ناصر نذیر فراق دہلوی(انتخاب کلام ) / سید فیضان حسن – ڈاکٹر سمیع احمد
زیرِ تبصرہ کتاب ‘‘انتخابِ کلام ناصر نذیر فراق دہلوی’’ ڈاکٹر سید فیضان حسن کی چھٹی کاوش ہے۔ اِس سے قبل ‘‘آغا شاعر قزلباش دہلوی۔ شخصیت اور شاعری’’ ‘‘دیوان سیماب امروہی۔ شخصیت اور فن ’’ ‘‘ناصر نذیر فراق دہلوی۔ حیات اور خدمات’’ ، ‘‘انتخابِ کلام۔ آغا قزلباش دہلوی’’ اور ‘‘خم کدۂ خیام۔ ترجمہ منتخب رباعیاتِ عمر خیام’’ منظر عام پر آچکی ہیں اور اردو داں حلقوں میں دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
ناصر نذیر فراق دہلوی ۱۶؍ اگست ۱۸۶۵ کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ۱۸؍ فروری ۱۹۳۳ کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ وہ عہدِ داغ (دہلوی) کے صاحبِ دیوان قادرالکلام شاعر اور مشہور و معروف نثر نگار تھے۔انھوں نے تقریباً سب ہی مروجہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ زیر نظر کتاب ناصر نذیر فراق دہلوی کے غیر مطبوعہ کلام کا انتخاب ہے۔ کتاب کے مرتب ڈاکٹر سید فیضان حسن نے جامع مقدمہ لکھ کر قاری کے لیے فراق دہلوی کی شاعری کو سمجھنے میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔ انتخاب کلام میں تقریباً سبھی اصنافِ سخن الگ الگ عنوان کے تحت درج ہیں۔ حمد، نعت، غزلیں، مثنوی، سلام، شخصی مرثیہ، واسوخت، رباعیات، قطعات، نظم، نظمیں، قطعاتِ تاریخ، کلامِ فارسی کے علاوہ فراق دہلوی کے مخطوطے کے ایک صفحے کا عکس بھی موجود ہے۔
فراق دہلوی کے کلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل ان کی محبوب صنفِ سخن ہے۔انیسویں صدی کے معروف صوفی شاعر خواجہ میر درد کے نواسے تھے۔ فراق دہلوی کو تصوف خاندانی ورثے میں ملی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو تصوف سے فطری لگائو تھا۔ ان کی شاعری بھی صوفیانہ خیالات کی آئینہ دار ہے۔ کائنات کی ہر شے میں انھیں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو آنکھیں دی ہیں۔ بس انسان اسے دیکھے اور غور کرے۔ چرند پرند اور کائنات کے ہر ذرے ذرے میں اس کا جلوہ موجود ہے۔ یہ اشعار ان کے اسی نظریے کی تصدیق و توثیق کرتے ہیں
نہ مشرق میں تو ہے، نہ مغرب میں تو ہے
نور تیرا جلوہ عیاں چار سو ہے
آستانہ تیرا کہیں بھی نہیں
امکاں بھی ہے تو، مکیں بھی نہیں
فراق دہلوی کا دل بھی عشق و اُلفت سے لبریز ہے مگر ان کے عشق میں پاکیزگی اور طہارت ہے۔ ان کے عشق میں بوالہوسی کہیں نظر نہیں آتا۔ایک نور ہے جس سے فضائے ہستی روشن ہے۔ ایک آفتاب ہے جو ہر ذرہ میں چمک رہا ہے۔ یہ اشعار دیکھیں.
مجھ کو معلوم ہوا ہے یہی اسلام میں خاص
نورِ وحدت کی جھلک ہے بتِ گلفام میں خاص
بوسے دیتے نہ پھریں کس لیے ہر چوکھٹ کو
نور تیرا ہی سمایا ہے در و بام میں خاص
فراق دہلوی کے نزدیک دنیا ایک مہمان خانہ ہے۔یہ ایک ایسی امتحان گاہ ہے جہاں ہر گھڑی انسان آزمایش سے گزرتا رہتا ہے۔ اس دنیا سے جو دل لگاتا ہے وہ قید الم میں گرفتار ہوجاتا ہے اور جو لوگ آخرت پر نظر رکھتے ہیں وہ اِس دنیا سے دل نہیں لگاتے بلکہ اللہ سے مضبوط رشتہ جوڑ لیتے ہیں کیونکہ پوری کائنات کی ہر چیز فانی ہے۔ بے ثبانی موضوع پر فراق دہلوی کے اشعار ملاحظہ فرمائیں.
میں فنا کے واسطے اور ہے فنا میرے لیے
خانۂ دنیا ہے اِک مہماں سرا میرے لیے
نہ ہمراہ قصر و محل جائیں گے
مگر ساتھ خیر العمل جائیں گے
عشق، حقیقی ہو یا مجازی، شاعری میں اس کا اظہار ایک ہی طرح سے کیا جاتا ہے۔ انسانی زبان میں اس کے الفاظ و علامات ایک ہی ہوتے ہیں۔ فراق دہلوی نے بھی اسی روایتی انداز میں اپنے صوفیانہ خیالات کو پیش کیا ہے۔ حسن و عشق، ساقی و میخانہ، گل و بلبل، بہار و خزاں، غمزہ و ادا، فراق و وصال، جام و مینا علامات کے ذریعے اپنے تاثرات، تجربات اور کیفیات کا اظہار کیا ہے۔ جب یہ علامتیں عشق حقیقی کے حوالے سے آتی ہے تو ان میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں اور جب عشق مجازی کے تعلق سے آتی ہے تو جداگانہ مفہوم ادا کرتی ہے۔
ناصر نذیر فراق دہلوی کا غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت کے بارے میں وہ اپنے مقدمہ میںلکھتے ہیں
‘‘فراق دہلوی کے کلام کے انتخاب کا اصل مقصد ان کے کلام کو اہلِ شعر و ادب اور عوام الناس سے روشناس کرانا ہے جو ابھی تک پوشیدہ تھا۔’’
میں سمجھتا ہوں اس میں بہت حد تک وہ کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ اردو زبان و ادب کا عام قاری ابھی تک صرف ایک فراق کو جانتا تھا وہ فراق گورکھپوری ہیں۔ ان کی کاوشوں کی بدولت ہی اب دوسرے فراق یعنی ناصر نذیر فراق دہلوی کے کلام سے روشناس ہوسکیں گے اور یہ یقینا قاری کی معلومات میں اضافہ ہے۔
قوی امید کرتاہوں کہ یہ کتاب اہل علم و دانش کے ساتھ عام قاری کے دلوں میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page