آئیے آج اپن "پن” کی بات کرتے ہیں۔
” پن "ایک ایسا لاحقہ ہے جو نہ لگے تو سابقہ لفظ کی کیفیت نہ کھلے۔صوت و صدا میں رس نہ گھلے۔ادبی رنگ اور لسانی آہنگ دیکھنے سننے کو نہ ملے۔ اجنبی کا اجنبی پن نہ کھلے۔ کمینے کے کمینے پن کا رنگ نہ دکھے۔ بھولے بھالے لوگوں کے بھولپن کا سراغ نہ لگے۔ اپنوں کے اپنے پن کا پتا نہ چلے ۔تو پس ثابت ہوا کہ "پن ” لفظ کی کیفیت کو ابھارتا ہے۔اس کی معنویت کو اجاگر کرتا ہے۔اس کی ماہئیت کو سامنے لاتا ہے۔اس کی قدر و قیمت کو بتاتا ہے۔ اس کی افادیت کو دکھاتا ہے۔
اس ” پن ” کا رشتہ کہانی سے بھی بڑا گہرا ہے۔یہ "پن ” نہ ہو تو کہانی کہانی نہ بنے۔ کہانی میں کہانی پن اسی پن کے شامل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی پن کے سبب سامع کہانی کے پاس آتا ہے ۔ قاری قصے کے قریب پہنچتا ہے۔۔ایک زمانے میں یہ ” پن ” کہانی سے نکل بھاگا تھا یا اسے بھگا دیا گیا تھا تو قارئین اور سامعین بھی اس کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوۓ تھے ۔ دونوں اس کے پاس سے دور چلے گئے تھے۔ کبھی بھولے سے بھی اس کے پاس نہیں پھٹکتے تھے۔
تو یہ ثبوت بھی ملا کہ کہانی کہانی پن سے قائم ہے۔ یہ پتا تو چل گیا کہ کہانی کا حسن کہانی پن سے قائم و دائم ہے مگر کہانی پن خود کیا ہے یہ تو کھلا نہیں۔اس کا رنگ و نور تو آنکھوں میں گھلا نہیں۔
کہانی پن وہ وصف ہے جو حواس کو مرتکز کردے۔ باصرہ کو ایک مرکز یا نقطے پر ٹکا دے۔سامعہ کو کسی سُر یا آہنگ کے پیچھے لگا دے۔ لامسہ کو کسی پیکر یا منظر سے چپکا دے۔شامّہ کو کسی خوشبو یا مشک و عنبر کے تعاقب میں دوڑا دے۔
ذائقہ کو کسی لذّت یا سواد سے جکڑ دے۔
یہ رنگوں کا وہ نور ہے جو حواس کی آنکھوں کو خیرا کر دے۔ یہ وہ طلسمی ڈور ہے جو ایک ایک کو مضبوطی سے پکڑ لے، پوری طرح جکڑ لے۔
یہ وصف واقعات کے حسنِ انتخاب۔منطقی ترتیب اور دلچسپ بیان سے پیدا ہوتا ہے۔ایسا انتخاب کہ واقعہ مقناطیس بن جاۓ۔ ایسی ترتیب کہ تیر کی طرح پتلی میں چبھ جاۓ ۔ ایسا بیان کہ سن کر سماعت ہمہ تن گوش ہو جاۓ۔بصارت میں
متحرک تصویر ابھر آۓ ۔ ایسی تصویر جو فوراً دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لے۔جس سے سامع یا قاری کے رگ و ریشے میں لطف و انبساط کی لہر دوڑ جاۓ۔
یہ "پن ” کہانی کو انوکھے پن سے بھی جوڑتا ہے۔کوئی موضوع یا واقعہ اسی وقت دلچسپ اور قابلِ توجہ بنتا ہے جب اس میں انوکھا پن ہو۔یعنی وہ واقعہ نرالا ہو۔
واقعے کا نرالاپن یا انکوکھا پن ہی حواس کو چونکاتا اور چوکنّا کرتا ہے اور اسی سے سامع یا قاری کہانی کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔
اسی انوکھے پن سے کہانی میں جدّت پیدا ہوتی ہے۔یعنی کہانی کا یہی انوکھا پن کہانی میں نئے پن کو جنم دیتا ہے اور یہی نیا پن کسی کہانی کو دوسری تحریروں سے مختلف اور منفرد بناتا ہے اور کہانی پر جمی پرانے پن کی گرد کو اڑا کہانی کے رنگ و رامش کو نئی چمک دمک عطا کرتا ہے۔
یہ پن ایک اور طرح سے بھی کہانی سے جڑتا ہے اور وہ اور طرح ہے۔” سپاٹ پن ”
سپاٹ پن کہانی کو اکہرا اور بے لطف بنا دیتا ہے۔ اس سے قصے میں پھیکا پن ابھر آتا ہے اگر اسے راہ دی گئی تو سمجھیے کہ کہانی کی لطافت گئی۔اس لیے کہانی کو سپاٹ پن سے بچانا ضروری ہے ورنہ کہانی سے اکتاہٹ لازمی ہے۔
سپاٹ پن کے ساتھ ساتھ کہانی کو ایک اور پن سے بھی بچانا ضروری ہے اور وہ ہے اکہراپن۔ اچھی کہانی وہ ہوتی ہے جس میں اکہرا پن نہیں بلکہ تہہ داری ہو۔کہانی میں ایک سے زیادہ ڈائمینشن ہوں ۔ایک سے زیادہ جہات ہوں ۔ایک سے زیادہ شیڈز ہوں۔ایک سے زیادہ پرتیں ہوں۔ پرتیں ہٹیں تو پردے پر کبھی اندر لوک ابھر آۓ اور اندراسن کی پریاں رقص زن نظر آئیں۔ کبھی پر لوک منعکس ہو جاۓ اور پرلیہ کا پرکوپ ٹانڈو کرتا ہوا دکھائی دینے لگے۔ کبھی شبنم سے شعلے اور پھول سے شرارے نکلنے لگیں تو کبھی سنگ سے شیر کی دھار پھوٹنے لگے۔
یہ پن ایسی پھونک مارتا ہے کہ فکشن کا فن کبھی پھن بن جاتا ہے تو کبھی معصومیت اور بھولپن کا درپن دکھائی دینے لگتا ہے ۔ اس پن کی پھونک سے بوڑھاپا بچپن میں پہنچ جاتا ہے اور بچپن پیری کا پیراہن پہن لیتا ہے ۔ شرارت پن اینٹھ جاتا ہے۔ شوخ پن پیلا پڑ جاتا ہے۔ چنچل چتون کہنگی کا شکار ہو جاتا ہے۔تازگی میں باسی پن کا ابال آجاتا ہے۔تازہ گوندھے ہوۓ آٹے میں بھی خمیر اٹھ جاتا ہے۔
تو دیکھا اس ” پن ” کا کہانی کے ساتھ کیسا اپنا پن ہے؟ آئیے ہم بھی اس سے اپنا پن کا رشتہ جوڑیں۔ اس میں انوکھا پن اور نیاپن ڈالیں۔اسےاکہرے پن اور سپاٹ پن سے بچائیں اور اس کا کہانی پن بحال کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |