یہ بات محتاج دلیل نہیں کہ اردوتنقید کی اساس مشرقی شعریات پراستوار ہے۔ لفظ ومعنی کی ثنویت ،ان کے حسن و قبح کے مسائل ،روزمرہ اورمحاوروں کے درست استعمال ،جملوں کے دروبست، ایک خیال کومتعدد صیغہ اظہارمیں پیش کرنے کے طریقے، اظہارمیں لسانی خوبیوں اورنادرہ کاری کااہتمام، کلام کوجمالیاتی مرقع بنانے کی کوشش یہ وہ مباحث ہیں جن سے مشرقی شعریات عبارت ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جواجمالی اورتاثراتی اندازمیں شعراے اردوکے تذکروں میں بروے کارلائے گئے ۔ تذکروں میں درج اجمالی اورتاثراتی رائے دیکھ کر اردوکے متعدد ناقدین کومشرقی شعریات کی تنگ دامنی کایقین ہوگیا۔ مشرقی شعریات کے متعلق یہ غلط فہمی بھی عام ہوگئی کہ اس میں شعروادب کے متعلق عالمی ادب کے بدلتے نظریات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت مفقود ہے۔ ان تصورات کومغربی شعریات کے تناظرمیں دیکھنے کی کوئی کوشش ناممکن ہے۔ اس ضمن میں حالی کی کاوشوں کونہایت بصیرت افروز، معنی خیز اوردوررس اثرات کاحامل قراردیا جاسکتا ہے جوانھوںنے مقدمہ شعروشاعری لکھ کرانجام دی۔ حالی کو اس سلسلے میں اولیت کایہ شرف حاصل ہے کہ انھوںنے مشرقی شعریات کوتھیورائز کیا۔ ادبی تنقیدکے مشرقی ومغربی اصولوں کے درمیان مطابقت پیداکرنے کی سعی کی۔ حالی کے اس عمل سے مشرقی شعریات میں مخفی جواہر کی دریافت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی شعریات کی تشکیل نو کی راہیں بھی استوار ہوئیں۔ حالی نے یوں تو افادیت کے نقطۂ نظرسے شعروادب کاجائزہ لیا۔ اپنے اصلاحی منشور کو فلسفیانہ اساس فراہم کرنے کے لیے قوت متخیلہ کوقوت ممیزہ کاپابند بنا دیا۔ اس ذیل میں حالی نے جس طرح اشعار کے تجزیے کیے اس سے مشرقی شعریات کو لاشعوری طورپر مغرب میں وجود میں آنے والی نئی تنقید کے تناظرمیں دیکھنے کاموقع فراہم ہوا۔ بحث وتمحیص کے نئے باب وا ہوگئے۔ اصناف کا جس طرح مطالعہ کیااس سے مغرب کی صنفیاتی تنقید کے پس منظرمیں مشرقی شعریات پرغورکرنے کاآغاز ہوا۔ غرض کہ حالی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوںنے مشرقی شعریات کی ان صفات کواجاگرکیا جوانھیں بدلتے ادبی اقدار ومسائل سے ہم آمیز کرتا ہے۔ مشرقی شعریات کو مغربی شعریات سے ہم آمیز کرنے، مشرقی شعریات میں نئی جہات پیداکرنے والے ایک اہم نقاد کانام شبلی ہے۔ انھوںنے عناصرشعرپرگفتگوکرتے ہوئے ان مباحث کوموضوع بنایاجن سے مشرقی ومغربی شعریات کے مابین اشتراک کاپہلو پیداہوتا ہے۔ شبلی نے شاعری کی خصوصیات کے تحت محاکات اورتخیل کا نظریہ پیش کیا۔ ان دونوں تصورات کی اساس مغربی تصورات شعرہیں۔ شبلی نے مغربی ومشرقی شعریات کے مشترک خصائص کی بنیادپر مشرقی شعریات کے حدود کووسیع کیا۔ شبلی کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوںنے اصناف کی تشکیل کے سماجی وتہذیبی مضمرات ومحرکات کونشان زدکیا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جومشرقی شعریات کودانش عصر سے مکالمہ قائم کرنے کااہل بناتے ہیں۔ امدادامام اثر نے مشرقی شعریات کی توسیع میں اہم کارنامہ انجام دیا۔ انھوںنے مشرقی شعریات اورمغربی شعریات کے مابین تطبیق کی کوشش کی۔ شاعری کو آبجیکٹو اور سبجیکٹو بنیادوں پرتقسیم کرنے کا رویہ مغرب سے مستفاد ہے۔ مشرقی شعریات کونئے علمی منطقوں کے تناظرمیں دیکھنے اوروسیع کرنے والے ایک نقاد کانام محمدحسن عسکری ہے۔ محمدحسن عسکری نے مغربی تنقیدکی بالادستی کے عہدمیں مشرقی شعریات کوتہذیبی حوالوں سے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں انھوںنے عبدالواحدیحیٰ کے تصورات سے استفادہ کیا۔ مشرقی شعریات کے تھیورائز یشن کاکام شمس الرحمن فاروقی نے انجام دیا ۔انھوںنے مشرقی شعریات اور شیکاگو مکتب نقد اورنئی تنقید کے ادبی تصورات کے مابین امتزاج کی راہ نکالی۔ مشرقی شعریات کونئی تنقید کے اصولوں کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کی۔ شمس الرحمن فاروقی کاایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوںنے عربی وفارسی تصورات ادب کوسنسکرت شعریات سے ہم آمیز کیا۔ اردوتنقید کے ذیل میں سنسکرت شعریات کے حوالے اس سے قبل بھی دیکھنے کوملتے ہیںلیکن وہ کیف وکم کے اعتبارسے بہت مختصرہیں فاروقی صاحب نے نہایت تفصیل اور گہرائی کے ساتھ عربی وفارسی تصورات نقدکے پہلوبہ پہلو سنسکرت شعریات کے مماثل تصورات کاذکرکیا ہے مشرقی ومغربی شعریات کے امتزاج اورتھیورائزیشن کے نمونے ابوالکلام قاسمی، قاضی افضال حسین اور عقیل احمدصدیقی کے یہاں بھی دیکھنے کوملتے ہیں۔
مشرقی شعریات کونئی فکر یات کے تناظرمیں دیکھنے والے ایک نقاد کانام گوپی چندنارنگ ہے۔ گوپی چندنارنگ کا نام اردوتنقید کی تاریخ میں ایک ایسے نقاد کے طورپر محفوظ ہوچکا ہے جنھوںنے عالمی سطح پر مابعدجدید صورت حال کے زیراثر وجود میں آنے والے ادبی نظریات کومرتب ومنضبط اندازمیں پیش کیا۔ ساختیات ،پس ساختیات ،نوآبادیات، پس نوآبادیات ، تانیثیت ،شرحیات ان سب پراردو میں مختلف مصنفین نے بقدر ذوق وظرف اپنے اپنے مطالعات پیش کیے۔ یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ یہ نظریات اردوادب کی تفہیم وتعبیر کے نئے آفاق روشن کریںگے۔ گوپی چند نارنگ کااختصاص یہ ہے کہ انھوں نے ان تصورات کو اردوکی تنقیدی روایت سے مربوط کرنے کی سعی کی۔ امرواقعہ یہ ہے کہ کسی بھی نئے تصورادب کو اردومیں متعارف کرنے اور اسے استناد ووقار عطاکرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اسے متعلقہ روایت سے وابستہ کرکے دیکھاجائے۔جملہ معترضہ کے طورپریہ عرض کیاجاتاہے کہ نارنگ صاحب نے مشرقی تنقید کے بنیادی حوالوں کے بجاے ثانوی حوالوں سے استفادہ کیا ہے۔
گوپی چند نارنگ کی تنقیدی بصیرت پراسے محمول کیاجاسکتا ہے کہ انھوں نے ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات کے مابین مکالمہ کی راہ استوار کی۔ ان دونوں مکاتب نقد کے مابین نقطہ اشتراک واختلاف کی جستجو کی۔ ساختیات پس ساختیات کی شعریات کے نہج پر مشرقی شعریات کی ضابطہ بندی کی کوشش کی۔
نارنگ صاحب رقم طراز ہیں:
’’تیسری کتاب مشرقی شعریات اورساختیاتی فکرکے بارے میں ہے۔ اس میں مشرقی شعریات کی صدیوں کی روایت کااس لحاظ سے ازسرنوجائزہ لیاگیا ہے کہ دومختلف النوع روایتوں میں کیا ملتے جلتے نکات یامقامات اشتراک ہیں جن کی بنا پر مکالمہ کیاجاسکے اورافہام وتفہیم میں سہولت ہو۔ اس کے دوحصے ہیں پہلے حصے میں سنسکرت روایت سے بحث کی گئی ہے اور دوسرے میں عربی فارسی روایت سے جوبراہ راست اردوروایت کا حصہ ہے۔ اس مبحث کی نوعیت ایک آزاد مکالمے کی ہے۔ یعنی غوروفکر کی کھلی دعوت کی تاکہ یہ دیکھااوردکھایا جاسکے کہ بنیادی فرق کے باوجود مقامات اتصال اورمماثلتیں کہاں کہاں ہیں۔
اس مطالعے سے یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ سوسیر سنسکرت میں استعداد علمی رکھتاتھا اورقرینہ غالب ہے کہ اس نے سنسکرت فلسفہ لسان اوربودھی فکرسے استفادہ کیا ہو۔ سوسیر اوردریدا کی فکراورنیایے اوربودھی نظریہ اپوہ اورشونیہ میں حیرت انگیز مماثلت اورمطابقت ملتی ہے۔ اس مطالعہ سے یہ توقع بھی پیداہوتی ہے کہ مشرقی شعریات کے وہ تصورات ونکات جو اپنی سرزمین میں بھولی بسری یادبن گئے۔ ممکن ہے کہ نئی تھیوری سے فکری مشابہتوں کے باعث ازسرنو دلچسپی کے مرکز بن جائیں اورنئی ادبی توقعات کے افق پر نئی معنویت کے حامل نظرآنے لگیں۔ یہی کیفیت عربی فارسی روایت میں بھی ملتی ہے۔ کتنے نکات ایسے ہیں جوجدید فلسفہ لسان یاساختیات کے پیش رو معلوم ہوتے ہیں۔ بھلے ہی ان کی منطقی تحلیل اس درجہ نہ کی گئی ہو یہ حقیقت ہے کہ ہم ان سے غافل رہے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ عبدالقاہرجرجانی یاابن حزم تک بھی ہم نئے فلسفیوں کی وساطت سے پہنچے ہیں۔ ورنہ مشرقی کتابیں توبالعموم ان کے ذکرسے خالی ہیں۔ بہرحال روایت کوچوں کہ ہم نئی معنویت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ہمیں از سرنو پرانی بصیرتوں کاسراغ مل رہا ہے۔ ان ابواب میں گویاحقائق کی تشکیل نو کی کوشش بھی کی گئی ہے اورروایت کی بازیافت کی بھی ۔ الگ الگ نوعیت کی روایتوں میں یہ دوطرفہ مکالمہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نئی آگہی کی تشکیل میں تواس سے مددملے گی ہی لیکن یہ جدلیاتی عمل ہے۔ نئی تھیوری کے ان عناصرکی افہام وتفہیم میں بھی اس سے مددملے گی جومشکل ہیں یااجنبی ہیں۔ ‘‘۱؎
اقتباس بالاسے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اشتراک واختلاف کے نکات کی نشان دہی کے پس پردہ نوآبادیاتی تصور کی تردید کارفرما ہے جومشرق کوغیرعلمی ثابت کرنے پرمصرہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوںنے اپنی ادبی وتنقیدی روایت کا مطالعہ کتنی گہرائی اورغیرتقلیدی ذہن سے کیا ہے۔ ان کاتصورروایت جامدنہیں بلکہ نامیاتی ہے۔ نارنگ صاحب کاطریقہ کار بین العلومی ہے۔ وہ نتائج کے استخراج میں عجلت سے کام لیتے ہیں نہ ہی چندمشابہ عناصرکے نظرآجانے سے فوراً کوئی دعویٰ قائم کرتے ہیں بلکہ وہ اپنی ہرتھیسس کووسیع وعریض تناظرمیں پرکھتے ہیں۔ متحدومتضاد پہلوؤں پرشرح وبسط کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ ان کااسلوب اقداری ہونے کے بجائے Descriptiveہوتا ہے۔
نارنگ صاحب نے موضوع بحث فکریات کامطالعہ سنسکرت شعریات کے تناظرمیں بھی کیا ہے لیکن وہ مباحث اس مضمون کے دائرہ سے خارج ہیں۔
مشرقی شعریات مرتب کرنے والے علمانے زبان کی تخلیقی جہت پرنہایت تفصیل اورارتکاز کے ساتھ لکھا ہے۔ علم بیان وبدیع پرشرح وبسط کے ساتھ کتابیں تصنیف کی گئی ہیں لیکن فلسفہ لسان کو مرتب کرنے کی کوشش نہیں ملتی ہے حالاں کہ اس ضمن میں خاصے مواد موجود ہیں۔ اسے گوپی چندنارنگ کاامتیاز کہاجاسکتا ہے کہ انھوںنے مشرقی شعریات میں تصورلسان کے نقوش کی جانب اشارہ کیا۔ نارنگ صاحب کو اپنی روایت میں ساختیاتی شعریات کی جستجو نے اس جانب متوجہ کیا۔ یہ ایک تاریخی ضرورت تھی جومشرقی شعریات کے ایک نئے پہلوکی تدوین ،تشکیل اوردریافت کے لیے جس نے انھیں مہمیز کیا اس ضرورت کی نشان دہی کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:
’’اس تناظرمیں یہ امرلائق توجہ ہے کہ قدیم علم اللغۃ وعلم النحووعلم البیان وعلم البدیع سے لے کر جدید فلسفہ لسان تک انسانی علم ودانش کاصدیوں کاسفراورسعی وجستجوکیا اس میں نہیں ہے کہ زبانوں کے اختلاف کے پس پردہ حقیقت کیا ہے، یعنی صوتیاتی ولفظیاتی ومعنیاتی اختلاف وتنوع کی اصل کیاہے۔ یالسان کی ماہیت ونوعیت کیا ہے یالسان کاوہ رمز کیا ہے جسے اس کی کنہ کہا جاسکے یعنی جس کے ذریعہ عالم انسانی میں علم وعقل یافہم وادراک قائم ہوتے ہیں یاابلاغ وترسیل ممکن ہے یاشعروادب کی دنیامیں سخن گوئی اورسخن فہمی ممکن ہے یاصدیوں کی روایت میں نسل بعد نسل معنی خیزی ممکن ہے۔ ‘‘۲؎
اس تدبروتفکر کے بعدنارنگ صاحب نے یہ نتیجہ اخذکیاہے کہ:
’’اس تناظرمیں کیایہ احساس نہیں ہوتا کہ روایت خواہ کوئی ہو، لسان کے بارے میں غوروفکر کے بنیادی سرچشموں کے سوتے کہیں نہ کہیں جاکرایک ہوجاتے ہیں۔ ‘‘۳؎
نارنگ صاحب نے عربی وفارسی روایت نقدکے حوالے سے لفظ ومعنی کے درمیان ثنویت اوراتحاد پر تفصیلی بحث کے بعد اس کاموازنہ ساختیاتی تصورلسان سے کیا۔ نتیجہ میں درج ذیل نکات بیان کرتے ہیں:
’’لفظ ومعنی کی یہ ثنویت نہ صرف سامی وایرانی بلکہ بعض دوسری عالمی روایتوں کابھی حصہ رہی ہے اورسوسیری ساختیات کاپہلا بنیادی گریز اسی روایت سے ہے کہ لفظ ومعنی ہزارالگ الگ معلوم ہوںلسان کے تفاعل کے اعتبارسے الگ الگ نہیں ہیں۔بلکہ ان میں وحدت ہے جس کوSign کہاگیا ہے ۔لسان کا تفاعل Sign کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کی دو طرفیں ہیں کاغذ کی دوطرفوں کے مماثل ۔ Signifier اور Signifiedیعنی لفظ کی صوتی یاتحریری شکل اوراس سے پیدا ہونے والے معانی کاذہنی اپج ۔ ان دونوں میں ایسی وحدت ہے جیسے کاغذ کی ایک طرف کوکاٹیں تودوسری طرف بھی کٹ جاتی ہے۔ زبان میں لفظ یامعنی میں کوئی بھی قائم بالذات نہیں ہے بلکہ معنی کاادراکSign کے تفاعل سے تفریقی رشتوں کی بدولت ہوتا ہے اور SignifierاورSignifiedبطوروحدت عمل آراہوتے ہیں۔ ‘‘۴؎
نارنگ صاحب نے لاکاں اوردوسرے ساختیاتی ماہرین کے اس تصورکی بھی وضاحت کی ہے جس میں لفظ کی برتری تسلیم کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’لفظ ومعنی کایہ نیاتصورجدلیاتی اورپرت درپرت ہے اوراتناسادہ اور ڈھلا ڈھلایا نہیں جیساکہ قدیم روایت میں ہے۔ بے شک لفظ کے مقتدرہونے سے ہیئت پسندی کی کس حدتک توثیق ہوتی ہے اور پس ساختیات ، مظہریت اورردتشکیل میں متن کاجوتصور ہے اورمتنیت کوجومرکز یت حاصل ہے اس سے اس کاکچھ نہ کچھ رشتہ جڑجاتا ہے لیکن معنی کاپس ساختیاتی تصور خاصاپیچیدہ اورتہہ درتہہ ہے نیز معنی کے بے مرکز ہونے یامتن کی کثیرالمعنویت نے جونئے مسائل پیداکیے ہیں وہ قدیم روایت کی سادہ ثنویت سے ہٹ کرہیں۔‘‘۵؎
ساختیاتی شعریات کی روسے زبان کی بنیاد مجاز پر استوار ہے۔ مشرقی شعریات میں تشبیہ کے علاوہ علم بیان کے باقی ارکان کی اساس مجاز پرہے۔ نارنگ صاحب نے اسی کوبنیاد بناکر مشرقی شعریات کے بیان وبدیع کاتفصیلی جائزہ لیا ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
’’ساختیاتی فکرنے زبان کے مجاز ہونے کوزبان وبیان کے تمام ترتفاعل کے سیاق وسباق میں منضبط ضرورکیا ہے لیکن زبان کے مجاز ہونے کااحساس مشرقی روایت میں تہہ نشیں طورپر ہی سہی مل ضرورجاتا ہے۔ عبدالقاہرجرجانی کے بعض خیالات کوسوسیرسے مماثل اسی لیے کہاجاتا ہے کہ وہ لفظ ومعنی کے رشتے کوفطری نہیں مانتابلکہ اصرارکرتا ہے کہ معانی لسانی ساخت سے طے ہوتے ہیں اوریہ عمل معاشرے میں ہوتا ہے ۔‘‘۶؎
نارنگ صاحب اس سلسلہ میں مزید روشنی ڈالتے ہوئے تحریرکرتے ہیں:
’’زبان قائم ہے مجازیت پر، معنی کی اس مجاز یت پر بھی جومعاشرے میں فرض کرلی گئی ہے۔ Arbitrariness یعنی معنی لغوی پراوراس مجازیت پر جوفرض کرلیے گئے معنی سے مزید معنی پیداکرتی ہے خواہ وہ معنی ازروے عقل وعادت ممکن الوقوع ہوں یامحال ہوں، لیکن شعری طورپر قائم ہوتے ہوں۔ (معنی غیرحقیقی /غیرلغوی/مجازی) اس میں جملہ وسائل علم بیان، وعلم بدیع بشمول مبالغہ وتبلیغ واغراق وغلو بروے کارآتے ہیں۔ گویازبان بنیادی طورپر مجاز (کذب) ہے یعنی من مانی (Arbitrary)اورخودکار ہے۔ اس خودکار لسانی اورمافوق اللسانی نظام کے اندراوراس کی روسے شعری بیان کی نئی نئی شکلیں بنانا اوران کونئے نئے معنی دینا فن کارکامنصب ہے۔ ‘‘۷؎
ساختیاتی شعریات کی ایک اہم بحث معنی کاالتوا میں ہونا ہے۔ نارنگ صاحب نے مشرقی شعریات میں اس تصور کو نشان زد کرنے کے لیے نص قرآنی کے اس طرز مطالعہ کوموضوع بنایا ہے جس میں ظاہری معنی وباطنی معنی کی بحث ملتی ہے ۔ کلام ربانی سے اخذ معنی کے تحت متکلمین ومنطقیین میں یہ بحث خاصی مقبول رہی ہے کہ نص قرآنی سے فقط ظاہری معنی مراد لیے جائیں یاباطنی معنی۔ اس بحث میں نارنگ صاحب نے خیال کے سلسلے میں ابن رشد کے حوالے سے یہ ذکرکیاہے کہ ’خیال کو بالذات جوہرماننے کی روایت مشرقی فکرکاخاص حصہ ہے۔ اخوان الصفاکے اس موقف سے بھی استدلال کیاگیا ہے کہ خیال بے لفظ نہیں ہوتا، نارنگ صاحب اس پریوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’یہ وہی بات ہے کہ لفظ خیال کارابطہ یاذریعہ نہیں، خیال کی شرط ہے، یعنی بغیر لفظ خیال قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ اس میں خرابی یہ ہے کہ لفظ کاقائم برتناقض ہونامعلوم ہے۔ ایساتسلیم کرلیاجائے تو معنی کاعدم استحکام لازم آتا ہے۔‘‘۸؎
غزالی کے حوالے سے نارنگ صاحب مزید رقم طراز ہیں’’غزالی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہی بات جس کومتکلمین معقولات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے غزالی اس کی بنیاد باطنی واردات پررکھتا ہے۔‘‘۹؎
ایڈورڈسعیدکا اس ضمن میں ایک طویل اقتباس منقول ہے ۔اس کے حوالے سے یہ نکتہ برآمد کیاگیا ہے کہ ’’ظاہر یہ و باطنیہ کی ان بحثوں کو دورحاضرکی ساختیاتی اورلسانی بحثوں کے مماثل قراردیا ہے۔‘‘۱۰؎
اس بحث کے اخیرمیں نارنگ صاحب نے اس اندیشے کابھی اظہارکیا ہے کہ ان مباحث سے مذہبی متون کی ردتشکیل کاسلسلہ نہ شروع ہوجائے۔ اس خدشے کے سدباب کے لیے انھوںنے ابن رشد کاایک اقتباس بھی نقل کیا ہے ملاحظہ کیجیے:
’’مذہب ایک قانون ہے علم نہیں ہے۔ چاہیے کہ مذہب کے سامنے حسن عقیدت سے سرجھکادے اس کی منطقی تحلیل غلط ہے۔ ۱۱؎
ساختیاتی تصورلسان کے مطابق زبان مبنی برافتراق ہے۔ نارنگ صاحب نے اس تصورلسان کی روشنی میں اردومیں مروج مترادف الفاظ کے تصورپر یہ سوال قائم کیا کہ زبان کی اساس تفریق پرقائم ہے۔’’تودولفظ ہم معنی کیسے ہیں اوراگرالفاظ ہم معانی نہیں ہوسکتے تو اشعارکیسے متحدالمضامین ہوسکتے ہیں۔‘‘۱۲؎
اس سوال کے تناظرمیں علم بیان پرتنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے جس کی روسے ایک خیال کومختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ نارنگ صاحب اس تعریف کونامناسب قراردیتے ہیں ۔ اپنے موقف کی تائید کے لیے میرتقی میرکے فارسی اوراردوکے ہم مضمون اشعار پیش کرتے ہیںجوہم معنی ہونے کے باوجود اثرآفرینی کے اعتبارسے مختلف کیفیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ جن زبانوں میں ایک ہی شے کے لیے متعدد الفاظ موجود ہیں وہ سب مترادف نہیں ہیں بلکہ اس کی ارتقائی صورتوں یامختلف کیفیات کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ عابدعلی عابدکے حوالے سے نارنگ صاحب لکھتے ہیں:
’’عابدعلی عابدنے شبلی کی اس راے سے اختلاف کیا ہے کہ دامن دامان سے زیادہ فصیح ہے (شعرالعجم ج/۴شعر کی نوعیت پر بحث)ان کہنا ہے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اس مہلک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ لفظ دوسرے لفظوں کے ساتھ ملنے کے بغیر اورایک بامعنی فقرہ مرتب کرنے کے بغیر فصیح اور غیرفصیح ہوتے ہیں۔‘‘۱۳؎
اس بحث کے اختتام پرنارنگ صاحب یہ کہتے ہیں:’’الغرض جب لفظ ہم معنی نہیں ہوسکتے تو اشعار کامتحد المضمون ہونا محض ایک متھ ہے۔ دوشعر متحدالمتن نہیں ہوسکتے۔ جہاں متن بدلے گا معانی بھی لازما بدل جائیں گے۔۱۴؎
نارنگ صاحب نے مشرقی شعریات میں قاری اساس تنقید کے نقوش کی جستجوکی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ سوال قائم کیاہے کہ کیا فصاحت وبلاغت بے تفاعل قاری ہے۔ قاری پرمتن کے جمالیاتی اثرات مرتب ہونے کوقاری اساس تنقید سے مربوط کیاہے۔ ان کی دلیل ہے کہ متن کاجمالیاتی اثر قرات کے عمل سے پیداہوتا ہے جوقاری کاتفاعل ہے۔ متن میں مضمر جمالیاتی جوہرکو منصہ شہود پرلانے کے عمل کوقرات کا مرہون قراردینے کے لیے دتاتریہ کیفی کی عبارت سے استدلال کیاگیا ہے۔ اس کے حوالے سے نارنگ صاحب لکھتے ہیں:
’’کلمے کی فصاحت توکیاکلمے کے معنی بھی پڑھنے والے کے لہجے پر منحصر ہوتے ہیں۔ انھوںنے ایک جملہ لیا ہے ’میں کل دہلی جاوں گا‘اوراس کے چھ مختلف معنی قائم کیے ہیں۔ بہرحال کیفی نے فصاحت کی پرانی تعریفات پراعتراض کرکے انھیں مسترد کردیا اورایک نئی تعریف پیش کی یعنی فصاحت کلام کاوہ وصف ہے جوقاری اساس ہے ۔‘‘۱۵؎
دتاتریہ کیفی نے فصاحت کلام کی جوتعریف کی ہے اس کے بارے میں راقم عرض کرتا ہے کہ اس تعریف کے مطابق معنی کاسرچشمہ مصنف ہی قرار پاتا ہے جوساختیاتی تصورکے برعکس ہے۔ ساختیاتی شعریات کی ایک اہم بحث لانگ اورپیرول ہے اس تصور کے بنیاد گزار سوسیورہیں۔ لانگ اورپیرول کی وضاحت کے لیے نارنگ صاحب کااقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’بقول سوسیور زبان کاجامع تجریدی نظام جوہراہل زبان کے ذہن وشعورکاحصہ ہے اورجس کی روسے زبان کاکوئی بھی جملہ یاکلمہ بولا جاتا ہے یاکلام کی کوئی بھی شکل ممکن ہوتی ہے لانگ ہے۔ لانگ گویازبان کے قواعد وضوابط کاتجریدی نظام ہے جوکلام کی ہرہرممکنہ شکل کوحاوی ہے۔ زبان میں کوئی چیز اس سے باہر نہیں یہ گویاکلی لسانی شعور ہے جس کی روسے ہم زبان بولتے ہیں ۔چاہیں تولانگ کوبالقوۃ لسان بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کے مقابلے میں انفرادی طورپر بولے جانے والاکوئی بھی واقعہ Paroleہے دوسرے لفظوں میں زبان کاجامع نظام جوزبان کی کسی بھی فی الواقعہ (Actualمثال سے پہلے موجود ہے) لانگ ہے اوراس کی روسے کیاجانے والاکوئی بھی کلام Paroleہے جولانگ کے جامع نظام کے بغیروجودمیں نہیں آسکتا۔‘‘۱۶؎
نارنگ صاحب نے مشرقی شعریات میںلانگ اورپیرول کے نشانات تصورروایت میں تلاش کرنے کی سعی کی ۔ابن رشیق کے اس قول کو بنیاد بنایاجس میں شعرکوبیت سے مثال دی گئی ہے فرش کو شاعرکی طبیعت اورعرش حفظ وروایت کوقراردیاگیا ہے ۔ ان کے مطابق ’’ان سے جوچیز ذہن وشعورمیں بمنزلہ جوہرکے جاگزیں ہوجائے گی اورجس کی بدولت شعرگوئی ممکن ہوگی وہ تجریدی ذہنی نظام ہی توہے جوادبی روایت اورشعریات میں جاری وساری وتہہ نشیں ہے۔‘‘۱۷؎
ابن رشیق کے قول کولانگ اورپیرول سے تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ابن رشیق کی تعریف میں فرش اورمکین کی نسبت سے جو ٹھوس واقعیت مترشح ہوتی ہے وہ پارول پرپوری طرح صادق آتی ہے۔۱۸؎ مزیدوضاحت کرتے ہوئے آگے رقمطراز ہیں ’’البتہ لانگ میں کلی نشانیاتی نظام کاجوتصورہے وہ حددرجہ تجریدی اورذہنی ہے۔ گولانگ میں جس چیز پراصرار ہے اور جونمایاں اورظاہر ہے مشرقی روایت میں وہ مضمر اورتہہ تشیں ہے۔ نیز شاعرکی طبیعت اورحفظ وروایت میں جوجدلیاتی رشتہ ہے وہ بھی ظاہرنہیں ہے بلکہ مضمر ہے ۔۱۹؎
نارنگ صاحب نے عمل تخلیق میں مصنف کی اہمیت سے انکار پرمبنی اس ساختیاتی فکرکاذکر کیا ہے جس میں یہ کہاگیا ہے کہ زبان لکھتی ہے نہ کہ مصنف۔ ہائیڈیگر،ملارمے اوررولاں بارتھ کے اس خیال کو مشرق میں موجود تصورروایت سے موازنہ کیاگیا ہے۔ساختیاتی فکر Writing writes not authorمیں Writingسے نارنگ صاحب نے ’’تحریر محض نہیں بلکہ صدیوں کی ادبی روایت یا جامع ادبی روایت بشمول کلی شعری نظام یعنی شعریات ومافوق الشعریات ‘‘مرادلیا ہے۔
لانگ ،پیرول اورمشرق کے تصورروایت میں مشترک عناصرکی نشان دہی کے بعدان دونوں کے درمیان ایک خط امتیاز بھی کھینچا گیا ہے۔نارنگ صاحب لکھتے ہیں:’’سوسیر کالانگ کاتصور حاضروقتی ہے جب کہ ادبی لانگ یاادبی روایت کا تصور تاریخیت کاحامل ہے۔‘‘۲۰؎
مشرقی تصورروایت کی ساختیاتی تعبیر ایک اہم علمی پیش رفت ہے۔ تصورروایت کاآزادانہ اوردانش عصرسے مربوط کرنے کی کامیاب کاوش ہے۔ نارنگ صاحب نے ساختیات پس ساختیات اورمشرقی شعریات کے جن مباحث کے مابین اشتراک واختلاف کاذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی متعدد تصورات ایسے ہیں جواس تناظرمیں قابل تمحیص ہوسکتے ہیں۔
پس ساختیات کی ایک اہم بحث شرحیات ہے جسے نارنگ صاحب نے علم تفہیم کی اصطلاح کے تحت ذکرکیا ہے۔ نارنگ صاحب مشرقی شعریات میں زیرنظر تصورکے نقوش سے واقف ہیں وہ علم تفہیم کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’مشرقی زبانوں بالخصوص سنسکرت اورعربی میں تفہیمیت کی روایت خاصی قدیم ہے۔ سنسکرت میں ویدوں کے متن کے تجزیے کی روایت تفہیمیت سے قدیم ہے۔ اسی طرح اسلامی روایت میں تفسیر، حدیث اورفقہ کی بہت سی بحثیں اسی نوعیت کی ہیں۔ ۲۱؎
نارنگ صاحب اگرچاہتے تو مشرق میں موجود شرحیات اور ساختیات شعریات کے تحت Hermenuticsکی بحث کے مابین موازنہ کرسکتے تھے۔ مشرقی شعریات میں Hermenuticsکی بحث اصول تفسیر ،اصول حدیث اوراصول فقہ کے عنوانات کے ذیل میں ملتی ہیں۔ قرآنی آیتوں کے مفاہیم کے سمجھنے کے لیے سیاق وسباق کے مسائل ،مجمل مفصل اورناسخ ومنسوخ کے علوم ضروری قراردیے گئے ہیں ۔ ان کے علاوہ ایسے الفاظ جن کے متعددمعنی بیان کیے گئے ہیں۔ سیاق وسباق کی روشنی میں برمحل معنی کے تعین کاعلم، بیان وبدیع اورکلام العرب کاعلم لازمی تسلیم کیے گئے ہیں۔ ان علوم پرقدرت حاصل ہوجائے تونص قرآنی کی تفاسیر کے درمیان اسباب اختلاف سے کماحقہ واقفیت ممکن ہے۔ ان علوم میں تبحرحاصل کرلینے سے ایک ایساقاری وجود میں آجاتا ہے جوقرآنی آیتوں سے اپنے عہد کے مسائل کوحل کرلینے ،اپنے عہدکے تناظرمیں ان آیتوں کی معنویت تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ اصول تفسیر، اصول حدیث اوراصول فقہ یوں تومذہبی متون سے متعلق ہیں تاہم اگران کے اصول وقواعد کوادبی متون کی تفہیم وتعبیر کے لیے بروے کارلائے جائیں توتنقید کاایک نیاباب واہوسکتا ہے۔
ساختیاتی شعریات کاتصور لسان تفریقی نظام پر قائم ہے ۔اس تصور کی روسے دال اور مدلول کے مابین کوئی خلقی رشتہ نہیں ہے بلکہ یہ رشتہ من مانا ہے۔ مشرقی شعریات میں ایک مقولہ رائج ہے ’’تعرف الأشیائ بأضدادھا ‘‘اس مقولہ میں ساختیاتی تصورلسان کی مماثلت تلاش کی جاسکتی ہے ۔اشیاکی حقیقت اس کے اضداد سے پہچانی جاتی ہے۔ اس مقولہ کے مفہوم کوا گر وسعت دی جائے اورحقیقت اشیاکو معنی سے مربوط کیاجائے تو ساختیاتی تصورلسان کے نقوش مشرقی شعریات میں واضح طورپر نشان زدکیے جاسکتے ہیں۔
ساختیاتی شعریات کی اساس منشاے مصنف کے انکارپرمبنی ہے۔ نارنگ صاحب نے تفصیل سے ہائیڈیگر کے قول Language speaks not manکاذکرکیا ہے ۔رولاں بارتھ کے معرکہ آرامضمون The death of the authorکاحوالہ دیا جسے وہ ملارمے کے قول Writing writes not authorسے مستفاد بتاتے ہیں۔ منشاے مصنف کی نفی پر مذکورہ مغربی مصنفین کے اقوال کونارنگ صاحب نے لانگ اورپیرول کے مباحث کے تحت بیان کیا۔ یہاں ساختیاتی شعریات کی منشاے مصنف سے انکار کی بحث کو پیش کیاجاسکتاتھا مشرقی شعریات میں اس کے مماثل متعدد اقوال دستیاب ہیں۔ زیرنظرکتاب ہی کے سرنامے پر انظرالی ماقال ولاتنظر الی من قال کامقولہ درج ہے جس سے منشاے مصنف سے انکار کا مفہوم صراحت کے ساتھ متبادر ہوتاہے۔ امرؤالقیس کی شاعری پراللہ کے رسول ؐ کے قول ھوأشعر الشعرا ولکن قائدھم الی النار (وہ شاعروں کاشاعر ہے لیکن اپنے فحش مضامین اوربدکرداری کی وجہ سے جہنم کی طرف رہبری کرنے والا ہے)سے استدلال کیاجاسکتاتھا۔ تفسیر سرسیدپر جب محسن الملک کی جانب سے یہ اعتراض کیاگیا کہ اس میں وہ معنی بیان کیے گئے ہیں جومنشاے الٰہی کے خلاف ہیں۔محسن الملک نے سرسیدکی تفسیرکے بارے میںکہاکہ میںاسے’’تفسیر القول بمالایرضی بہ قائلہ تصورکرتاہوں۲۲؎ سرسید اس کے جواب میں تحریر کرتے ہیں:
’’اگرآپ میری تفسیرکے کسی مقام کوخلاف سیاق کلام (اگرچہ مجھ کونہایت شبہ ہے کہ تم اس بات کو سمجھے بھی ہوکہ قرآن مجید کاسیاق کلام کیا ہے اورکس طورپرہے)اورخلاف الفاظ قرآن اورخلاف محاورہ عرب جاہلیت ثابت کردو تومیں اسی وقت اپنی غلطی کا مقر ہوجائوںگا مگرمجاز وحقیقت میں یااستعارہ وکنایہ یاخطابیات میں بحث مت کرنا، کیوںکہ جیساتم کوکسی لفظ کے حقیقی یالغوی معنی لینے کاحق ہے ویساہی مجھ کو اس کے مجازی معنی لینے یااستعارہ یاکنایہ یااز قسم خطابیات قراردینے کاحق ہے۔‘‘۲۳؎
سرسید اورمحسن الملک کے اس مکالمے سے یہ نکتہ مترشح ہوتاہے کہ سرسیدنص قرآنی ہی کومنشاے الٰہی کی تفہیم کے لیے بنیاد تسلیم کرتے تھے ۔نص قرآنی کے علاوہ دیگرروایتوں اوراساطیرکواخذ معنی کے ضمن میں ناقابل اعتنا گردانتے تھے۔
ساختیاتی پس ساختیاتی شعریات اورمشرقی شعریات کے مابین اختلاف واتصال کوتلاش کرنا ایک اہم علمی کاوش ہے۔ مشرقی شعریات میں نئی فکریات کے نقوش کی جستجوسے مشرقی شعریات کادائرہ وسیع ہوگا۔ مشرقی شعریات کے تھیورائزیشن کاسلسلہ دراز ہوگا۔ اس سلسلے میں گوپی چندنارنگ کایہ علمی کارنامہ تادیریادرکھاجائے گا۔
……
حوالے:
۱۔ دیباچہ ۔ص ۱۷۔۱۶
۲۔ ص۴۰۵
۳۔ ص۴۰۸
۴۔ ص۴۲۰
۵۔ ص۴۲۱
۶۔ ص۴۳۹
۷۔ ص۴۴۰
۸۔ ص۴۴۲
۹۔ ص۴۴۲
۱۰۔ ص ۴۴۵
۱۱۔ بحوالہ عابدحسین ص۱۴۶
۱۲۔ ص۴۶۲
۱۳۔ ص۴۶
۱۴۔ ص۴۶۲
۱۵۔ ص۴۶۶
۱۶۔ ص۴۶۹
۱۷۔ ص۴۷۲
۱۸۔ ص۴۷۲
۱۹۔ ص۴۷۳
۲۰۔ ص۴۸۲
۲۱۔ ص۲۸۷
۲۲۔ مکاتبات الخلان فی اصول التفسیر وعلوم القرآن ،ص۱۹
۲۳۔ ایضاً،ص۵
٭٭٭
ڈاکٹرمعیدالرحمن
اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page