پروفیسر نیر مسعود ((1936-2017 اردو/ فارسی زبان و داب کے ادا شناس ،تحقیقی وتخلیقی ادب کے پارکھ اوراس سے عملی سروکار رکھنے والے ادیب تھے ۔کلاسیکی ادبیات کا انتخاب، ترجمہ نگاری،ادب اطفال کی سرگرمی کے علاوہ اقبالیات، مرثیہ کی تاریخ،تہذیب ، روایت اور متن پراستادانہ نگارہ رکھتے تھے۔نیر مسعود کو بہت کچھ اس روایت سے حاصل ہوا تھا ،جسے ادبستان کہا جاتا ہے، نیز ادب کے تئیں ان کی اپنی توجہ اور کوشش سے کسی کو کیاانکار ہو سکتاہے۔ ایک فکشن نگار کے طور پر ان کو شہرت و مقبولیت حاصل تھی، مگر ادبیات کے مطالعے میں ان کے تحقیقی شغف کا ایک زمانہ قائل تھا ۔ رجب علی بیگ سرور پر نیر مسعود کے تحقیقی کام کی ستائش تو اردو دنیا نے کی ہے ،وہ ایک بہت عمدہ تحقیقی اور اپنی نوعیت کا منفردکام ہے۔اس کے علاوہ بھی نیر مسعود کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
نیرمسعود کی تحریروں نے اردو نثر کو علمی نثر کی روایت سے ہم آہنگ کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان کی ایک اہم خوبی وہ علمی استفادہ ہے ،جو محققین اور دانشوروں نے ان سے اٹھایا ہے ۔اس کا خاطر خواہ اندازہ رشید حسن خاں کے مندرجہ ذیل جملوں سے لگایا جا سکتا ہے:
’’نیر مسعود صاحب نے مثنویات کے کئی اہم نسخے بلا تکلف میرے پاس بھیج دیے اور خطوں کے جواب پابندی سے لکھتے رہے۔ ‘‘ (مثنویات شوق۔مرتب رشید حسن خاں۔انجمن ترقی اردو (ہند) ۔1988۔ص،164)
رشید حسن خاں مذکورہ کتاب کے مقدمے میں نیر مسعود کے متعلق مزید لکھتے ہیں:
’’ان مثنویوں میں کئی مقامات پر ایسی کچھ باتیں مذکور ہیں جن کا تعلق شیعہ عقائد یا روایات سے ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شاعر مذہباً شیعہ تھا۔ میں نے محض از راہِ احتیاط ایسے مقامات کی وضاحت کے سلسلے میں یہ مناسب بل کہ ضروری خیال کیا کہ کسی راسخ العقیدہ شیعہ سے معلومات حاصل کروں۔ …میرے حلقۂ متعلقین میں نیر مسعود صاحب اس لحاظ سے بھی متعارف حیثیت رکھتے ہیں۔ میں ایسے مقامات کے متعلق ان سے دریافت کرتا رہا اور ضمیمۂ تشریحات میں انھی کے خطوں کی متعلقہ عبارتوںکو درج کردیا ہے۔‘‘ (ایضاً۔ص، 163-162)
نیر مسعودکے خطوط کے علاوہ دیگر ادبی شخصیات خصوصاً رشید حسن خاں کے مکاتیب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے ۔ان مکاتیب سے پروفیسر نیر مسعود کی باریک بیں نگاہ کا قائل ہونا پڑتاہے۔ نیرمسعود کے خطوط میں اردو / فارسی کتابوں کا ذکر بہت سے ۔کتابوں سے متعلق بہت سے بحثیں ہیں ۔یہ مباحث ادبی، تحقیقی اور لفظ و معنی سے متعلق ہیں ۔نیر مسعود سے استفادہ کی ایک عمدہ شکل ان کے مکاتیب ہیں ۔ان میں حالات حاضرہ اور ادبی سیاست پر تبصرہ بھی موجود ہے، مگر اپنے خاص انداز میں کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔قاضی عبدالودود کے نام ایک خط(سن ندارد) میں وہ رشک کے نفس اللغہ کے بارے میں یہ اطلاع دیتے ہیں :
رشک کے نفس اللغہ کا وہ مخطوطہ جو میر انیس کے خاندان میں تھا ۔اب پاکستان میں نمودار ہوا ہے ۔جن صاحب کے پاس یہ موجود ہے ان کا کہنا ہے کہ غالباً یہ مخطوطہ رشک نے نظر ثانی کے لیے میر انیس کو دیا تھا اور میر انیس نے اس میں بعض الفاظ کا اضافہ کیا ہے ۔آپ نے اپنے ایک خط میں نفس اللغہ کی تعریف کی تھی اس وجہ سے مجھے اس لغت میں دلچسپی ہے ۔ (سہ ماہی فیضان ادب اپریل تا دسمبر 2018،ص397) (یہ بھی پڑھیں افسانوی روایت کا منفرد راوی: نیر مسعود – نثار احمد )
گیان چند جین اور نیر مسعود کے درمیان مراسلت کا بیشتر عنوان ادبی و تحقیقی معاملات ومسائل ہیں ۔گیان چند کے جین کے نام ایک خط سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ فسانہ عجائب کے قدیم نسخوں سے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔نیر مسعود نے ان کے خط کا بہت تفصیلی جواب دیا ۔ایک دوسرے خط میں وہ گیان چند جین کو لکھتے ہیں :
ماہنامہ شاعر میں آپ کا مضمون اردو کے ہم صوت حروف پسند آیا ،لسانیات اور صوتیات کے موضوع پر بیشتر مضامین اصطلاحوں کی وجہ سے ٹھیک سے میری سمجھ میں نہیں آتے لیکن آپ کے مضمون سے میرا سا عام قاری بھی مستفید ہوسکتا ہے ۔(ایضاً ص: 403)
’’سہ ماہی فیضان ادب‘‘ نے نیر مسعود پر ایک ضخیم خصوصی شمارہ شائع کیا ہے ۔اس میں نیر مسعود کے ادبی کارناموں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس خصوصی اشاعت میں نیر مسعود کے مکاتیب بھی شامل ہیں ،ان کے تقریباً 17خطوط شائع کیے گئے ہیں ۔جو ڈاکٹر خلیق انجم ،پروفیسرنثار احمد فاروقی ،قاضی عبدالودود،مخمور سعیدی ،کرشن موہن ،پروفیسر گیان چند جین ،احمد ہمیش،اسلم پرویز،ٹی آر رینا،جوگیند ر پال،مظہر امام اور نامی انصاری وغیرہ کے نام لکھے گئے ہیں ۔ان مکاتیب سے نیر مسعود کی ادبی سنجیدگی،علمی شغف اور دوسروں کے کام آنے کے جذبے کو بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ان کے انداز و اسلوب کی متانت بھی قابل رشک ہے ۔ نیر مسعود کے نام رشید حسن خاں کے خطوط کے مطالعے سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ رشید حسن خاںجیسے محقق و مدون کے نزدیک ان کو کس قدر اعتبار حاصل تھا۔رشید حسن خاں نے نیر مسعود کو1991سے 2003کے دوران 57خط لکھے ہیں۔ خطوط سے تحقیق و تدوین کی ایک بوطیقا مرتب کی جاسکتی ہے ،نیز یہ بھی کہ نیر مسعود سے رشید حسن خاں شوخی اور بے باکی کی حد تک گفتگو کرلیتے ہیں ۔نیر مسعود کے نام رشید حسن کے خطوط میں ’گلزار نسیم‘ کے بعض اشعار کی تعبیر و تشریح سے متعلق لفظی مباحث پر استفسار ہے ۔
جب بکاولی حوض میں پھول نہیں پاتی تو برہم ہوتی ہے ،اس وقت:
لرزاں تھی زمیں دیکھ کہرام
تھی سبزے سے راست موبراندام
دوسرے مصرعے میں ’تھی ‘بھی پڑھ سکتے ہیں اور ’تھے‘بھی یعنی یوں بھی :
تھے سبزے سے راست موبراندام
اور’ تھی‘ کی صورت میں زمین مبتداہوگئی ۔نسخہ چکبست و نسخہ قاضی عبدالودود میں ’تھی ‘ہے ۔آپ کی رائے میں مرجح صورت کیا ہے ۔(رشید حسن خاں کے خطوط،ڈاکٹر ٹی آر رینا(مرتب)،2011 ص:981)
اسی طرح 1995کے ایک خط میں رشید حسن خاں نیر مسعود صاحب سے استفسار کرتے ہیں :
بہار عشق میں ایک شعر ہے :
قبضۂ مرتضی علی کی قسم
اسی اللہ کے ولی کی قسم
ایک صاحب نے بتایا کہ پہلے کبھی یہ قسم بھی کھائی جاتی تھی اور ’’قبضہ سے مراد قبضۂ ذوالفقار ہے ۔کیا ایسی کوئی قسم تھی ؟’قبصہ‘کے ایک معنی ’’بازو‘‘بھی لکھے ہیں ۔(حوالہ بالا ص:(996
ایک اور خط میں استفسار کی یہ شکل دیکھیں :
نوج اس طرح بھی کوئی گھبرائے
نج کوئی اتنی ہول ہول مچائے
میراخیال یہ ہے کہ ’نج‘اسی ’’نوج ‘‘کی مخفف شکل ہے ۔ذرا بیگمات سے پوچھیے تو کہ کبھی یہ لفظ کانوں میں پڑا ہے ؟آپ کی خوش دامن صاحبہ شاید بہتر طور پر بتاسکیں۔نو ر میں یہ موجود نہیں ۔(ایضاًص:999)
اسی طرح لفظ ’’صحنک سے متعلق سوال و جواب کو دیکھا جاسکتاہے ۔رشید حسن خاںنے /7اگست 1995کو ایک خط میں نیر مسعود سے پوچھا کہ :
’’صحنک ‘‘کا لفظ ایک جگہ آیا ہے ۔اس سے تو میں واقف ہوں ،لیکن بس یونہی سا۔میں نے یہ سنا تھا کہ مرد اس میں شرکت نہیں کرسکتے …میں نے کہیں پڑھا تھا کہ زردہ بھی بعض جگہ ہوتا ہے ۔یعنی صرف زردہ (پلاؤ والا زردہ ۔(۲)کیا زنانہ صحنک میں صرف ’سیدانیاں‘شریک ہوسکتی ہیں کیا دوسری عورتیں پاک دامن ہونے کے باوصف شریک نہیں ہوسکتیں ؟(۳)پاک دامن ہونا شرط ہے یا بن بیاہی ہونا بھی شرط ہے ۔آپ کی بیگم صاحبہ نے کبھی صحنک میں شرکت کی ہے ۔مطلب یہ ہے کہ حیطہ تصرف میں آنے سے پہلے ۔اب ان بیچاری کو اتنی مہلت کہاں ملتی ہوگی ۔انھوں نے کیا دیکھا ہے ،نیاز کا کھانااور شرکا کے سلسلے میں ۔(حوالہ بالا ص:998-999)
اس کا جواب خط کی شکل میں نیر مسعود صاحب نے دیا تھا ۔وہ خط تو نہیں مل سکا مگررشید حسن خاں نے مثنویات شوق میں اپنے اس استفسار کے ذکر کے بعدنیر مسعود کا جواب تحریر کیا ہے ،جو انھوں نے بھیجا تھا ۔یہاں اسے نقل کیا جارہا ہے ۔اس سے تحقیق و جستجو کی لگن کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ ( یہ بھی پڑھیں نیر مسعودکی افسانہ نگاری عطرکافور کی روشنی میں- ڈاکٹر عبدالسمیع )
’’صحنک ‘‘ میں دہی ،چاول،شکر کا رواج زیادہ ہے ،لیکن زردہ بھی ہوتا ہے ۔یہ عموماً شادیوں میں دلہن کی گود بھرائی کے موقع پر ،ختنے اور گھوڑے چڑھائی(یعنی مختون کے تندرست ہوجانے کے بعد کی رسم )کے موقع پر ہوتی ہے ۔مراد برآنے کے لیے بھی مانی جاتی ہے ۔زنانہ ،مردانہ دونوں طرح کی ہوتی ہے ۔مردانہ صحنک پر رسول خدا ،حضرت علی ،شہدائے کربلا کی نذر دی جاتی ہے ۔زنانہ صحنک پر جناب سیدہ کی نذر ہوتی ہے ۔یہ بی بی کی صحنک بھی کہلاتی ہے ۔بندکمرے میں ہوتی ہے اور پہلے چھ عورتیں چکھتی ہیں ۔مرد اسے چھونہیں سکتے ،بلکہ اس بند کمرے میں چھوٹا لڑکا تک نہیں جاسکتا۔ان چھ خواتین کا سیدانی ہونا پہلے ضروری تھا،اب اس شرط کی سختی کے ساتھ پابندی نہیں ہوتی ۔ان خواتین کے چکھنے کے بعد بیاہیاں ،بن بیاہیاں ،سیدانیاں ،غیر سیدانیاں سبھی چکھ سکتی ہیں ۔ان کا پاک ہونا شرط ہے ۔پاک اس معنی میں بھی کہ غسل وغیرہ کی حاجت نہ ہواور اس معنی میں بھی کہ لباس یا بدن پر کسی قسم کی نجاست نہ ہو ۔پاک دامن ہونا ظاہر ہے کہ ضروری ہے ۔لیکن یہ امر اعتباری ہے اور یہ اعتبارمسلم خواتین کی گھرانوں کو حاصل ہے ،یعنی ان کے بارے میں یہ تفتیش نہیں کی جاتی کہ وہ پاک دامن ہیں یا نہیں ۔
مثنویات شوق ۔مرتب رشید حسن خاں۔انجمن ترقی اردو (ہند) ۔1988۔ص،310-309)
اس طرح کی بے شمار مثالیں نیر مسعود کے نام خطوط میں موجود ہیں۔ان سے رشید حسن کے تحقیقی شغف اور نیر مسعود کی بے مثال ادب دوستی کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔نیر مسعود کو ایک خط میں انھوں نے تحقیق سے متعلق اپنے تجربہ کو اس طرح لکھا ہے کہ وہ محقق کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل قرار دی جاسکتی ہے :
میرا تجربہ یہ ہے کہ باغ و بہار ،فسانہ عجائب،گلزار نسیم اور اب یہ مثنویاں،ان سب کے نتیجے میں کہ لگن سچی ہو اور آدمی پوچھنے میں شرم نہ کرے اچھے طالب علم کی طرح ،اور یہ کہ صبر کی توفیق رفیق رہے تو پھر ہر نسخہ مل جاتا ہے اور ہر کام ہوجاتا ہے ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز ملی نہیں اس میں کم توجہی کو دخل ہوتا ہے یا پھر اس کوکہ طلب صادق نہیں ہوتی اور آدمی کام کو جلد تر کرنا بل کہ بھگتانا چاہتا ہے ۔میں نے باغ و بہار کے سلسلے میں ہندی مینول کی تلاش میں مکمل بیس سال تک صبر کیا اور تلاش کرتا رہا آخر کو مل گیا،جبکہ سب کو اس کا یقین آچکا تھا کہ وہ ناپید ہوچکا ہے ۔(ایضاًص :997)
نیر مسعود کے نام ان خطوط میں مثنویات شوق کے اولین نسخے کی تلاش و جستجو کی پوری داستان موجود ہے ۔نیر مسعود،اسلم محمود،شمس الرحمن فاروقی ،عقیل رضوی اور اسلم پرویز سب لوگ اس جستجو میں شریک ہیں مگر رشید حسن خاں کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر نیر مسعود کو ان کے یہاں کس قدر اعتبارحاصل تھا۔20جنوری 1995 رشید حسن خاں نیرمسعود کو لکھتے ہیں :
دیکھیے نیر صاحب !یہ بات بنے گی اس طرح اور نہ چلے اس طرح ،نسخے آپ کو حاصل کرنا ہیں،جس طرح بھی ہو،طریقہ کار آپ جانیں ۔لیکن مجھے وہ نسخے ہر طور پر ملنا چاہیے ۔(ایضاص:982)
نیر مسعود صاحب صاحب کے یہاں اس طرح کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ان کے مکاتیب سے یقینا علم و دانش کی روایت کو فروغ ملا ہے اور ان کی اہمیت دو چند ہوتی جائے گی ۔آخر میں نیر مسعود کے اس خط کا ذکر کیا جارہا ہے جسے تدریسی سیاست کے ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
لکھنو یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں پر وفیسر کی ایک جگہ تھی اور گیان چند جین کے دل میں یہ خواہش تھی کہ ان کا اس جگہ پر تقرر ہوجائے ۔اس سلسلے میں انھوں نے نیر صاحب کو خط لکھا ہوگا کیونکہ نیر صاحب کے خط کے مندرجات سے یہی واضح ہورہا ہے ۔نیز یہ بھی کہ گیان چند جین کو کچھ اندیشے بھی تھی ورنہ نیر مسعود خط کے آخر میں یہ نہ لکھتے کہ تقرر کے لیے سارے امیدوار اپنے اپنے طور پر کوشش کرتے ہیں لیکن، آپ کے حق میں فیصلہ ہوجانے کے بعدUnwelcome ہونے کا سوال نہیں ،)فیضان ادب ص:(400نیر مسعود 13جنوری 1975کے خط میں گیان چند جین کو لکھتے ہیں:
شعبۂ اردو کی پروفیسر شب کا فیصلہ اسی تعلیمی سال میں ہوجائے گا ۔آپ کو یہ خیال کیوں کر گزرا کہ اردو فارسی شعبوں کے اساتدہ کو آپ کا درخواست دینا ناگوار گزرا ہے ؟اس وقت شعبۂ فارسی میں ڈاکٹر ولی الحق انصاری اور میں لیکچرر ہیں ،ڈاکٹر رغیب حسین صاحب ریڈر اور صدر، شعبۂ اردو میں شبیہ الحسن صاحب انتظامی تقرر کے تحت ریڈر اور صدر ہیں ۔ان کے علاوہ ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی صاحب (جو غالباً دوسال میں سبکدوش ہوجائیں گے )اور ملک زادہ منظور احمد صاحب لیکچرر ہیں ۔سلیمان حسین اور شکیل احمد صاحبان عارضی لیکچرر ۔پروفیسر شب کے مقامی امیدواروں میں صرف شبیہ الحسن صاحب ہیں جن کے متعلق مجھے علم ہے کہ جوڑ توڑ کے آدمی نہیں بلکہ بہت سلجھا ہوا مزاج رکھتے ہیں ،وہ اپنے لیے کوشاں تو ضرور ہوسکتے ہیں لیکن حصول مقصد کے لیے آپ کی مخالف میں کسی کارروائی کی ان سے امید نہیں ہے ۔(سہ ماہی فیضان ادب،مئو ناتھ بھنجن، اپریل تا دسمبر 2018ص:399)
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے ’’رقص شرر‘‘ میں لکھنو یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کا ذکر بہت تفصیل سے کیا ہے ۔اس سے شعبہ کی پور ی فضا سامنے آجاتی ہے ۔اسی ضمن میں انھوں نے پروفیسر شب کے مذکورہ واقعہ کا ذکر بھی اپنے خاص انداز میں کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
پروفیسر نورالحسن ہاشمی کے ریٹائر منٹ کا وقت جس قدر قریب آرہا تھا شبیہ الحسن نونہروی اسی قدرچاق و چوبندہوتے جارہے تھے ۔برسوں بعد ان کے دل میں پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کرنے کا خیال پیدا ہوا اور وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاکہ ہاشمی صاحب کے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا مستقبل روشن اور تابناک ہوجائے ۔وہ ریڈر کے عہدہ پر فائز تھے او ران کی ترقی کے ساتھ ساتھ میرا مستقبل بھی وابستہ تھا ۔مگر جب وقت آیا تو ان کے مد مقابل پروفیسر گیان چند جین آگئے جو اپنے علمی اکتسابات میں ان سے کہیں آگے تھے مگر اس مرحلے کو سید شبیہ الحسن نے نہایت عزم اور حوصلے کے ساتھ طے کیا اور ایسا داؤںماراکہ گیان چند جین چاروں خانے چت ہوگئے اور شبیہ الحسن پروفیسر ہوکر صدر شعبہ کے عہدہ پر فائز ہوگئے (رقص شرر،ملک زادہ منظور احمد ص :358)
نیر مسعود صاحب نے وقیع علمی وادبی کارنامے دیے ۔تحقیق و ترجمہ کے ساتھ ساتھ ایک فکشن نگار کے طور پر ان کی ایک منفرد شناخت ہے ۔البتہ اس دوران جب ان کے مکاتیب کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو ایک خوش گوار حیرت کا احساس ہوتا ہے کہ یہاں بھی علم و ادب کی ایک دنیا آباد ہے ۔نیر مسعود کے خطوط کی تحقیق و تدوین یقینا علم وادب کا ایک اہم کام ثابت ہوگا۔ جہاں زندگی علم وادب کے پیرائے میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ اور یہ بھی دیکھا جاسکتاہے کہ ایک محقق کس طرح چیزوں کو تلاش کرتا ہے اور آخر وقت تک ہمت نہیں ہارتا ۔نیر مسعود کے توسط سے علم و دانش کی ایک دنیا آباد تھی ۔اس دنیا کو محدود دائرے میں نہیں دیکھا جاسکتاہے ۔ مکاتیب نیر مسعود کے تعلق سے اگرچہ یہ ابتدائی مطالعہ کہا جائے گا لیکن بسااوقات ابتدائی کوششیں ہی بڑے کام کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہیں ۔
ڈاکٹر عمیر منظر
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] متفرقات […]