(پ:۱۹۴۰-وفات:۲۰۲۱)
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
(شاعرِ مشرق علّامہ اقبال)
یہ کوئی مبالغہ کی بات نہیں کہ ہندوستان کے قدیم ترین تاریخی شہروں میں شیر شاہ کی نگری سہسرام کا ہر زمانہ میں ایک نمایاں مقام و مرتبہ رہا ہے خواہ وہ میدانِ علم و عرفان ہو،تہذیب و ثقافت ہو کہ سیاسی قیادت۔ہر اعتبار سے ریاستِ بِہار میں اسے برتری حاصل رہی ہے۔ کہاجا سکتا ہے کہ تخلیقی ادب میں بھی اس شہر کی خاک نے ایسے ادبا و شعرا پیدا کیے جن میں سے بعض عالمی شہرت کے مالک بنے۔فکشن کائنات کے حوالے سے حسین الحق،زاہدہ حنااور شفق کے ادبی مقام سے کون واقف نہیں؟جدید شاعری میں سلطان اختر کا عالمی سطح پر ایک باوقار نام ہے۔میرا تو ایسا ماننا ہے کہ جدید اُردو غزل کی پوری تاریخ موصوف کے بغیر نامکمل ہے۔ماضی کے اوراق کھنگالیے تو اردو کے دَورِ اوّلین کے شعرا میں شاہ غلام جنوں سہسرامی ،ہم عصر سوداؔ و ناسخؔ کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔مرزا محمد رفیع سوداؔ تو اپنے ہمعصر سہسرامی شاعر دوست سے اس قدر متاثر تھے کہ انہیں کہنا پڑا ؎
اے جنوںؔ مصرعہ ترا سودا ؔکی ہے زنجیرِ پا
قید سے تیرے نہیں ہونے کو اب آزاد ہم
مولانا ابوالکلام آزاد کے استاد کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔مولانا اپنی کتاب ’’آزاد کی کہانی‘‘ میں خود اس کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ مولوی عبدالواحد خاں سہسرامی نے میرا تخلص آزادؔ رکھااور مجھے شعر گوئی کی طرف راغب کیا۔اردو زبان کے مایہ ناز ناقد و دانشور کلیم الدین احمدکے بزرگوں کا وطن بھی شہر ِ علم و ادب سہسرام ہے۔یوں موصوف بھی اصلاً اور نسلاً شیر شاہ کی دھرتی کے لعل ٹھہرے ۔سہ ماہی دستاویز کے کسی شمارہ میں پروفیسر حسین الحق نے موصوف کے خانوادے کی سہسرامی نسبت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔افسوس کہ متعلقہ شمارہ سر دست مجھے دستیاب نہیں ہو سکا۔البتہ ابھی حال ہی میں مولانا ابوالکلام شمسی سابق پرنسپل مدرسہ شمس الہُدیٰ پٹنہ کی ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب بعنوان ’’بہارکی اردو شاعری میں علماکا حصہ‘‘منظر عام پر آئی ہے جس کے صفحہ نمبر ۶۴ پردرج ہے کہ کلیم صاحب کے والد محترم ’’ڈاکٹر عظیم الدین احمد کی پیدائش ۲۵ جون ۱۸۸۰ میں گیا ضلع کے قصبہ امتھوامیں ہوئی لیکن والد کی جانب سے آپ کا تعلق سہسرام کے ایک سجادہ نشیں خانوادے سے تھا۔اس خاندان کی دربارِ مغلیہ میں بڑی عزت تھی‘‘۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ کلیم الدین احمد کے اسلاف کا وطن بہر حال سہسرام،شاہ آباد ہی تھا۔مختصر یہ کہ تاریخ و ادب کے گلوب پرکسی بھی حوالے سے سہسرام کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ کیمور کی پہاڑیوں اور سرسبز جنگلوں کے درمیان بسا یہ شہر کبھی عہدِ مغلیہ کے نامور سلاطین اور دورِ اولین کے بعض اہم ادبا و شعرا کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے۔صدیوں قبل اس شہر کی پہاڑیوں اور مقدس دھرتی کو گوتم بدھ کے قدموں نے بھی بوسے دیئے۔یوں اس پہاڑی علاقہ میں بودھ مذہب کے مبلغین کی آمد و رفت بڑھی تو کیمور کی پہاڑیوں کے دامن اور جنگلوں میں بسے آدیباسی یا جنگلی انسانوں کو مقصدِ حیات کا درس دیا جانے لگا۔سند رہے کہ سہسرام دور قدیم میں صوفیائے عُظام اور بعض مخصوص روحانی سلسلے کے پیشوا کی آمد سے کشف و کرامات کا مرکز رہا۔بعہد سلطانِ وقت علی وردی خاں المعروف مہابت جنگ نے جس شخص کو حاکم عظیم آباد کاجلیل القدر منصب دیا تھا اس کا نام ہے راجہ رام نرائن ابن دیوان رنگ لال سری واستو سہسرامی ،جنہوں نے موزوں عظیم آبادی کے نام سے دوامی شہرت پائی۔یعنی موزوں عظیم آبادی ثم سہسرامی بھی اسی زرخیز تخلیقی و تاریخی سر زمین کے نخلِ شاداب ہیں۔پھر زوال آمادہ سلطنتِ مغلیہ کے بجھتے ہوئے چشم و چراغ ،یعنی سیر فرخ بادشاہ اور بادشاہ شاہ عالم (شاگردِسوداؔ)کی آمد سے بھی خاص توجہ و عنایت کا مرکز رہا ہے سہسرام۔یہ بھی سچ ہے کہ میر دردؔ،مرزا رفیع سوداسے لے کر ناسخ لکھنوی تک سبھی کو اس تاریخی شہر سے ایک نسبتِ خاص رہی ہے۔ماضی میں یہ شہر’’ مدینۃ ُالاو لیا ‘‘کہلایا تو برٹش حکومت نے اسے ’’سہسرام-ناصرالحکام‘‘کے خطاب سے نوازا ۔ ہر چند کہ اہلِ سہسرام اپنے حال کی کھردری سچائیوں کے ساتھ جی رہے ہیں لیکن ان کا سینہ ماضی کی آماجگاہ ہے۔اس اعتراف کے ساتھ ۔بقول سلطان اختر: ؎
کسی کے قُرب کی خوشبو کسی کی یاد کا چاند
کہ طاقِ دل پہ بہت کچھ ابھی رکھا ہوا ہے
…
باپ دادا کی اَنا زیرو زَبر ہوتے ہوئے
ہم نے دیکھا ہے حویلی کو کھنڈر ہوتے ہوئے
…
یہ جو ہم اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں
عظمتِ رفتہ کے آداب لیے پھرتے ہیں
…
پہلے شاہی میں فقیری گُم تھی
اب فقیری میں ہے شاہی اپنی
یہ تو متحقق ہے کہ سولہویں صدی میں سہسرام کی سلطنتِ شاعری کا پہلا شاعر شیر شاہ سوری تھا جسے بنگال و بہار کی حکمرانی کے دور میں ’’سلطانِ عادل‘‘کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ہمارے بعض معتبر تاریخ داں اور ادبی سوانح نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ سولہویں صدی میں شیر شاہ ہندوستانی زبان (مخلوط اردو زبان) میں بر جستہ شعر کہنے پر قادر تھا،اس کے علاوہ وہ جنگجو اور شکاری بھی تھا۔کیمور کے انہی گھنے جنگلوں میں اس نے شیر کے دو ٹکڑے کیے تھے۔حکو متی امور سے فرصت ملنے پرسیرو تفریح اور شکار کرنے میں گہری دل چسپی لیتا تھا۔ہمارے عہد کے قد آور جدید غزل گو سلطان اختر نے بھی صیدی مزاج پایا تھا ،چنانچہ طالب علمی کے زمانے سے ہی اُن پر ’’سیرِ کہسار اور اور شکار کا جنون طاری تھا۔ کبھی شیر شاہ کو ’’سلطانِ عادل‘‘ کا خطاب ملا تھا تو ہمارے زمانے میں موصوف کو بھی اہلِ عظیم آباد اور ان کے تمام مداحوں نے ’’سلطانِ غزل‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔شیر شاہ نے کیمور کی پہاڑیوں گھاٹیوں میں اپنی تلوار سے شیر کے دو ٹکڑے کیے تھے لیکن ہمارے شکار پسند شاعر سلطان اختر نے بھی اپنی لائسینسی بندوق سے خونخوار شیر کو مار گرایاتھا۔اس ’’شکار ماری‘‘ کی خبر خانقاہِ واہی(رضا نقوی واہیؔ)گردنی باغ تک پہنچ گئی تو انہوں نے شکاریات سلطان اختر پر ایک منظوم خط لکھ کر انہیں ’’ادبی شکار‘‘بنا لیا یعنی شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے ۔
سلطان اختر رحمانیہ ہوٹل عظیم آباد کی ادبی محفلو ں کو ترک کرکے ہفتوں ،مہینوں سہسرام کی پہاڑیوں پر خیمہ زن ہو گئے تو ان کی دیگرادبی فتوحات کے ساتھ ایک شاعر کی صید افگن شکاری سر گر میوں اور آنکھوں سے گھائل ہو نے والی ادبی مخلوق کو ذہن میں رکھتے ہوئے حضرت واہیؔ نے کیا خوب فرمایا تھا۔بطور نمونہ ان کی طویل نظم سے محض دو تین اشعار پیش ہیں : ؎
سلطان اختر آپ جو غائب ہیں آج کل
رحمانیہ نشینوں کی شام و سحر ہے ڈَل
جب سے قلم کو تج کے سنبھالی ہے رائفل
آلامِ بیوگی میں پڑی ہے نئی غزل
یکسر اُداس رہتے ہیں کُل انٹیلیکچوئل
نذرِ شکار ہو گئی ان کی چہل پہل
(بحوالہ ’’نام بہ نام‘‘واہی کے منظوم خطوط)
اہلِ عظیم آبادیابیرونِ سہسرام بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ جدید غزل کے سلطان کہے جانے والے سلطان اختر بھی سہسرام کے اُن شعرا میں بطورِ خاص شمار کیے جاتے رہے ہیں جو ماہرِ شکاریات بھی تھے۔تقسیمِ ہند سے قبل ہمارے بعض اکابرین غزل گو شعرا و ادبامیں حکیم شیدا سہسرامی،محمود سہسرامی ،ماہ منیر اختر سہسرامی ،شفق عماد پوری ،شمس سہسرامی ،نور علی خاں نور وغیرہم اپنے زمانے کے نامور شعرا بھی تھے،ادب نواز اور جنوں پسند شکاری بھی ۔ہم سب کے بڑے بھائی سلطان اختر ہر فن مولا رہے ہیں۔صحرا نوردی اور سیر سپاٹا ان کے شوق ِ جنوں کا اٹوٹ حصہ تھا۔دھواں کنڈ اور موتی ماجر کُنڈوں کے درمیان چنچل پہاڑی ندی کے کم بہاؤ میں وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ مچھلیوں کا بھی شکار کر لیا کرتے تھے۔وہ تیراک بھی تھے۔اکثر جنگلی جانوروں کی آہٹ پر ہی پہچان لیا کرتے تھے کہ یہ تیندوا ہے ،ہرن ہے یا پھر خونخوار جانور یعنی شیر ،چیتا۔ہاں! یاد آیا کہ گھریلو پالتو جانور ،چرند پرند کے بھی وہ عاشق تھے۔ان کی شوقین مزاجی سے سبھی واقف تھے۔چنانچہ یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے یہاں بلیوں کی ’’میاؤں ،میاؤں‘‘کا شور بھی تھا اور’’ غٹر غوں‘‘ کرتے کبوتروں کا لَٹکاجَھٹکا بھی۔اپنے محلہ باغ بھائی خاں کے وسیع و عریض سرسبز میدان میں کبھی کبھی وہ کبوتر کاایک جوڑا لے کر چلے آتے تھے اور میرے ہم عمر لڑکوں کو نہ صرف اس کی نسل کی خصوصیت ،طبی فوائد وغیرہ بتاتے بلکہ اپنی ہتھیلیوں اور شانوں پر بٹھا کر کبوتروں کی کرتب بازی سے بھی ہم سب کو لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتے ۔اگر کبوتر کا کوئی جوڑا بچھڑ جاتا تو پھر محلہ کے کئی کئی چکر لگاتے۔میرے سنگی مکان کی چھت تک آتے ،غور سے دیکھ کر نیلے آسمان میں اُڑتے کبوتروں کے درمیان اپنے مخصوص کبوتر یا کبوتری ڈھونڈ نکالتے اور پھر اس مخصوص کبوتر کو اپنی چھت پر اُترنے کے لیے ’’دانا دُنکا‘‘چھینٹتے یا مخصوص آواز میں سیٹی بجاتے ۔اس وقت ہم دوستوں کی عمریں یہی کوئی دس بارہ سال رہی ہوں گی۔ان کے پیچھے دوڑتے ،کبوتروں کو ’’ہُش،ہُش‘‘کرنے میں ہمیں بڑا مزہ آتا تھا۔ان کے مکان کی دوسری منزل سے بالائی چھت پر جانے والے زینہ کے آس پاس یا بڑے سے چھت کی چوتال کے دائیں بائیں بچی ہوئی جگہوں میں سلطانِ غزل نے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے پَٹروں سے کبوتر خانے بنوائے تھے جن میں مختلف نسل کے کبوتروںکے کابُک تھے۔’’کابُک ‘‘کا داخلی حصہ جالی دار ہوتا تھا ۔ہمارے درمیان کے بعض شریر لڑکے زینہ چڑھتے یا اُترتے ہوئے کابک میں ہاتھ ڈال کبوتر کا انڈا تلاش کر چُپ چاپ سے جیب میں رکھ لیتے تھے حالانکہ سیڑھیوں سے اُتر کر محلہ کے میدان میں آنے کے درمیان ہی وہ نازک سا انڈا غیر ارادی طورپر پاکٹ میں ہی دَب کر چوٗر ہو جاتا اور اس طرح ہم پکڑ بھی لیے جاتے لیکن سلطان بھائی ہماری اس حرکت پر کبھی دانٹتے نہیں بلکہ مسکرا کر کہتے کہ بھائی کبوتر کا انڈا تو بہت گرم ہوتا ہے ۔آملیٹ بنا کر کھانا ہے تو کسی دن ’’لوٹن‘‘ کبوتر کے انڈے دوں گا جو معتدل ہوتے ہیں۔برسبیلِ تذکرہ یہ باتیں ،یادیں قلم بند ہوگئیں ۔ یہاں پر مجھے بس یہی ثابت کرنا تھاکہ ہمارے شکاری شاعر زمانۂ طالب علمی میں زبردست قسم کے ’’کبوتر باز‘‘بھی تھے۔شاید آپ کو یقین نہ آرہا ہو تو آئیے خانقاہِ حضرت رضا نقوی واہی سے رجوع کرتے ہیں۔’’شعرستانِ واہی‘‘ (طنزیہ و مزاحیہ مجموعۂ کلام)میں ایک نظم کا عنوان ہی ہے ۔’’شعرستان میں کبوتر بازی ‘‘۔میں ذاتی طور پر واقف ہوں کہ یہ وہی نظم ہے جس کی تخلیق کی اوّلین ساعتوں میں حضرت واہی نے سلطان بھائی سے کبوتروں کی خصوصیات اور ان کے مختلف رنگ و نسل اور پہچان وغیرہ پر تبادلۂ خیال کیا تھا اورتب جا کر یہ نظم پایۂ تکمیل تک پہنچی تھی۔مجھے اعتراف ہے کہ بے روزگاری کے زمانہ میں جب کبھی سہسرام سے پٹنہ آنا ہوتا تو خانقاہ ِ واہی میں حاضری لگانا نہیں بھولتا ۔شعرائے عظیم آباد بخوبی واقف ہیں اور شاید یہ بتانے کی قطعی ضرورت بھی نہیں ہے کہ خانقاہِ واہی کی ضیافت کے بغیر شاید ہی کوئی شاعر و ادیب ’’خالی پیٹ-خالی ہاتھ‘‘لَوٹا ہو۔؟بہر حال ! سلطان اختر کی کبوتر بازی کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ طویل نظم کے چند اشعار سے لطفِ سخن اٹھائیںجو درج ذیل ہیںاوراس کی بھی تصدیق ہو جائے کہ سلطان اختر نہ صرف شاعر شکاری بلکہ کبوتر باز بھی تھے۔ ؎
شعر کہتے کہتے تھک جاتے ہیں جب اہلِ سخن
اس ریاضِ مستقل سے جب اکڑ جاتا ہے تن
اپنی اپنی ہابیوں سے شغل فرماتے ہیں سب
اس طرح اعصاب کو آرام پہنچاتے ہیں سب
شاعرانِ کانپور و غازی پور و سہسرام
زیبؔ ، فاروقیؔ و سلطان اخترؔ عالی مقام
جو کہ ہندوستان میں نامی کبوتر باز تھے
رات دن جن کے ’’گرہ باز‘‘ و لقہ دَم ساز تھے
آرہے تھے جب مہاجر بن کے شعرستان میں
چند کابُک بھی چُھپا کر لائے تھے سامان میں
تھے کسی کابُک میں شیرازیؔ کسی میں کلسرےؔ
کاغذیؔ تھے ایک میں اور ایک میں ریشم پرے
ایک میں سبزےؔ ، تو تھے ایک میں چینی ختنگؔ
جو فضا میں چھوٹ جائیں تو اُڑیں مثلِ پتنگ
لوٹنؔ و ہومرؔ بھی تھا گولہؔ بھی تھا دوبازؔ بھی
نامہ ؔبر ، چتپار ، چاہےؔ اور فلک پروازؔ بھی
الغرض ان شاعرانِ نو کا یہ شوقِ قدیم
بن گیا اوقاتِ فرصت میں یہاں ان کا ندیم
شاعری سے عاجز آئے ہیں بیچارے اس قدر
زیب غوریؔ گنتے رہتے ہیں لقہؔ کی دُم کے پَر
(بحوالہ ’’متاعِ واہی‘‘)
پیشِ نظر تحریر میں میرا موضوعِ سخن جدید غزل کے میٹالک میناراور نئی نسل کی ہر دلعزیزشعری شخصیت سلطان اختر ہے۔یعنی وہی اخترؔ جو اپنے وقت کا ایک جانباز شکاری بھی رہا ہے ۔ہر چند کہ سلطان اختر وطنی نسبت کے طور پر اپنے نام کے ساتھ ’’ سہسرامی ‘‘نہیں لکھتے تھے (ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ انہی سے متاثّر ہو کر شفق سہسرامی صرف شفق ہو گئے۔حسین الحق صوفیؔ سہسرامی صرف حسین الحق کہلائے )ممکن ہے اپنے ابتدائی دور کے کلام کے ساتھ موصوف اخترؔ سہسرامی لکھتے رہے ہوں اپنے نام کے ساتھ وطنی نسبت ’’سہسرامی‘‘نہیں لکھنے کا اہلِ سہسرام کو ملال ضرور رہا ہوگا۔بطورِ مثال ’’زبان و ادب‘‘ (شمارہ دسمبر ۲۰۲۱ئ)خاص گوشہ بیادِ سلطان اختر میں سہسرام کے معروف خانوادۂ حکما کے ہر دل عزیز طبیب و اردو زبان و ادب کے شیدائی حکیم انیس الزماں کا مضمون بعنوان ’’سلطان اختر سہسرامی:کچھ یادیں -کچھ باتیں‘‘پیش کیا جا سکتا ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں کہ :’’اہلِ سہسرام کو سلطان اختر سے یہ شکایت تھی کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’سہسرامی‘‘نہیں لکھتے تھے ۔ان کے وصال کے بعدشاہ آباد(دبستانِ سہسرام)والوں نے انہیں اپنے کنبہ میں شامل کر لیا ہے۔اب تاریخ سہسرام (جدید)لکھی جائے گی تو انہیں سلطان اختر سہسرامی لکھا جائے گا۔‘‘
سلطان اختر کی اپنے نام کے ساتھ’’ سہسرامی ‘‘نہیں لکھنے کی میرے خیال سے ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے پیش رو سہسرامی ادبا و شعرا میں کئی نام ایسے تھے جو ’’اختر سہسرامی‘‘کے نام سے شہرت پا چکے تھے اورجو اپنے زمانے میں کلام کی اشاعت میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔بطورِ مثال مولانا سعیدالزماں اختر سہسرامی (مصنف ’’حیاتِ شیر شاہ‘‘ ۔۱۹۳۶)اور محکمۂ بہار اطلاعات و نشریات کے ڈپٹی سکریٹری ،اپنے زمانے کے معروف خاکہ نگار وشاعر ماہِ منیر خاں اخترؔسہسرامی (دیکھیے ’’ماہِ منیر کے انشائیے‘‘ مرتب:عبدالخالق)،یہ دونوں بزرگ قلم کار اختر سہسرامی ہی کے نام سے اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ماہ منیر اختر سہسرامی کا کلام اپنے زمانے کے مشہور میگزین ماہنامہ ’’اشارہ‘‘پٹنہ اور ’’ندیم‘‘ گیا میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتا تھا ۔ایسا گمان غالب ہے کہ اسی وجہ سے سلطان اختر نے شعوری طور پر اپنے نام کے ساتھ وطنی نسبت یعنی ’’سہسرامی‘‘کو لکھنا ترک کر دیا ہوگا۔یوں کسی مخصوص علاقہ یا شہر کا ٹھپّا نہیں لگا کرآزادانہ طور پر ’’سلطان اختر‘‘ بن کر امامِ جدید غزل کہلائے ۔مگر اس اعتراف کے ساتھ ؎
عظیم آباد میں رہتا ضرور ہوں لیکن !
میں سہسرام کی مٹی ہوں ، سہسرام کا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ماضی میں سہسرام کا نور
اب مری روشنی عظیم آباد !
۱۹۶۰ کی دہائی سے سلطان اختر شاعری کرنے لگے تھے ۔ان کی پہلی تخلیق(غزل)کی اشاعت ’’فانوس‘‘نام کے کے پرچہ میں ۱۹۶۱ میں کٹیہار بہار سے ہوئی۔ان کی ابتدائی شاعری کے استاد مانوس سہسرامی کہلائے لیکن انہیں طویل مدت تک نواب جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا ۔جدید شعرو ادب کے گلوب پر ان کا نام اس وقت مانندِ ستارہ جھلملایاجب بیک وقت رسالہ ’’فنون‘‘پاکستان (۱۹۷۰)میں ان کی دس غزلیں شائع ہوئیں ۔ان غزلوں کو پڑھ کر جدیدیت کے علمبردار اور نظریہ ساز ناقد شمس الرحمٰن فاروقی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔اسی قبیل کی غزلوں کو فاروقی صاحب نے جدید غزلوں کے اپنے سخت انتخاب میں بعنوان ’’نئے نام‘‘میں شامل کیا جس سے ان کی شناخت مستحکم ہوئی۔فاروقیؔ کا ایسا ماننا ہے کہ ’’سلطان اخترنے نظامِ فکر اور تصوّرِ حیات کی جگہ لمحاتی حقائق کو گرفت میں لینے کی سعی کی ہے۔معاصر دنیا اور فوری ماحول اور شاعر کی ذات میں ایک محاربہ برپا ہے۔اس محاربے کی رُوداد سلطان اخترؔ کی غزلوں میں ملتی ہے۔‘‘ (دیکھیے غزلستان: سلطان اختر)
؎ کہا جانا چاہیے کہ جدید غزل کی اولین صف کے شعرا میں سلطان اختر کی شعری شخصیت کی قد آوری چُھپائے نہیں چھُپتی۔اور یہ بھی سچ ہے کہ ان کی شخصی زندگی کے نشیب و فراز ،بعض کمزور اور صحت مند پہلوؤں پر جو کچھ اہلِ سہسرام یا ان کے بے تکلف لڑکپن کے دوست اور چند مخصوص ادبی قلم کار ہی لکھ سکتے ہیں،وہ اوروں سے ممکن بھی نہیں۔ان کے اب تک کے طویل شعری سفر کی مختلف جہتوں اور Shades پر جدید شعر و ادب کے بعض اہم ناقدین نے قلم اٹھایا ہے ان سب کا فرداً فرداً یہاں پر حوالہ دینا سرِ دست ممکن نہیں کہ یوں پیشِ نظر تحریر طول پکڑ لے گی،البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن ناقدین نے سلطان اختر کی مخصوص شعری لفظیات وتراکیب اور شعری لسانیات کو گرفت میں لے کر جدید غزل کے اہم موڑ پر سلطان اختر کو لا کھڑا کیا ہے اور جن بزرگ ناقدین نے موصوف کے شاعرانہ وصف کو موضوعِ سخن بنایا ہے ان میں پروفیسر وہاب اشرفی اور ہمارے زمانے کے نظریہ ساز ،جدیدیت کے علم بردار شمس الرحمٰن فاروقی کا نام سرِ فہرست ہے۔متذکرہ ناقدین عصرنے سلطان بھائی کی شعری شخصیت پر نہ صرف سیرِ حاصل مضامین قلم بند کیے ،بلکہ موصوف کے کلام کی بروقت اشاعت ہو ،اس پر بھی زور دیا۔اسی فہرست میں آگے چل کر کلامِ’’ سلطان ِغزل‘‘کی افہام و تفہیم اور موصوف کی تمام غزلوں کا ایک جامع انتخاب اور دیگر ادبی سر گرمیوں کو از سرِ نو بطریق احسن اردو کے باذوق قارئین کے رو برمتعارف کرا نے کابھاری بیڑہ جس شخص نے اٹھایا اس کا نام صفدر امام قادری ہے اور جو واقعی اس کا اہل بھی تھا۔اس مقام پر اکیسویں صدی کے بے حد بیدار مغز،چاق چوبند،وسیع المطالعہ اور محتاط قلم ناقد صفدرکے بے لوث جذبوں کو اہلِ سہسرام کا سلام۔اس میں شبہہ نہیں کہ ’’صفدری تنقید و تحقیق‘‘کا ایک زمانہ معترف ہے۔اور کہتے ہیں کہ بعض ’’ادبی چوزے‘‘تو ان کی تنقیدی جراحی سے خوف بھی کھاتے ہیں۔سند رہے کہ گزشتہ چند برسوں میں یعنی سلطان اختر کی حیاتِ عزیز کی روشن ساعتوں میں ’’سلطانِ غزل ‘‘کی نئی پرانی غزلوں کے کئی مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے۔میرے پاس اس کی تفصیل نہیں۔غالباً کلیاتِ سلطان اختر بھی منظرِ عام پر آئی ان سب کا اکاڈمی کے سیمینار ہال میں شاندار اجرا بھی عمل میں آیا۔ان کی غزلوں کے بعض مصرعوں پر طرحی مشاعرے بھی ہوئے۔ان ساری ادبی فتوحات ،کارگزاریوں کے پیچھے بڑا ہاتھ اور دماغ تو صفدر امام قادری کا ہی تھا اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہمراہ ایسے ادب نواز نو جوانوں کی ٹولی تھی جو بلا شبہہ مداحِ سلطان اختر بھی تھے ۔سلطان اختر کی شاعری پر صفدر نے ایک بھر پور اور فکر انگیز لیکن متوازن لب و لہجہ میں مقالہ بھی قلم بند کیا جس کا عنوان تھا ’’غزل کے قصر میں شاید ہو آخری آواز‘‘اس مقالہ کی خاص طور پردبستانِ عظیم آباد اور ’’یارانِ طریقت‘‘کے درمیان زور دار طریقہ سے دھوم رہی،پذیرائی ہوئی ۔مجھے ذاتی طور پر صفدر کا مذکورہ عنوان کافی پسند آیا تھا۔میرا بھی ایسا ماننا ہے کہ آبروئے جدید غزل سلطان اختر کا کوئی ثانی نہیں۔اطلاعاً عرض ہے کہ زمانۂ طالب علمی سے ہی میں بھی سلطان اختر کی شاعری کا زبردست فین رہا ہوں۔میرا تو ایسا ماننا ہے کہ جدیدیت کی شعری جمالیات کو سمجھنے کے لیے کلامِ اختر کو ازبر کرنا ہو گا۔
وہ اس لیے بھی کہ بقول سلطان اختر ؎
جہاں پہنچ نہ ہو اپنی کمند ڈالتے ہیں
کہ آبِ زر بھی چٹانوں سے ہم نکالتے ہیں
کہتے ہیں کہ غالب کی طرحدار شخصیت اور مشکل پسند کلام کو مقبول ہر خاص و عام بنانے میں غالب کے طرزِ سخن کا جو رول رہا ہو وہ تو اپنی جگہ لیکن اول اول غالب کی غُبارِ وقت میں روپوش ہوتی ہوئی سی شعری کائنات کو از سرِ نو صیقل کرنے اور ان کے صبر آزما شعری سفر کو تازہ و توانا دم کرتے ہوئے بامِ عروج تک پہنچانے میں مولانا الطاف حسین حالیؔکے نام اور ان کے تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے کام کو جس طرح اردو کے باذوق قارئین کے ذریعہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ،میرے خیال سے اسی طرح قادری نے بھی ’’باب سلطان‘‘میں جو فریضہ ٔ ادب وتنقیدادا کیا ہے وہ واقعی قابلِ تحسین ہے سو اس کا اعتراف نہ کرنا ایک بڑی ادبی کوتاہ نظری ہوگی۔ سلطان اختر کی تمام اِدھر اُدھر نئی پرانی بکھری غزلوں کو بڑی جاں فشانی سے یکجا کرکے ،نئے پرانے بعض اہم ناقدین ِ ادب سے مضامین لکھوا کر صفدر امام قادری نے سلطان اختر کی سدا بہار شعری شخصیت اور ان کے شاعرانہ وصف ِ خاص کو جس طرح High Profile بنایا ہے وہ قابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔بلا شبہہ انہوں نے ’’سلطانِ غزل‘‘ کی عصر آشنا شعری شخصیت کا ہمارے جدید شعرو ادب میں ،بطورِ خاص نئی نسل کے درمیان ایک بے مثال ماڈل پیش کیا ہے جس کے حوالے سے جدید غزل کے ارتقائی سفر،مختلف آہنگ و اسالیب کے ساتھ ’’سلطانِ غزل‘‘ کی مخصوص لفظیات و تراکیب اور فکری اُڑان کو قریب سے دیکھنے ،سمجھنے اور محسوسنے کے لیے قادری نے واقعی ایک خوش گوار ،ثمر آور اور نتیجہ خیز ادبی ماحول کی فضا بندی کی ہے جس کے ٹرانس سے نکلنا آسان نہیں۔اور شاید یہی سبب ہے کہ شہر ِشعرو سخن اور دبستانِ علم و فن یعنی عظیم آباد سے وابستہ ایک بڑا حلقہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔سلطان اختر نے برسوں پہلے یہ شعر کہا تھا : ؎
کتابِ دل میں بکھرتے ، ور ق ورق کھُلتے
کہ سوچنے کی طرح کوئی سوچتا ہم کو
کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ شعر کو ذہن نشیں کرتے ہو ئے پروفیسر صفدر امام قادری نے انہیں نہ صرف سوچنے کی طرح سوچا بلکہ واقعی ان پر لکھنے کی طرح لکھابھی لیکن ہا ئے افسوس کہ شیر شاہی نگری سہسرام کے گرد کا یہ گوہرِ آبدار مؤرخہ ۲۰۔اپریل ۲۰۲۱ئ کو وطن سے دور اپنی رہائش گاہ کے قریب حاجی حرمین قبرستان ،پھلواری شریف ،پٹنہ میں آسودۂ خاک ہوا۔یعنی ؎
گلیاں خموش ، کوچہ و بازار میں سکوت
وہ پُر ہجوم شہر کو تنہائی دے گیا
سند رہے کہ سلطان اختر کی تاریخ پیدائش بہ اعتبار تعلیمی سند ۱۹۴۲ئ ہے لیکن اصلاً وہ شیر شاہ کی جنت سہسرام میں ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے۔موصوف کے والد کا نام حاجی شرف الدین اور والدہ کا نام رابعہ خاتون تھا۔راقم ا لحروف کو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ وہ ہماری ’’استانی جی‘‘تھیں اور بغیر کسی معاوضہ اور ٹیوشن کی رقم کے ازراہِ اپنائیت عربی کے ساتوں کلمے اور پہاڑایاد کراتی تھیں۔جب ہماری نیک استانی جی گھریلو کام میں مصروف ہو جاتیں تو سلطان اختر کی ایک کزن (بہن)یعنی ہم سب کی شاہدہ آپاؔ (زوجہ پروفیسر فصیح الزماں ،مگدھ یونیور سٹی)ہمارے اسباق ازبر کراتیں۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے،آمین۔ماضی قریب تک میرے خاندان کے بزرگوں سے موصوف کے گھرانے سے خوشگوار مراسم رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔گراں باری طوالت کا خیال رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں ۔سلطان اختر کے والد محترم المعروف ’’شرفو شکاری‘‘واقعی شہر کے ایک منجھے ہوئے شکاری تھے ۔ان کی لال لال اور بڑی بڑی آنکھوں سے اُس زمانے میں میری عمرکے بچوں کے اندر خوف پیدا ہوتا تھا۔پورے محلے میں ایک زور آور شخصیت تھی ،ان کی روشن پیشانی اور فربہ بدن بھی متاثرکن تھا۔غالباً ان کے پاس دو نال والی بندوق تھی۔بقول حکیم صاحب :’’سلطان اختر کے والد حاجی شرف الدین ابن محمد جان ساؤ (بزاز)شکار کے بہت شوقین تھے ۔جب خاندان کسی کی دعوت ہوتی تھی تو یہ شب میں ہی گھر والوں سے کہہ دیتے کہ میں نماز فجر کے بعد شکار میں جاؤں گا۔تم دن کے گیارہ بجے تک گوشت نہ منگوانا،میں ہرن مار کر لے آؤں گا۔‘‘(بحوالہ زبان و ادب،شمارہ :۱۲) اب ہرن کا شکار کیا ہوا گوشت ہو کہ سانبھرکا ،یہ سچ ہے کہ اس کا ایک ذرا حصّہ ’’تحفتاً‘‘ محلہ کے جن معزز گھروں میں تقسیم ہوتا تھا اس میں خاکسار کا گھر(سنگی محل)بھی شامل تھا۔ایک بار سلطان بھائی نے ایک فربہ نیل گائے کا شکار کیا تو تقریباً ڈیڑھ کیلو گوشت کسی کے ذریعہ سے میرے والدِ محترم تک پہنچایا۔پھر تو ہمارے گھر عید ہو گئی ۔نیل گائے کے گوشت کا کباب واقعی لذیذ ہوتا ہے۔یاد کرتا ہوں تو آج بھی منہ میں پانی بھرآتا ہے۔
جس طرح سلطان بھائی سہسرام کی پہاڑیوں ،شکار گاہوں کے ایک منجھے ہوئے شکاری تھے اسی طرح جدید شاعری کی شطرنج کے با کمال کھلاڑی بھی تھے۔ہر چند کہ وہ شکار کرنا بھی جانتے تھے اور شکار ہونا بھی۔ساتھ ہی انہیں اس کا بھی اعتراف تھا : ؎
کوہ پیمائی سخت ہے لیکن
شاعری سب سے پُر خطر ہے پہاڑ
محرّم کے زمانے میں محلہ باغ بھائی خاں کے اکھاڑے کے ساتھ جب وہ اپنی ٹولی یا جوڑی کے ساتھ ’’تاشہ‘‘ بجاتے تھے تو اس کی مدُھر چاپ اور گیتار کی مخصوص دُھن کے ساتھ ’’یا علی ،یا حسن‘‘کی صدائے بازگشت پر اہلِ سہسرام جھوم جھوم اُٹھتے تھے۔ ہمارے زمانے میں عمدہ تاشہ بجانے والوں میں استاد یٰسین ،میرے ماموں جان زبیر خلیفہ محلہ املی آدم خاں معروف تھے انہی کے درمیان جونیئر ’’تاشہ ساز‘‘سلطان کی بھی شہرت تھی۔محرّم کی ایک سے دسویں تاریخ تک محرّمی جلوس و مجالس کا رُوحانی سماں رہتا۔ان کی جوڑی میں ’’جھانجھ‘‘بجانے والے چار فٹ کے انصار بھائی ’’ناٹُو‘‘ہوتے تھے اور ڈھول ڈھماکہ بجانے کے لیے محلہ باغ بھائی کے فربہ بدن بلکہ تنو مند سردار علی خاں عرف’’لکٹُھوچچا‘‘ کا جواب نہیں تھا۔سردار چچا امپیریل تھیئٹرسہسرام کے اداکار بھی تھے۔ہاں! تو میں یہ انکشاف کرنے جا رہا تھا کہ تمام عمر شکار کرنے والے ’’سلطانِ غزل‘‘حضرت سلطان اخترایک دفعہ محرم کے اکھاڑے میں محلہ مدار دروازہ کے موڑیا چوراہے پر بوقتِ شام جب جھوم جھوم کر اپنی ٹیم کے ساتھ’’تاشہ‘‘ بجا رہے تھے تو سامنے والی ایک قدیم عمارت کی بالائی منزل پر ان کی آنکھیں ٹھہر گئیں ۔کسی ہرنی صفت آنکھوں نے ان کا شکار کر لیا تھاشاید۔اور پھر خمارِ شام چھٹتا ہے تو اک صورت نکلتی ہے ۔یہ وہی صورت ہے جو بقول مرزا سودا ؔ ؎
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
بہتر ہے کہ ماضی کے اس ’’منظر حیرانی ‘‘کو یہاں پر فُل اسٹاپ لگا تا چلوں ،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اُس مخصوص سُرمئی شام کی دعوتِ نظارگی نے حضرتِ شاعر کو اس درجہ حرارت پہنچائی کہ کئی اشعار ورقِ دل پر روشن ہو گئے۔
بطورِ نمونہ اشعار دیکھیں ؎
اختر گلی میں رُک کے حرارت سمیٹ لو
شعلے لپک رہے ہیں دریچے کی آڑ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کس کی میں ہجوم میں آنکھیں نکالتا
اچھا ہوا کہ آپ دریچے سے ہٹ گئے
…
یوں ہی روشن رہے خوش منظری کا باب آنکھوں میں
خداوندا وہ چشمِ مست دشتِ ہوٗ نہیں دیکھے
اہلَ سہسرام خوب جانتے ہیں کہ شیر شاہ کی نگری کی خاکِ پاسے برآمد شدہ کوہِ نور کا نام ہے سلطان اختر،جسے عالمی ادب کی منڈی میں بحیثیت جدیدغزل گو شاعر بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہاہے۔معلوم ہو کہ حضرت سلطان اختر کلاسیکی شاعری کے نامور شعرا کا کلام نہ صرف شوق سے پڑھتے تھے بلکہ ہمیں مشورہ دیتے تھے کہ سوداؔ، ناسخؔ،دردؔ اور غالبؔ و میرؔکے شعری جہان کی ڈوب کر سیر کرو اور پھر جدید غزل کے شعرا میں میرے ساتھ زیب غوری اور بانیؔ کو بھی توجہ سے پڑھو۔
سلطان اختر کے فوراًبعد والی نسل نے تو انہیں نہ صرف ’’سلطانِ جدید غزل ‘‘قرار دیا بلکہ ان کے شعری ڈکشن سے ایک لحاظ تک استفادہ بھی کیا۔نئی نسل کے ان ادبا و شعرا کا میں خصوصیت سے نام لینا چاہوں گا جو سہسرام میں سلطان اختر کی آمد کے لیے آنکھیں بچھائے رکھتے تھے ۔ان میں سراج فریدی،عشرت حسین علوی،شمیم قاسمی،زین العابدین تسکین سہسرامی،خیر سہسرامی ، عین تابش،شاہد جمیل، مظفر حسن عالی،اسیر سہسرامی،اسلم راہی،ارمغان ساحل سہسرامی اور سنتوش کمار سنتوش وغیرہم کے نام اب تک ذہن میں محفوظ ہیں۔ یہ غالبا! ساتویں دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے کہ موسمِ برسات اور خصوصی طور پر ماہِ محرّم میں سلطان اختر کی پٹنہ سے سہسرام آمد لازمی تھی۔ برسات کی رِم جھِم میں سیرِ کہسار کے لیے بندوق لے کر چند ساتھیوں کے ساتھ نکل جاتے اور کسی ہرن،چیتل کا شکار کیے بغیر نہیں لَوٹتے۔ وہ جب بھی آتے مخصوص شعری نشستیں برپا ہوتیں ،زیادہ دنوں تک قیام ہوتا تو رحمٰن خاں کے پھاٹک یا ادارہ فکرو نظر کے زیرِ اہتمام محلہ کرنسرائے میں ناظم مشاعرہ عبدالرب نشتر کے کسی کشادہ کمرے /دالان اور محلہ شیخ پورہ کے ’’کاشانہ‘‘ میں مشاعرے کا نظم کیا جاتا۔وہ پٹنہ سے آتے تو کبھی کتاب لکھنؤ، فنون، سیپ (پاکستان) تحریک ،سطوردہلی،شب خون الٰہ آبادوغیرہ ساتھ لے کر آتے ۔یہ تمام رسائل ان کے توسط سے ہمارے مطالعہ میں آتے اور نئی نسل کے اذہان کو سیراب کر جاتے۔سہسرام کی ایک بڑی نسل کی ادبی طور پر ذہنی آبیاری میں لا شعوری طور پر ی سہی ،سلطان اختر کا بڑا ہاتھ رہا ہے ،اس کا اعتراف ان کے ہم وطن آج بھی کرتے ہیں ۔یہ بھی سچ ہے کہ بعد کے دنوں میں اس قبیل کے رسائل و جرائد سیف سہسرامی،شفق اور حسین الحق،فخر رضوی غیرہ اپنے ذاتی خرچ سے منگوانے لگے تھے جنہیں ہم پڑھنے کے لیے اُچک لیتے تھے۔پھر دھیرے دھیرے ہماری نسل کے بعض ادیب و شاعر خود کفیل ہوئے تو نہ صرف مذکورہ رسائل کے خریدار بنے بلکہ اپنی نثری و شعری کاوشوں کو بغرضِ اشاعت بھیجنے لگے۔ ۱۹۷۵ کے آتے آتے بعض مذکورہ خالص ادبی رسائل میں ہماری شاعری وائری شائع ہونے لگی۔یوں بطورِ خاص شمس الرحمٰن فاروقی کے ’’شب خون‘‘سے ہماری ذہنی وابستگی قائم ہوئی جو آگے چل کر شاید کچھ زیادہ اٹوٹ ہو گئی۔اسی درمیان گیا سے آہنگ اور مورچہ بھی نکلنے لگا مالیگاؤں سے نشانات۔سلطان اختر نے ہمیں ’’مورچہ‘‘میں برابرتخلیقات بھیجتے رہنے پر زور دیا وہ اس لیے بھی کہ یہ ہفتہ وار تھا ،موصوف خود بھی ہر دو تین ہفتہ پرمورچہ میں اپنا کلام چھپواتے تھے۔اس میںکوئی شک نہیں کہ اس زمانے میں سہسرام کے ہمارے بعض معاصرین نے سلطان اختر سے کافی فیض اٹھایا۔یہ بھی سچ ہے کہ سلطان اختر جب کبھی سہسرام آتے کوئی نہ کوئی نیا پرچہ ضرور لاتے۔ان رسائل میں کلکتہ کا ’’آیات‘‘بھی تھا جس کی لوہے والی چھپائی تھی۔یہ سارے پرچے جدیدیت پسند یا نظریہ ساز تخلیقات/مشمولات کی بہت حد تک نمائندگی کرتے نظر آتے۔ظاہر ہے کہ اس قبیل کے رسائل کے مطالعات نے ہماری نسل کے فن کاروں کو حد درجہ متاثر کیا ایک نیا وِژن دیا۔گویا ہمارا ادبی status ان شعرا و قارئین سے ایک ذرا قدآور ہو گیا جو بیسویں صدی ،شمع،خاتونِ مشرق،ہُما،شبستان ،مرّیخ اور بانو وغیرہ تک محدود تھے،بلکہ ہم لوگ تو اس قبیل کے قارئین و قلم کار کا مذاق ہی اُڑانے لگتے تھے کہ ’’اچھا تو تم اب تک بیسویں صدی اور خاتونِ مشرق کو ہی ادبی آرگن سمجھ رہے ہو؟۔ہمارا لہجہ اس وقت تمسخرانہ ہوتا ۔ہمارے بزرگانِ علم و ادب ہمیں بتاتے رہے ہیں کہ جب ناسخ لکھنوی ،مرزاسودا اورخواجہ آتش وغیرہ سہسرام میں آتے تھے تو ان کے استقبال کا خاصا اہتمام کیا جاتا تھا۔ناسخؔ کے کئی شاگردوں کا تعلق دبستانی حیثیت کے حامل شہر سہسرام سے تھا۔خصوصیت سے ناسخ کی سہسرام میں آمد سے جس طرح دھوم مچتی تھی ،اسی طرح ہمارے زمانے میں سلطان اختر کی پٹنہ سے سہسرام آمد پریعنی وہی جوش و ولولہ ،وہی اظہارِ عقیدت کا جذبہ،وہی شعرو سخن کی دھوم اور قرینۂ نشست وبرخاست اور آدابِ محفل تھی جو اکابرینِ ادب سہسرام سے تہذیبی روایات و شائستگی کے ساتھ سہسرام کی نئی نسل ،نئی ادبی پودمیں منتقل ہو گئی تھی۔سرکاری ملازمت سے سبکدوشی(۲۰۰۰ئ) کے بعد یعنی اکیسویں صدی کے محض چند ابتدائی برسوں تک اہلِ سہسرام اور اپنے عزیزوں سے ملنے ملانے آتے رہتے۔بعد میں نجی مصروفیات اور گھریلو اُلجھنو ں کی وجہ کر یہ سلسلہ سرد پڑتا رہا۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی رہی کہ محض دو تین برسوں کے اندر نہ صرف ان کی اہلیہ اور بہو دُنیا سے رخصت ہوئیں بلکہ ان کا جوان بیٹا رومیؔ بھی اچانک لقمۂ اجل بن گیا۔اس طرح کے جاں سوز تکلیف دہ حادثات و سانحات پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے تصور سے ہی میری آنکھیں نم ہو ا چاہتی ہیں۔پئے بہ پئے افرادِ خانہ،لختِ جگر کی ناگہانی اموات نے عمر کی اس آخری ڈھلان پر انہیں چُورچُورکر دیا تھا۔بہار اردو اکادمی میں نائب صدر کے عہدہ (۲۰۱۴) پر فائز ہونے کے بعد کے زمانے میں بھی وہ عظیم آباد کی ادبی سرگرمیوں ،مشاعرے وغیرہ سے بہت حد تک دور دور رہے لیکن شعرو ادب سے وابستہ ادیب و شاعر بطورِ خاص نوخیز ادبی نسل سے ملنے جلنے میں حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ۔ موصوف نے اپنی خاندانی شرافت ، طبیعت کی وضع داری اور خود اعتمادی کو کبھی مجروح نہیں ہونے دیا۔جس سے بھی ملے پُر تپاک ملے۔یہ اور بات ہے کہ ہنگامۂ حیات سے انہیںاب وحشت سی ہونے لگی تھی۔ بہر حال ان کے ہم وطنوں کے لیے یہ تشنہ ملاقاتیں بھی باعثِ تقویت ہوتیں۔ان کے کہے ہوئے اشعار ہفتوں ، مہینوں سہسرام کی روایتی شاہی گلیوں سے ٹکراتے ہماری سماعتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں کہ ان کے مخصوص مترنم لہجے میں پہاڑی ندی کا سا لوچ تھا۔ ؎
کسی کے ہاتھ نہ آئی ، کسی کے سر نہ چڑھی
وہ شاخِ گل جو لچکتی رہی کمر کی طرح
…
دلوں کی راہ گزر یوں تو بے صدا بھی نہیں
مگر کسی کو کوئی مُڑ کے دیکھتا بھی نہیں
…
وہ موم تھا تو پگھلنا بھی چاہیئے تھا اسے
جو ہنستا کھیلتا جلتے مکان سے نکلا
…
میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تُو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں
…
اخترؔ یہ سیہ رات یہ اُمڈے ہوئے بادل
جیسے کسی بیمار کادَم ٹوٹ رہا ہے
…
بُرا مت کہو دھوپ کو جانِ من
فرشتے سُکھاتے ہیں پَر دھوپ میں
…
اس سے ملنے کی بات تھی لیکن
دوستوں نے اُچک لیا اتوار
…
مذکورہ بالا اشعار سلطان اختر کی ۸۰-۱۹۷۰ کے درمیان کہی گئی غزلوں کے ہیں جنہیں موصوف نے اس زمانے میں سہسرام کی مخصوص نشستوں اور مشاعروں میں پیش کیا اور جو ان کے دل گداز ،مخصوص ترنم کی وجہ کر بھی ہماری سماعتوں پر دیر پا اثرات چھوڑ گئے تھے۔یہ تمام اشعار میں نے اپنے حافظے کے جنگل سے دریافت کیے ہیں ممکن ہے انہیں قلمبند کرنے میں کہیں سہو ہوا ہو۔ان اشعار کو ان کی کلیات ِشاعری(جو میرے پاس نہیں ہے)میں تلاش کیا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی نایاب اشعار تو نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ان کے نمائندہ کہے جانے والے اشعار ہیں۔البتہ ساتویں دہائی کے ابتدائی برسوں میں اس قبیل کے اشعار شعرائے سہسرام بالخصوص نئی نسل کے شعرا کے اذہان کو متاثر کرنے میں اہم رول ادا کرتے نظر آتے ہیںاور جو کبھی دبستانِ سہسرام کی شاہی گلیوں میں بے پناہ مقبول اور گنگنائے جاتے رہے ہیں۔ان اشعار کی روشنی میں اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ موصوف نے جدت طراز ذہن ضرور پایا تھالیکن اردو شاعری/صنفِ غزل کی زندہ شعری روایات وراثت کا وہ حد درجہ احترام کرنا بھی جانتے تھے۔میرے خیال سے اسی پس منظر میں ’’سلطانِ غزل‘‘ کی شاعری کے شارح اور محققانہ نظر رکھنے والے ناقدِ عصر صفدر امام قادری نے یہ رائے قائم کی ہے کہ: ’’سلطان اختر نے اپنے عہد کے مفاہیم کو ملحوظ نظر تو رکھا لیکن اردو غزل کی کلاسیکی بنیادوں سے مکمل طور پر انحراف کرنے کے انداز کو دوسرے شعرا کی طرح ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔‘‘گویا صفدر امام یہ واضح طور پر بتانا چاہ رہے ہیں کہ سلطان اختر نے اپنے معاصرین جدید غزل گو شعرا کے مقابلے میں اپنی ایک رُجحان ساز،جدیدیت پسند فکر میں بھی کلاسیکی غزل کے رچاؤ اور اوصاف کو نظر انداز نہیں کیا۔قادری کے کہنے کا لب لباب بس یہی ہے کہ : سلطانِ غزل نے اپنے رنگِ سخن کو بیک وقت جدیدیت اور کلاسیکیت کی آمیزش سے کچھ یوں صیقل کیا کہ ان کا شعری انفراد بھیڑ میں بھی قائم و مستحکم رہا۔میرا بھی ایسا ماننا ہے کہ سلطان اختر نے اپنی شاعری کے ابتدائی برسوں سے ہی صنفِ غزل کی حرمت و تقدس کا پاس رکھا ہے۔یعنی ؎
میں بھی تہذیب کی زنجیر نہیں توڑتا ہوں
وہ بھی شائستہ ٔ آداب نظر آتے ہیں
سلطان اختر فطرت کے تمام مناظر مظاہر میں جستجوئے ذات اور خود احتسابی کے لمحوں میں اپنے شعری و تخلیقی سفر کو مُبہم علامات و ابہام گوئی سے پاک یعنی ’’لا سمتیت‘‘کے بھنور کے جال سے خود کو محفوظ رکھنے کا ہُنر جانتے تھے۔ان کی شکاری آنکھیں دورانِ شکار بھی جنگل کی فطرت سے ہم آہنگ و ہم کلام ہو کر روایتی شاعری کی کہنہ لفظیات کے شکستیدہ پروں کو لفظ و معنی کے نئے ملبوسات عطا کرنے کے لیے ہمہ وقت بیدار رہتی تھیں۔ریتیلے راستوں اور خاردار جھاڑیوں کے درمیان سے شکاری سفر طے کرتے ہوئے کیمور کے گھنے جنگلوں میں پہاڑیوں کی بلند و بالا چوٹیوں پر چڑھ کر سلطان اختر جب خدا،انسان اور کائنات سے ہم کلام ہوتے تھے تو اس طرح کے اشعار بلا شبہہ ان کے مراقباتی شکاری سفر کو ایک نئے معنوی جہان سے متعارف کرانے میں معاون نظر آتے ہیں۔ ؎
تیرے نور سے ساری دنیا روشن ہے
ہر سو ہے تیری تابانی یا اللہ
تیری راہ پہ چلنے والے سوچتے ہیں
کیسی آگ ، کہاں کا پانی یا اللہ
…
ہر لمحہ دل میں خوفِ خدا موجزن رہا
ہم یوں تو صبح و شام خرافات میں رہے
…
شکستہ حوصلوں کو دم بہ دم بیدار کرتا ہے
کوئی تو ہے جو میری راہ کو ہموار کرتا ہے
…
شہر میں آئے تو کتنے راستوں میں بٹ گئے
جنگلوں میں اک میں اک جکڑے ہوئے تھے راستے
…
گلے ملنے لگیں شاخوں سے شاخیں
شجر کا خواب پورا ہو گیا ہے
…
اسیرِ راہ ہوئی جنگلوں کی شادابی
عجب وقار درختوں کے انتشار میں تھا
…
درختوں کی گھنی لذت نہ ڈھونڈو
ابھی مِیلوں برہنہ راستے ہیں
…
گھنے جنگلوں کی شکاری راتیں کچھ زیادہ ہی پُر اسرار ہوتی ہیں ۔عہد ساز شہرِ علم و ادب سہسرام کے اکابرینِ ادب شوقِ شکار اور کوہ پیمائی کا جنون کوئی نئی بات نہیں۔سہسرام کی ان پہاڑیوں کی پچھمی چھور وندھیاچل پربت (یو۔پی) تک پھیلی ہے تو دوسری جانب پوربی چھور گوالیار،مدھیہ پردیش کی سرحد کا طواف کرتی ہے۔کہتے ہیں کہ ان پہاڑی راستوں کا سفر طے کرنا اگر سہل ہو جائے تو مذکورہ مقامات تک بہت کم فاصلے طے کرکے پہنچا جا سکتا ہے لیکن یہ ہے بڑا مشکل اور دشوار گزار سفر۔زمانۂ قدیم میں گھوڑوں اور ہاتھی وغیرہ کی سواری رہی ہوگی تبھی تو جانشینِ شیر شاہ یعنی سلیم شاہ نے اپنا دارالسلطنت ’’گوالیارفورٹ‘‘کو بنا رکھا تھا۔ایسا قرین قیاس ہے کہ انہی پہاڑی راستوں سے بادشاہِ وقت سلیم شاہ کا اپنے وطن سے مسلسل رابطہ قائم رہا ہو گا۔برسبیلِ تذکرہ یہ ضمنی باتیں قلم زد ہو گئیں۔
اب میں ایک بار پھر لَوٹتا ہوں سلطان اختر کی شکاری آنکھوں کی شاعری کے گھنے،پُر اسراراور شاداب (Evergreen) جنگلات کی طرف کہ جہاں آج بھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سلطان اخترکی شکاری آنکھوں کا خوف قائم ہے۔یہ وہی جنگلات ہیں جہاں سے تقریباً ۱۰۰ ہاتھیوں کا جھُنڈ پکڑ کر مان سنگھ (نورتن دربارِ اکبری)نے شہنشاہ اکبر کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ان جنگلوں کے طول و عرض میں زمانۂ قدیم سے عہدِ حاضر تک کئی شکار گاہیں معروف رہی ہیں۔ایک شکار گاہ تو ویر کنور سنگھ اور دارا شکوہ کے نام سے مخصوص ہے ۔پھر گھوڑ دوڑ،نینی،مگردہ اور دھواں کنڈ کے نشیب میں گہرے غار کے آس پاس کی شکار گاہیں بھی قابلِ ذکر ہیں۔دراصل میں یہ بتانے جا رہا تھا کہ سلطان اختر تقریباً اس قبیل کی تمام شکار گاہوں میں اپنے شوقِ شکار کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامران گزرے ہیں۔پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کبھی بغیر ’’شکار‘‘ کے نامُراد لَوٹے ہوں۔ممکن ہے کہ جنگل کی پُر اسرار چاندنی راتوں نے کبھی کبھی ان کے ساتھ چھَلاوا کیا ہو جبھی تو انہیں کہنا پڑا تھا ؎
ہم ایسے قہر کے صحرا میں خیمہ زن ہیں جہاں
نہ رات ڈھلتی ہے اخترؔ نہ دن نکلتا ہے
المختصر اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ ’’سلطانِ غزل‘‘جنگل کی فطرت اور اس کی جمالیاتی خُو بُو کو خوب پہچانتے تھے۔موصوف اس سے بھی بخوبی آشنا تھے کہ ادب آرٹ اور دیگر تخلیقی سفر کو مظاہرِ فطرت سے الگ ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا ۔انہی طلسماتِ جنگل سے ہمارے تخلیقی اذہان کو رسد پہنچتی رہی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ یہ گھنے اشجار ،خوشنما چرند و پرند،پہاڑی جھرنوں کا شور،محسوسات کی سطح پر سبھی اپنی زبان میں ہم سب سے ہم کلام ہوتے ہیں۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ صرف نسلِ آدم ہی حیوانِ ناطق نہیں ۔شکاری آنکھوں کے شاعر سلطان اختر نہ صرف طیورِ خوش الحان بلکہ شکاری جانوروں کی عادات و خصلت سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔بطورِ مثال چند اشعار: ؎
سر سبز جھاڑیوں نے مسرّت کی سانس لی
آندھی چلی تو اونچے درختوں کا دَم گُھٹا
…
ایک ہی آندھی میں سب کے سب زمیں سے لگ گئے
خشک پیڑوں کو بھی تھا زعمِ توانائی بہت
…
طے ہو سکا نہ دوڑتے قدموں کا فاصلہ
جب بھی نظر اٹھائی وہ اتنا ہی دور تھا
…
کہیں ایسا نہ ہو مجھ سے کوئی آگے نکل جائے
یہی اک خوف تو مجھ کو سبک رفتار کرتا ہے
…
بہت دراز سہی ، دامِ احتیاط مگر
پرند لَوٹ چکے اب سمیٹ دانا تو
…
وہ جب بھی ہوتا ہے صحنِ چمن میں محوِ خرام
طیورِ کنج اماں سے نکل کے دیکھتے ہیں
…
وہ سامنے تھا مگر کوئی اس کو پا نہ سکا
سبھی نے جست لگائی بساط بھر اب کے
…
گُلزار ہوں گے راستے ، شاداب زندگی !
وہ خوش خرام جب شجرستاں سے آئے گا
…
مجھے بھی پرواز کی تمنّا
مگر مری ذات پر شکستہ
اس میں شک نہیں کہ سلطانِ غزل کی زنبیل ِ شاعری میں قید شکاری دنوں کے بطن سے پھوٹتی ایک شاعر کی ’’جنگل آشنا‘‘اور ایڈونچرس بلکہRelishes of freedom سے بھری پُری زندگی کے مختلف Shades ہیں جن پر ہمیں ازسرِ نو غور کرنا ہو گا۔ کیا آپ اس کے لیے تیار بیٹھے ہیں؟ فی الحال تو میں اپنی اس تحریر پر نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کے اس شعر کے ساتھ فُل اسٹاپ لگانے جا رہا ہوں۔ ؎
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
٭٭٭
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page
1 comment
سلطان اختر کی زندگی کے بہت سارے نئے گوشے اس مضمون سے غالباً پہلی بار سامنے آئے ہیں ۔ ساری تصویریں شمیم قاسمی کی زندگی بہ داماں زبان کے سبب آنکھوں میں اتر آتی ہیں ۔ ایک بہترین مضمون کے لیے صمیم قلب سے مبارک باد ۔