کامیاب ادب کسے کہتے ہیں ؟۔ جہان ادب میں اس سوال کی گونج ہر دورمیں سنائی دی اور سنی جائے گی ۔ یہ اک ایسا سوال ہے جو کئی جوابات کے ظہور کا باعث ہوتا ہے ، ۔ ایسا سوال جو قلمکاروں کے ذہنوں پر دستک دے کر شعور کو نہ صرف متحرک کرتا بلکہ حسین فن پاروں کی تخلیق کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔ اور مزیدار بات تو یہ ہے کہ یہ وہ نرالا سوال ہے جس کا ہر جواب صحیح ہوتا ہے ۔ خاکسار کے مطابق ادب کی کامیابی اس کی حقیقت پر منحصر ہے ۔ شعر زبردستی وجود نہیں پاتا ۔ اس کی آمدہوتی ہے ۔ شاعر جب حالات کو محسوس کرتا ہے تو فکر نمو پاتی ہے ۔ شعور جاگ جاتاہے ۔شعورکے بیدار ہوتے ہی
جب فکر الفاظ کا ملبوس زیب تن کرتی ہے تو شخصیت میں چھپی ہوئی ادبی صلاحیت اسے شعر بناتی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فنکار ذہن پر ہونے والی دستک پر متوجہ ہو۔ اک کامیاب فنکار کی پہچان یہ ہے کہ وہ ذہن میں رینگتے ہوئے ہر خیال اور چپکےسے چھوکر گذرنے والے ہر خواب کو محسوس کرتا ہے۔ اور اسے الفاظ کا پیرہن عطا کرکے شعریت کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ ضروری ہے کہ فنکار خواب کو محسوس کرے۔ خواب ۔فکر۔تخیل۔لفظ اور شعر کا یہ مرحلہ وار سفر فن کی کامیابی کا ضامن ہے۔ اسلئے تخلیقی عمل میں خواب کی قدردانی ضروری ہے ۔ ذرا سوچئے اس فنکار کا ادب میں کیا مقام ہوگا جو اپنی ساری فنّی صلاحیتوں کو خواب کے نام کرتا ہو! اپنے گراں قدر فن کو کتابی شکل میں "خواب کے نام” کرنے کا اعلان کرنے والے شاعر کا نام ناصر مصباحی ہے۔
اپنے شعری مجموعہ ” خواب کے نام” میں ناصر مصباحی نے غزلیات ، قطعات اور منظومات کو شامل کیا ہے ۔ اگرچیکہ مجموعہ میں غزلیات کا تناسب زیادہ ہے ، قطعات اور منظومات بھی اپنے تخلیق کار کی فنی صلاحیتوں کا خود تعارف کررہی ہیں ۔ متاثر کن حمد مناجات اور نعتیہ کلام کے پاکیزہ آغاز کے بعد متنوع مضامین سے آراستہ غزلیات شامل ہیں ۔ ناصر مصباحی کا مطالعہ وسیع ہے اس لیے وہ سرعت سے فن کے مدارج طے کرتے آرہے ہیں ۔ ان کی بیشتر غزلیات میں قرآنی حوالے سے تلمیحات موجود ہیں جو ان کے فن پاروں کو نہ صرف خوبصورتی بلکہ پاکیزگی بھی عطا کرتے ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔
۔
برق بن کر گر جلاکر جاوداں کردے مجھے
لن ترانی تیری زد پر طور جاں رکھتا ہوں میں
۔
"ورفعنالک ذکرک” کا بگل بجتے ہی
چھا گیا رعبِ اذاں کفر کا ڈر ختم ہوا
۔
عقل حیراں ہے یہ ماجرا دیکھ کر
عشق فرزند قربان کرتا رہا
ناصر مصباحی کے کلام میں فلسفیانہ رنگ جابجا نظر آتاہے۔ یہ رنگ ان کے فن کو مزید حسن بخشتا ہے ۔ اک غزل میں عقل اور عشق کا تقابلی انداز بہترین ہے جو قاری کو مکرر دعوت ِ قراءت دیتا ہے۔
۔
عقل بس ایک جھونکے میں گل ہوگئی
۔
عشق کا دیپ طوفاں میں جلتا رہا
عقل مبہوت ہے زخم کو دیکھ کر
۔
عشق خنجر کے نیچے بھی ہنستا رہا
عقل کہتی رہی، عقل سے کام لے
۔
عشق کی راہ چل، عشق کہتا رہا
غزل میں اک وقت وہ بھی تھا جب ساقی ، جام،ساغر،مے، رند،میخانے جیسے موضوعات لازمی سمجھے جاتے تھے ۔ بلکہ اسے غزل کے معیار کی بلندی کا پیمانہ مانا جاتا تھا ۔ اس میں ان موضوعات کو ان کے اصل معنوں میں برتا جاتا تھا ۔
پھر دھیرے دھیرے غزل میں ان مضامین کا شور کچھ تھم گیا ۔ ناصر مصباحی نے ان مضامین کو خوشی خوشی اپنایا ہے ۔ لیکن ان کا ساقی رندوں کو بیہوش نہیں کرتا اور نہ ہی رند جام چھلکانے کو بیتاب رہتے ہیں ۔ ان کے ہاں یہ مضمون فلسفیانہ رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ "خواب کے نام” میں شامل اک غزل اس کی بہترین مثال ہے ۔ اس غزل کی خوبی یہ ہے کہ ہر شعر میں شراب کو مخصوص معنویت حاصل ہے ۔ غزل کی ردیف اس غنائیت میں اضافہ کررہی ہے ۔
۔
اک عقل ہے جو کہتی ہے آ میکدے سے چل
اور دل یہ کہہ رہا ہے کہ سب کچھ بھلا کے پی
(میدانِ عمل میں کود پڑنا)
۔
جب دورمیکشی کا ہوپورے شباب پر
ناصح کو بالخصوص بلا اور بٹھا کے پی
(تصوفانہ ذکر)
۔
نشّہ،سرور،شوخی ومستی ،خمار،کیف
اک جام میں سبھی کو ملا اور دبا کے پی
( کسی کام میں مکمل غرق ہو جانا)
ناصر مصباحی نے اپنی غزلوں میں مختلف صنعتوں کا استعمال کیا ہے ۔ یہ فنی لوازمات کے گہرے مطالعے کی دلیل ہے ۔ اک مکمل غزل میں صنعت مراعات النظیر کی دلکشی قاری کو متوجہ کرتی ہے ۔
۔
چمپا ،گلاب،نرگس وبا بونہ،نسترن
ہر ایک تیرے سامنے پھیکا دکھائی دے
۔
نازش،غرور،شوخی،ادا اور یہ بانکپن
جس رنگ میں بھی دیکھوں تو یکتا دکھائی دے
۔
سوزش،چبھن،جلن،کسک و درد،بل،شکن
ان سب کے بیچ ناصر خستہ دکھائی دے
شعری مجموعہ ” خواب کے نام” میں شامل قطعات بھی معنویت سے لبریز ہیں ۔ ان میں انفرادیت بھی ہے اور جدت بھی ، سلاست بھی ہے اور غنائیت بھی ۔
۔
رتبہ بھی نہ سمجھا مرا منصب بھی نہ سمجھا
فریاد مری میرا مخاطب نہیں سمجھا
جس کو تھا مری ذات پہ تحقیق کا دعویٰ
وہ میرے تڑپ جانے کا مطلب نہیں سمجھا
۔
غموں کے کانٹوں کو یک بارگی نکال دیا
خدا نے میرے مسیحا کو وہ کمال دیا
جو دھڑکے سینہء بے تاب کی پناہوں میں
تمہارا نام اسی دائرے میں ڈال دیا
مختلف موضوعات پر منظوم تخلیقات بھی مجموعہ ء کلام کی زینت بڑھا رہی ہیں ۔
ناصر مصباحی کے فن کا احاطہ کرنا چند صفحات پر ممکن نہیں ۔ اردو ادب میں انھوں نے بہت کم عرصہ میں اعتبار کا درجہ حاصل کیا ہے ۔ ان کی منفرد اسلوب انھیں شعراء میں ممتاز بناتاہے ۔ اردو ادب کو ان سے کافی توقعات وابستہ ہیں ۔ اگلے کامیاب سفر کے لئے نیک خواہشات!
* تبصرہ نگار:- مجتبیٰ نجم *
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page