شہر عظیم آباد (پٹنہ) زمانہ قدیم سے اپنے مختلف ناموں کے ساتھ پوری دنیا کو اپنی عظمت کا احساس دلاتا رہا ہے. اس کی قدامت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قبل مسیح کے مگدھ حکمرانوں نے اسے پاٹلی پترا کے نام سے موسوم اپنی حکومت کا پایا تخت بنایا اور اس کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا. چاہے وہ عہد گپت کے حکمران چندرگپت وکرما دتیہ ہوں یا موریہ سلطنت کے بانی چندرگپت موریہ ہوں پھر عہد مغلیہ کے درمیان ایک قلیل مدت کے لئے جب شیر شاہ سوری اس ملک ہندوستان کے فرماروا ہوئے تو انہوں نے بھی اس شہر کی آبیاری کی اور اسے ایک نئے نام (پٹنہ) سے موسوم کیا, جو آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے. ہر چند کہ اس کے کئی سو برسوں بعد مغل تاجدار اورنگ زیب کے پوتے عظیم الشان نے اس شہر کو اپنے نام سے موسوم کرتے ہوئے اس کا نام عظیم آباد رکھا. ادبی حلقے میں اب بھی اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور شاید ہمیشہ پکارا جاتا رہیگا. اس شہر نے سیاحوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے. یہاں کا کمہرار عہد گپت اور عہد موریہ کی بہت ساری نشانیوں اور اس عہد کے عجائبات کے لئے مشہور ہے, جہاں دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں اور ان باقیات کو کیمرے میں قید کر اپنے ملک لے جاتے ہیں اور ان تصویروں کو اپنے گھروں کی زینت بناتے ہیں. یہاں کا گول گھر بھی ہمیشہ لوگوں کی جاذبیت کا مرکز رہا ہے. یہاں کا میوزیم, سنجے گاندھی جیوک ادیان اور گرو گوبند سنگھ کا خالصہ دربار بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے. اور خدابخش خاں اورینٹل پبلک لائبریری کا نام تو پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے, جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں. یہاں کا شہید اسمارک ہمیں ان شہیدان وطن کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مرتے دم تک اپنے ملک کے پرچم کو بلند رکھا. اور پھلواری شریف کی خانقاہ میں اہنی پریشانیوں کا حل تلاش کرنے روحانی خوشی تلاش کرنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے. اپنے شرعی مسائل سلجھانے کے لئے امارت شرعیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے سے کسے گریز یو سکتا ہے. اس طرح کے اور بھی دیگر مقامات ہیں جن کا تذکرہ بخوف طوالت موخر کیا جاتا ہے. یوں تو پٹنہ جانے کا سلسلہ بچپن سے رہا ہے. میں پہلی بار اپنے والد کے ساتھ اس وقت پٹنہ گیا تھا جب میری عمر دس سال کی تھی. مگر میرا وہ سفر سیر و سیاحت کے لئے نہیں تھا بلکہ علاج کی غرض سے تھا. اس لئے وہ سفر ریلوے اسٹیشن سے لے کر ڈاکٹر خانے تک محدود رہا. ہاں رات کو کھلے آسمان کے نیچے گاندھی میدان میں سونا کبھی نہیں بھول سکتا. یہ وہ زمانہ تھا جب عام طور پر بھولے بھٹکے مسافر اس طرح گاندھی میدان میں اپنی رات بسر کرتے تھے, جیسے کوئی بھٹکا پرندا کسی درخت پر شب باشی کرتا ہو. جہاں بھی نظر جاتی تھی ہر طرف لوگ سوئے پڑے دکھائی دیتے تھے. پتہ نہیں اب کیا حال ہے, کیونکہ اس کے بعد پھر کبھی گاندھی میدان میں سونے کا اتفاق نہیں ہوا . اس کے بعد بھی کئی بار والد صاحب کے ساتھ پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا لیکن ہر بار علاج کی غرض سے ہی گیا, البتہ اسی دوران والد صاحب نے گول گھر گھمایا تھا. میں ان کے ساتھ گول گھر کے سب سے اوپری سطح پر چڑھا تھا اور چڑھتے اترتے اس کی سیڑھیاں بھی گنی تھیں, لیکن اب یاد نہیں کہ کتنی سیڑھیاں تھیں. ایک سینیر ساتھی مرحوم اشرف خان کے ساتھ چڑیا گھر گھومنے کا بھی موقعہ ملا تھا. لیکن میوزیم دیکھنے کی تمنا اب تک پوری نہیں ہوئی. غرض کہ یہ جو بھی سفر ہوئے وہ ادھورے تھے . یکم جون 2022ء کو میرا شہر عظیم آباد کا سفر
بہت کامیاب رہا. ہر چند کہ یہ سفر بھی ایک طبی سفر ہی تھا , لیکن میں نے اپنے کوششوں سے اسے ادبی سفر میں تبدیل کر دیا. میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی بھی شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا شخص خواہ کسی بھی غرض سے پٹنہ جائے اور بک ایمپوریم سبزی باغ نہ جائے یہ ناممکن سا معلوم ہوتا ہے, اور اس سے بھی زیادہ ناممکن یہ ہے کہ بک ایمپوریم تک پہنچے اور رحمانیہ ہوٹل میں کم سے کم ایک کپ چاے نہ پئیے. کیوں کہ رحمانیہ ہوٹل کی بھی اپنی ایک ادبی تاریخ رہی ہے. اس ہوٹل کو اگر دبستان عظیم آباد کا پارلیامنٹ کہا جائے تو بے جا نہیں یوگا. یہ ہوٹل ادب کے ان ستارہ گروں کی قربت کا امین رہا ہے جن کے فن کی خوشبو سات سمندر پار تک پھیلی یے. یہاں غلام سرور کی ادبی, صحافتی اور سیاسی بصیرتوں نے جلا پائی ہے. جمیل مظہری کے نغموں کی گونج اب بھی اس کے در و دیوار میں پوشیدہ ہے. سہیل عظیم آبادی کے افسانوں کا پلاٹ اسی ہوٹل میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ پروان چڑھا تھا. رضا نقوی واہی کی مزاحیہ نظموں کو یہیں قبولیت کی سند ملی تھی. پروفیسر عبد المغنی نے تفہیم اقبال کا سراغ یہیں پایا تھا. کلیم الدین احمد نے یہیں سے اردو شاعری پر ایک نظر ڈالی تھی. عطا کاکوی کی نظموں کی خوشبو یہیں سے پھیلی تھی. اور کلیم عاجز کی غزلوں کو سوز اور ساز یہیں سے حاصل ہوا تھا. غرض رحمانیہ ہوٹل دبستان عظیم آباد کی عظمت کا پاسدار تب بھی تھا اور آج بھی ہے. ہمارے بزرگوں نے جو روایت قائم کی تھی اس پر آج کے شعرا و ادبا بھی گامزن ہیں. چنانچہ میں تو اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں. اور اس سفر میں تو یہ بات ایک دن قبل ہی طے پا گئی تھی. ہوا یوں کہ جس رات جب میں پٹنہ جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک محترم ڈاکٹر عطا عابدی صاحب کا فون آ گیا. دوران گفتگو میں نے انہیں بتایا کہ میں بھی پٹنہ آ رہا ہوں. یہ جان کر انہیں خوشی ہوئی. پھر ہم دونوں نے طے کیا کہ بک ایمپوریم پر شام کو ملاقات کریں اور رحمانیہ ہوٹل میں چائے سے لظف اندوز ہوں. چنانچہ مقررہ وقت پر ہماری ملاقات ہوئی. لطف کی بات یہ ہے کہ عطا عابدی صاحب سے پچھلے دس سالوں سے میرے گہرے مراسم رہے ہیں۔ مگر آج پہلی بار ہم رو بہ رو ہوئے. مگر ہمارے درمیان اجنبیت کبھی نہیں رہی. ہم نے پہلی ٹیلیفونک گفتگو میں ہی اجنبیت کے تمام فاصلےطے کر لئے تھے. ان کے ساتھ جناب اویناش امن بھی تشریف لائے تھے. ان سے بھی یہ میری پہلی ہی ملاقات تھی. میں اپنی نظموں کی کتاب ” نوائے شبنم” ساتھ لے کر گیا تھا. لہذا ان دونوں حضرات کو میں نے اپنی کتاب پیش کی, جسے کافی محبت سے قبول کیا گیا. اب حسب دستور ہمیں چائے نوشی کے لئے رحمانیہ ہوٹل جانا تھا. جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جناب خالد عبادی, جناب کاظم رضا اور جناب ڈاکٹر ممتاز فرخ پہلے سے ہی خوش گپیوں میں مصروف تھے. ان سب سے سلام و دعا کے بعد ہم نے چائے کی چسکیوں کے ساتھ ادبی گفتگو کا خوب لطف اٹھایا. میرے لئے یہ موقعہ بہت غنیمت تھا. ادب کے اتنے سارے ستارے ایک ساتھ زمین پر اتر آئے تھے. انہیں کیمرے میں قید کرنا بیحد ضروری تھا. اس لئے میں نے ان تمام سے یہ گزارش کی کہ ایک گروپ فوٹو ہونا ضروری ہے. اس بات سے سب نے اتفاق کیا. مگر بھائی عظا عابدی نے یہ شرط لگا دی کہ میں امن و امان کے درمیان رہونگا. چنانچہ انہیں کی فرمائش پر ہم نے ترتیب بنائی. داہنے سے جناب ممتاز فرخ بک امپوریم کے مالک. آپ کئی کتابوں کے خالق ہیں. فکر تونسوی حیات و خدمات ان کی تازہ ترین کتاب ہے, جس نے کافی مقبولیت حاصل کی ہے. خالد عبادی کا نام شعر و ادب کی دنیا میں کافی نمایاں ہے. ان کے قطعات, موضوعاتی نظمیں اور غزلیں اخباروں اور رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں. آپ کئی کتابوں کے خالق ہیں. غزلوں اور نثری نظموں پر مشتمل ان کی کتاب” نہایت” ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے. آپ ستائش کی تمنا سے بے نیاز خود سے بے پروا قسم کے فنکار ہیں, لیکن آپ کا کلام قارئین کو دعوت خود آرائی دیتا ہے. ان کے بغل میں , میں خود تھا. ڈاکٹر عطا عابدی کو دنیائے ادب عزت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے. آپ کا اردو ادب میں بہت کام ہے. نثر و نظم دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں. درجنوں کتابیں منظر عام پر آ کر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں. آپ نے ادب اطفال پر بھی خوب کام کیا ہے. آپ کے فن اور شخصیت پر مقالہ سپرد قلم کر کچھ طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی ہے. ابھی حال ہی میں ” بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ” عنوان سے ان کی دستاویزی کتاب منظر عام پر آئی ہے. اس کتاب پر مضامین و تبصرے کا سلسلہ جاری ہے. اس کتاب میں اس ناچیز کی زیر طبع کتاب” آغوش میں چاند” پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے. حسب وعدہ عطا عابدی کے بعد جناب اویناش امن ہیں, جو ایک تازہ دم رہوار شعر و ادب ہیں. آپ کو بچپن سے ہی اردو سے عشق تھا. اسی عشق کی تکمیل کے لئے آپ نے اردو زبان و ادب کو اہنی تعلیم کا ذریعہ بنایا. بھاگلپور یونیورسٹی اور پٹنہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی سند یافتہ اویناش امن ودھان پریشد کے اردو سیکشن میں اہنی خدمات بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں. ساتھ ہی اردو زبان و ادب کی آبیاری میں سر گرم ہیں. آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں. "شیر کا احساس اور دیگر افسانے” آپ کا تازہ ترین افسانوی مجموعہ ہے. آپ نہ صرف ایک بلند پایا قلمکار ہیں, بلکہ اس سے بلند اور عظیم انسان ہیں. بیحد محبت اور خلوص سے ملتے ہیں. . ان کے بعد جناب کاظم رضا تھے. آپ لطیف جذبوں کے مترنم شاعر ہیں اور کسی بھی مشاعرے کی کامیابی کی سند مانے جاتے ہیں. ان کے ساتھ کئی مشاعرہ پڑھنے کا موقعہ ملا ہے. اپنا شعری مجموعہ لانے کی تیاری کر رہے ہیں. ان تمام احباب سے فرصت پا کر میں جناب عارف اقبال دربھنگوی سے ملنے گیا. جماعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آپ ای ٹی وی اردو سے وابستہ ایک بیباک صحافی ہیں. سوانحی ادب پر آپ نے بہت کام کیا ہے. ” باتیں میر کارواں کی” عنوان سے امیر شریعت مولانا سید نظام الدین کی حیات و خدمات پر آپ نے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے. اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اسکا اجراء امیر شریعت نے خود اہنے دست مبارک سے کیا تھا. اس نوجوان قلمکار سے میرے دس سالوں سے مراسم ہیں , لیکن ان سے بھی اسی سفر میں پہلی بار ملاقات ہوئی. انہوں نے میری خوب ضیافت کی اور رحمانیہ ہوٹل میں رات کا کھانا بھی کھلایا. میں ان کا دل کی گہرایوں سے ممنون و مشکور ہوں. غرض کہ میرا یہ سفر بیحد کامیاب رہا . میں اسے اپنا پہلا ادبی سفر مانتا ہوں.
امان ذخیروی,
پریم ڈیہا, ضلع لکھی سرائے
8002260577
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page