ہندوکی نعت اور منقبت / چودھری دلّو رام صاحب کوثری ؔ – محمدیوسف رحیم بیدری
مرتبہ : مصورفطرت حضرت مولانا خواجہ حسن نظامی دہلوی
اشاعت :جولائی 1924
مبصر : محمدیوسف رحیم بیدری ، بیدر، کرناٹک۔ موبائل :9141815923
100سال قبل مولانا خواجہ حسن نظامی دہلوی نے ایک کتاب بعنوان ’’ہندو کی نعت اورمنقبت‘‘مرتب کی ۔ جس میں جناب چودھری دلّو رام صاحب کوثری ؔ کی اُردو نعتیں اوراُردو منقبتیں شامل ہیں جس کو حلقہ ء مشایخ بک ڈپو دہلی نے شایع کیاتھا۔ اس کتاب کی ترتیب کے بارے میں جناب حسن نظامی نے لکھاہے کہ دلورام کوثری کانعتیہ کلام رسالہ صوفی اور دیگر رسائل میں شائع ہواہے۔ میں رسالہ ء صوفی سے نعتیہ کلام چھانٹ کرشائع کررہاہوں۔ ان کے الفاظ میں ’’جناب چودہری دلو رام صاحب کوثریؔ ساکن ناندڑی ضلع حصار پنجاب ،کانعتیہ کلام رسالہ صوفی اور اکثررسائل واخبارات میں چھپاکرتاہے۔ صحابہ کرام ؓ کی شان میں بھی انہوں نے بہت سے منظوم مناقب لکھے ہیں۔ وہ بہت بے تعصب ہندوہیں۔ اور معلوم ہوتاہے کہ ان کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت ہے ۔ آجکل کے زمانے میں جبکہ آریہ سماج نے ہندواورمسلمانوں کے آپس میں جدائی اور عناد کی آگ بھڑکادی ہے میںرسالہ ء صوفی سے اس نعتیہ کلام کو چھانٹ کر شائع کرتاہوں اس کے بعد چودہری دلو رام صاحب کوثری کابقیہ کلام بھی دوسرے رسالہ میں شائع کردیاجائے گا‘‘ مولانا نظامی نے آخر میں لکھاہے کہ ’’مسلمان قوم چودہری دلورام صاحب کوثری ؔ کے مخلصانہ کلام کی جس قدر عزت کرے کم ہے اور میں مسلم قوم کی دلی شکر گزاری ہی ظاہر کرنے کے لئے چودہری صاحب کایہ کلام شائع کرتاہوں ‘‘
اس مضمون کی تاریخ ذیقعدہ 1342ھ م جون 1924 تحریر کی گئی ہے۔اس شعری کتابچہ میں سب سے پہلے اکلوتی حمد کو جگہ دی گئی ہے جسکاعنوان ’’تو ہی تو ہے‘‘ رکھاگیاہے۔ مطلع کہاہے ؎
گلستاں اور بیاباں میں تو ہی تو ہے ، توہی تو ہے
دلِ رنجور وشاداں میں توہی تو ہے ، توہی تو ہے
8اشعار کی اس حمد میں نیامضمون مجھے اس شعر میں نظر آیا ؎
مسد س میں مخمس میں رباعی میں تغزل میں
غرض ہر ایک دیوان میںتو ہی تو ہے ، تو ہی تو ہے
اور مقطع کچھ یوں کہاہے ؎
جو ڈھونڈا کوثریؔ نے تجھ کو پایا ہر جگہ یارب
عیاں میں اور پنہاں میں تو ہی تو ہے ، تو ہی تو ہے
جملہ 9نعوت ، ایک رباعی ، شفاعت پر ایک نظم ، ہندوکی بخشش کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے جو نعت اور منقبت ملاکر لکھی گئی ہے۔ عمرفاروق اعظم پر 2منقبتیں ،حضرت علی پر 3منقبت ، امام حسین سے متعلق ایک منقبت ، جنت البقیع کے بارے میں مسد س کی شکل میں ایک طویل نظم لکھی ہے جو6صفحات پر مشتمل ہے ۔ پھردلورام کوثری نے یکم جون 1924 کو( یعنی ایک سو سال قبل) اپنے حالات زندگی رقم کئے ہیں اور بتایاہے کہ ’’نام دلورام ، تخلص کوثری، مولد قصبہ ناندڑی ، ضلع حصار ، قوم بشنوئی ، پیشہ زراعت ، تاریخ ولادت پورنماشی شدی پورہ 1939بکرمی بوقت شام ۔ ساعت طلو ع بدر، شب سہ شنبہ ، قوم بشنوئی ہندوؤں کاایک ایساہی فرقہ یاگروہ ہے جیسے راجپوت ، سکھ ، جاٹ وغیرہ ۔ ہندوستان میں اس کی آبادی پانچ لاکھ ہے۔ یہ سب لوگ زمیندار زراعت پیشہ ہیں۔ میرے آباواجداد کاسلسلہ حسب ونسب چوہان خاندان کے راجپوتوں سے ملتاہے۔ چوہان خاندان کے راجپوتوں سے جاتوں میں تبدیل ہوئے اور پھر جاٹوں سے بشنوئی قوم مین شامل ہوئے۔ مذہب بھی بشنوئی ہے اور قم بھی بشنوئی ۔ میرے باپ کانام ’’بھورارام‘‘ ہے۔ اور گوٹ ٹانڈی ہے۔ بشنوئی قوم میں وہ ایک مشہورمعزز مہمان نواز آدمی تھے۔ ‘‘ آگے اپنی تعلیم کے بارے میں انھوں نے لکھاہے ، کہتے ہیں ’’ بشنوئیوں کوتعلیم کاشوق مطلق نہیں، میں پہلابشنوئی ہوں جس نے سب سے پہلے اپنی قوم میں تعلیم پائی ۔ انٹرنس میں انگریزی پڑھتاتھاکہ شوق شاعری نے بغل میں ایسی گدگدی کی کہ اسکول چھوڑ دیا مگروالد صاحب مرحوم نے کوشش کرکے لاہور میں ایک ڈاکٹری کالج میں داخل کروایا مگر وہاں لفظ مسیحا کے سوا کچھ نہ سیکھااورکالج کوچھوڑ کرغزل گوئی میں مصروف ہوااور مشاعروں میں جانے لگا۔ ایک دن ایک غزل جس کایہ مطلع تھا
پہلے نہ سوجھتی تھی ، یہ چالیں صباتجھے
کوئے صنم کی لگ گئی شاید ہواتجھے
پڑھی۔ مطلع کی تعریفیں ہوئیں مگر بعدازاں ایک شعر پر جوناموزوں تھاایک صاحب نے کہاکہ یہ شعر بحر اور وزن سے خارج ہوگیا۔ اس پر لاہورہی میں ایک عالم فاضل سے عروض پڑھنا شروع کیا۔ دوسال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ مگر طبیعت سیرنہ ہوئی بلآخر شہر سامانہ ریاست پٹیالہ پہنچا۔ وہاں ایک عالم اعلم حضرت مولانا سید عنایت علی صاحب مجتہد العصر والزماں مرحوم کی خدمت میں دس بارہ برس حاضررہ کر متعدد فارسی اور علم عروض وفن شعر کی کتابیں پڑھیں اور انتیس سال کی عمر میں بعدتحصیل فن شعروادب واپس وطن آیا۔ پہلے غزل لکھتارہامگر بعدازاں جب زمانہ کارنگ دیکھاتو طرزشاعری کو بدلا اور اسلامی روایات پر بیشمار نظمیں لکھیں، خصوصاً اہلبیت اطہار ؑ کی مدح وثنامیں اب تک مصروف رہااور ہوں ، اگر چہ محمد ؐ و آلِ محمدؐ کی مدح وثنامیں دفتر کے دفتر لکھ ڈالے مگر صحابہ کی تعریف میں بھی متعدد نظمیں لکھی ہیں۔ بلکہ ہندو، سکھ، مرہٹوں ، آریاؤں وغیرہ کے متعلق بھی چند منظوم کتابیںلکھی ہیں اور سرکارانگریزی کی بھی مدح سرائی کی ہے۔ حیدرآباددکن ، بھوپال، رام پور، بہاول پور، پٹیالہ کے درباروں میں نظمیں پڑھیں ۔ پچھلی چار ریاستوں میں مہمان ہوا۔ ان کے والیانِ ذیشان سے نیاز حاصل ہوا۔ انعام وصلہ وخلعت بھی عنایت ہوئے ‘‘
دلورام کوثری نے مزید باتیں لکھی ہیں۔ اور کہاہے کہ ’’میرے تمام کلام کے اشعار کی تعداد پچاس ہزار ہوگی ۔ جن میں سے تھوڑے سے شعر وقتاً فوقتاً اخبارات، رسالہ جات میں شائع ہوئے ہیں۔ میرے کلام کوشائع کرنے کے لئے بہت سے نادیہ مشاقوں نے لکھا، مگر میراارادہ ہے کہ اپنے تمام کلام کو کتابی صورت میں خود ہی شائع کروں اور اس توشہ ء آخرت سے کچھ دنیامیں بھی فائدہ اٹھاؤں ‘‘ انھوں نے اپنے ادبی کام کے بارے میں لکھاہے کہ ’’ میں نے ہفت بند کاشی کو بزبان فارسی تضمین کیاہے۔ اور حضرت حافظ شیرازی کی بعض غزلیاں بھی فارسی میں تضمین کی ہیں ۔ فارسی اشعار میں نے شروع شاعری میں کہے تھے ، اب صر ف اُردو شعر کہتاہوں۔ ایک دیوان غیرمنقوطہ ردیف وار محمدؐ وآلِ محمدؐ کی مدح میں لکھاہے جس میں اپنانام دلّورام بجائے تخلص لایاہوں ، جوقدرتی غیرمنقوطہ ہے چونکہ قدرت کومنظو رتھاکہ میں ایک شاعرہوں گا اور بے نقط شعر بھی کہاکروں گا۔ اس لئے میرے والدین کی زبان سے میرانام غیرمنقوطہ رکھوادیا‘‘
اب ہم موصوف کی تقدیسی شاعری کی جانب آتے ہیں۔ اس خیال کو دیکھیں ، خیال اور شاعر کادعویٰ صدق اور سچائی کی دعوت دے رہاہے ؎
تھامجھے عشق ِ محمد ؐ جب کہ یہ عالم نہ تھا
بس خدا ہی تھا خدا، حو ّا نہ تھی آدم نہ تھا
(عالم نہ تھا، میں نہ کتابت سے رہ گیاہے ) ایک اور نعت میں لکھاہے ؎
کتب خانے کئے منسوخ سارے
کتابِ حق ہے قرآن ِ محمد ﷺ
وہ لوگ جوقرآن سے بغض رکھتے ہیں، انہیں مذکورہ شعرکو پڑھ کر اپنی اصلاح کرلینی چاہیے۔ موصوف نے حضرت علی ؓ، فاطمہ ؓ ، امام حسن ؓ وحسین ؓ سے متعلق جو کچھ کلام لکھاہے وہ کچھ یوں ہے ؎
علی ؓ ان میں وصی مصطفیٰ ؓ ہے
علی ہے رنگ ِ بستانِ محمد ﷺ
علی ؓکانفس ہے نفسِ پیمبر
علی ؓ کی جان ہے جانِ محمد ﷺ
علی ؓ وفاطمہ ؓ شبیر ؓ وشبر ؓ
بسااِن سے گلستانِ محمد ﷺ
آقاہے نبی ؐ اور علی ؓ اپناہے مولا
ملتا ہوا سلمان ؓ سے ہے افسانہ ہمارا
اس شعر کو سونے کے پانی سے لکھاجاناچاہیے ، دلورام کوثری کہتے ہیں ؎
خدا ہے محمد ؐ ہے اور آل ؑ ہے
سِوا اِن کے جو کچھ ہے جنجال ہے
ایک اورمنقبت میں لکھتے ہیں ؎
رواجس سے ہوکام ، نام ِ علی ؑہے
دل وجاں کاآرام ، نام ِ علی ؑ ہے
وظیفہ ہے زاہد کا یہ اسمِ اعظم
مجاہد کی صمصام ، نامِ علی ؑ ہے
کہوں کوثری کیا میں اُس کے فضائل
خود اللہ کانام، نامِ علی ؑ ہے
امام حسین ؓ کے بارے میں لکھاہے ؎
حضرت شبیر ؓ دین ِ مصطفیٰ کے نام پر
صبح سے تاعصر بچوں کو فدا کرتے رہے
معرفت کہتے ہیں اس کو بھوک اور غم میں حسینؑ
زیر ِ خنجر بھی نماز ِ حق ادا کرتے رہے
کوثری ؔ پھر قبر میں کیاہوتی ایذا جب کہ ہم
عمر بھر ذکرِ شہیدِ کربلا کرتے رہے
جنت البقیع سے متعلق دو بند ملاحظہ کیجئے اورہوسکے تو جنت البقیع میں دفن ہونے کی آرزو کریںکہ حشر میں سب سے پہلے مدینہ منورہ میں دفن افرادکاحساب کتاب ہوگا اور انہیں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی شفاعت نصیب ہوگی ؎
ہے جنت البقیع بزرگوں کی یادگار
ہیں اہل ِ بیت ِ پاک کے اکثر یہیں مزار
قبرِ جناب فاطمہ زہرا ؑ کے میں نثار
جس پر ہے اس کے فضل وفضائل کاانحصار
شامل جو اس میں خاک ہے آلِ رسول ؐ کی
اس واسطے خدا نے یہ حرمت قبول کی
دوسرا بند یوں ہے ؎
قبر حسن ؑ یہیں ہے ، نہیں اس میں کچھ کلام
زین العباکا بعد قضا ہے یہیں قیام
مدفوں یہاں ہیں باقرؑ وجعفر ؑ سے بھی امام
کچھ اور بھی ہیں تربتِ سادات نیک نام
اصحابِ مصطفی ؑ بھی یہاں دفن چند ہیں
قبروں سے جن کی اس کے مراتب بلند ہیں
دلورام نے خود کو’’درویش مجر ّد ‘‘ لکھا ہے لیکن عجیب شان سے ؎
کبھی گنگا میں آڈوبا ، کبھی کوثرپہ جانکلا
پتہ کچھ بھی نہیں مخصوص درویش ِ مجر ّد کا
اپنے ہندوہونے کاانھوں نے بارباربیان کیاہے ؎
کچھ عشقِ پیمبرؑ میں نہیں شرطِ مسلمان
ہے کوثری ہندوبھی طلبگارِ محمد ﷺ
چھ اشعار کی ایک نظم ’’ہندوسہی مگر ہوں ثناخوانِ مصطفی ؐ‘‘ میں موصوف نے انھیں دوزخ کے نہ جلانے کاذکر کیاہے۔ اور یہ راز دوزخ پر کھولاہے کہ ؎
ہندوسہی مگر ہوں ثناخوانِ مصطفی ؐ
اس واسطے نہ شعلہ ترا مجھ تک آسکا
نظم ’’ہندوکی بخشش ‘‘ بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ جس میں فرشتے جاکر اللہ تعالیٰ کو اطلا ع دیتے ہیں کہ ایک بت پرست نعت گو ہے اس پر رب ذوالجلال جو جواب دیتاہے اس کامصرع یہ ہے ۔
ع۔ فرمایا ذوالجلال نے جنت ہے اُس کاگھر
ایک نعت میں موصوف نے 8پیغمبروں، حضرت خضر اور اپناذکر ایک ساتھ کیاہے ، نعت کایہ حصہ بڑا دلچسپ ہے، ملاحظہ کریں ؎
کہ آدم کوفخرِ ملائک بناکر
انہیں جنت ِ جاودانی میں رکھا
بڑی عمر نوحؑ نبی کو عطا کی
سلامت جو طوفاں سے پانی میں رکھا
خضر ؑ کو دِیا چشمہ ء آبِ حیواں
براہیم ؑ کو باغبانی میں رکھا
دیا حسن ِ بے مثل یوسف ؑ کو اس نے
سلیمان ؑ کو حکمرانی میں رکھا
دم زندگی بخش عیسیٰ ؑ کو بخشا
تو موسیٰ ؑ کو خوش لن ترانی میں رکھا
غرض سب سے اول خدا نے بالآخر
محمد ؐ کو یارانِ جانی میں رکھا
مرے منہ سے منظورتھی نعتِ احمد ؐ
مجھے فرد رطب اللسانی میں رکھا
موصوف نے نکتہ دانی کے ساتھ ساتھ اپنی تقدیسی شاعری میں فنکاری بھی دِکھائی ہے، وہ کہتے ہیں ؎
محمد اور دلّو رام میں نقطہ نہیں کوئی
کہ ہے مدّاح اور ممدوح میں یہ ربط کس حدکا
اسی طرح ایک مقام پر انھوں نے جنت میںاپنے جانے کانظارہ کچھ یوں پیش کیاہے ؎
لے کے دلو رام کوحضرت ﷺ گئے جنت میں جب
غل ہوا ہندوبھی محبوب ِ خدا کے ساتھ ہے
شاعراپنی شاعری سے کس کو خوش کرنا چاہتاہے ۔ یہ بات بھی دلورام کوثری نے منظوم کی ہے ؎
صلہ ہویہی نعت گوئی کامیری
خداخوش ہو ، خُرّم محمد ؐ محمد ﷺ
آخر میں41صفحات کے اس کتابچہ میں حسن نظامی صاحب نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کتاب کو تقسیم کریں ، ان ہی کے الفاظ میں ’’جہاں جہاں آریہ سماجی بھائیوں نے ہندوؤں اورمسلمانوں میں بگاڑ پید اکردیاہو، وہاں اس کتاب کوتقسیم کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور اس سے بڑا ثواب ہوگا‘‘ آج بھی ایک سوسال جیسے ہی حالات ہیں، اس دفعہ آریہ سماجیوں کی جگہ آرایس ایس اور اس کی پروردہ چھوٹی موٹی تنظیمیں ہیں جو عام انسانوں اور مسلمانوں پرکسی نہ کسی عنوان سے ظلم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اسلاموفوبیاکی بات کرتی ہیں، ان حالات میںتمام ریاستوں کی ریاستی زبانوں میں ایسی کتابیں جو ہندوؤں نے لکھی ہیںاور(ان کتابوں میں) اسلام سے متعلق اپنے اچھے وچارکااظہار کیاہے ، اس کو غیرمسلم بھائیوں میں مفت تقسیم کرتے ہوئے انھیں یاددلایاجائے کہ ان کے آباواجداد ایسے اور ایسے تھے۔ اسلام کو ایک بہترین دین سمجھتے تھے۔رسول کریم ﷺ ان کے لئے آخرت میں شفاعت کا ذریعہ تھے ، اہل بیت سے انہیں محبت تھی۔ تمام صحابہ کرام ان کے نزدیک نیک لوگ تھے۔ اس مہم سے امکان ہے کہ ملک کے ہندوؤںاور مسلمانوں میں دلی کشادگی آئے گی اور اخلاص پیدا ہوگا۔ہماری یہی دعا ہے کہ جن لوگوں نے اسلام کیلئے کام کیاہے ، وہ بھلے ہندوکیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ انہیں اس نیکی کابدلہ عطاکرے اور اُس رب کریم سے بڑھ کر کوئی اچھا بدلہ دینے والا دنیاو آخرت میں نہیں ہے۔
25؍جولائی منگل 2023
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
شکریہ محترم