ادبا و شعراء نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے پروفیسر عبدالواسع کی موت کو اردو دنیا کےلئے عظیم خسارہ قرار دیا۔
مظفرپور:21/(پریس ریلیز) بہار یونیورسٹی مظفرپور کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر عبد الواسع کے انتقال پر ادبی دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مرحوم پٹنہ کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ 20/ اکتوبر 2024ء بروز اتوار کو انہوں نے پٹنہ میں تقریبا 83/ سال کی عمر میں اس دنیا کو خیر آباد کہا۔ شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور، بہار کے طالب علم اورمعروف جواں سال قلمکار اسلم رحمانی نے ان کے سوانح کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عبدالواسع کی ولادت نالندہ ضلع،استھانواں تھانہ حلقہ کے موضع کونند میں 1941ء میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم و تربیت والدہ مرحومہ زبیدہ خاتون کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئی۔ قرآن انھوں نے ہی ختم کرایا۔بعد میں گیا کے محلہ معروف گنج کی جامع مسجد کے امام صاحب سے اردو اور فارسی پڑھی۔ 1948ء میں ڈی۔ ایم۔ ایچ۔ ای۔اسکول گوپال گنج میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔پھر ہائی اسکول کشن گنج،ضلع اسکول رانچی اور جموئی ہائی اسکول، جموئی میں زیر تعلیم رہے۔ بات اصل یہ ہے کہ ان کے والد مولوی عبد الرشید ، منصف کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا تبادلہ جہاں جہاں ہوا وہاں وہاں ان کے ساتھ وہ بھی جاتے رہے۔1955ء میں جموئی ہائی اسکول، جموئی سے میٹرک کیا۔ آئی اے اور بی اے آنرز ایل ایس کا لج مظفر پور سے کیا۔ ایم اے فارسی اور ایم اے اردو پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ سے بالترتیب 1961ء اور 1962ء میں کیا۔ بی ایل 1968ء میں کیا اور پی ایچ ڈی 1969ء میں بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کیا۔ ڈپ ان اڈ ٹیچرس ٹریننگ کالج بھاگلپور سے 1962ء میں کیا۔ان کی ملازمت کا آغازنومبر 1963ء میں تقرر لکچرران اردو اور فارسی کے عہدے پر ایل ایس کالج ، مظفر پور سے ہوا۔1980ء میں ریڈر کے عہدے پر ترقی ملی۔ 1984ءمیں شعبۂ اردو،بہار یو نیورسٹی کے صدر مقرر ہوئے۔ 1985ء کے یکم فروری کو پروفیسر کے عہدے پر ترقی ملی۔وہ 1958ء میں بزم سخن، ایل ایس کالج ، مظفر پور کے سکریٹری منتخب ہوئے یہیں سے آپ نے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ پروفیسر عبدالواسع ایک بہترین انسان، کامیاب استاد،مربی اور مصنف تھے۔ادبی دنیا میں ماہر لسانیات، تنقید نگار،سر سید شناس کی حیثیت سے مشہور تھے۔مظفرپور میں آپ نےچندوارہ کے کرار کی باری میں پہلے کرائے کی مکان میں رہائش پذیر رہے بعدازاں اسی محلے میں آپ نے اپنا ذاتی گھر بھی تعمیر کرایا۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ کا قیام اکثر اپنی بیٹی اور مشہور نقاد پروفیسر وہاب اشرفی کی بہو کے گھر پٹنہ میں رہتا تھا۔ ان کے مشہور تصانیف یہ ہیں بہار میں اردو سوانح نگاری کا آغاز و ارتقاء،فن سوانح نگاری، مفہوم کی سمت اور تصوف اور اردو نثر ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر امام الدین امام نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار یونیورسٹی، مظفرپور کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر عبد الواسع کئی سالوں سے آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ مرحوم کی کئی کتاب تشنہ طباعت ہے۔ میرے پاس بھی کچھ مواد موجود ہے جو تقریباً تین چار سال پہلے انہوں نے میرے حوالے کیا تھا۔ اگر کوئی شخص ان کےحوالے سے کسی قسم کا ادبی کام کرنا چاہتے ہوں تو مجھ سے رابطہ ضرور کریں۔ان کے انتقال پر پروفیسر فاروق احمد صدیقی، ڈاکٹر ابوذر کمال الدین، ڈاکٹر جلال اصغر فریدی، ڈاکٹر مطیع الرحمٰن عزیز، ڈاکٹر کامران غنی صبا، اسد رضوی، ڈاکٹر منصور معصوم، ریسرچ اسکالر امام الدین امام،ڈاکٹر مستفیض احد عارفی،اسلم رحمانی،تابش قمر، انجنیئر ظفر اعظم ربانی، محمد اشتیاق، محمد شمشاد سنابلی،محفوظ احمد عارف، محمد رفیع، حافظ عبد الرحیم رحمانی، خالد رحمانی اور اعجاز احمد وغیرہم نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی موت کو اردو دنیا کےلئے عظیم خسارہ قرار دیا۔
ماہر لسانیات و سوانح نگار پروفیسر عبد الواسع کا انتقال،ادبی حلقوں میں غم واندوہ کی لہر
ادبا و شعراء نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے پروفیسر عبدالواسع کی موت کو اردو دنیا کےلئے عظیم خسارہ قرار دیا۔
مظفرپور:21/(پریس ریلیز) بہار یونیورسٹی مظفرپور کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر عبد الواسع کے انتقال پر ادبی دنیا میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مرحوم پٹنہ کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔ 20/ اکتوبر 2024ء بروز اتوار کو انہوں نے پٹنہ میں تقریبا 83/ سال کی عمر میں اس دنیا کو خیر آباد کہا۔ شعبۂ اردو نتیشور کالج مظفرپور، بہار کے طالب علم اورمعروف جواں سال قلمکار اسلم رحمانی نے ان کے سوانح کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر عبدالواسع کی ولادت نالندہ ضلع،استھانواں تھانہ حلقہ کے موضع کونند میں 1941ء میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم و تربیت والدہ مرحومہ زبیدہ خاتون کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئی۔ قرآن انھوں نے ہی ختم کرایا۔بعد میں گیا کے محلہ معروف گنج کی جامع مسجد کے امام صاحب سے اردو اور فارسی پڑھی۔ 1948ء میں ڈی۔ ایم۔ ایچ۔ ای۔اسکول گوپال گنج میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔پھر ہائی اسکول کشن گنج،ضلع اسکول رانچی اور جموئی ہائی اسکول، جموئی میں زیر تعلیم رہے۔ بات اصل یہ ہے کہ ان کے والد مولوی عبد الرشید ، منصف کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا تبادلہ جہاں جہاں ہوا وہاں وہاں ان کے ساتھ وہ بھی جاتے رہے۔1955ء میں جموئی ہائی اسکول، جموئی سے میٹرک کیا۔ آئی اے اور بی اے آنرز ایل ایس کا لج مظفر پور سے کیا۔ ایم اے فارسی اور ایم اے اردو پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ سے بالترتیب 1961ء اور 1962ء میں کیا۔ بی ایل 1968ء میں کیا اور پی ایچ ڈی 1969ء میں بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کیا۔ ڈپ ان اڈ ٹیچرس ٹریننگ کالج بھاگلپور سے 1962ء میں کیا۔ان کی ملازمت کا آغازنومبر 1963ء میں تقرر لکچرران اردو اور فارسی کے عہدے پر ایل ایس کالج ، مظفر پور سے ہوا۔1980ء میں ریڈر کے عہدے پر ترقی ملی۔ 1984ءمیں شعبۂ اردو،بہار یو نیورسٹی کے صدر مقرر ہوئے۔ 1985ء کے یکم فروری کو پروفیسر کے عہدے پر ترقی ملی۔وہ 1958ء میں بزم سخن، ایل ایس کالج ، مظفر پور کے سکریٹری منتخب ہوئے یہیں سے آپ نے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ پروفیسر عبدالواسع ایک بہترین انسان، کامیاب استاد،مربی اور مصنف تھے۔ادبی دنیا میں ماہر لسانیات، تنقید نگار،سر سید شناس کی حیثیت سے مشہور تھے۔مظفرپور میں آپ نےچندوارہ کے کرار کی باری میں پہلے کرائے کی مکان میں رہائش پذیر رہے بعدازاں اسی محلے میں آپ نے اپنا ذاتی گھر بھی تعمیر کرایا۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد آپ کا قیام اکثر اپنی بیٹی اور مشہور نقاد پروفیسر وہاب اشرفی کی بہو کے گھر پٹنہ میں رہتا تھا۔ ان کے مشہور تصانیف یہ ہیں بہار میں اردو سوانح نگاری کا آغاز و ارتقاء،فن سوانح نگاری، مفہوم کی سمت اور تصوف اور اردو نثر ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر امام الدین امام نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہار یونیورسٹی، مظفرپور کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر عبد الواسع کئی سالوں سے آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ مرحوم کی کئی کتاب تشنہ طباعت ہے۔ میرے پاس بھی کچھ مواد موجود ہے جو تقریباً تین چار سال پہلے انہوں نے میرے حوالے کیا تھا۔ اگر کوئی شخص ان کےحوالے سے کسی قسم کا ادبی کام کرنا چاہتے ہوں تو مجھ سے رابطہ ضرور کریں۔ان کے انتقال پر پروفیسر فاروق احمد صدیقی، ڈاکٹر ابوذر کمال الدین، ڈاکٹر جلال اصغر فریدی، ڈاکٹر مطیع الرحمٰن عزیز، ڈاکٹر کامران غنی صبا، اسد رضوی، ڈاکٹر منصور معصوم، ریسرچ اسکالر امام الدین امام،ڈاکٹر مستفیض احد عارفی،اسلم رحمانی،تابش قمر، انجنیئر ظفر اعظم ربانی، محمد اشتیاق، محمد شمشاد سنابلی،محفوظ احمد عارف، محمد رفیع، حافظ عبد الرحیم رحمانی، خالد رحمانی اور اعجاز احمد وغیرہم نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کی موت کو اردو دنیا کےلئے عظیم خسارہ قرار دیا۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page