کتاب ’’اندرون کا سفر‘‘ : ایک تنقیدی جائزہ – محمد ناظم
اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ انسان ہمیشہ دیگر افراد یا اشیاکے بارے میں جاننے کا متجسس رہتا ہے۔وہ نقش و نگارِ دَیر کی محبت میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ خود اس کی اپنی شخصیت اس کی نگاہ سے فراموش ہوجاتی ہے۔اس جہانِ رنگ و بو کے سفر میں انسان اتنا الجھ جاتا ہے کہ اسے اپنے اندرون کی سیر کرنے کا خیال تک نہیں آتا۔ ستم بالاے ستم یہ کہ موجودہ عہد میں مادہ پرستی کا نشہ اس قدر حاوی ہوگیا ہے کہ اس نے ہمیں باطن سے یکسرغافل کردیا ہے۔
زیر مطالعہ کتاب ’’ اندرون کا سفر ‘‘ خود آگاہی ،اپنی ذات سے محبت کرنے اور اپنے باطن میں ڈوبنے کے موضوع پر نہایت عمدہ اور نایاب کتاب ہے۔’’ اندرون کا سفر ‘‘ فرانسیسی مصنفہ افضل سعدیہ فروہ کی فرانسیسی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’ Itineraire de Vie Interieure‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر محمد ریحان نے فرانسیسی زبان سے براہ راست ترجمہ کیا ہے۔زبان نہایت سادہ اور سلیس ہے ۔کسی بھی مقام پر ترسیل متاثر نہیں ہوتی۔ مصنفہ سعدیہ فروہ کے مزاج کو فلسفے سے خاص مناسبت ہے۔زیر مطالعہ کتاب فلسفے کے موضوع پر تومبنی نہیں لیکن سعدیہ کے جذبات و احساسات کے اظہار میں فلسفیانہ انداز بیان کی آمیزش ہے۔یہ کتاب در اصل چند بیش بہا تحریروں کا مجموعہ ہے ،جن میں سعدیہ نے بڑی بیباکی سے اپنے لطیف جذبات و احساسات اور تجربات و افکار کو پیش کیا ہے۔ان خیالات کوسعدیہ سے قبل مشرقی اور مغربی مفکرین نے بھی پیش کیا ہے لیکن سعدیہ کا امتیاز یہ ہے کہ ان میں جذبے کی صداقت ،احساس کی شدت اور اظہار کی معصومیت نمایاں ہے۔مصنفہ نے ایک ایک پیراگراف میں اپنے خون دل کی گلابی سے رنگ بھرا ہے۔
یہ کتاب تین عناوین اندرون کا سفر ،روح کے ریزے،اور صدائے باطن پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ اندرون کا سفرتقریباََ ۵۵ صفحات پر محیط ہے۔ کتاب کے آغاز ہی سے سعدیہ خود سے عشق و محبت کرنے پر اصرار کرتی ہیں۔وہ محبت کے اسرارو رموز اور عشق کرنے کے مختلف طریقوں کا ذکر کرتی ہیں ۔حالانکہ عشق کا معاملہ از خود پیچیدہ ہے اور خود سے عشق کرنے کا فلسفہ مزید پیچ و خم سے عبارت ہے۔راقم کے مطالعے کے مطابق بنیادی طور پر عشق و محبت کا تعلق دوسرے شخص سے ہوتا ہے۔ہر فردکی خواہش ہوتی ہے کہ اسے کسی کا پیار ملے ،اسے بھی کوئی شفقت بھری نگاہ سے دیکھے یا اس کا بھری دنیا میں کوئی ہمدرد یا غم گسار ہو۔کائنات کی تخلیق بھی اسی نہج پر ہوئی ہے۔میں اپنی ذات سے محبت و شفقت کے خیال کو تسلیم کرتا ہوں۔دیگر دانشور اور شعرا کے یہاں بھی اس طرح کے خیالات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ راقم یہاں ابن صفی کا شعر پیش کرنے پر اکتفا کرتاہے:
بالآخر تھک ہار کے یارو ہم نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں
درج بالا شعر سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ا پنے وجود سے محبت کا مرحلہ کافی بعد کا ہے۔ابتدا میں تو انسان دل سادہ کی رہنمائی میں خلوص کی روشنی لے کر کسی راحت جاں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ۔ اسی اک شخص کو اپنی زندگی کا محور و مقصود بنالیتا ہے۔امتداد زمانہ کے ساتھ وہ دنیا کے فریب سے تنگ آکر اپنے اندرون میں اپنی بستی آپ بسانے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔وہ اپنی ذات میں گم ہوجاتا ہے اور خود کو مرکز توجہ بنا لیتا ہے۔وہ خوشیاں اور تحائف جو دوسروں پر نچھاور کیے جاتے تھے، وہ خود کو دینا شروع کردیتا ہے۔تقریباََ اسی طرح کا ملتا جلتا خیال کتاب کے پہلے پیراگراف کی سطور سے ظاہر ہوتا ہے۔اقتباس دیکھیے:
’’ایک طویل عرصے سے میں نے کبھی اپنی ذات سے محبت کی اور نہ ہی کبھی خود پر اتنی توجہ دی جس کی میں بلا شبہ مستحق رہی ہوں۔میں ہمیشہ اس غفلت کی شکار رہی کہ محبت اور شفقت صرف دوسرے لوگ ہی مجھ پر نچھاور کر سکتے ہیں۔میں نے کبھی اپنی تعریف و تحسین نہیںکی۔اپنی ذات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے میں نے ہمیشہ خود کو دوسروں کی نظروں سے دیکھا ،کبھی کسی قریبی رشتے دار کی آنکھوں سے اور کبھی بالکل ہی کسی اجنبی شخص کی نگاہوں سے‘‘
زیر بحث کتاب میں انسا نی وجود کی اہمیت پر سعدیہ نے خاصا زور صرف کیا ہے۔خود شناسی اور خود پر توجہ دینے یا خود کو خوب سے خوب تر بنانے پر بالخصوص مصنفہ نے اصرار کیا ہے۔جب انسان اپنی ذات کو پہچان لیتا ہے اور اسے اپنی باطنی صلاحیتوں کا علم ہوجاتا ہے تو وہ انھیں کے مطابق منصوبے بناتاہے اور انھیں پایۂ تکمیل کو پہنچاتا ہے۔اپنے وجود کے عشق میں ڈوب کرجب انسان کو اپنی خودی کا عرفا ن ہوجاتا ہے پھر اس پر اسرارِ شہنشاہی کھلنے لگتے ہیں ۔خودی کی منزل سے گزر کر ہی بندہ خدا تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
سعدیہ نے باطن کی سیر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ خوش رہنے اور چند نفسیاتی نکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔مصنفہ کا خیال ہے کہ خود سے محبت کرنے اور خوش گوار زندگی بسر کرنے کے لیے خوف کی دیوار کو منہدم کرنا از بس ضروری ہے۔اسی طرح اصل قوت ہمارے اندرون میں ہوتی ہے۔اسی لیے ہماری ظاہری ہیئت سے زیادہ پختہ ہمارے ارادے ہوتے ہیں۔باطنی طور پر شاداب رہنے کے لیے اداسی اور مایوسی کی تیز دھوپ سے اپنے وجود کو محفوظ رکھنا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ’’ روح کے ریزے‘‘ اور تیسرا حصہ ’’ صدائے باطن ‘‘ کے عناوین کے تحت سعدیہ نے روحانی مسائل پر نہایت فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ مصنفہ نے اپنی باتوں میں تاثیر پیدا کرنے کے لیے انھیں اقتباسات کی شکل میں پیش کیا ہے۔اقتباسات نہایت ولولہ انگیز اور حوصلہ افزا ہیں ۔انھیں پڑھتے ہی قاری کی فکر میں انقلاب کی موجیں تھپیڑیں مارنے لگتی ہیں۔،خود کی دریافت،خود کو پانے اور خود کو ظاہری اور باطنی طور پر توانا بنانے پر کیسا مختصر اورصداقت سے لبریز قول ہے:
’’ہم اپنی زندگی کا ایک حصہ خود کو تلاش کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور باقی دوسرا حصہ خود کو مضبوط کرنے میں ۔‘‘
اسی طرح درج ذیل اقتباس میں تلخ حقائق کوکتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ۔اقتباس پڑھ کو خود پر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے،ساتھ ہی ساتھ یہ الفاظ زندگی کے دھارے کو الگ رخ پر موڑنے کا کام بھی کرتے ہیں۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’خود کو وہ حوصلہ دیں جو آپ دوسروں کو بڑی آسانی سے دیتے ہیں۔اپنے آپ کو تعریفی کلمات کا وہ تحفہ دیں جو آپ دوسروں کو بن مانگے ہوئے پیش کرتے ہیں۔‘‘
زیر نظر اقتباس میں بھی سعدیہ فروہ نے حوصلہ افزا اور چشم کشا خیال پیش کیا ہے۔ان سطور کو پڑھ کر انسان کی تنگیِ داماں کا احساس ہوتا ہے اور علامہ اقبال کی نظم کا مصرع ’’ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ‘‘ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگتا ہے۔اقتباس دیکھیے:
’’اس کائنات کے دامن میں آپ کو دینے کے لیے اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی آپ توقع کرتے ہیں ۔شرط یہ ہے کہ آپ سچے دل سے اس کے لیے کوشش کریںاور پھر صبر کا مظاہرہ کریں ۔‘‘
زیر بحث کتاب کی اہمیت و معنویت اس لیے بھی ہے کہ اس کے مطالعے کے بعد قاری اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے لیے کسی محسن و غم خوارکی راہ نہیں دیکھے گا بلکہ اپنے اندرون کا سفر کرکے اپنا مداوا آپ کرنے کی جدو جہدکرے گا۔ اپنی بے لوث محبت سے حوصلہ پاکر وہ خوشیوں کی راہوں اور کائنات کو مسخر کرنے کی راہ پر گامزن ہو گا۔اپنے باطن کے خوش گوار موسم سے وہ اپنی زندگی میں دل کش رنگ بھرے گا اور اپنے گردو نواح کو دل پسند خوشبوؤں سے معطر کرے گا۔شاعر اطہر نفیس نے اسی طرف اشارہ کیا ہے:
خود اپنے ہی اندر سے ابھرتا ہے وہ موسم
جو رنگ بچھا دیتا ہے تتلی کے پروں پر
کتاب کی اشاعت ۲۰۲۴میں کریٹو اسٹار پبلی کیشن ،نئی دہلی سے ہوئی ہے۔ آغاز میںاسد الرحمن تیمی کی تقریض اور ڈاکڑ زاہد ندیم احسن کی عمدہ تحریر ’’ فلسفیانہ عرفان کا مترجم : اندرون کا سفر‘‘ شامل ہیں۔اس کے بعد ’’ مترجم کی بات‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد ریحان نے ترجمہ نگاری کے اصول اور اس کی سخت راہوں پر بحث کی ہے۔اپنے موقف کی تائید میں فاضل ترجمہ نگار نے مشرق و مغرب کے مفکرین کے دل چسپ اقوال بھی پیش کیے ہیں ۔مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد ریحان کو علم و ادب اور بالخصوص زبانوں سے جنون کی حد تک عشق ہے۔انھیں اردو زبان کے ساتھ ساتھ دیگر کئی زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔کتاب پڑھتے ہوئے کہیں بھی ترجمے کا گمان نہیں ہوتا ۔ابتدا سے لے کر آخر تک ’’اندرون کا سفر‘‘ قاری کو اپنے سحرمیں جکڑے رکھتا ہے ۔ البتہ کہیں کہیں جملوں کی تکرار جیسے’’مجھے اپنی ذات سے محبت ہے‘‘ یا ’’ مجھے خود سے عشق ہے ‘‘ وغیرہ کی تکرار طبیعت پر گراں گرزتی ہے۔سعدیہ نے کئی نفسیاتی مسائل پرگفتگو کی ہے اسی طرح بات کو طول دے کر ان سے احتراز کیا جاسکتا تھا۔سرورق بھی جاذب نظر ہے اور غور و فکر پر ابھارتا ہے۔کتاب کے آخر میں ڈاکٹر ضیا ٹوانہ ،لل فرانس اور پروفیسر کوثرمظہری کی مفید تحریریں شامل ہیں۔
مجموعی طورپر ’’ اندرون کا سفر ‘‘ اپنے باطن کی سیر کرنے،خود پر توجہ دینے اور خود سے وفا کرنے کا بیش بہا تحفہ ہے۔خود کو جاننے ،خود کی تلاش ،اور اپنی منفرد شخصیت کو پالینے کا بہترین ذریعہ ہے۔میں امید کرتاہوں کہ یہ بیش بہا کتاب ان گنت لوگوں کو اپنی منزلوں سے ہمکنار کرے گی اور اردو ادب کے دامن کو وسعت بخشے گی۔ اس کارِ عظیم کے لیے راقم مصنفہ افضل سعدیہ فروہ اور مترجم ڈاکٹر محمد ریحان کو مبارک باد پیش کرتا ہے۔آخر میں اپنی گفتگو میں حفیظ بنارسی کے شعر پر مکمل کرتا ہوں:
مگر پہلے کوئی خود کو تو پالے
ترا ملنا بہت مشکل نہیں ہے
Mohammad Nazim
Research Scholar
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia,New Delhi
Mob:7037668786
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page