تحقیق و تنقید:ملک محسن رضا، ایم فل اردو، حافظ آباد،پاکستان
موبائل نمبر:923454830129
ای میل:mohsinphullarwan@gmail.com
درد کے شاعر،روایتِ میرؔ کے امین اور محبت کے سفیر ناصرؔ کاظمی 8/ دسمبر 1925 بروز ہفتہ کی علی الصبح اپنے نانا مرحوم کے گھر محلہ قاضی واڑہ (انبالہ،بھارت) میں پیدا ہوئے۔(1)اُن کا نام ناصرؔ رضا کاظمی رکھا گیا۔بعد میں اُنھوں نے اپنے نام کے ایک حصے”ناصر” کو اپنا تخلص بنا لیا۔ناصرؔ کے والد سید محمد سلطان بن شریف الحسن فوج میں تھے اور والدہ کنیزہ محمدی شہرانبالہ مشن گرلز سکول میں معلمہ تھیں۔ناصرؔ کے والدین نہایت شریف النفس اور تعلیم یافتہ تھے۔اُنھوں نے ناصرؔ کی پرورش شہزادوں کی طرح کی۔ناصرؔ نےابتدائی تعلیم مختلف شہروں میں حاصل کی۔
ناصرؔ کی ڈائریوں اور دوست احباب کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا بچپن بڑا شاندار گزرا۔اُن کے ہر طرح سے نازو نعم اُٹھائے گئے۔اُن پر کبھی سخت پابندی نہیں لگائی گئی۔یوں بھی وُہ پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔اپنی مرضی پورا کرنے میں اُنھیں جو رکاوٹ نظر آتی وہ اُسے ہٹانے کی سعی کرتے۔اُنھیں وقت کی پابندی سب سے ناگوار گذری۔ناصرؔ کو گھنٹے کے وقت پر بجنے سے سخت چڑ تھی۔کیوں کہ اس آواز کو سنتے ہی انھیں خیال آتا کہ اب کبوتروں کو چھوڑ کر سکول جانا پڑے گا۔اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ:
"جی میں بگڑتا کہ انسان نےیہ کیسی عجیب چیز ایجاد کی ہے جس نے ساری دُنیا کو پابند کر کے رکھ دیا۔ یہ گھڑی میرے اور میرے کبوتروں کے درمیان دیوار بن گئی تھی۔ایک روز میں نے اس گھڑی کی چابی کو اس زور سے گھمایا کہ وُہ چلتے چلتے ٹھہر گئی۔”(2)
عموماً لاڈ پیار سے بچے بگڑ جاتے ہیں لیکن ناصرؔ کے آس پاس بسنے والے اہلِ علم اور صاحبِ ذوق لوگ تھے۔اس لیے ناصرؔ کو اچھے بُرے کی تمیز کا شعور پیدا ہو گیا اور اُن کے ذوق کی تربیت بھی ہوئی۔
ناصرؔ کو بچپن میں کبوتر بازی کا شوق تھا۔سکول سے فرار،باغوں کی سیر،وہاں کے پھولوں کی چوری اورکھیل کود ناصرؔ کے پسندیدہ مشاغل تھے۔
بچپن میں وہی کھلاڑی بنا ہے اپنا میت
جس نے اُونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر
اُن کے بقول:
"میرے سارے ہی شغل ایسے تھے جن کا تعلق تخلیق سے اور فنونِ لطیفہ سے ہے۔موسیقی،شاعری،شکار،شطرنج،پرندوں سے محبت،درختوں سے محبت یہ سب جو ہے معلوم ہوتا ہے کہ میرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ تھا۔”(3)
لیکن کھیل کود اور ان دلچسپیوں کے باوجود وُہ تعلیم کے میدان میں بھی لائق تھے۔ماؤں کو عموماً ناصرؔ کے گھر والوں سے یہ شکایت رہتی کہ اُن کا بچہ ہمارے بچوں کو پڑھنے نہیں دیتا۔اور خود ناصرؔ کے نمبر ہمیشہ اچھے آتے تھے۔اپنی پہلی محبت اور شاعری کے متعلق ناصرؔ کاظمی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:
"1937ء میں جب میری عمر 13 برس کی تھی پہلی بار مجھے دل میں ایک خلش محسوس ہوئی ۔اُس کی ذمہ دار ایک پھول سی لڑکی تھی جس کا نام حمیراتھا۔اور اُسے سب بالو کہہ کر پُکارتے تھے۔میرے والد ڈگشائی میں میجر جنرل پینگلے کے سُپرنٹنڈنٹ تھے۔وہاں ہمارے مکان کے ساتھ ایک ڈرائی کلینر رہتا تھا۔یہ فتنہ اُن کے گھر سے اُٹھا۔اور آج تک دامن گیر ہے۔حمیرا اب یاد تو نہیں لیکن بھولی بھی نہیں۔یہاں سے میری شاعری کا آغاز ہوا۔اُن دنوں میں ننھی مُنی نظمیں کہتا تھا اور اختر شیرانی مرحوم کے شعر بہت چاؤ سے پڑھتا تھا لیکن والدہ کے اصرار پر غزل شروع کی۔خود حمیرا بھی غزل کی شیدائی تھی۔”(4)
اُنھوں نے 1939ء میں مسلم ہائی سکول انبالہ سے میڑک کیا۔1940ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔کالج میں ناصرؔ ہمیشہ بنے سنورے رہتے۔شاندار لباس زیبِ تن رکھتے۔وُہ نہایت وضع دار اور شائستہ انسان تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وُہ بلا کے نفیس اور نازک مزاج بھی تھے۔اُن کے چلنے پھرنے،اُٹھنے بیٹھنے اور گُفتگو کرنے سے قرینہ اور سلیقہ جھلکتا تھا۔ناصرؔ فطرت پرست اور جمال پرست تھے۔ہمیشہ اپنی صحت کا خیال رکھتے۔ان خوبیوں کی بنا پر کالج میں ساتھی اُنھیں Prince کہتے تھے۔ناصرؔ نے باقاعدہ شاعری کا آغاز بھی اسی دور میں کیا۔ غالباً 1940ء کے آس پاس اُنھوں نے شعر کہنا شروع کیا
وُہ روحِ خیال و جانِ مضمون
دل اُس کو کہاں سے ڈھونڈ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھر تھرائے
اُڑتی ہوئی زُلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
(برگِ نے)
بہر حال محبتیں کامیاب ہوں یا نا کام ایک تخلیق کار کے فکر و فن پر ضرور اثر انداز ہوتی ہیں۔ناصرؔ کاظمی کو بھی محبت اور ہجرت نے تخلیقیت سے مالا مال کیا۔
ناصرؔ کی والدہ خوش گلو تھیں۔وُہ میرؔ کے اشعار گُنگنایا کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ناصرؔ کا ترنم بھی اچھا تھا۔وُہ مشاعروں میں ترنم سے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ناصرؔ اپنی والدہ کےمتعلق ڈائری میں لکھتے ہیں:
"میری والدہ انبالہ شہر میں سب سے پہلے سینئر پاس کر کے مشن گرلز سکول میں معلمہ ہوئیں۔میرؔتقی میر،،میر انیسؔ اور میرحسنؔ کی خاص مداح تھیں۔26 /ستمبر 1949ء کی صُبح کو دماغ کی بیماری سے چل بسیں۔”(5)
ناصرؔ نے ابھی بی۔اے کی ڈگری نہیں لی تھی کہ پاکستان بن گیا۔ناصرؔ کو اپنے خاندان اور دوستوں عزیزوں کے ہمراہ ہجرت سے دو چار ہونا پڑا۔وُہ سوائے مختصر سامان کے کچھ نہ لا سکے۔جس تکیہ میں نوٹ سی رکھے تھے وُہ راستے میں کہیں گم ہو گیا۔تقسیم کے فوراً بعد فسادات اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا۔لاکھوں لوگ مارے گئے۔معصوم بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا گیا اور عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ان حالات کا اثر ناصرؔ پر بھی ہوا اور وہ چپ نہ رہ سکے۔
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
برصغیر کے باشندوں نے جس سحر کی اُمید میں قربانیاں دی تھیں،جب اُنھیں وُہ نظر نہ آئی تو وُہ مضطرب و بے چین ہوئے۔اور احساسِ شکست نے اُنھیں گھیر لیا۔اِن حالات میں شعرا نے میریت کی طرف مراجعت کی۔اس طرح میرؔ کا لب و لہجہ اُردو غزل میں پھر سُنائی دینے لگا لیکن میرؔ کی تقلید ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔اس لیے بہتوں نے اس میدان میں ٹھوکر کھائی۔ناصرؔ کاظمی نےمیریت کو اپنی روح میں پوری طرح سمو لیا۔اُنھوں نے قدیم و جدید گل ہائے رنگا رنگ کو اس طرح گلدان میں سجا کر ایوان غزل کی زینت بنایا کہ فضائے شعر معطر ہوگئی۔اُن پر نہ ترقی پسندی کا لیبل لگ سکا اور نہ میرؔ پرستی کا۔اُنھوں نے اپنا ایک منفرد اور امتیازی لب و لہجہ اُردو غزل میں متعارف کرایا۔اسی وجہ سے ناصرؔ کو "غزل کو حیاتِ نو بخشنے والا مسیحا” بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کی رائے میں:
"ناصرؔ کاظمی کی غزلیں فیضؔ،حفیظؔ اور مجروحؔ سے بالکل مختلف ہیں۔ان کی حیثیت ایک نئی آواز کی ہے۔انہوں نے جو عظیم تجربہ اُردو غزل میں کیا ہے،اُس نے تو غزل کی فضا ہی کو بڑی حد تک بدل دیا ہے۔اُن کے یہاں دوسرے جدید غزل گو شعرا کی طرح غزل کی روایت کا عام ماحول نہیں ہے۔انہوں نے اپنی غزلوں میں ایک نیا ماحول قائم کیا ہے۔ایک نئی فضا تیار کی ہے اور اس میں بڑی حد تک ان کی اس نئی Imagery کو دخل ہے جس کا تارو پود انہوں نے اپنے گردو پیش سے لیا ہے۔”(6)
ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وُہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
اُنھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں تم سے اے خزاں والو
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
ناصر کاظمی ہجرت کے بعد نئے شہر میں نئے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکے ۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ آوارگی، لاپرواہی اور شب بیداری کے ساتھ گزارا۔ اُ ن کو دھیان کے آتش دان میں بجھے دنوں کا ڈھیر نظر آتا ہے ۔
دھیان کے آتش داں میں ناصرؔ
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ہجر ت نے اُ ن کو ایسے کرب سے دوچار کیا ہےکہ وہ ذکرِ رودادِ سفر سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔
رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصرؔ
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
پاکستان آنے کے بعد شادی تک ناصرؔ نے کوئی نوکری نہ کی۔ ناصرؔ کاظمی کی شادی 7/جولائی 1952ء کومنٹگمری میں ہوئی۔(7)
اور اسی روز ان کا پہلا شعری مجموعہ "برگِ نے” منظرِ عام پر آیا۔حلقہ اربابِ ذوق اور کافی ہاوس کے دوست احباب بارات میں شامل تھے۔ اُن کی بیگم کانام شفیقہ بانو تھا جو نہایت نیک دل عورت تھیں۔انھوں نے آتے ہی گھر سنبھال لیا اور شوہر کی سبھی عادات سے سمجھوتہ کر لیا۔ ناصرؔ کو کبھی ان سے شکایت کا موقع نہ مل سکا۔ شادی کے بعد ناصرؔ چھوٹی موٹی ملازمتوں سے گھر کا نظام چلاتے رہے۔ پونے پانچ سال تک رسالہ ” ہمایوں ” کی ادارت کی۔ پھر یہ رسالہ بند ہوگیا تو اپنا رسالہ ” خیال ” نکالا جو چل نہ سکا۔ پھر محکمہ اطلاعات کے ایک شعبے میں ملازم ہوئے ۔ یہ شعبہ ختم ہوگیا تو ” ہم لوگ ” کے ایڈیٹر رہے۔ زندگی کے آخری تقریباً سات آٹھ سال تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ ناصرؔ کے دو صاحبزادے سیّد باصر سلطان کاظمی اور سیّد حسن سلطان کاظمی ہیں جن سے ناصرؔ بہت پیار کرتے تھے ۔شروع میں وہ گھر سے لاپرواہ تھے لیکن رفتہ رفتہ وہ اپنے بیوی بچوں کے بے حد قریب آ گئے۔ بیٹوں سے دوستوں کا سا سلوک کرتے تھے۔
ناصرؔ کے بچپن کے دوستوں میں افتخار اور محمد علی کے نام زیادہ اہم ہیں۔اُن کے سب سے پیارے دوست حفیظ ہوشیارپوری تھے۔اُن کے ساتھ ناصرؔ نے طویل عمر گزاری۔ناصرؔ کے دیگر دوستوں میں انتظار حُسین، ریاض،ڈاکٹر عبادت بریلوی،مشکور حُسین،شاہد حمید، شہزاد احمد،فرہاد زیدی اور صفدر قابلِ ذکر ہیں۔ناصرؔ کے دوستوں میں ہر شعبہ زندگی کے لوگ تھے۔
ناصرؔ بڑے دکھی کی پکار تھے۔ وہ اپنے قافلے سے جدا ہونے والی کونج کی مانند تڑپتے رہے اور کُرلاتے رہے ۔ وہ روتے رہے اور رلاتے رہے۔ گئے دنوں کے سراغ میں وہ بیکل سڑکوں پر محو خرام رہتے۔ اُنھیں دل کے آنگن میں بسے ہوئے لوگ ،آنکھوں میں سجے ہوئے لوگ اور روح میں رچے ہوئے لوگ پل پل یاد آتے ہیں۔
کڑے کوسوں کے سناٹے ہیں لیکن
تری آواز اب تک آ رہی ہے
جانے کی اس کے شہر سے جلدی تھی مگر
اس شہر سے چلے تو ہوا دل اُداس بھی
وہ اُداس ہو سکتے ہیں،تڑپ سکتے ہیں،رو سکتے ہیں،صدا دے سکتے ہیں لیکن گئے دن واپس آجائیں یہ اُن کے بس کی بات نہیں۔اُ ن کے پاس یادوں کا سرمایہ ہے۔ وہ حسین یادوں کے سہارے زندگی بسر کرتے رہے۔ ساون رُت کی پون چلتی ہے اور پتوں کی پازیب بجتی ہے تو انھیں کوئی یاد آتا ہے۔
پھر ساون رُت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے
اور جب ہرے گھاس میں کونجیں بولتی ہیں تو بھی انھیں محبوب یاد آتا ہے۔
پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رُت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے
اور ان کو یہ فکر بھی تو لاحق ہے کہ اُن کا چاند کس دیس میں اُترا ہو گا۔
شام سے سوچ رہا ہوں ناصرؔ
چاند کس شہر میں اترا ہو گا
ناصرؔ کاظمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ "برگِ نے” مکتبہ کارواں لاہور سے 1952ء میں شائع ہوا۔غزلوں کا دوسرا مجموعہ "دیوان” 1972ء میں منظرِ عام پر آیا۔اُن کی وفات کے بعد ایک مجموعہ "پہلی بارش” 1975ء میں شائع ہوا۔اُن کی نظمیں "نشاطِ خواب” کےنام سے 1977ء میں شائع ہوئیں۔”سر کی چھایا” جو کہ منظوم ڈرامہ ہے وہ 1981ء میں شائع ہوا۔نثر کا مجموعہ "خشک چشمے کے کنارے” 1982ء میں شائع ہوا۔علاوہ ازیں ناصرؔ نے کلاسیکی شعرا کے انتخابات بھی کیے جن میں انتخابِ میرؔ،انتخابِ ولیؔ،انتخابِ نظیرؔ اور انتخابِ انشاؔ قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ ناصرؔ کی ڈائری چند پریشان کاغذ کے نام سے 1995ء میں منظرِ عام پر آئیں۔ان کی وفات کے بعد "دیوان” کو آدم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا۔
ناصرؔ سفر کے دلدادہ تھے۔بچپن میں گُھڑ سواری کا شوق تھا۔قدیم عمارتوں کو دیکھنا انھیں بے حد پسند تھا۔شالیمار باغ اور شاہی قلعے کی سیر سے بہت خوش ہوتے۔کوہ مری جانے کی ہر سال کوشش کرتے۔آخری بار 1970ء میں مری گئے۔
اب ناصرؔ زیادہ تر خود سے لاپرواہ رہتے۔ وضع قطع سے بھی وہ دیوانے نظر آتے اور گرد و پیش سے بے نیاز رہتے۔انتظار حُسین ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
"حُلیہ کے اعتبار سے وہ زیادہ عجیب نہ سہی لیکن جب وہ اکیلا چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو واقعی عجیب چیز ہوتا ہے۔ اکثر اس کے ہاتھ میں سگریٹ بھی ہوتی ہے۔ایک ہاتھ اچکن کی جیب میں،دوسرے ہاتھ میں سگریٹ لگی ہوئی،منہ کا رُخ ترچھے سے انداز میں آسمان کی طرف اور اس عالم میں وہ یوں چلتا ہے گویا قدموں کےنیچے والی مال روڈ وجود ہی نہیں رکھتی اور انار کلی کے بھرے بازار سے وہ اس بے نیازی سے گزرتا ہے گویا وہ ہنگامہ وہ لوگوں کا ہجوم ، وہ سجی بنی دکانیں اور کاریں، وہ پری چہرہ لوگ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ایسے عالم میں وہ اکثر دوستوں کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔سامنے سے گزر جائے گا،دیکھ لے گا اور یار میرے کو پتہ نہیں چلے گا کہ کون گزر گیا۔ناصرؔ کاظمی غریب اپنی شاعری پر قابو نہیں رکھ سکا۔اس کی شاعری اس کی زندگی میں درانہ گھس آئی ہے۔”(8)
ناصرؔ ہیں اور اُن کی آوارگی ہے۔اب انھیں سمجھ نہیں آتی کہ وُہ بال کس کےلیے بنائیں اور نئےکپڑے کس کے لیے بدلیں۔اب انھیں اپنی دیوانگی،آوارگی اور رتجگوں کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا اور وہ بجھے ہوئے دل سے یہ کہتے نظر آتے ہیں:
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وُہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کےلیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وُہ دھوپ اُسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اُڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اُٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں، کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں لفظوں کے گُل دان سجاؤں کس کے لیے
مُدت سے کوئی آیا نہ گیا، سُنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
ناصرؔ کاظمی کو رات سے خاص اُنسیت تھی۔اُن کی راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔اُن کے نزدیک رات تخلیق کی علامت ہے۔رات کو چاند نکلتا ہے اور ناصرؔ دیوانہ وار کھلے آسمان تلے غورو فکر کرتے دُور نکل جاتے ہیں اور خود کلامی کے انداز میں کہتے ہیں۔
چلے تو ہیں جرسِ گل کا آسرا لے کر
نہ جانے اب کہاں نکلے گا صبح کا تارا
ناصرؔ کو وطن سے بے حد محبت تھی۔انھوں نے 1965ء اور دسمبر 1971ء کی جنگوں میں کئی ترانے لکھے۔
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
وادیوں میں گھاٹیوں میں سر بکف
بادلوں کے ساتھ صف بہ صف
دُشمنوں کے مورچوں پہ ہر طرف
ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر
(نشاطِ خواب)
ناصرؔ کاظمی اپنے اندر دکھ اتارتے رہے۔اُن کو شراب نوشی کی عادت تھی اور وہ بلا کے تمباکو نوش تھے۔ وہ اوسطاً 70 سگریٹ روز پی جاتے تھے۔پان اور چائے بھی اُن کی عادت میں شامل تھے۔اُن کو اچھے کھانے بہت پسند تھے اور مرغن غذاؤں سے خصوصی دلچسپی تھی اور یہ ساری چیزیں صحت اور معدے کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتی ہیں اس لیے ناصرؔ کی صحت خراب رہنے لگی۔5 /مارچ 1971ء کو البرٹ وکٹر ہسپتال کمرہ نمبر 13 میں خون کی اُلٹی ہونے کے سبب داخلے ہوئے۔جس کے بعد شعر و ادب کے اس چراغ کی لو رفتہ رفتہ دھیمی پڑنے لگی۔اُن کے عزیزوں کو ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ انھیں کینسر جیسا مہلک مرض ہے لیکن ناصرؔ کو نہیں بتایا گیا۔رفتہ رفتہ ایک اندھیرا اور سناٹا اُن کے اندر سرایت کر رہا تھا۔
آخر کار 2/ مارچ 1972ء کی صبح ناصرؔ نئے کپڑے بدل کر اور بال بنا کر نئے سفر پر روانہ ہوئے۔ اور اس طرح ایک روتی کرلاتی کونج اپنے قافلے سے مل گئی۔
غزل کی حیاتِ نو۔۔۔۔۔۔۔۔ناصرؔ کاظمی
دوسر ی عالمگیر جنگ کے بعد برطانیہ کے لیے وسیع و عریض خطے پر اپنا اقتدار قائم رکھنا مشکل ہو گیا۔جس کا لازمی نتیجہ تقسیمِ ہند کی صورت میں نکلا۔انگریز سرکار نے ٹیکس اور لگان کے نام پر باشندگان ِ برصغیر کو خوب لوٹا،جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ انتہائی مفلوک الحال ہو گئے۔تاہم اُن کو ایک امید تھی کہ انگریزسے آزادی کے بعد حالات بہترہو جائیں گے۔انگریز سامراج نے برصغیرکو اس طرح تقسیم کیا کہ مسلمان اور ہندو یہاں لڑتے مرتے رہیں تاکہ دُنیا یہ باور کر سکے کہ یہ لوگ حکومت چلانے کے اہل نہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد جب فسادات شروع ہوئے اور آبادی کا تبادلہ ہوا تو ہندو،سکھ اور مسلمان بڑی امیدیں اور حسرتیں لے کر اپنے اپنے نئے وطن کی طرف روانہ ہوئے۔اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے،پھر ہجرت کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے اور اتنے ہی معذور ہوئے۔مکانات جلائے گئے۔معصوم بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا گیا۔اور عورتوں کے سامنے ان کے وارثوں کو ذبح کر کے ان پر بھی مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔بڑی کشت و خون کے بعد دونوں ملکوں میں ہجرت کا عمل مکمل ہوا۔
تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں آہستہ آہستہ اقتدار اُنھیں ہاتھوں میں سمٹنا شروع ہو گیا جو انگریز کے دستِ راست تھے۔پاکستان میں محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد اقتدار کی ہوس سبھی وعدوں اور اُمیدوں کو بہا لے گئی اور مملکت نو خیز کو پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع نہ مل سکا۔سیاسی آقاؤں سے جس طرح سکا اُنھوں نے اس ملک کو لوٹا۔اِن حالات میں آزادی ایک دھوکا اور ڈراؤنا خواب نظر آنے لگی۔
فرد اور معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کی گونج شعر و ادب میں بھی سُنائی دینے لگی۔اُمنگوں، ولولوں،جذبوں اور اُمیدوں بھرے خوابوں کو دکھ، کرب، مایوسی اور محرومی جیسی تعبیریں ملیں تو شاعر بھی چپ نہ رہ سکا اور کہنے لگا:
اور فیضؔ نے یہ بھی تو کہا:
وُہ انتظار تھا جس کا یہ وُہ سحر تو نہیں
اور یہ بھی کہا:
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
چلے چلو کہ وُہ منزل ابھی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
اور قتیل شفائی نے کچھ اس طرح سے اظہار ِ خیال کیا:
فریب کھا ہی گئے اہلِ جُستجو آخر
چراغ ڈھونڈنے آئے تھے، شام لے کے چلے
تو ناصرؔ کاظمی نے یوں کہا:
وُہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے، کیا ہوئے
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تُم
وُہ گھر سُنسان جنگل ہو گئے ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
شہر در شہر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
نا صر ؔ کاظمی کی شاعری کی نشو و نما 1947ء کے آس پاس ہوئی ہے۔اس دور میں شاعری میں نظم نگاری کا رحجان تھا۔اس رحجان کو پروان چڑھانے میں انجمن پنجاب اور ترقی پسندوں کا بڑا عمل دخل تھا۔اگرچہ ترقی پسند شعرا نظمیں لکھ رہے تھے لیکن اُنھوں نے غزلوں کو بھی بالکل ترک نہیں کیا تھا۔فراقؔ، فیضؔ،ندیمؔ،اور ظہیرؔ اس دور کے اہم غزل گو ہیں۔اس دور میں مشاعروں میں غزل پڑھنا مشکل ہو رہا تھا۔
ہجرت کے بعد احساسِ شکست، مایوسی،مٹتی اقدار، مالی و جانی ضیاع اور اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ اور کرب ایسے عناصر تھے جن کی بدولت غزل میں میریت کا سُورج پھر سے طلوع ہونے لگا۔
ڈاکٹر ناہید قاسمی کے مطابق:
"احساسِ شکست اور احساسِ محرومی نے ساری فضا کو افسردہ کر دیا۔ تاریخ اُردو شاعری میں افسردگی کے سب سے بڑے نمائندہ میرؔ تقی میرؔ تھے۔یوں میرؔ کی طرف مراجعت سے نہ صرف میرؔ کا لب و لہجہ پھر سے گونج اُٹھا بلکہ قدیم بچھڑتی ہوئی قدریں اور روایتیں بھی مکمل طور پر فراموش ہونے سے بچ گئیں۔”(9)
رنگِ میرؔ میں طبع آزمائی کرنے والے تو بہت سے شعراء تھے لیکن اُن کےمزاج میرؔ کے مزاج سے مماثل نہ تھے اور نہ ہی وُہ میرؔ کا سا احساس رکھتے تھے۔اس لیے وُہ ایک بڑے فنکار کی ناکام نقالی کر کے قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے لگے۔ناصرؔ کاظمی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُنھوں نے میرؔ کی تقلید میں اپنی انفرادیت برقرار رکھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اُنھوں نے میریت کو نیا رنگ ، نیا لہجہ اور نیا اُسلوب عطا کرنے کے ساتھ نئے خیالات سے بھی ہم آہنگ کیا۔اُردو غزل کو حیاتِ نو بخشی۔اور غزل کا کھویا ہوا وقار بحال کیا۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی ناصرؔ کی غزل گوئی کے متعلق کہتے ہیں:
"ناصرؔ کی لے،اس کی اشاریت ، ایمائیت، رمزیت، اس کے الفاظ کا صوتی آہنگ ، اس کی زبان کی روانی کا ترنم ، اس کے منتشر اشعار کا تسلسل اور ان سب کے امتزاج سے پیدا ہونے والی ایک مجموعی فضا ناصرؔ کی غزلوں میں سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔اس فضا نے اس کی ہیت کو جدت سے ہمکنار کیا ہے۔ ناصرؔ کی غزلوں میں یہ تجربات اُردو غزل کی ہیت میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔”(10)
ناصرؔ کاظمی کے فنِ شاعری کی اہم جہات مندرجہ ذیل ہیں:
- یادیں:
ناصرؔ کاظمی کو اپنا وطن ، اپنے لوگ اور اپنے ساتھی قدم قدم پر یاد آتے ہیں۔وُہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن حسین لمحوں کی یادیں اُن سے دامن گیر ہو جاتی ہیں۔اُن کو اپنا بچپن،اپنے کبوتر،تازہ ہوائیں،محبتوں سے لبریز فضائیں،انبالہ کے باغات اور ہریالی رہ رہ کر پکارتے محسوس ہوتے ہیں۔اُن کی پُکار صرف ناصر ؔ ہی سن سکتے ہیں۔
ایک انوکھی بستی دھیان میں بستی ہے
اُس بستی کے باسی مجھے بُلاتے ہیں
ناصرؔ نے یادوں کو ایسا حسین پیرا ہن عطا کیا ہےجو اُردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
بقول ڈاکٹر ناہید قاسمی:
"انھیں وُہ لوگ یاد آتے ہیں جنہیں وُہ لاہور چلے آنے سے پہلے انبالے میں چھوڑ آئے۔وہ بھی جنہیں ناصرؔ "رفتگاں” کہتے ہیں اور وہ بھی جو تہذیب و اقدار کی ایسی نشانیاں تھے جو اب مٹتی جا رہی ہیں۔”(11)
جب بھی نئے سفر پر جاتا ہوں ناصرؔ
پچھلے سفر کے ساتھی دھیان میں آتے ہیں
ساری رات جگاتی ہے
بیتے لمحوں کی جھانجھن
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دُھندلے ہو گئے
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئی
سب مزہ رفتگاں نے چھین لیا
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار رہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
وُہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
- عشق:
ناصرؔ کا ظمی کی شاعری متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور ہر موضوع کو اُنھوں نے نئے رنگ اور تازگی سے پیش کیا ہے ۔وُہ خوب صورت، رنگین اور دلکش تمثالوں کی مدد سے اپنے قاری کو مخصوص فضا میں لے جاتے ہیں،جہاں وہ مسحور ہو کر گردو پیش سے غافل ہو جاتا ہے۔عشق و محبت کو اپنے تجربات میں سمو کر اُنھوں نے بالکل اچھوتے انداز میں شاعری کی زینت بنایا ہے۔ناصرؔ کاظمی محبوب کی فقط پرستش ہی نہیں کرتے بلکہ اُنھیں محبوب کے نام سے کبھی کبھی وحشت بھی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ناہید قاسمی اس ضمن میں کہتی ہیں:
"ہماری اُردو غزل کی روحِ رواں محبت کا جذبہ ہے اور ناصرؔ کا ظمی کی غزل کا خاص موضوع عشق ہی ہے مگر یہ عشق سطحی اور جامد نہیں ہے۔ان کے عشق کی وسعت میں زندگی کی پنہائیاں موجود ہیں۔”(12)
دل میں تیری یادوں نے
کیسے کیسے رنگ بھرے
ترے خیال سے لو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں
اور محبوب کی یاد میں ناصرؔ کا کیا حال ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
کہاں ہے تو کہ تیرے انتظار میں اے دوست
تمام رات سُلگتے ہیں دل کے ویرانے
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبعیت کبھی کبھی
لیکن اس وحشت کے باوجود انھیں محبوب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
او پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز
بلا رہی ہے ابھی تک وُہ دلنشین آواز
- مختلف کیفیتوں کا موثر اظہار:
جذبہ و احساس کی بعض ایسی نازک صورتیں اور کیفیتیں ہوتی ہیں جن کا اظہار مشکل ہوتا ہے۔جو صورت یا کیفیت شاعر پرگزری ہے۔اگر قاری پر بھی وُہ کیفیت ویسے ہی طاری ہو جائے تو اسے کیفیتوں کی شاعری کہا جاتا ہے۔ ناصرؔ کی شاعری مختلف کیفیات کا حسین بیان ہے۔اور اس باب میں اُنھیں معاصر شعرا میں امتیاز حاصل ہے۔
ڈاکٹر حنیف فوقؔ نے بتا یا ہے کہ:
"ناصر ؔ کاظمی نے فراقؔ سےکیفیت نمائی کا اندازلے کر اسے جدید (جدید تر نہیں) غزل کے ایک نئے دور کا نعرہ جہاد بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناصر ؔ نے غزل کو کیفیتوں کی دریافت و اظہار کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ انہیں اس کا احساس ہے کہ اب تک غزل سے جذبہ و خیال کی ترجمانی کا کام تو لیا گیا ہے لیکن رنگ، فضا، احساس و کیفیت کےبہت سےنقوش روشن نہیں ہونے پائے ہیں۔”(13)
تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوتے ہیں
اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دُنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
جنگل جاگے، ہوا چلی
چونک پڑی ہرنوں کی ڈار
اکیلی گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
تیرا دیا جلانے والے کیا ہوئے
4۔ اُداسی کا شاعر: ناصرؔ کاظمی اور اُداسی لازم و ملزوم قرا ر پائے۔اس کی وجہ سیاسی و سماجی حالات اور ذاتی حالات ہیں۔اُنھیں ہجرت کے کرب سے دو چار ہونا پڑا۔ انبالہ نے ناصرؔ کو ہر طرح سے پیار دیا۔ناصرؔ کی بچپن سے تربیت ہی ایسے ہوئی تھی کہ اُس نے جو مانگا ،اُسے دے دیا گیا۔ہنستے بستے گھروں کو چھوڑنا۔اپنوں سے بچھڑنا،محبت میں ناکامی اور ہاں!جاں سے عزیز کبوتروں کو انبالہ میں چھوڑنا اور مانوس فضاؤں کو خیر باد کہنا،ایسے جذباتی صدمات تھے جو ناصرؔکاظمی جیسے نازک مزاج انسان کےلیے کوہ گراں تھے۔لیکن شہزادوں کی طرح پلے بڑھے ناصرؔ نے دردو غم کا یہ بارِ امانت خدا کی عطا سمجھ کر خوش اسلوبی سے اُٹھایا۔ناصرؔ اور میرؔ کےنہ صرف حالات مماثل ہیں بلکہ مزاج بھی مماثل تھے۔ظاہری طور پر تو ناصرؔ لاہور چلے آئے لیکن اُن کا قلب وذہن ہمیشہ انبالہ ہی میں اٹکا رہا۔ اُنھوں نے شاعری میں جب اپنی دکھ بھری کہانی سنائی تو ہر کسی کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوئی۔
بقول ڈاکٹر ناہید قاسمی:
"دراصل ناصرؔ نےمیرؔ کی روایت کو اپنے اندر جذب کر لیا اور جب ان کے یہاں ان کی اپنی غزل اُگی تو اس میں یہ "میریت” اس طرح گھل مل گئی تھی کہ علیحدہ سے پہچانی نہ جاتی تھی۔میرؔ ، ناصرؔ کے لیے ایک تحریک بن گئے ۔انہیں نئے تخلیقی تجربوں کے اظہار کےلیے اُکسانے والے بن گئے۔میرؔ سے مماثلت ناصرؔ کی غزل کو طاقت دینے والا ایک منبع ہے۔یوں جب ناصر ؔ یہ کہتے ہیں کہ:
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھرو اُداس اُداس
تو ناصرؔ کے ہاں یہ اُداسی بھی تخلیقی قوت بن گئی ہے۔ ناصرؔ کے یہاں ان کی ذاتی اُداسی کی جوگھٹا اُمڈی تھی، وہ ساری کائنات پر پھیل گئی۔یوں ناصرؔ کی اُداسی میں سارا جہاں سمٹ آیا۔”(14)
وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی ملا ہے جو لکھا تھا
دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کس کس بات کو روؤں ناصرؔ
اپنا لہنا ہی اتنا تھا
ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہم سے پوچھ کوئی افسانہ گل
دل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
مٹی مٹی سی امیدیں، تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
- رجائیت کا پہلو:
ناصرؔ کاظمی دُکھی دلوں کی فریاد ہیں۔اُداسیاں ، تنہائیاں اور نا مرادیاں ناصرؔ کا اوڑھنا بچھونا ہیں لیکن اس کے با وجود وہ نا اُمید نہیں ہیں۔”برگِ نے” سے اداسی کا طویل سفر شروع کرنے والا ناصرؔ رفتہ رفتہ ایمان وایقان سے سہارا پا کر بہل گیا۔اب اُن میں اتنی طاقت و توانائی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ نہ صرف نئے سفر کے لیے تیار ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اُمید دلانے لگے ہیں۔اور صبر کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔
تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر
یہ محلات شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر کر
پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر
یہ بجا کہ آج اندھیرا ہے ذرا رُت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے، وہی شاخ لائے گی برگ و بر
اور ان کو بہتری کے آثار بھی تو نظر آہی گئے ۔
گہری نیند سے جاگو ناصرؔ
وُہ دیکھو سورج نکلا ہے
ختم ہوا تاروں کا راگ
جاگ مسافر اب تو جاگ
- فطرت اور مناظرِ فطرت سے گہر ا لگاؤ:
ناصرؔ کو فطرت سے محبت ہے۔اُن کو خاموش اور پُر سکون فضا میں غو رو فکر کرنا اور مظاہرِ فطرت کی سرگوشیاں سننا پسند ہے۔سُورج ، تارے، کہکشاں، سڑکیں،روشنیاں،گھاس، جھیل،درخت، رات، خوشبو، کھیت،گگن،شام، ہوا ، کرن، چاند اور چاندنی ناصرؔ کے دوست، ساتھی اور ہم نوا و ہم سفر ہیں۔وُہ اپنے وطن کی سی فضا کی تلاش میں سرگرداں ہیں لیکن اُن مانوس فضاؤں کی باز یافتگی کی صورت نظر نہیں آتی۔بے شک اُن کی شاعری میں اُداس فضا پائی جاتی ہے لیکن یہ فضا انسان کو مسحور کر کے غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔
بقول سمیہ تمکین:
"ناصرؔ کو زندگی بہت عزیز ہے وہ اس سے اکتاتے نہیں۔زندگی بسر کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ان کو انسان اورانسانی حسن کےعلاوہ فطرت کے مناظر سے بھی دلچسپی رہی ہے اور موسموں سے لطف حاصل کیا ہے۔ان تمام پہلوؤں کی ترجمانی ناصرؔ کاظمی نے اپنی شاعری بالخصوص غزلوں میں کی ہے۔”(15)
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور برپا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
گلشنِ فکر کی مُنہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے
شب کی تنہائیوں میں پچھلے پہر
چاند کرتا ہے گفتگو ہم سے
چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ ہی لگ گئی درختوں میں
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دُھول سے اَٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سرنگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جُدا دیکھا
- فصاحت و بلاغت:
کلام کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی تفہیم میں آسانی ہو۔ناصرؔ کاظمی کےکلام کا اعجاز سادگی،روانی و سلاست ، سہل ممتنع، ایجازو اختصاراور موسیقی و غنائیت ہے۔ جس کی بنا پر اُن کا کلام فصاحت و بلاغت کی اعلیٰ مثال ہے۔ وہ غیر ضروری صنائع بدائع، دراز کا ر تشبیہات اور استعارات اور پیچیدہ تراکیب استعمال نہیں کرتے ۔مُشکل ،گہری اور نازک باتیں وُہ آسان لفظوں میں اس سادگی اور سلاست و روانی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری حیران رہ جاتا ہے۔
ایک ایسا شعر جو اس قدر آسان لفظوں میں ادا ہو جائے کہ اس کے آگے مزید سلاست کی گنجائش نہ ہو۔ "سہل ِ ممتنع” کہلاتا ہے۔مثلاً مومن خان مومنؔ کا شعر:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا(16)
جبکہ کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کرنا ایجاز ہے۔ناصرؔ کا کلام ایجازو اختصار اور سادگی و سہل ممتنع کا اعلیٰ و ارفع نمونہ ہے۔
بقول ڈاکٹر عبدالوحید:
"ناصرؔ کو اچھا غزل گو بننے میں جس چیز نے بہت مدد دی ہے وہ ان کے بیان کی سادگی اور لچک ہے۔ان کے پاس گہری سے گہری کیفیت کے اظہار کے لیے آسان الفاظ موجود ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ ان آسان لفظوں کو کس طرح ترتیب دیا جائے تووہ ایک لطیف اور دل سوز نغمہ بن جاتے ہیں۔”(17)
ناصرؔ کاظمی کے سہل ممتنع کا انداز ایسا ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسی شاعری تو میں بھی کرسکتا ہوں مگر کوشش کرے تو کامیاب نہ ہو سکے۔
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وُہ صبر صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جنّ و ملک نے سجدہ کیا تھا
آتی رُت مجھے روئے گی
جاتی رُت کا جھونکا ہوں
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وُہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ ِ شب یاد آیا
- ناصرؔ کی پسندیدہ لفظیات:
چہرہ، گھر، دیوار، ساون،پون، پتے، پازیب، رُت، پُھول، کاگا، آنگن، بوند، بادل، دھوپ، نگری، شام، خط،کھڑکی، پیاس، تھکن، دیا،مٹی، سفر، برف، ہوا، رستہ، کھیت، بستی، درخت، رات، گلاب، ہجر، بارش، خوشبو،آہٹ،پتھر، چشمہ،گگن، آشیاں، جنگل، خواب، ساقی، رفتگاں، تھکا، نیند، منزل، غبار، قافلے، بیگانگی اور گرد وغیرہ ہیں۔ ناصرؔ کاظمی زیادہ تر اسی دھرتی کی لفظیات استعمال کرتے ہیں۔وہ بد دیسی لفظیات سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ ناصرؔ نے ان لفظیات کی مدد سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا ئے ہیں۔اور اب یہ لفظیات ناصرؔ کاظمی سے ہی منسوب ہو کر رہ گئی ہیں اور ان کو "لفظیاتِ ناصرؔ کاظمی” کہنا ہی زیادہ مناسب ہے۔ناصرؔ زندگی میں جتنے نفیس تھے ۔لفظوں کے استعمال میں بھی اتنے ہی نفاست پسند ہیں۔وُہ لفظوں کو بھی دیکھ بھال کر استعمال کرتے ہیں۔اُن کو بخوبی اندازہ ہے کہ کس جگہ کون سا لفظ استعمال کرنا ہے۔
غزل
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدہِ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
حالِ دل ہم بھی سُناتے لیکن
جب وُہ رُخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ گل میں ناصرؔ
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
- ناصر ؔ کاظمی کی شاعری میں تشبیہات و استعارات اور تلمیحات:
(الف) تشبیہ(Simile):
"تشبیہ میں ایک چیز کو ایک یا ایک سے زیادہ مشترک خصوصیات کی بنا پر دوسری کے مانند قرار دیا جاتا ہے اور اس طرح پہلی چیز کی اہمیت یا شدت کو واضح کیا جاتا ہے۔”(18) مثلاً
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو(اقبالؔ)
یہاں گُل کی ٹہنی کوحسین سے اور پانی کو آئینے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
ناصرؔ کاظمی نے نادر تشبیہات کا استعمال کیا ہے۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھلی گئی تری صورت کبھی کبھی
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھر تھرائے
اُڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
تیری ہلال سی انگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا
چندر کرن سی انگلی انگلی
ناخن ناخن ہیرا سا تھا
ماتھے پر سونے کا جھومر
چنگاری کی طرح اُڑتا تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
ایک رُخسار پر زلف گری تھی
ایک رُخسار پر چاند کھلا تھا
ناصرؔ کاظمی نے تشبیہ بالاضافت سے بھی کام لیا ہے اور اس کا استعمال وافر مقدار میں کیا ہے۔ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
ابھی اور کتنی ہے معیادِ غم
کہاں تک ملیں گے وفا کے صلے
زمین لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
(ب)استعارہ(Metaphor) :
"استعارہ علمِ بیان کی اصطلاح ہے جس کا معنی اُدھار لینا ہے۔کسی شے کے لوازمات اور خصوصیات کو کسی دوسری شے سے منسوب کرنا استعارہ ہے۔لفظ کو مجازی معنوں میں اس طرح استعمال کرنا کہ حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق ہو۔۔۔۔ استعارہ کہلاتا ہے۔”(19) مثلاً
اک روشن دماغ تھا، نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا، نہ رہا
یہاں پر چراغ اور روشن دماغ بطور استعارہ استعمال ہوئے ہیں۔
ناصرؔ کاظمی استعاروں کا استعمال بھی نہایت خوبی اور نفاست سے کرتے ہیں اور ان کو اپنے تجربات میں سمو کر شاعری کا حصہ اس طرح بناتے ہیں کہ قاری داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
تو جہاں چند دن ٹھہرا تھا
یاد کرتا ہے تجھ کو آج وہ گھر
تو جہاں ایک بار آیا تھا
اک مدت سے ہے وہ گھر خاموش
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
(ج) تلمیح(Historical Refrain) :
علمِ بدیع کی رو سے "کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی تاریخی،مذہبی یا معاشرتی واقعے یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیح ہے۔”(20)مثلاً آتشِ نمرود،لن ترانی،جامِ جم،لحنِ داؤدی،تختِ طاؤس وغیرہ مشہور تلمیحات ہیں۔
ناصرؔ کاظمی سحر انگیز اور دل کش تلمیحات استعمال کرتے ہیں۔ وُہ تلمیحات کو اس طور شاعری کا حصہ بناتے ہیں کہ کسی مصنوعی پن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ شعر نازل ہی اس صورت میں ہوا ہے۔
بے منتِ خضرِ راہ رہنا
منظور ہمیں تباہ رہنا
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس سلیمان کے محل میں آئے
دیکھ کر چلو ناصرؔ
دشت ہے یہ فیلوں کا
نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
- ناصرؔ کاظمی کی شاعری میں علامت نگاری:
ناصرؔ کے ہاں علامت نگاری کا فطری رُحجان موجود ہے۔ رات، گھر، شہر، پانی، آواز، گگن ، پرندہ، طوفان، گھاس، آندھی اور پھول ناصرؔ کا ظمی نے بطورِ علامت استعمال کیے ہیں۔اُن کو جن دکھوں، محرومیوں اور ہجرت کے مصائب سے دو چار ہونا پڑااُن کا براہِ راست اظہار ممکن نہیں۔
بقول سمیہ تمکین:
"غزل” دراصل ایک علامتی صنف ہے اس لیے ناصرؔ کاظمی کےیہاں علامت نگاری کا فطری انداز ملتا ہے۔ چوں کہ ناصرؔ کاظمی بھی انسانی تاریخ کے ایک بہت ہی نازک موڑ پر سامنے آئے لہذا ان کی شعری حسیت میں پیچیدگی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ناصرؔ کاظمی کی علامتی فکر عصری حالات کی پابند نہیں کیوں کہ تخلیق کرتے وقت جب شخصیت کےداخلی اور خارجی احساسات سامنے آتے ہیں تو ایک الگ ہی تجربہ جنم لیتا ہے اور اس کی تجسیم کاری ہی علامت نگاری کے لیے زمین ہموار کرتی ہے۔”(21)
رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تخلیق کی علامت:
ناصرؔ کی راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ راتوں کو دوستوں کی محفل میں گفتگو کرنا اور سڑکوں پر ٹہلنا ناصرؔ کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ان کے نزدیک رات زندگی کی حقیقت بتاتی ہے اور تخلیق کا منبع ہے۔ناصرؔ کاظمی نے اپنے ٹی-وی انٹرویو میں بتایا کہ اصل میں رات میری شاعری میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ رات،اندھیری رات نہیں یا وُہ جسے ہمارے جدید شاعر ایک تاریکی کا استعارہ کہتے ہیں۔رات تخلیق کی علامت ہے۔دُنیا کی ہر چیز رات میں تخلیق ہوتی ہے۔پھولوں میں رس پڑتا ہے رات کو، سمندروں میں تموج ہوتا ہے رات کو، خوشبوئیں رات کو جنم لیتی ہیں۔حتیٰ کہ فجر تک فرشتے رات کو اترتے ہیں۔سب سے بڑی وحی بھی رات کو نازل ہوئی۔ ایک یہ بات، دوسری بات یہ ہے کہ تم نے جوان راتوں کا ذکر کیا تو اب بھی راتیں جاگتی ہیں لیکن شہر سویا ہوا ہے۔
انتظار حُسین "برگِ نے” پر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"ناصرؔ کا کہناتھا کہ رات کا وقت تخلیق کا وقت ہے کہ کائنات رات ہی میں تخلیق ہوئی تھی۔سواس بستی کی راتوں کا کسی نہ کسی کو تو امین بننا تھا،کسی نہ کسی کو تو تخلیقی درد کو زندہ رکھنے کا فریضہ انجام دینا تھا۔جب رات کا جادو جاگتا اور شہر کی ہر گلی سو جاتی اور خالی رستے بولنے لگتے تو وہ رات کا بے نوا مسافر گلی گلی گھومتا پھرتا دیکھا جاتا۔ایک عرصے تک آخرِ شب کے راہگیروں نے، فُٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے پان سگریٹ والوں نے رات کے سناٹوں میں اس زخمی آدمی کو اُداس اُداس پھرتے اور شعر گُنگناتے دیکھا۔”(22)
میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے
ساری بستی سو گئی ناصرؔ
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
داتا کی نگری میں ناصرؔ
میں جاگوں یا داتا جاگے
بجھی بجھی سی ہے کیوں چاند کی ضیا ناصرؔ
کہاں چلی ہے یہ کاسہ اٹھا کے شامِ فراق
رات بھر ہم نہ ہو سکے ناصرؔ
پردہ خامشی میں کیا کچھ تھا
منہ لپیٹے پڑے رہو ناصرؔ
ہجر کی رات ڈھل ہی جائے گی
وُہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ ترا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وُہ
میکدہ بجھ گیا تو کیا رات ہے میری ہمنوا
سایہ ہے میرا ہم سبو چاند ہے میرا ہم سُخن
پس ناصرؔ کے یہاں "رات” تخلیقیت، اجنبیت،ویرانی، اُداسی، لاتعلقی اور غریب الوطنی کی علامت ہے۔رات کے حوالے سے مزید اشعار ملاحظہ کریں:
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہو گا
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خاموشی آواز نما کچھ کہتی ہے
شہر سوتا ہے رات جاگتی ہے
کوئی طوفان ہے پردہ در پردہ خاموش
- ناصرؔ کاظمی کی شاعری میں "شہر” انسانی اقدار کی پامالی کی علامت ہے۔
پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ اُن کا پتھر جیسا تھا
ان تمام اشعار میں پتھر کے شہر کا استعارہ ایک تواتر سے موجود ہے اور علامتی انداز میں انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
- ناصرؔکاظمی کی شاعری میں "گھر” کی علامت ذہنی اور جذباتی سکون، انسانی رشتوں کی پاکیزگی اور بچپن کی یادوں کے خزانے کے علاوہ مخصوص تہذیب کےماحول کا عکاس بھی ہے۔
رات کتنی گذر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں
شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
دیوانگی شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے درو دیوار سا بھی ہو
ناصرؔ کے یہاں "پانی” زرخیزی ،زندگی، آگہی اور برگشتگی کی علامت ہے۔
ہاتھ ابھی تک کانپ رہے ہیں
وُہ پانی کتنا ٹھنڈا تھا
جسم ابھی تک ٹوٹ رہا ہے
وُہ پانی تھا یا لوہا تھا
گہری گہری تیز آنکھوں سے
وُہ پانی مجھے دیکھ رہا تھا
ناصرؔ کاظمی کےیہاں "صدا” کی علامت زندگی کی نغمگی،فن،حیات اور عبرت کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔
ع صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
ع تیری آواز آ رہی ہے ابھی
ع بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشین آواز
ناصرؔ کاظمی کی شاعری میں استعمال ہونے والی دیگر علامتیں بھی مخصوص مفاہیم کی حامل ہیں۔
- ناصرؔ کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی:
پیکر کے لغوی معنی”شکل و صورت” کے ہیں۔اُردو میں یہ انگریزی اصلاح “Image” کے متبادل رائج ہے جو لاطینی لفظ “Imago” سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی "نقل کرنے” کے ہیں۔اُردو میں اس کے لیے”تمثال” کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔
"فرہنگ تلفظ” میں تمثال کی تعریف اس طرح درج ہے:
"تصویر،مورت،عکس،شبیہ،خیالی نقش”(23)
جبکہ "علمی اُردو لُغت” میں پیکر کی تعریف اس طرح درج ہے:
"کا لبُد،شکل،صورت،چہرہ،تن”(24)
باالفاظ دیگر کوئی خیالی تصویر جب شاعری میں استعمال ہوتی ہے تو پیکر یا تمثال کہلاتی ہے۔فن کی دنیا میں اس فن کو پیکر تراشی کہا جاتا ہے۔یعنی ایک تصویر جسے شاعر اپنے تجربات کو بروئے کار لا کر ذہن سے تراشتا ہے۔اور لفظوں کی مدد سے شاعری میں ڈھالتا ہے۔پیکر کہلاتی ہے۔ انگریزی میں پیکر تراشی کے لیے امیجری (Imagery) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
کچھ ناقدین کے نزدیک تمثال نگاری پیکر تراشی کا متبادل نہیں ہے۔سمیہ تمکین کے بقول:
"تمثیل عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی شکل دکھلانا اور مثال دینے کے ہیں۔پیکر کے معنی لفظی و خیالی تصویر کے ہیں۔ان الفاظ کے لغوی معنوں ہی سے دونوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے نقاد تمثال کو پیکر تراشی یعنی(Image) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔جبکہ (Image) کے لیے پیکر کا لفظ ہی ممکن اور مناسب ہے۔”(25)
جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ جب کوئی لفظ کسی دُوسری زبان سے اُردو زبان میں آتا ہے تو تہنید و تارید کے عمل سے اس کے معنی، املا یا تلفظ میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔اس لیے تمثال کے لغوی معنی سے وضع کردہ اصطلاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اُردو میں تمثال نگاری Imagery کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔اُردوکی دو معتبرلُغات فرہنگِ تلفظ اور علمی اُردو لُغت میں تمثال اور پیکر کے معنی مماثل ہیں۔اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پیکر تراشی اور تمثال نگاری انگریزی اصطلاح Imagery کے مماثل ہیں۔
کامیاب پیکر وُہ ہے جس سے قاری کے تمام حواس بیدار ہوں گویا جب شاعر کسی پیکر کو تمام حواس کو بروئے کار لاتے ہوئے شعری تجربے میں سمو کر احساس و ادراک کی سطح تک پہنچائے۔ شاعری کےلیے ٹھوس اور واضح پیکر ضروری ہیں کیونکہ شاعری سُننے سے زیادہ پڑھنے اور محسوس کرنے کی چیز ہے۔اُردو شاری میں میراںؔ جی،ن۔م۔راشدؔ،قاضی سلیمؔ،کمارؔ پاشی،ناصرؔ کاظمی، مجید امجد اور عتیقؔ اللہ وغیرہ کے یہاں پیکر تراشی کی عمدہ مثالیں ہیں۔
پیکر تراشی یا تمثال آفرینی کی اہمیت مسلّم ہے۔انسانی شعور ایک لوح کی مانند ہے جس پر تصویریں مرتسم ہوتی رہتی ہیں۔علم کا سارا عمل "تصوراتی” ہے۔وہ کہیں باہر سے حاصل نہیں کیا جاتا۔بقول ایذرا پاؤنڈ بہت سی کتابیں تصنیف کرنے سے بہتر ہےکہ ایک "موثر تمثال” تخلیق کی جائے۔ایذرا پاؤنڈ کو اس فن کا امام مانا جاتا ہے۔
پیکر تراشی کے ذریعہ شاعر اپنی فضا تخلیق کرتا ہے کہ ہم مناظر کو دیکھنے،آوازوں کو سننے اور بعض کیفیات کو لمس،ذائقہ اور شامہ کی مدد سےمحسوس کرسکیں۔
سمیہ تمکین کے بقول:
"لہذا پیکر کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پیکر واضح، روشن اور نمایاں ہونا چاہیے تاکہ معنی کی ترسیل موثر ہوسکے۔مبہم پیکر معنی کی ترسیل میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتے۔کامیاب پیکر وُہ ہوتے ہیں جو قاری یا سامع کے ذہن کے در کھولے اور ان کو معنی کی تہوں تک پہنچائے۔”(26)
اُردو شاعری میں پیکر تراشی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس کے ذریعہ شاعری کے ساتھ ساتھ خود شاعر تک پہنچا جا سکتا ہے۔اس سے کلام میں سلاست ، روانی اور اثر آفرینی کے ساتھ ساتھ ابہام کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے۔اس کی بدولت شاعری میں جذبات چھلکتے نظر آتےہیں۔
ناصرؔ کاظمی نے تقسیم کے وقت جو حالات دیکھے اور جس طرح لوگ خون کےدریا کے آر پار اترے، اس کو اُنھوں نےاپنی شاعری میں پیکروں کی مدد سے پیش کیا ہے۔ناصر کاظمی کےماضی کے تجربات بھیس بدل بدل کر پیکروں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
بقول سمیہ تمکین:
"ناصر کاظمی کے یہاں ہر شعر تخلیقی ذہن کا پیکر بن کے اُبھرتا ہے جس کی بے ساختگی ، شگفتگی اس کی انفرادیت بن جاتی ہے۔یہ برجستگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وُہ تخلیق کےدوران میں سر مستی سے سر شار ہوتےہیں۔”(27)
ناصرؔ کاظمی کی شاعری کا سلسلہ "برگِ نے” سے لے کر ان کی زندگی کے آخری متفرق اشعار تک جاری رہا۔اُنھوں نے تخیل کی مدد سے ایسی شبیہیں بنائی ہیں جو دکھائی بھی دیتی ہیں اور سُنائی بھی دیتی ہیں۔
ناصرؔ کاظمی کے پیکروں کو حواسِ خمسہ کے اعتبار سے تقسیم یوں بنتی ہے۔
- بصری پیکر 2. سمعی پیکر 3.شمومی پیکر 4.مذوقی پیکر 5. لمسی پیکر
- بصری پیکر:
وہ پیکر جو بصارت کو متوجہ کرتے ہیں بصری پیکر کہلاتے ہیں یہ تین طرح کے ہوتے ہیں:
(i) شکل سےمتعلق (ii) رنگ سے متعلق (iii) حرکت سے متعلق
(i) شکل سے متعلق:
کلیاں جھلسی جاتی ہیں
سورج پھینک رہا ہے آگ
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
کیا سنسان ہے سحر کا سماں
پتیاں محو یاس گھاس اداس
پھر سلگنے لگے یادوں کےکھنڈر
پھرکوئی تاک خنک یاد آئی
(ii) رنگ سے متعلق:
رنگ کھلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات
زلف شب رنگ کے صدا راہوں میں
میں نے دیکھا ہے طلسمات کا چاند
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رُخسار بھی
آج تو یہ دھرتی
خون اُگل رہی ہے
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
(iii) حرکت سے متعلق:
اوس بھی ہے کہیں لرزاں
بزم انجم دھواں دھواں بھی ہے
رقص کرتی ہوئی شبنم کی پری
لے کے پھر آئی نذرانہ گل
نہر کیوں سو گئی چلتے چلتے
کوئی پتھر ہی گرا کر دیکھو
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
برف کے نگر میں
آگ جل رہی ہے
- سمعی پیکر:
وہ پیکر جو سماعت کو متوجہ کرتے ہیں۔سمعی پیکر کہلاتے ہیں:
دن کا سنہرا نغمہ سن کر
ابلق شب نے موڑی باگ
کڑے کوسوں کے سناٹے ہیں لیکن
تری آواز اب تک آ رہی ہے
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شور ذرا غور سے سُن
سن کے آوازہ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا در وا ہو گا
- شمومی پیکر:
وہ پیکر جو حس شامہ کو متوجہ کریں۔شمومی پیکر کہلاتے ہیں:
آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں
سانس کھینچوں تو رگ جاں چمکے
خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اترے پھول
آج وہ سیڑھی سانپ بنی تھی
کل جہاں خوشبو کا پھیرا تھا
جلنے لگیں درختوں میں خوشبو کی بتیاں
پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمغنی
مذوقی پیکر:
وہ پیکر جو ذائقہ سے تعلق رکھتے ہوں۔مذوقی پیکر کہلاتے ہیں:
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا
پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
رہتی تھی اس نواح میں ایسی بھی ایک خلق
پوشاک جس کی دھوپ تھی، خوراک چاندنی
کسی بے نام وہم کی دیمک
چاٹنے آ گئی لہو میرا
- لمسی پیکر:
وہ پیکر جو حس لامسہ سے تعلق رکھتے ہیں لمسی پیکر کہلاتے ہیں۔یہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
- نرمی و سختی ظاہرکرنے والے
- گرمی یا سردی کا احساس دلانے والے
دیواروں سے آنچ آئی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
مرکب پیکر:
اس کے علاوہ وہ ناصرؔ کاظمی کےیہاں مرکب پیکر کی مثالیں وافر تعداد میں موجود ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
سورج سر پر آ پہنچا
گرمی ہے یا روزِ جزا
جب تیز ہوا چلتی ہے سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تری یادیں
یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر
چین سے بیٹھنے نہیں دیتی
موسم یاد کی اداس ہوا
حوالہ جات
- کاظمی،ناصرؔ(1995ء)، چند پریشاں کاغذ،مرتب: حسن سلطان کاظمی،لاہور،مکتبہ خیال،ص14
- ایضاً،ص26
- ٹی۔وی۔انٹرویو
- کاظمی،ناصرؔ(1995ء)،چند پریشاں کاغذ،مرتب:حسن سلطان کاظمی،لاہور،مکتبہ خیال،ص18
- ایضاً،ص15
- بریلوی،عبادت(1995ء)،غزل اور مطالعہ غزل، کراچی،انجمن ترقی اُردو پاکستان،ص209
- تمکین،سمیہ(2013ء)،ناصرؔکاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص29
- حُسین،انتظار(مئی 1952ء)،آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے،مشمولہ نقوش،لاہور،ادارہ فروغ اُردو،ص171
- قاسمی،ناہید(2008ء)،ناصرؔکاظمی:شخصیت اور فن،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،ص92
- بریلوی،عبادت(1955ء)،غزل اور مطالعہ غزل،کراچی،انجمن ترقی اُردو پاکستان،ص612-613
- قاسمی،ناہید(2008ء)،ناصرؔکاظمی:شخصیت اور فن،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،ص127
- ایضاً،ص122
- فوقؔ،حنیف(جنوری 1969ء)،اُردو غزل کے نئے زاویے،مشمولہ،فنون—جدید غزل نمبر،جلد اول،لاہور،ص117
- قاسمی،ناہید(2008ء)،ناصرؔکاظمی:شخصیت اور فن،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،ص117
- تمکین،سمیہ(2013ء)،ناصرؔکاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص78
- جمال، انور(2016ء)، ادبی اصلاحات،اسلام آباد، نیشنل بُک فاؤنڈیشن،ص120
- عبدالوحید(سن ندارد)،جدید شعرائے اُردو،لاہور،فیروز سنز،ص1107(www.rekhta.com)
- جمال، انور(2016ء)، ادبی اصلاحات،اسلام آباد، نیشنل بُک فاؤنڈیشن،ص73
- ایضاً،ص37
- ایضاً،ص82
- تمکین،سمیہ(2013ء)،ناصرؔکاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص102
- حُسین،انتظار(1973)،برگِ نے،مشمولہ،لفظ،(اورینٹل کالج کا مجلہ)،ص141
- حقی،شان الحق(2017ء)،فرہنگِ تلفظ،اسلام آباد،ادارہ فروغ قومی زبان پاکستان،ص236
- وارث سرہندی (2015ء)،علمی اُردو لغت،لاہور،علمی کتاب خانہ،ص415
- تمکین،سمیہ(2013ء)،ناصرؔکاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،ص162
- ایضاً،ص167
- ایضاً،ص194
کتابیات
- ناصرؔ کاظمی،چند پریشاں کاغذ،مرتب:حسن سلطان کاظمی،لاہور،مکتبہ خیال،1995ء
- عبادت بریلوی،ڈاکٹر،غزل اور مطالعہ غزل،کراچی،انجمن ترقی اُردو پاکستان،1955
- سمیہ تمکین،ناصرؔ کاظمی کی شاعری میں پیکر تراشی،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،2013ء
- ناہید قاسمی،ڈاکٹر،ناصرؔکاظمی:شخصیت اور فن،لاہور،سنگِ میل پبلیکشنز،2008ء
- انور جمال،پروفیسر،ادبی اصطلاحات،اسلام آباد،نیشنل بُک فاؤنڈیشن،2016ء
- عبدالوحید،ڈاکٹر،جدید شعرائے اُردو،لاہور،فیروز سنز،سن ندارد (rekhta.com)
- شان الحق حقی،فرہنگِ تلفظ،اسلام آباد،ادارہ فروغ قومی زبان پاکستان،2017ء
- وارث سرہندی،علمی اُردو لُغت،لاہور،علمی کتاب خانہ،2015ء
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |