صابر
اورنگ آباد
سفیر صدیقی کی دو چار غزلیں پہلی بار پڑھنے والا قاری بہت سارے سوالوں، اندیشوں اور خدشوں سے اس قدر بھر جاتا ہے کہ لطف و نشاط کے وہ جذبات، جو دورانِ قرأت اس کے اندرون میں پاؤں پسارنے لگے تھے، اپنی جگہیں خالی کرنے لگتے ہیں۔ ایک بے پناہ قسم کی تشنگی لاحق ہوتی ہے اور قاری کا سارا وجود ہل من مزید، ہل من مزید کے شور سے گونجنے لگتا ہے۔ ایسے قاری کے لیے اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ وہ سفیر کی چالیس پچاس غزلیں ایک نشست میں پڑھ ڈالے۔ سفیر کا شعری مجموعہ ’’خوابوں کے مرثیے‘‘ ایسا ہی ایک موقع مذکورہ قاری کو عنایت کرتا ہے۔ کم و بیش ستر غزلوں اور چند متفرقات پر مشتمل یہ کتاب، کتابوں کی بھیڑ میں آسانی سے پہچانی جا سکتی ہے، صوری و معنوی دونوں اعتبار سے۔ کتاب کے بیک کور پر یہ دو شعر ایک اشارے کا کام انجام دیتے ہیں:
قضا کے خواب ہمیں اس قدر سہانے لگے
ہم اپنے ہاتھوں ہی اپنا گلا دبانے لگے
ڈھلی جو شام تو سب اپنے اپنے گھر کو چلے
سو ہم بھی موت کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے
اگر سفیر نے اس کتاب کی ترتیب کی ذمہ داری مجھے سونپی ہوتی تو میں بیک کور پر اس شعر کو ترجیح دیتا:
یہ سہولت تو ملنی چاہیے تھی
خودکشی کس لیے حرام ہے یار
موت کی خواہش اردو شاعری میں پہلے بھی گاہے بگاہے داخل ہوتی رہی ہے۔
جینے میں اختیار نہیں ورنہ ہم نشیں
ہم چاہتے ہیں موت تو اپنی خدا سے آج
(میرؔ)
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
(غالبؔ)
فانیؔ اور جذبیؔ کے یہاں نسبتاً زیادہ اشعار اور نظمیں اس موضوع پر مل جاتی ہیں۔ فانیؔ کو تو ہم نے یاسیت کا امام قرار دے رکھا ہے۔ یہ معروف سوچ بھی غلط مبحث کا نتیجہ ہی ہے کہ اردو شاعری میں سب سے پہلے میرؔ نے یاسیت کو موضوع بنایا اور فانیؔ نے اسے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ خیر، ابھی ہم میرؔ و فانیؔ و جذبیؔ کی دنیا میں بھٹکنے سے گریز کرتے ہیں۔ کیا سفیر دورِ جدید میں یاسیت کا شاعر ہے؟ اس کا مثبت جواب دینےمیں مجھے تردّد ہے کیونکہ یاسیت کی پیش رو شاعری ناکامی، محرومی، اداسی، مایوسی اور ناامیدی کو بار بار اور براہ راست موضوع ضرور بناتی ہے لیکن موت کی خواہش کا اظہار اس شدت سے نہیں کرتی جیسی ہمیں سفیر کے یہاں ملتی ہے۔ فطری موت کی خواہش تو پھر بھی مل جاتی ہے لیکن خودکشی جیسی غیر فطری موت کی کشش کے اتنے سارے موڈز اردو تو چھوڑیے کسی دوسری زبان کی شاعری میں بھی شاید نہ ملیں۔ انگریزی میں suicide poems لکھی جاتی ہیں لیکن ان میں بھی بیشتر منظوم suicide notes سے آگے بڑھنے نہیں پاتیں۔ سفیر نے پیش لفظ میں اپنے اس اختصاص کے بارے میں کچھ وضاحتیں پیش کی ہیں:
’’ہمارا کوئی بھی عمل خواہ جسمانی ہو یا روحانی خوابوں پر ہی مبنی ہے۔ اور میں ان خوابوں کے مرثیے لکھ کر موت سے لڑتے رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں، اس موت سے جو ہر وقت ہمارے پاس ہی رہتی ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں پاتے، اور جب وہ ہمیں ساتھ لے جارہی ہوتی ہے تب ہمیں اس کے آنے کا احساس ہوتا ہے۔‘‘
خوابوں کا اعمال پر اثر انداز ہونا حقیقت سے بعید نہیں ہے اس لیے اس دعوے سے جزوی اتفاق ممکن ہے کہ جسمانی اور روحانی اعمال خوابوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ شکستِ خواب کو مرگِ خواب سے تعبیر کرنا اور پھر ان کے مرثیے لکھنا بھی خوب ہے۔ ہر وقت آس پاس منڈلاتی موت کی موجودگی کو محسوس کرنا ایک تجربہ ہے لیکن ساتھ لے جانے والی موت پر یقین ایک عقیدہ ہے۔ ان دیکھی موت سے یا اس کی موجودگی کے احساس سے نبرد آزما ہونے کا نتیجہ خوابوں کے مرثیوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ توجیہ جتنی فلسفیانہ ہے اتنی ہی شاعرانہ ہے اور سفیر کی غزلوں کے قاری کے خدشات کا بہت حد تک ازالہ بھی کر دیتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ سفیر کی شاعری موت کے آگے پسپائی سے نہیں بلکہ معرکہ آرائی سے عبارت ہے۔
انسانی تاریخ میں خودکشی کو کبھی بھی مستحسن یا پسندیدہ فعل نہیں سمجھا گیا بلکہ اسے ہمیشہ قابلِ نفریں، مذموم اور قبیح ترین مانا گیا ہے۔ بعض مذاہب و مسالک خود اذیتی کے تصور، کوشش یا ارتکاب کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے لیکن خودکشی سبھی بڑے مذاہب میں حرام ہے لہٰذا اسے تخلیقی تجربے میں شامل کرنا بلکہ وصفِ خاص بنانے کی سعی کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ سفیر اس مسئلے کی نزاکت سے کماحقہ واقف ہیں لیکن ایک خلاق ذہن اپنے گرد و پیش سے بے نیاز بھی نہیں رہ سکتا۔ خودکشی کے تئیں دلفریب جمالیاتی رویے کی حامل بظاہر غیر مصدقہ آبادی کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وابستگی انفرادی کشش کے سبب بھی ہو سکتی ہے اور توہم پرستانہ بھی۔ اس محدود یا اقلِ قلیل آبادی کے لیے خودکشی ایک محبوبہ ہے جس تک رسائی یا حصول ممکن نہ ہو تب بھی اس کا ذکر فرحت بخش اور باعثِ انبساط ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سفیر کے یہ دو شعر ملاحظہ کیجیے:
یہ لوگ صرف تیری آرزو میں جی رہے ہیں
جو ابتدا سے مشتاقِ خود کشی رہے ہیں
خود کشی روز میری روح کو چھو جاتی ہے
اور پھر دیر تلک زندگی شرماتی ہے
نئے اور تقریباً ان چھوئے موضوع کو برتنے کی عجلت میں فن کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ایک عام بات ہے لیکن سفیر نے بڑی مہارت سے اپنے آپ کو اس قباحت سے محفوظ رکھا ہے۔ کتاب کی پہلی غزل کی ردیف میں ’’دیوار‘‘ کا استعمال دیکھیے:
ایک ہی سایہ نظر آتا تھا ہر دیوار پر
میں نے بھی جھلا کے دے مارا ہے سر دیوار پر
کس کے زخموں کی نمائش ہے نمی دیوار کی
ٹانک دی ہے کس نے اپنی چشمِ تر دیوار پر
خون کے دھبوں سے کھینچا ہے ترے چہرے کا خط
عشق نے کیا ظلم ڈھایا بے ضرر دیوار پر
مطلع میں جو ابہام ہے اس تک شاید ہر قاری کی رسائی ممکن نہ ہو۔ سفیر کے بیشتر قاری کے لیے ’’سایہ‘‘ اسی بے وفا معشوق کا رہے گا جس کے لیے سفیر نے کہیں کہا ہے کہ
اس کا دھوکا بھی وفا کی کوئی صورت ہو گی
دوسرے مفہوم کی طرف آئیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سایہ عاشق ہی کا ہو جس نے تنہائی کے خاتمے اور دیوار پر کسی دوسرے سائے کے اُبھر آنے کی امید چھوڑ دی ہے۔ یہ سماجی تعامل کے ساتھ تنہائی محسوس کرنے کا واقعہ نہیں ہے بلکہ حقیقتاً سماجی علاحدگی اختیار کرنے کے بعد پیدا ہونے والی تنہائی ہے جو شدید مایوسی اور وجودی اضطراب کا سبب بنتی ہے اور پھر خودکشی کا محرک بھی۔
دوسرے شعر میں مضمون کی روح ’’نمائش‘‘ میں قید ہے۔ کمروں کی جمالیاتی قدر اور بصری خوبصورتی بڑھانے کے لیے دیواروں کو آراستہ کیا جاتا ہے۔ بہ اندازِ دیگر سوچیے تو دیواروں کی سجاوٹ میں استعمال ہونے والا وال آرٹ دراصل مکین کی ذاتی ترجیحات اور مزاج و مذاق کی نمائش ہے۔ چشمِ تر دیوار پر ٹانک کر دیوار کو نم کرنا اور اس طرح اپنے زخموں کی نمائش کرنا کیسا انوکھا خیال ہو سکتا ہے۔
تیسرے شعر کی قرأت پر ہمیں شکیب جلالی یاد آجاتے ہیں لیکن شکیب کے یہاں پرندہ ’’اپنی تصویر‘‘ چٹان پر چھوڑتا ہے، شاید اس لیے کہ وہ واقعہ قتل کا ہے لیکن سفیر کے یہاں عاشق کی خودکشی ہے جو دیوار پر لہو سے اپنی تصویر نہیں چھوڑتا بلکہ اپنے معشوق کی تصویر کھینچتا ہے۔ بلاشبہ یہ بھی ایک suicide note کے طرز پر اپنی خودکشی کے لیے ذمہ دار شخص سے دنیا کو واقف کروانے جیسا ہی ہے لیکن خون سے نام لکھ دینا کوئی فنکاری نہیں۔ تخلیقیت تو خون کے دھبوں سے معشوق کی شبیہ بنانے میں ہے۔
یہ تو سامنے کی بات ہے کہ دیوار کے علاوہ پنکھا، رسّی، ڈوپٹہ، میز اور کرسی بھی خود کشی کی شاعری میں قرار واقعی مقام کے مستحق ہیں لہٰذا سفیر کی تخلیقی کارگزاری میں ان کا نمایاں ہونا عین فطری ہے۔ داخلی ارادے کا کچا پن اور خارجی مہمیز کی زور آوری میں پنکھے کی کارآمدگی پر نظر ڈالیے:
ہجر میں کچھ دن تو امیدیں رہیں پیشِ نظر
اور پھر آنکھوں کا مرکز کمرے کا پنکھا رہا
اگر تری آنکھ کے سمندر نے غم بہانا بھلا دیا ہے
تو روک پنکھا، ڈھکیل کرسی، گلے کی خشکی میں دل ڈبو لے
پہلے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں محاورہ ’’پیشِ نظر رہنا‘‘ نہایت خوبی سے برتا گیا ہے، جیسے امید کوئی مرئی شے تھی جسے عاشق تاکتا رہا ہو۔ پھر اس کے آگے ’’آنکھوں‘‘ کی فعالیت اس مغالطے کو مزید ہوا دیتی ہے۔ یہ سب اپنے آپ میں بہت پرلطف ہے۔دوسرے شعر کے مصرعِ ثانی میں تیسرا فقرہ ’’گلے کی خشکی میں دل ڈبو لے‘‘ استعاراتی ہونے کے باوجود سیدھا سینے میں اتر جاتا ہے۔
سفیر نے پنکھے کے حوالے سے دو مضامین ایسے بھی باندھے ہیں جو ہر کسی کے روزمرہ کے تجربے میں شامل ہوتے ہیں۔ میری مراد پنکھے کی آواز سے ہے۔ پنکھا ’’عمر رسیدہ‘‘ ہو تو شور بھی کرنے لگتا ہے لیکن اس شور میں بھی ایک مستقل آہنگ ہوتا ہے جو سننے والے کی تخلیقی حس کے لحاظ سے کچھ بامعنی الفاظ کی تکرار پیدا کرتا ہے۔ اشعار ملاحظہ کیجیے اور سفیر کے شاعرانہ تخیل کی داد دیجیے:
ہم اپنے آپ کو روکیں گے رقص سے کب تک
ہمارا پنکھا اگر تیرا نغمہ خواں ہو گا
سر پٹکتا ہوں تو آتی ہے صدا پنکھے سے
تو اگر تنگ ہے اس سے تو ہمارا کر دے
رسّی کے ساتھ توازن، سہارا، جھولنا، کھینچنا جیسے تلازموں کا استعمال زبان و بیان پر سفیر کی فنی دسترس کا مظہر ہے۔ کیفیت سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ فنی پختگی کی داد دیتے ہی بنتی ہے:
کیا خبر شدتِ غم مجھ سے توازن مانگے
اور کسی جھولتی رسّی کو سہارا کر دے
بے خودی میں رفتہ رفتہ کھینچ لائی اپنے ساتھ
ایک رسّی پیڑ کے جھولے سے پنکھے تک مجھے
’’خوابوں کے مرثیے‘‘ میں اچھی خاصی تعداد ایسے اشعار کی بھی ہے جو قدرے مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ بعض ٹھیٹ عاشقانہ اور خالص خطیبانہ اشعار بھی ہیں۔ یہاں وہاں کچھ اشعار بھرتی کے بھی نظر آجاتے ہیں لیکن مجموعی طور یہ شعری مجموعہ ایک نئے اسلوب، ایک نئے طرزِ فکر اور روشن امکانات کی شاعری سے بھرا پڑا ہے۔ آخر میں سفیر کے منفرد لہجے کی بھر پور عکاس ایک مکمل غزل پیش ہے:
جی میں آتا تو ہے مر جائیں، مگر کیسے مریں
سینکڑوں مشورے ہیں، ایسے مریں ویسے مریں
شیشۂ خواب کو دے ماریں کسی پتھر پر
اور اس شور کی جھلائی ہوئی لَے سے مریں
عشق میں مرنے کے آداب سے واقف نہیں شہر
دشت اپنائیں، کسی ہجر نما شے سے مریں
ان کو اس جشن میں آنے کا کوئی شوق نہیں
آپ کی مرضی ہے جب چاہیں، جہاں، جیسے مریں
ہم کو تو نشۂ آزارِ فنا کی ہے طلب
ایسے غم کب ہیں ہمیں جو قدحِ مے سے مریں
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page