی اور پھولوں کی خوشبو سے معطر رکھناچاہتاہےلیکن جب بیٹا جوان ہوتاہے تو اسے اپنے ہی گھر کے ماحول میں گھٹن محسوس ہونے لگتی ہے۔وہ ماں جو جب تک بیٹا سفر میں رہتاہے ،ماںسجدے میں رہتی ہے، اس کا بوسیدہ آنچل بھکارنوں کے دامن جیسالگنے لگتاہے۔افسانہ دبے لفظوں میں یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ہماری تعلیم او رتربیت گاہیں بھی اس کے ذمہ وار ہیں۔تب ہی تو اس نے سات کنکڑی اسکول کے پھاٹک پر مارااور ایک بیٹے کے نرسنگ ہوم پر۔۔۔۔!اسی نشست میں” تصویر درد”(حماد احمد حماد )کے کینوس پر بھی اولاد کی ناخلفی کو پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔لیکن ان دونوں افسانوں کا تقابلی جائیزہ اس نکتے پر لاتا ہے کہ” تصویر در "میں ماں شمشاد بیگم ماضی میں ساس کے ساتھ کئے گئے اخلاقی جرم کا اعتراف کرتے ہوئے محسوس کرتی ہے کہ شاید وقت لوٹ کر پھر وہیں آٹھہرا ہے ،قدرت اپنا فیصلہ شاید پھر دہرانا چاہتی ہے جبکہ زیر نظر افسانے میں تعلیم وتربیت گاہیں نشانے پرہیں۔افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں اس وقت تک رکھتا ہے جب تک وہ آخری جملہ نہ پڑھ لے۔افسانے میں جہاں منافقت کی نشان دہی ہے وہیں مرد اساس معاشرے کی سفاکی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو گڑیا کو کھڑکی سے ڈھکیل کر یہ فرض کرلیتی ہے کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن شاید ان کو نہیں پتہ کہ جب سماج یا معاشرے میں بلا وجہ کسی گڑیا کا دل ٹوٹتا ہے توزلزلے آتے ہیں۔افسانے میں عورت کو کمزور بنا کر پیش کیا گیاہے۔اکیسویں صدی کی گڑیا اب ایسی نہیں رہ گئی ہے کہ اس کو کھڑکی سے ڈھکیل دیا جاے۔افسانے کی بنت اچھی ہےاور گڑیا جیسی مظلوم طبقے سے ہمدردی بھی پیدا ہوئی۔گڑیا کی بے بسی کو دیکھ کر یہ شعر ذہن کے سائبان میں گونج اٹھتا ہے۔
تیرے ماتھے کا یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
دانش اثری کا افسانہ”مغرب” المیاتی افسانہ ہے جس میں تجسس، ‘منظر نگاری ‘،واقعہ نگاری اور کردار نگاری کی رمق ہے۔غریبی اور یتیمی کے دنوں میں زندگی کس قدر نسب وفراز سے گزرتی ہے، اس کا عکس افسانے میں ہےجس کے باعث مرکزی کردار سے قاری کو ہمدردی پید اہوتی ہے لیکن اس بات کا افسوس بھی کہ اس نے زندگی کے تنگ دست دنوں میں مغرب کا ہی رخ کیوں کیا؟مشرق کی جانب بھی جاسکتی تھی۔اگر وہ ایسا کرتی تو اسے زمین میں ڈوبنے کی نوبت نہیں آتی۔افسانہ یہ اشارہ کررہا ہے کہ آج ہمارے سماج میں شیزاجیسی بے شمار لڑکیاں سماج کی بے حسی سے غلط راہ پر چلی جاتی ہیں۔راوی کے نام پارسل کا آنا بھی خاموشی سے بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔اسماعیل شاداں کا افسانہ "لذت درد”ایک بیانیہ افسانہ ہےجس کے ڈانڈے آگے چل کرمذہب سے مل جاتے ہیں ۔ ذات کا دردسے آشنا ہونا ایک فطری جبلت ہے۔یہ جبلت عاشق و معشوق کے دل کے نہاخانوں میں پنپتی ہےلیکن زیر نظر افسانے میں اسلامی تار یخ کے پس منظر میں اس کو اجاگر کرنے کی کوشش ہوئی ہے کہ سرور کائنات سے والہانہ عشق رکھنے والے صحابی صحرا کے تپتے ریگ زار میں کیسے کیسے ستم سے نبرد آزما ہوئے لیکن اف تک نہیں کیے ۔صرف اورصرف اس لیے کہ انہیں لذت درد سے آشنا ہونے میں ایک روحانی خوشی ملتی تھی۔ان کے جذبے کا یہ حال تھا۔
کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
(ناصر کاظمی)
ایم مبین کا افسانہ "انکاونٹر میںواقعیات یک کے بعد دیگرے سامنے آتے گئے اور کڑی سے کڑی ملتی گئی جس کو پڑھنے کے دوران ایسا محسوس ہوتارہا جیسے ہم کوئی فلم دیکھ رہے ہیں۔افسانے میں قدرتی موت کو بلیک موت بنایا گیاہے۔افسانے کے کسی کردار سے قاری کو ہمدردی پیدا نہیں ہوتی ہے ایسا اس لیے کہ سب کے سب ایک حمام میں ننگے ہیں جو کسی سماج یا سوسائٹی کو مثبت پیغام نہیں دیتے ہیں۔افسانے میں پولیس نے بلیک مین کی وائٹ موت کو بلیک موت بناکرپنکی اور داموکو نجات دلادی ۔افسانے میں افسانویت کی کمی کا احساس ہوا۔اسلوب روایتی بیانیہ ہے ۔رخسانہ نازنین کاافسانہ "بدلتے چہرے” معا شرے کی ایک کڑوی سچائی کو پیش کرتا ہے۔جدید سوسائٹی میں اعلیٰ طبقہ پست طبقے کی طرف نگاہ ڈالنے سے کتراتا ہے۔حتٰی کہ مذہبی امور سے بھی نظریں چراتاہے۔افسانہ اسی خیال کے محور پر گردش کرتا ہے۔افسانہ سپاٹ بیانیہ اسلوب میں لکھا گیا ہے جس میں افسانوی چاشنی کی کمی کا احساس ہوا۔ناہیدطاہر اچھا لکھتی ہیں۔اس سے قبل ان کے کئ افسانے نظر سے گزرے ہیں۔اس افسانے میں معاصر زندگی میں نسائی استحصال موضوع بحث ہے۔اس کے علاوہ سماجی زندگی میں استحصالی عناصر کی نشاندہی بھی کی گئ ہے۔افسانے کےاختتام پر جو چینخ ابھری ہے وہ نسا ئیت کی بے بسی کا استعارہ ہےجو انسانیت کے خاتمے کی داستان کی تمہید ہے۔زیبا خان کا افسانہ "شکست”پراپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے پروفیسر محمد حسین آزاد رقمطراز ہیں :
۔”اچھا روں افسانہ ہے جزیات نگاری کمال کی ہے۔افسانے میں محاکاتی رنگ نمایاں ہے لیکن دو جگہ تکنیکی خامیاں راہ پاگئی ہیں ۔آج سے بیس برس قبل موبائل اتنا عام نہیں ہواتھا اور اسمارٹ فون تو شاید یہاں آیا بھی نہیں تھا۔دوسری بات یہ کہ رانی کا واچ مین کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں تھا تو پھر اسے اس کے گائوں کا پتا کیسے معلوم ہوگیا؟بہر کیف!ان چھوٹی موٹی خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی کوش ہے ۔”
شمیم جہانگیری کا افسانہ "دشمن پیدا نہیں کرنا”کے حسب و نسب سے چشم پوشی کرتے ہوئے گاوں کے لوگوں کی ایک کہاوت یاد آتی ہے کہ ۔۔۔۔۔جو من وا بھاوے اوہے بیدوا بتاوے۔صادق اسدصاحب کا افسانہ "آتش دان”کا اسلوب سادہ بیانیہ ہےجس میں منظرنگاری کی کوشش ہوئی ہے۔عام بول چال کی زبان میں یہ افسانہ قاری کو تجسس میں رکھتاہے کہ آگے کیاہونے والا ہے۔بوڑھا افسانے کا پرسرار کردار لگتاہے۔آسیہ رئیس خان کا افسانہ” ٹائم ٹیبل”طنزیہ لب ولہجے میں انسانیت کے استحصال پرروشنی ڈالتاہے بقول ڈاکٹرصفیہ بانو:
۔”عنوان سے ہی اندازہ ہونے لگتاہے کہ آج کا انسانی سماج ایک ایسی گردش میں گھومتا نظر آرہا ہے کہ جہاں انسانیت ہر روز دم توڑتی نظر آتی ہے یہی نہیں علی جیسے نوجوان بے قصور ہوتے ہوئے بھی مجرم قرار دے جاتے ہیں۔ہماری روزمرہ زندگی میں علی جیسے نوجوان سیاسی ٹائم ٹیبل میں پھنس کر اپنے ٹائم ٹیبل کو بھول جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔”
حال دوراں میں سب سےسنگین مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔اس پر ستم یہ کہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوے استحصالی طبقہ متاثر طبقے کو سبز باغ دیکھا کر ان کا استحصال کرتا ہے اور اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔اس موضوع کواس افسانے میں پیش کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔افسانہ نگار کو لکھنے کا شعور ہے لیکن افسانے کو افسانہ بننے میں ایک دو آنچ کی کمی رہ گئی ہے جو مشق جاری رکھنے سے دور ہو سکتی ہے۔اسلوب سادہ بیانیہ ہے۔افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خود کو قاری سے پڑھوالیتا ہے۔رفیعہ نوشین کا افسانہ "ہمت مرداں” بہت اچھا اور دل پزیر ہے جس کے کینوس پر ایک بیوہ کی بے باکی اپنے عروج پر ہے۔اس کی بے باکی افسانے کو ترقی پسندی کے حصار میں کھڑا کرتی ہے۔جس کے باعث افسانہ تانیثیت کا علمبردار بھی بن جاتا ہے۔امتیاز نے خفیہ طور پر ثواب کمانے کے لیے چمبیلی کے منڈوے تلے نکاح کرنے کا جو منصوبہ بنایا اس کو ماہرہ کی حوصلہ مندی اور بے باکی نے زمیں بوس کردئے۔ افسانے میں امتیاز کی پسپائی ماہرہ کی سربلندی کا سبب بنتی ہےاور نسا ئیت کی آبرو محفوظ رہتی ہے۔”موم کی گڑیا ” ڈاکٹر شگفتہ غزل کا افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں اس وقت تک رکھتا ہے جب تک وہ آخری جملہ نہ پڑھ لے۔افسانے میں جہاں منافقت کی نشان دہی ہے وہیں مرد اساس معاشرے کی سفاکی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جو گڑیا کو کھڑکی سے ڈھکیل کر یہ فرض کرلیتی ہے کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن شاید ان کو نہیں پتہ کہ جب سماج یا معاشرے میں بلا وجہ کسی گڑیا کا دل ٹوٹتا ہے توزلزلے آتے ہیں۔افسانے میں عورت کو کمزور بنا کر پیش کیا گیاہے۔اکیسویں صدی کی گڑیا اب ایسی نہیں رہ گئی ہے کہ اس کو کھڑکی سے ڈھکیل دیا جاے۔افسانے کاپلاٹ اچھاہےاور گڑیا جیسی مظلوم طبقے سے ہمدردی بھی پیدا ہوئی۔گڑیا کی بے بسی کو دیکھ کر یہ شعر ذہن کے سائبان میں گونج اٹھتا ہے۔
تیرے ماتھے کا یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے ایک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
ڈاکٹر یاسمین اخترکا افسانہ” وہ ملاقات” روایتی موضوع کے کاروں کو آگے بڑھاتا ہے۔محبت وہ تلازمہ ہے جو ابتدائے آفرنیس سے ادب کا موضوع رہا ہے اور جب تک دنیا قائم رہے گی اس کی تابناکی میں کمی نہیں آ ئے گی کیونکہ انسان کا خمیر اسی سے اٹھا ہے۔اس افسانے کا بھی موضوع محبت ہی ہے جس کے کینوس پر دو ہنسوں کے جوڑے ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں۔پس وپیش کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے لیکن جب زیبا نکاح کے بدلے امن کے ہاتھ میں ورمالا دیکھتی ہے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہےاور وہ وہاں سے واپس چلی جاتی ہے ۔زیبا کی واپسی محبت پر مذہب کی فوقیت کا اشارہ کرتی ہے۔یعنی رواں عصر میں محبت اندھی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی بنیاد کی تلاش کرکے اپنا قدم آگے بڑھاتی ہے۔افسانے کے اختتام پر امن کی مسکراہٹ معنی خیز ہے۔اسلوب سادہ بیانیہ ہے ۔کئی واقعیات بہت جلد رونما ہو گئے ہیں جس کے باعث بیانیہ میں مصنوعی پن کا احساس ہو تا ہے۔افسانہ درمیان میں کہیں نہیں کھلتا ہے یہ اس کی خوبی ہے۔ناصر ضمیر کا افسانہ” من دریدہ سایہ "خودکلامی اسلوب میں ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس کے پنہائیوں میں گوتم بدھ کے اس نظریے کی تبلیغ ہوئی ہے جس میں انہو ں نے ناری سے نفرت نہیں کی لیکن اس سے خط فاصل بڑھائے رکھنے کا مشورہ ضرور دیا کیونکہ ان کے مطابق ناری سے دوری نروان حاصل کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔افسانے کا مرکزی کردار اس پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے لیکن اس کی محبوبہ ہجر کا جام پینے کے لیے رضا مند نہیں ہےجس کے باعث افسانے کے اختتام پر لات گھونسا چلنے کی نوبت آجاتی ہے۔افسانہ اس نکتے کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ دنیا میں دو ہی مذہب ہے ایک امیری اور دوسری غریبی۔اس نشست میں خصوصی طور پر تین افسانے”سانڈ”،”بندوبست”اور "خوابوں کےدریچے بند ہوئے”پیش کئے گئے۔آخرالذکر افسانے پر دانش اثری اپنے ناقدانہ شعور کی روشنی میں رقمطراز ہیں:
۔”عظیم اللہ ہاشمی ہمارے عہد کے ان افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنھوں نے نئی نسل کے درمیان تیزی سے اپنی شناخت مستحکم کی ہے۔ وہ صرف ایک افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک ناقد کے بطور بھی اپنی پہچان بناتے جارہے ہیں۔ زیر نظر افسانے میں انھوں نے کولاژ کی صورت مختلف تصویروں سے ایک نئی تصویر بنانے کی کوشش کی ہے۔ کہیں فرقہ وارانہ فسادات کی تصویر ہے، کہیں زنا بالجبر اور استحصالی معاشرے کا سیاہ اور تاریک چہرہ ہے اور کہیں زخم انسانیت کے ساتھ جھوٹی رجائیت پسندی ہے جو انسان کو خود مطمئن نہیں کرپاتی لیکن وہی غیر مطمئن انسان دوسروں کو تسلیاں دیتا ہے تاکہ زندگی چلتی رہے۔ اور ظاہر سی بات ہے اگر ان جھوٹی تسلیوں کا سہارا نہ ہو تو لوگ زندگی سے ہار مان لیں گے اور دنیا ویران ہوجائے گی۔ ان مختلف تصاویر کی یکجائی سے جو نئی تصویر تشکیل پاتی ہے وہ ہمارا نیا ہندوستان ہے جس میں پُرکھوں کی روایت کو فرسودہ سمجھ کر کنارے لگادیا گیا اور اچھے دنوں کے وعدے پر انھیں نفرت کی جہنم میں جھونک دیا گیا۔ ڈاکٹر ہاشمی نے کافی چابک دستی سے ان تصاویر کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور اس کا مرکزی نقطہ ایک نیم پاگل شخص سے وابستہ کردیا ہے۔ واقعی حالات ایسے ہیں کہ ہر ذی شعور اور سنجیدہ شخص جنونی کیفیت سے گزر رہا ہے اس کا شعور کام نہیں کررہا ہے””۔ دانش اثری، مئو
اس نشست کے افسانوں کے مطالعے کا ماحصل یہ ہے۔
1: اس افسانوی نشست میں کل پچیس افسانے پیش ہوئےجن کا سروکارسماجی اور انسانی زندگی سےہےکچے پکے یہ افسانے اپنے چمن میں رہنے والوں سے ایک اپیل کرتے ہیں ۔
2: افسانے بے معنویت کے شکارنہیں ہوئے ہیں۔
3: ترسیل کی گمشدگی کا مسلہ نہیں آیا ہے۔
4: افسانے ذات کے دائرے میں قیدبند نہیں ہوئے ہیں۔
4: ایک دوافسانے میں مذہبی عنصر احاطہ تحریر میں آئے ہیں۔
5: افسانے میں زندگی کی سرگرمی ہے۔
6: سفاک معاشرے،فسطائی قوت، کی ریاکاری موضوع بنے ہیں۔
7:نسائیت کی مظلومیت سے ہمدردی ہویداکرنے کی کوشش ہوئی ہے۔
8: افسانے میں احتجاج کے شعلے کہیں نہیں لپکے ہیں۔
9: کرداروں میں مزاحمتی رویئے بہت کم پائے گئے۔(صلمی صنم کا افسانہ آرگن بازار کو چھوڑ کر)
10: سادہ بیانیہ اسلوب غالب رہا۔
11: افسانوں میں تخیل کی پریاں کم مائل بہ پرواز ہوئیں۔حقیقت کی تصویرکشی زیادہ ہوئی۔
اس ماحصل کے بعد فکر کی سوئی کا انحراف اس جانب بھی ہواکہ ہم ایسا افسانہ کب لکھیں گے جن کے متن سے آنے والی نسلیں جب ہم کلام ہوں گی تو اس میں اس کو اپنے عصر کی گرمی محسوس ہوگی کیو نکہ اکیسوں صدی کی تیسری دہائی میں جوقلم کار سامنے ہیں ان میں نئے اور پرانے دونوں پود کے افسانہ نگارشامل ہیں۔آج کے افسانہ نگاروں کی پشت پر ٹوین ٹاور کی زمیں بوسی کا منظرنامہ ،اپنی مٹی سے اکھڑنے کا خوف،جارحیت کا بڑھتا رجحان ،صارفیت کا بحران ،کوڈ وائرس کی وجہ سے موت کی ننگی ناچ،رشوت خوری ،حقوق صلبی و دیگرمسائل دیو کی طرح کھڑ ے ہیں۔اجتماعی قوت کے زوم میں حق بات بھی دبادینے کی کوشش رواں عصر کو ہٹلری،فرعونی اوریزیدی تانا شاہیت کو ایک بار پھر آکسیجن فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔فسطائی قوت آج بھی نابود نہیں ہوئی ہے اس کے پنجے کی گرفت آج بھی ہمارے معاشرےاورسماج پر ہے۔اس کے زیر اثر اخلاقیت اور انسانیت دونو ں جاں بلب ہیں جس کے سبب انسانی نفسیات پرگہرا اثر پڑا ہے۔ آج کی نئی نسل پولٹری مرغی بن گئی ہے جو خاموشی سے موبائل کے اسکرین پر دو،ڈھائی جی وی نیٹ ختم کرنے کے لیے تکتی رہتی ہے۔اس میں دیسی مرغی کی طرح لپٹ جھپٹ ، چنچل پن اورمٹی کھود کر کچھ پانے کا جنون مفقود ہے۔جس کےبد اثرات آنے والے دنوں میں ہر سطح پر پڑنے کا امکان ہے۔یہ وہ خارجی حقیقتیں ہے جن کے اثرات سے معاصر افسانہ نگارنظریں نہیں چرا سکتاہے۔
المختصر یکم اگست سے 10ستمبر 2022تک عالمی ادبستان مئو کی یہ نشست بہت کامیاب رہی جس میںزیادہ تر افسانے قاری کے من کے آنگن میں مثل چاندی بن کر اترے جن میں انسانی درد کا ایک گہرا رشتہ تھا۔!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page