Adbi Miras
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

      تحقیق و تنقید

      علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

      مئی 27, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      تعلیم

      قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور ابتدائی بچپن کی…

      فروری 20, 2024

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      باکو میں موسمیاتی ایجنڈے کا تماشا – مظہر…

      نومبر 24, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      متفرقات

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      متفرقات

      مارچ 15, 2025

      متفرقات

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
مقبول ترین
تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی...
ترجمہ کا فن :اہمیت اور مسائل – سیدہ...
تحقیق: معنی و مفہوم ۔ شاذیہ بتول
سر سید کی  ادبی خدمات – ڈاکٹر احمد...
حالیؔ کی حالات زندگی اور ان کی خدمات...
ثقافت اور اس کے تشکیلی عناصر – نثار...
تحقیق کیا ہے؟ – صائمہ پروین
منٹو کی افسانہ نگاری- ڈاکٹر نوشاد عالم
منیرؔنیازی کی شاعری کے بنیادی فکری وفنی مباحث...
آغا حشر کاشمیری کی ڈراما نگاری (سلور کنگ...
  • سر ورق
  • اداریہ
    • اداریہ

      نومبر 10, 2021

      اداریہ

      خصوصی اداریہ – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن

      اکتوبر 16, 2021

      اداریہ

      اکتوبر 17, 2020

      اداریہ

      ستمبر 25, 2020

      اداریہ

      ستمبر 7, 2020

  • تخلیقی ادب
    • گلہائے عقیدت
    • نظم
    • غزل
    • افسانہ
    • انشائیہ
    • سفر نامہ
    • قصیدہ
    • رباعی
  • تنقیدات
    • شاعری
      • نظم فہمی
      • غزل شناسی
      • مثنوی کی تفہیم
      • مرثیہ تنقید
      • شاعری کے مختلف رنگ
      • تجزیے
    • فکشن
      • ناول شناسی
      • افسانہ کی تفہیم
      • افسانچے
      • فکشن کے رنگ
      • فکشن تنقید
    • ڈرامہ
    • صحافت
    • طب
  • کتاب کی بات
    • کتاب کی بات

      فروری 5, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 26, 2025

      کتاب کی بات

      ظ ایک شخص تھا – ڈاکٹر نسیم احمد…

      جنوری 23, 2025

      کتاب کی بات

      جنوری 18, 2025

      کتاب کی بات

      دسمبر 29, 2024

  • تحقیق و تنقید
    • تحقیق و تنقید

      شعریت کیا ہے؟ – کلیم الدین احمد

      دسمبر 5, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کی تنقیدی کتابوں کا اجمالی جائزہ –…

      نومبر 19, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کے نصف درجن مونوگراف پر ایک نظر…

      نومبر 17, 2024

      تحقیق و تنقید

      کوثرمظہری کا زاویۂ تنقید – محمد اکرام

      نومبر 3, 2024

      تحقیق و تنقید

      علامت کی پہچان – شمس الرحمن فاروقی

      مئی 27, 2024

  • اسلامیات
    • قرآن مجید (آڈیو) All
      قرآن مجید (آڈیو)

      سورۃ یٰسین

      جون 10, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      قرآن مجید (آڈیو)

      جون 3, 2021

      اسلامیات

      قربانی سے ہم کیا سیکھتے ہیں – الف…

      جون 16, 2024

      اسلامیات

      احتسابِ رمضان: رمضان میں ہم نے کیا حاصل…

      اپریل 7, 2024

      اسلامیات

      رمضان المبارک: تقوے کی کیفیت سے معمور و…

      مارچ 31, 2024

      اسلامیات

      نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد…

      ستمبر 23, 2023

  • متفرقات
    • ادب کا مستقبل ادبی میراث کے بارے میں ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف تحفظ مادری زبان تراجم تعلیم خبر نامہ خصوصی مضامین سماجی اور سیاسی مضامین فکر و عمل نوشاد منظر Naushad Manzar All
      ادب کا مستقبل

      غزل – عقبیٰ حمید

      نومبر 1, 2024

      ادب کا مستقبل

      ہم کے ٹھرے دکن دیس والے – سیدہ…

      اگست 3, 2024

      ادب کا مستقبل

      نورالحسنین :  نئی نسل کی نظر میں –…

      جون 25, 2023

      ادب کا مستقبل

      اجمل نگر کی عید – ثروت فروغ

      اپریل 4, 2023

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ایک اہم ادبی حوالہ- عمیرؔ…

      اگست 3, 2024

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب کی ترویج کا مرکز: ادبی میراث –…

      جنوری 10, 2022

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادبی میراث : ادب و ثقافت کا ترجمان…

      اکتوبر 22, 2021

      ادبی میراث کے بارے میں

      ادب و ثقافت کا جامِ جہاں نُما –…

      ستمبر 14, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      سائیں منظورحیدرؔ گیلانی ایک تعارف – عمیرؔ یاسرشاہین

      اپریل 25, 2022

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر ابراہیم افسر

      اگست 4, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      جنید احمد نور

      اگست 3, 2021

      ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف

      ڈاکٹر سمیہ ریاض فلاحی

      اگست 3, 2021

      تحفظ مادری زبان

      ملک کی تعمیر و ترقی میں اردو زبان و ادب…

      جولائی 1, 2023

      تحفظ مادری زبان

      عالمی یومِ مادری زبان اور ہماری مادری زبان…

      فروری 21, 2023

      تحفظ مادری زبان

      اردو رسم الخط : تہذیبی و لسانیاتی مطالعہ:…

      مئی 22, 2022

      تحفظ مادری زبان

      کچھ اردو رسم الخط کے بارے میں –…

      مئی 22, 2022

      تراجم

      کوثر مظہری کے تراجم – محمد اکرام

      جنوری 6, 2025

      تراجم

      ترجمہ نگاری: علم و ثقافت کے تبادلے کا…

      نومبر 7, 2024

      تراجم

      ماں پڑھتی ہے/ ایس آر ہرنوٹ – وقاراحمد

      اکتوبر 7, 2024

      تراجم

      مکتی/ منو بھنڈاری – ترجمہ: ڈاکٹرفیضان حسن ضیائی

      جنوری 21, 2024

      تعلیم

      ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات –…

      جولائی 30, 2024

      تعلیم

      کاغذ، کتاب اور زندگی کی عجیب کہانیاں: عالمی…

      اپریل 25, 2024

      تعلیم

      قومی تعلیمی پالیسی 2020 اور ابتدائی بچپن کی…

      فروری 20, 2024

      تعلیم

      ڈیجیٹل تعلیم کا تعارف اور طلباء کے لیے…

      جون 6, 2023

      خبر نامہ

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      خبر نامہ

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      خبر نامہ

      مارچ 15, 2025

      خبر نامہ

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

      خصوصی مضامین

      نفرت انگیز سیاست میں میڈیا اور ٹیکنالوجی کا…

      فروری 1, 2025

      خصوصی مضامین

      لال کوٹ قلعہ: دہلی کی قدیم تاریخ کا…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو :دوست…

      جنوری 21, 2025

      خصوصی مضامین

      بجھتے بجھتے بجھ گیا طارق چراغِ آرزو –…

      جنوری 21, 2025

      سماجی اور سیاسی مضامین

      لٹریچر فیسٹیولز کا فروغ: ادب یا تفریح؟ –…

      دسمبر 4, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      معاشی ترقی سے جڑے کچھ مسائل –  محمد…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      دعوتِ اسلامی اور داعیانہ اوصاف و کردار –…

      نومبر 30, 2024

      سماجی اور سیاسی مضامین

      باکو میں موسمیاتی ایجنڈے کا تماشا – مظہر…

      نومبر 24, 2024

      فکر و عمل

      حسن امام درؔد: شخصیت اور ادبی کارنامے –…

      جنوری 20, 2025

      فکر و عمل

      کوثرمظہری: ذات و جہات – محمد اکرام

      اکتوبر 8, 2024

      فکر و عمل

      حضرت مولاناسید تقی الدین ندوی فردوسیؒ – مفتی…

      اکتوبر 7, 2024

      فکر و عمل

      نذرانہ عقیدت ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے نام…

      جولائی 23, 2024

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      رسالہ ’’شاہراہ‘‘ کے اداریے – ڈاکٹر نوشاد منظر

      دسمبر 30, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      قرون وسطی کے ہندوستان میں تصوف کی نمایاں…

      مارچ 11, 2023

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      اردو کا پہلا عوامی اور ترقی پسند شاعر…

      نومبر 2, 2022

      نوشاد منظر Naushad Manzar

      جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی: ایک فکشن –…

      اکتوبر 5, 2022

      متفرقات

      پروفیسر خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک…

      اپریل 16, 2025

      متفرقات

      پروفیسر نجمہ رحمانی کی شخصیت اورحیات انتہائی موثر:…

      مارچ 25, 2025

      متفرقات

      مارچ 15, 2025

      متفرقات

      جے این یو خواب کی تعبیر پیش کرتا…

      فروری 26, 2025

  • ادبی میراث فاؤنڈیشن
Adbi Miras
افسانہ کی تفہیم

پرویز شہریارکے افسانوں میں احتجاج- ڈاکٹرنعمان قیصر

by adbimiras ستمبر 13, 2020
by adbimiras ستمبر 13, 2020 2 comments

ڈاکٹرپرویز شہریار چھوٹے سے صنعتی شہر جمشید پور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ،لیکن اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انھوں نے دہلی کا رخ کیااور یہاں بودوباش اختیار کرنے کے بعد ان کے افکار وخیالات میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔واقعہ یہ ہے کہ سال 1989 ان کی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ،کیونکہ اسی سال انھوں نے جواہرلال نہرو یونیورسٹی میںداخلہ لیا اور یہیں سے ان کی زندگی میںفکری اعتبار سے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔جے این یو میں داخلے کے بعد وہاں کی ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی یونین پولیٹکس میںبھی انھوں نے حصہ لیااور کمیونسٹ پارٹی کی طلبا وِنگ کی رکنیت اختیار کی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے علمی وادبی ماحول اور یہاں کے جیداساتذہ کی رہنمائی اور ان کے ترقی پسند نظریے نے زندگی اور سماج کے تئیں پرویز شہریار کی سوچ اور فکر کامحور ہی بدل دیا۔ پروفیسر محمد حسن، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر اسلم پرویز، پروفیسر اشفاق محمدخاں، پروفیسر محمد نصیر خاں، پروفیسر نامور سنگھ، کیدارناتھ سنگھ اور منیجر پانڈے کے رابطے میں آنے کے بعد ان کے فکری سروکار میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی۔ حیات و کائنات ، انسانی رشتوں اور مادی حقائق جیسے درجنوں ایسے موضوعات ہیں جنھوں نے پرویز شہریار جیسے حساس فنکار کی زندگی کو گہرائی سے متاثرکیا،جس کے واضح اثرات ان کی شعری و نثری تخلیقات میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ جے این یو کے ایم اے درجات کے نصاب میں شامل مارکس اور ہیگل کی تحریروںکو پڑھنے کا اثر ان پر یہ ہوا کہ انھوں ادب کے رومانی،ماورائی اور وجدانی کیفیت سے خود کو دور رکھا۔پرویز شہریارکے نزدیک کسی بھی فن پارے میںان عناصر کی پاسداری ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اُن کے افسانوں میں رومان پسندی، تخیل کی بلند پروازی اور دور ازکار موضوعات کے بجائے مقصدیت پر زور ملتا ہے۔اُن کا یہ ماننا ہے کہ وہی تحریر یںقدروقیمت کی حامل ہوسکتی ہیں جن میں زندگی کا عرفان ہواور جو عوامی جذبات واحساسات سے پوری طرح ہم آہنگ ہوں۔جن میں انسان کی آرزوئیں اور امنگیں مچلتی ہوئی نظر آئیں۔بالفاظ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ ادب میں اشتراکی نظریے کے قائل ہیں۔چونکہ کمیونزم کا منشور یہی ہے کہ اس میں استحصالی نظریے کی نفی اور سماج کے دبے کچلے افراد کی حمایت پر زور دیا جاتا ہے اور یہی وہ انسانی تصور ہے جس کی کار فرمائی سے کوئی بھی تحریر بامعنی ہوتی ہے اور اسے رفعت وآفاقیت سے ہم کنار کرتی   ہے ۔ تحریرمیں حقیقت پسندی کی وجہ سے اس کا رشتہ زندگی اور سماج سے گہرا ہوجاتا ہے ۔پرویز شہر یار کے عوامی تصور اور ان کی تر قی پسندی سے ذہنی و فکری ہم آہنگی کی وجہ سے ان کے دل و دماغ کو اکثر یہ سوال گھیرے رکھتا ہے کہ :

توزندہ ہے تو زندگی کے گیت میں یقین کر

اگر کہیں ہے سورگ تو اُتار لا زمین پر

پرویز شہریار کے سینے میں ایک حساس اور دردمند دل ہے جوسماج کے مظلوم طبقے کی بہتری کے لیے دھڑکتا ہے۔ ان کی تحریروں میں ہمدردی، انسان دوستی اوراخوت وبھائی چارگی جیسے موضوعات کلیدی اہمیت رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مارکس اور ہیگل کے اشتراکی نظریات نے ان کی بصیرت اور شعور کو انگیخت کیا اور اس کے بعد مارکس کے مادیت کے اصول، جدلیاتی تبدیلی اور تاریخی حقائق نے ان کی تخلیقی افکار کے رخ کو یکسر موڑ دیا ۔ بعد ازاں، ادبی سماجیات (Sociology of Literature)کے مطالعے سے ان پریہ حقیقت بھی منکشف ہوگئی کہ پہلے مادہ ہے، خیال کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ ادب، مذہب اور دیگر تمام شعبہ ٔ حیات، انسانی ذہن کی اپج ہے۔چنانچہ ادب سے بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور انسانی فلاح وبہبودکے کام لیے جاسکتے ہیںاور ماضی میں لیے بھی گیے ہیں۔انسان اپنے ماحول کے خارجی حقائق سے متاثر ہوتاہے۔بقول پرویز شہریار ’’مارکسی نقاد پروفیسرمحمد حسن اکثر کہا کرتے تھے کہ دنیا میں جب پہلی بار کسی انسان نے زمین پر لکیر کھینچ کر کہا ہوگا کہ یہ زمین میری ہے، اسی دن سے سرمایہ داری کا آغاز ہوگیا ہوگا۔‘‘ محمدحسن کا یہ خیال تھا کہ—- ’کوئی بھی شخص کسی کی حق تلفی کیے بغیر سرمایہ دار نہیں بن سکتاکیونکہ سرمایہ داری کی بنیاد ہی استحصال پر رکھی گئی ہے۔‘‘پرویزشہریارنے پروفیسرمحمد حسن کی آنکھیں دیکھی ہیں،ان سے باضابطہ تعلیم حاصل کی ہے، اسی لیے وہ ان کے مارکسی نظریات سے بے حد متاثر ہیں۔اُن کی صحبت کا ہی فیضان ہے کہ پرویزشہریار کی تخلیقات میںزمینی   مسائل، مظلوم اور مجبورومقہور انسانوںکی دادرسی بھی نظر آتی ہے۔ انھیں دبے کچلے ہوئے غریب ، نادار اور بے سہارا لوگوں سے ہمدردی ہے،جس کا جابجا اظہاران کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں کے بہت سے کردار مظلومیت کی داستان سناتے نظر آتے ہیں ۔ اس کی سب سے زیادہ جیتی جاگتی تصویرہمیں افسانہ ’نیا سورج نیا سویرا‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔پرویز شہریارکے افسانوں میں غربت کی انتہا دیکھنی ہوتو ان کا افسانہ ’نیا سورج نیا سویرا ‘ کے کردار’ بھولا‘ کو دیکھئے جو گاؤں سے بھاگ کر شہر آیا ہے ۔اپنے گزربسر کے لیے بڑے شہر کی گندگی اور کوڑا کرکٹ کے انبار سے کاغذاور پلاسٹک جمع کرتا ہے کہ ایک دن اس پر غلیظ سوروں کا ایک غول حملہ کرکے اسے شدید زخمی کر دیتا ہے۔ انسان کی بے وقعتی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ اسے اپنے شکم کی آگ بجھانے کے لیے سوروں کے غول سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ افسانہ ’نیا سورج نیا سویرا‘کایہ اقتباس دیکھئے:

’کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے پرانے کاغذ چن رہا تھا کہ اتنی دیر میں آٹھ دس موٹے موٹے بھورے رنگ کے سوروں کا ایک غول کیچڑ پٹی کے عقب سے نمودار ہوا اور اس کے تھیلے کو کھینچ تان کرنے لگا تھا اور وہ اُن سے اپنے کھانے کا تھیلا چھڑانے میں خود کو انتہائی بے بس و ناچار محسوس کر رہا تھا کہ اتنے میں کامنی آگئی تھی اور اُس نے سوروں کے منھ سے کس کر تھیلا چھڑا لیا تھا۔ اس چھینا جھپٹی میں وہ گٹر میں گرنے سے تو بچ گیا تھا مگر اس کی ہتھیلی کی پشت پر ایک سور نے پنجہ مار دیا تھا ،جس سے خون بہہ نکلا تھا۔ اس کے کھانے کا تھیلا پھٹ گیا تھا، جس سے سارے کھانے نکل کر بکھر گئے تھے۔‘

اس افسانے کے پس منظر میںپرویز شہریار نے درحقیقت معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات کو نشانہ بنایا ہے، جہاں غریب اور مظلوم انسان کی قدروقیمت ظالم سماج کے سرمایہ داروں کی نگاہ میں کوڑی سے بھی کم ہے۔ طبقاتی جد وجہد میں استحصال کا شکار طبقہ خود کو بے بس ولاچار محسوس کرتا ہے اور دوسری جانب ہمارا سیاسی نظام اس کی طرف سے منھ پھیرے بیٹھا ہے ۔ سیاستدانوں کو الیکشن لڑنے کے لیے سرمایہ چاہیے اور یہ سرمایہ انھیں سماج کے صنعت کاروں اور بڑے تاجروں سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوری نظام کے اندر بھی خفیہ طوپر رشوت خوری اور استحصال کی وجہ سے غریب اور کمزور عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

شہر کا مالدار سیٹھ کروڑی مل اپنے فائیواسٹار ہوٹل کی توسیع و تزئین اور اس کی آرائش وزیبائش کے لیے غریبوں کی جھگیوں کو نذرآتش کردیتا ہے۔ شعلوں کی زد میں آکر افسانے کی ہیروئن رانی کی موت ہوجاتی ہے۔ وہ رانی جو ابھی کنواری ہے اور اپنے منگیتر کی راہ دیکھ رہی ہے، وہ اس انتظار میں ہے کہ اس کا منگیتر آئے گااور اسے سرخ جوڑے میں بیاہ کر لے جائے گا۔ لیکن جب وہ جھونپڑ پٹی (Slum area) میں پہنچتا ہے، تو وہاں اسے اپنی جھونپڑی خاکستر نظرآتی ہے ۔بھولاانتہائی درد انگیز اور دلخراش اندازمیں لیکن بلندحوصلگی کے ساتھ کہتا ہے:

مظلوم کے خون سے بہت جلد ہی ایک نیا سورج اُگے گا جو تیرے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کردے گا۔ تب یہ مظلوم تجھے… یاد رکھ…ہرگز ہر گز نہیں بخشیں گے۔‘

سرمایہ دارانہ نظام میں ایک مزدور کی مفلسی اورتنگدستی کو پرویز شہریار نے اپنے افسانہ ’جولان گاہ کی حد‘ میں خوبی کے ساتھ سے پیش کیا ہے۔ راموجو ایک مزدور ہے اور وہ کارخانے کام کرتے ہوئے حادثاتی طور پر اپنی دونوں ٹانگیں گنوا چکا ہے اور مل مالک نے اسے حرجانہ تو دور، اس کی محنت ومزدوری کی رقم بھی پوری نہیں دی ہے۔ لہٰذا ،وہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر فٹ پاتھ پر آجاتا ہے…افسانے کے واحد متکلم کردارکو اس کی محنت ایمانداری اور وفاداری کے صلے میں کارخانے کے مالک نے اسے کیادیا، یہ سوچ کر وہ کافی اداس ہوجاتا ہے۔اسے لگتا ہے کہ کوئی ان دیکھی شیطانی طاقت ہے جو پس ماندہ طبقے کی زندگی کو اپنے پیروں تلے روند رہی ہے۔ ایک آسیب کے سائے کی طرح یہ طاقت اس کا ہر وقت تعاقب کرتی رہتی ہے:

’میں جوں ہی پل کے نیچے سے ہوکر گزرا ریل گاڑی چیختی چنگھاڑتی شور مچاتی تیزی سے گزر گئی۔ اسی وقت میری نگاہ سر بریدہ شخص سے جا ٹکرائی۔ اس کے سینے پر کئی ایک برچھیاں پیوست تھیں۔ زخموں سے خون رس کر ننھے ننھے بالوں میں لت پت ہورہا تھا۔ تمام اعضا کالک اور میل سے چپ چپ ہورہے تھے۔ اس نے دونوں پاؤں میں بھاری بھرکم بوٹ پہن رکھے تھے۔‘

یہ مزدور جواپنی غربت و افلاس کی وجہ سے بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور سماج کے دماغ والے لوگ ان کا استحصال کرکے امیروکبیر، سیٹھ اور ساہوکار بن جاتے ہیں۔یہاں پرویز شہریار نے مزدور طبقے کی پریشانی اور ان کے دکھ دردکو انتہائی درد مندی اور احساس کی گہرائیوں کے ساتھ بیان کر دیا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان کی خستہ حالی کے ذمہ دار کون لوگ ہیں۔ ہمارا سماج ان کے استحصالی رویے کو کب تک برداشت کرتا رہے گا۔ہندوستان میں صنعت کاراور سرمایہ دار ان مزدوروں کا صدیوں سے استحصال کر کے پونجی پتی بنتے چلے آ ئے ہیں۔ دادا کے ذریعے کیے گئے استحصال پر ان کے پوتے عیش کر رہے ہیں،لیکن مزدورکو اپنے باپ دادا سے وراثت میں ہمیشہ غریبی اور مفلسی ہی ملتی چلی آرہی ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:

’سوچتا ہوں، مجھ میں اور ریل گاڑی میں کتنی مسابقت ہے۔… خواہ گرمی ہو سردی ہو یا برسات، مجھ میں اور ریل گاڑی میں کس قدر مسابقت تھی، تپتی دھوپ، کڑاکے کی سردی ہو یا موسلا دھار بارش، میں اپنے کاندھے پہ کدال اور ہل بیل لے کر کھیت پر کام کرنے نکل جاتا تھا، میں اس وقت بھی تیزتیز قدموں سے چلتا تھا، تیز تیز قدموں سے چلنا میں نے اپنے باپ سے سیکھا ہے اور میرے باپ نے شاید اپنے باپ سے سیکھا ہوگا۔ـ‘

’جہیز کی آگ میں جلتی زندگی‘کی مرکزی نسوانی کردار’ آشا پاریکھ‘ کی غربت نے پہلے تو اُسے بے جوڑ شادی کرنے پر مجبور کردیا۔ پھر قسمت نے اس کے بڈھے کھوسٹ شوہر کو ریل گاڑی کے حادثے میں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ لیکن آشا جیسی حساس لڑکی ایک بیوہ کی حیثیت سے اپنے والدین پر بوجھ بننا نہیں چاہتی ہے اور وہ اچانک غائب ہوجاتی ہے۔ بعد میں اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اور پولیس کی گولی لگنے سے موت کا شکار ہوجاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے انیس بیس سال کی آشا کی ہنستی کھیلتی زندگی جہیز کی آگ میں جُھلس کرہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے:

’…دہیج پرتھا تو بنا ہاتھ پائوں ہلائے دوسرے کا دھن ہڑپنے کا ذریعہ ہے۔ سماج سدھارک اور نیتا جی دہیج کے روگ کو دور کونے کے لیے اُپدیش دیتے ہیں، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ سرکار نے دہیج پرتھا کے خلاف تو قانون بنا دیا ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے؟ جب کوئی شکایت کرنے والا ہی نہیں تو قانون کیا کرے گا۔ بے چارہ لڑکی والا تو اپنی عزت کے ڈر سے شکایت  نہیں کرتا، دیگر حضرات کو کیا غرض؟ اس پرتھا کو سماج کے نوجوان ہی ختم کر سکتے ہیں۔اگر وہ تیار ہو جائیں تو ماتا پتا کچھ نہیں کر سکتے….. !ـ‘

جہیز جیسی لعنت سماج کے اعلیٰ طبقہ کی دین ہے اور اس طبقاتی کشمکش میں غریب اور بچھڑے ہوئے لوگ امیروں کے سماجی استحصال کی زد میں آکر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس معاشرے میں عدم مساوات اور استحصال کا بول بالا ہو ، وہ سماج کبھی صحت مند نہیں ہو سکتا ہے۔ پرویز شہریار نے ایک ذمہ دار قلم کار کی حیثیت سے ان مسائل کو بڑی خوبصورتی سے منظر عام پر لاکر ارباب ِاقتدار کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

’خودکشی کا سوال‘ بھی اسی نوع کا افسانہ ہے جس میں ایک لاوارث لڑکی امیرن کو سماج بھکارن بننے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس کے بعد بھی جب سماج کا دل نہیں بھرتا ہے، تو اس کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، اس زیادتی اور غیرانسانی سلوک سے تنگ آکر خودکشی کے لیے وہ مجبورہوجاتی ہے۔امیرن جو دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھ کر گزر بسر کرتی ہے لیکن سماج اسے چور اور پاگل قرار دے کر ذلت کی زندگی جینے کے لیے مجبور کردیتا ہے اور پھر اس کا جو حشر ہوتا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔یہاں پورے سماج کو پرویز شہریار نے کٹگھرے میں لا کھڑا کیا ہے کہ ملک کی آزادی کے چوہتر سال بعد بھی ہم بے سہارااور مجبور عورتوں کی زندگی کی حفاظت سے ہم قاصر ہیں:

’…اُس کی زندگی میں ایک رات ایسی بھی آئی جو اپنے سیاہ دامن میں نحوست سمیٹے ہوئے تھی۔ اس تاریک شب میں جھونپڑ پٹی کے ہوس پرست گنگا کو اس کے گھر کا راستہ صاف نظر آگیا۔ وہ شراب کے نشے میں دُھت لڑکھڑا تا ہواآیا اور گوشت کے بھوکے بھیڑیے کی طرح شکار کے اوپر ٹوٹ پڑا۔ دوسری صبح وہ اس قابل نہ رہی کہ زمانہ کو اپنا منھ دکھا سکتی…آج کی امیرن نے سوچا کل وہ کسی امیرن کو جنم ہونے نہیں، دے گی خودکشی کرلی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھ جیسی ابھاگن کو کب تک خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا؟ کب ہمارا سماج جاگے گا؟ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے؟‘

گائوں کے مکھیا اور چودھریوں کے ذریعے غریب کسانون اور مزدوروں کے استحصال کی ایک اور بھیانک تصویر پرویز شہریار نے اپنے افسانے ’ہات رے ، تیرا بھولپن‘ میں انتہائی مؤثر ڈھنگ سے پیش کی ہے۔ بڑے شہروں میں آکر مزدوری کرنے والے لوگ اپنے گاؤں چھوڑ کر بھاگنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ گاؤں کے اعلیٰ طبقے کے چودھری اور ٹھاکر اُن کی زندگی سے کھیلواڑ کرتے ہیں اور انہیں زبان کھولنے پر جان سے بھی مار دینے کی دھمکی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ دوسری طرف قدرتی آفات کبھی سیلاب اور کبھی قحط سالی،لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک حکومت کی بے حسی اور لا پروائی ہے۔ ان کے کھیتوں میں اناج نہیں اگنے کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔جب معمولی زمین والے مزدومعاشی دشواریوں پر قابو پانے کی غرض سے بڑے شہروں میں دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہوتے ہیں، تب ان کی بہو بیٹیاں گاؤں کے زمیندار ٹھاکروں کی ہوس کی شکار ہوجاتی ہیں۔اقتباس ملاحظہ کریں:

’’میں نے گائوں کے ایک ایک بزرگ سے کہا، لیکن ٹھاکر سے دشمنی کون مول لیتا‘ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔

’ـسب نےمیری دھنیاپرہی الزام لگایا—- وہ بدچلن ہے۔‘اس کی آواز کانپنےلگی۔تھوڑی سی خاموشی کےبعداس نےفکرمندلہجہ میں کہا۔’جانےکہاںہوگی بیچاری۔‘وہ دورخلاؤں میں گھوررہاتھا۔اس کی زبان سے  نکلا ہوا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا محسوس ہورہا تھا—-’اُس کے بھولے پن نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا  —- ‘

’کیا اسے اپنے بچے کی یاد بھی نہیں آتی؟‘

’پتہ نہیں صاحب! اس ظالم سماج نے تو اس معصوم سے اس کی ممتا تک چھین لی ‘

’ … میں نے آخری بار اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی تو متحر رہ گیا—-  جہاں کچھ دیر پہلے تک نفرت کی چنگاریاں بھڑک رہی تھیں، اب وہاں ، اُن آنکھوں میں درد بھرے آنسوں کے قطرے تیر رہے تھے۔‘

دنیا طلبی اور زرپرستی کے اس عہد میں غریب ہونا کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ غریبوں کو اس کی غربت کی سزا شہروں میں پولیس دیتی ہے ۔گاؤں میں چودھری اورٹھاکر دیتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ قدرت کا قہر بھی ان ہی غریبوں پر نازل ہوتا ہے۔اگر سنجیدگی سے مطالعہ کریں تو پرویز شہریار کے افسانوں میں ہر جگہ استحصال اور عدم مساوات کے خلاف احتجاج کی زیریں لہریں رقصاں نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے تخلیقی رویے سے مارکسی نظریے کے قائل اور اشتراکیت کے علمبردار معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ترقی پسندی کہیں بھی نعرہ بازی کی صورت اختیارنہیں کرتی۔البتہ کہانیوں میں ظالم کے ظلم کے خلاف کہیں کہیں ان کا لہجہ سخت ہوجاتا ہے ۔لیکن اس سختی میں بھی فنی حرمت کی پاسداری ان کے پیش نظر رہتی ہے۔چونکہ وہ کہانی کے رمز اور اس کے ٹریٹمنٹ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ پرویز شہریار کے افسانوں کے مطالعے سے ایک بات جو واضح طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعے استحصال اور عدم مساوات سے پاک ایک صحت مند معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔خواب کو حقیقت سے ہم کنار کرنے کی ان کی یہ کاوش ان کے بیشتر افسانوں میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔ ان کا یہ پیغام ان کے ہر افسانے میں کھلے یابند طریقے سے موجود ہوتا ہے جو صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!

پرویز شہریار نے بڑے شہر کے مسائل اور وہاں اقامت پذیر لوگوںمیں نفسیاتی تضادات کے باوجود،مجبوریٔ حالات کے تناظر میں جو ایک ذہنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ،اسے جنسی موضوعات کے پس پردہ خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے۔افسانہ’ لواِن رلیشن سے پرے‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ افسانے کاتجزیہ کرتے ہوئے منظرکلیم نے بڑی عمدہ بات کہی ہے ،جس کاایک اقتباس میں یہاں پیش کرناچاہتا ہوں۔جس کی روشنی  نئے شہر کے مسائل کی تفہیم وتعبیر کی راہ آسان ہوجاتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔’’پرویز شہریار نے افسانے کی ابتدا میں قاری کے لیے اتنی آسانی ضرور پیداکردی ہے کہ پڑھتے وقت وہ جذبات میں نہ بہہ کر اس حقیقت کو مدنظر رکھے جو بڑے شہروں کی ودیعت ہیں۔انسان کس طرح اور کن حالات میں جیتے اور رہتے ہیں۔مجبوریاں کیاکچھ کرانے پر مجبور کردیتی ہیں۔رشتے کس طرح بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔انجان لوگوں کے بیچ اگر کوئی بات کامن(common)ہوتی ہے تو ان کی ضرورت اور اس کی تکمیل میں جہاں کبھی مصلحت کام آتی ہے تو کبھی مصالحت۔یہ افسانہ’ لواِن رلیشن سے پرے‘ اسی ضرورت کی تصویر پیش کرتا ہے۔بڑے شہروں کا ایک عذاب یہ بھی ہے کہ وہاں رہائش کا مسئلہ بہت گمبھیر ہوتا ہے جس کااثر طرز رہائش پر پڑتا ہے۔اسی طرز رہائش کی صورت بھی مجبوری اور کبھی سمجھوتے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔’ لواِن رلیشن سے پرے‘ بڑے شہروں کے طرز نواور سمجھوتے کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اثرات کا غماز ہے۔‘‘

( اسے بھی پڑھیں عبدالصمد کی افسانہ نگاری-ڈاکٹر انوارالحق )

پرویزشہریار کے افسانوں میں سماج کے دبے کچلے افرادکی آرزوئیں اور ان کی حسرتیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔انھوں نے اپنے افسانوں میں سماج کے دبے کچلے اور استحصال زدہ طبقے کی پریشانیوں اور دشواریوں کو ترجیحی طور پر پیش کیا ہے ،اس لیے ان کی تخلیقی بنت کا رشتہ ترقی پسندی کے ڈانڈے سے جاملتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں کہ ان کے یہاں صرف ایک ہی طرح کے موضوعات ہیں۔ ان کے افسانوں پر موضوعاتی تکراراور یکسانیت کاالزام نہیں لگایا جاسکتا اور نہ ہی ان کے یہاں تخلیقیت کا فقدان نظر آتا ہے ،لیکن ان کے افسانوں کا بیشتر حصہ سماجی اصلاحات اور سماج کے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی پر محیط ہے۔ان کے افسانوں میں تحیر بھی ہے اور تجسس بھی جو قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ان کا افسانوی اسلوب سادہ اور عام فہم ہونے کے باوجود دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ روایتی موضوعات میں بھی جدت پیدا کرنے کے لیے پرویزشہریار کہانی کی بنت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانے قاری کے ذہن پر اپنا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ پرویز شہریار کے افسانوں میں زندگی اور سماج مختلف جہتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔سماجی وقوعات وحادثات کو بھی انھوں نے اپنے افسانے کا حصہ بنایا ہے ۔ جنس کو بھی ان کے افسانے کااساسی پہلو قرار دیا جاسکتا ہے ،لیکن اس کا مقصد ان کے نزدیک ذہنی عیش کوشی نہیں ،بلکہ وہ جنس کوزندگی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں،اس سے روگردانی سے سماج میں طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے پرویز شہریار کے افسانوں کادائرہ وسیع ہے۔ ان میںمختلف موضوعات پر لکھنے کی للک نظر آتی ہے ۔مغربی تہذیب اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی سماجی برائیوں کو بھی انہوں نے اپنے افسانے کاموضوع بنایا ہے۔مشرقی اقدار کے زوال کا نوحہ بھی ان کے یہاں نظر آتا ہے۔ پرویز شہریار کے افسانوں میں زندگی اور سماج کی کئی پرتیں روشن ہیں ۔موضوعاتی تنوع ،عصری حسیت اورفنی دسترس کی وجہ سے بلاشبہ ان کا شمار عہد حاضرکے اہم اور منفردافسانہ نگاروںمیں ہوتا ہے ۔

 

 

 

ادبی میراثپرویز شہریارنعمان قیصر
2 comments
1
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail
adbimiras

پچھلی پوسٹ
اگلی پوسٹ
غالب کی غزل 10۔ ڈاکٹر رضی الدین عقیل

یہ بھی پڑھیں

عزیز احمد کی افسانہ نگاری! وارث علوی

اپریل 12, 2025

اکیسویں صدی کی افسانہ نگارخواتین اور عصری مسائل...

مارچ 21, 2025

ہمہ جہت افسانہ نگار: نسیم اشک – یوسف...

جنوری 15, 2025

ڈاکٹر رُوحی قاضی : ایک فراموش کردہ افسانہ...

نومبر 25, 2024

اکیسویں صدی کے افسانے – ڈاکٹر عظیم اللہ...

ستمبر 15, 2024

افسانہ ‘ عید گاہ’ اور ‘عید گاہ سے...

اگست 7, 2024

اندھیری آنکھوں کے سامنے سورج اُگانے والا افسانہ...

اگست 4, 2024

جوگندر پال کا افسانہ ‘پناہ گاہ’ ایک جائزہ...

جولائی 14, 2024

اکیسویں صدی کے ناولوں میں  دیہی اور شہری...

جولائی 9, 2024

اجتماعی تہذیب اور افسانہ – انتظار حسین

جون 12, 2024

2 comments

Perwaiz Shaharyar ستمبر 14, 2020 - 4:23 صبح

ڈیئر نوشاد منظر
بہت شکریہ، آپ نے ڈاکٹر نعمان قیصر کے مضمون کو بہت اہتمام اور خوب صورتی سے، بہت محبت سے سرشار ہو کے پیش کیا ہے۔ اس کے مبارک باد
سلامت رہیے
پرویز شہریار نئی دہلی

Reply
adbimiras ستمبر 14, 2020 - 5:44 شام

بے حد شکریہ سر۔۔۔۔ آپ کی کہانیوں اور مضامین کا انتظار ہے۔۔۔۔

Reply

تبصرہ کریں Cancel Reply

اپنا نام، ای میل اور ویبسائٹ اگلے تبصرہ کے لئے اس براؤزر میں محفوظ کریں

زمرہ جات

  • آج کا شعر (59)
  • اداریہ (6)
  • اسلامیات (182)
    • قرآن مجید (آڈیو) (3)
  • اشتہار (2)
  • پسندیدہ شعر (1)
  • تاریخِ تہذیب و ثقافت (12)
  • تحقیق و تنقید (115)
  • تخلیقی ادب (592)
    • افسانچہ (29)
    • افسانہ (200)
    • انشائیہ (18)
    • خاکہ (35)
    • رباعی (1)
    • غزل (141)
    • قصیدہ (3)
    • گلہائے عقیدت (28)
    • مرثیہ (6)
    • نظم (127)
  • تربیت (32)
  • تنقیدات (1,037)
    • ڈرامہ (14)
    • شاعری (531)
      • تجزیے (13)
      • شاعری کے مختلف رنگ (217)
      • غزل شناسی (203)
      • مثنوی کی تفہیم (7)
      • مرثیہ تنقید (7)
      • نظم فہمی (88)
    • صحافت (46)
    • طب (18)
    • فکشن (401)
      • افسانچے (3)
      • افسانہ کی تفہیم (213)
      • فکشن تنقید (13)
      • فکشن کے رنگ (24)
      • ناول شناسی (148)
    • قصیدہ کی تفہیم (15)
  • جامعاتی نصاب (12)
    • پی ڈی ایف (PDF) (6)
      • کتابیں (3)
    • ویڈیو (5)
  • روبرو (انٹرویو) (46)
  • کتاب کی بات (471)
  • گوشہ خواتین و اطفال (97)
    • پکوان (2)
  • متفرقات (2,121)
    • ادب کا مستقبل (112)
    • ادبی میراث کے بارے میں (9)
    • ادبی میراث کے قلمکاروں کا مختصر تعارف (21)
    • تحفظ مادری زبان (24)
    • تراجم (32)
    • تعلیم (31)
    • خبر نامہ (894)
    • خصوصی مضامین (125)
    • سماجی اور سیاسی مضامین (227)
    • فکر و عمل (119)
    • نوشاد منظر Naushad Manzar (66)
  • مقابلہ جاتی امتحان (1)
  • نصابی مواد (256)
    • ویڈیو تدریس (7)

ہمیں فالو کریں

Facebook

ہمیں فالو کریں

Facebook

Follow Me

Facebook
Speed up your social site in 15 minutes, Free website transfer and script installation
  • Facebook
  • Twitter
  • Instagram
  • Youtube
  • Email
  • سر ورق
  • ہمارے بارے میں
  • ہم سے رابطہ

All Right Reserved. Designed and Developed by The Web Haat


اوپر جائیں