اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کا حکم دیا اور ان پر عمل کرکے دکھایا اسے سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے بعد سنت ایمان کی اہمیت ہے۔ رسول کی سنت کے بغیر ایمان ادھورا ہے۔
سنت انسان کو اللہ پاک کی نافرمانی سے روکتی ہے۔ انسانی زندگی کو رسوائی، نامرادی (Depression)، مایوسی اور ضلالت سے بچاتی ہے، بھٹکتی ہوئی زندگیوں کو صراط مستقیم دکھاتی ہے۔ امید کی کرن دکھاتی ہے۔ نا امیدی کو دور کرتی ہے۔ دنیاوی زندگی میں عزت و احترام عطا کرتی ہے اور آخرت میں جنت کی بشارت دیتی ہے۔
زندگی کے ہر حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ذریعے رہنمائی ملتی ہے اور چھوڑنے پر تاریکی (Darkness) — جہاں انسان صرف بھٹکتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی کا سکون چھن جاتا ہے۔ زندگی بے مقصد اور بے اثر ہو جاتی ہے۔ اضطرابی حالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ضلالت زندگی کا اہم حصہ بن جاتی ہے۔ جس کو ہم لوگ اپنے ارد گرد بخوبی محسوس کرتے ہیں۔ عزت و احترام سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ دنیا میں اللہ کی فضیلت کی جگہ اس قوم کو ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ آج کل ہم لوگ خود دیکھ رہے ہیں۔
دور جاہلیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امین اور صادق کہا گیا۔ یاد رہے کہ نبوت کے بعد میں بھی آپ کو صادق اور امین کہنے والے لوگ کلمہ کے شریک نہ تھے، مومن نہ تھے۔ ایک خدا کو ماننے والے نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچ بولنے والے اور امانت دار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی بھی خیانت نہیں کی۔ اس بات سے مکہ کے لوگ اچھی طرح واقف تھے۔ صداقت اور ایمانداری میں آپ کی مثال دی جاتی تھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی۔ نبوت کے پہلے اگر لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش آتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کراتے۔ آپ سچائی اور ایمانداری کے ساتھ فیصلہ کرتے۔
پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چینی کی حالت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور اپنی پریشانی کی کیفیت بیان کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی کسی مصیبت میں نہیں ڈالے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رشتہ داروں، غریبوں، یتیموں، مسافروں اور مسکینوں کا خیال رکھتے ہیں۔ بیواؤں کی مدد کرتے ہیں۔ لوگوں سے حق و انصاف کی بات کرتے ہیں۔
رشتے داروں کا خیال کرنا، یتیموں، مسکینوں، غریبوں کا خیال رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شیوہ ہے۔ تمام انسانوں سے (بغیر کسی تعصب کے) ہمدردی رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ جھوٹ نہ بولنا، بے ایمانی نہ کرنا، امانت کی حفاظت کرنا، انصاف قائم کرنا، پسماندہ طبقے کو ان کا حق دینا، حرام نہ کھانا، شریک حیات کی عزت و احترام کرنا، اپنی لڑکیوں کو لڑکوں کی طرح ہی شفقت ومحبت کے ساتھ دیکھنا، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا عورتوں اور ضعیفوں کی عزت کرنا، وعدہ خلافی نہ کرنا، یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں شامل ہے۔
ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانا، دوسرے کے کام آنا، اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا، بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانا، لوگوں کے ساتھ معاملات کو درست رکھنا، غیبت سے باز رہنا، غریب غرباء کو کھانا کھلانا، نرمی سے بات کرنا، رضاعی ماں کی عزت کرنا، یتیموں کی سرپرستی اور کفالت کرنا اور پڑوسیوں سے نیک سلوک کرنا وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اللہ تعالی کے پیغام (دعوت و تبلیغ) کو لوگوں تک پہنچانا، اللہ کی راہ میں جان نثار کرنا، برے کاموں سے لوگوں کو روکنا اور اچھے کاموں کا حکم دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
رضاعی ماں اور رضاعی بھائی بہن کا احترام کرنا اور ان کا حق دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اپنے خالق سے مضبوطی کے ساتھ رشتہ قائم کرنا، احکام الہی کی پابندی کرنا، صلاۃ قائم کرنا، اللہ کے گھروں میں اپنے بچوں کا نکاح کرنا، تجارت کرنا، سود نہ کھانا اور سود نہ دینا وغیرہ۔ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا (سورہ بقرہ: 275) مگر ہم لوگ اس کو سنت نہیں سمجھتے بلکہ اس کی خلاف ورزی کرکے اس کو دنیا داری سے تعبیر کرتے ہیں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل نہ کرتے ہوئے ہم لوگوں نے اللہ سے اپنے رشتے کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ آپ کے پاس لاکھوں لوگوں کی مثال ملتی ہے جو غیر ایمان کی حالت میں آپ کے پاس آتے اور مشرف بہ اسلام ہوتے۔ یہ آپ کی سنت کی مثال ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ (وصیت) میں فرمایا کہ ” اے لوگوں! آج میں جاہلیت کے تمام قواعد و رسوم کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوں ۔ میں جاہلیت کے قتل کے جھگڑے کو ملیامیٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے دست بردار ہوتا ہوں۔ میں زمانہ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندان میں عباس بن عبدالمطلب کے سود سے دستبردار ہوتا ہوں۔”
آگے فرمایا: "لوگوں! مذہب (دین) میں غلو کرنے سے بچتے رہنا (ملاوٹ نہ کرنا)، تم سے پہلے کی قومیں اسی وجہ سے برباد ہوئی ہیں ۔”
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اے اہلِ کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو۔” (سورہ نساء: 171)
اے لوگوں! صرف ظاہری دکھاوے سے رسول سے حقیقی محبت قائم نہیں ہوگی بلکہ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے سے اور عمل صالح کرنے سے ہی ہوگی۔
ہم لوگوں کی کامیابی کا راز اللہ کی کتاب (قرآن) اور رسول کی سنت میں موجود ہے مگر ہم لوگ اپنی نادانی اور لاعلمی کی وجہ سے کامیابی کی منزل غیر اللہ کی کتاب اور غیروں کی سنت یا یوں کہیں کہ مخلوق کی کتاب میں تلاشتے رہتے ہیں۔اسی لئے ہم لوگوں کو ادھر ادھر بھٹکنا پڑ رہا ہے۔
ہم لوگوں نے جھوٹ، فریب، نفرت، دھوکہ، مکاری، خود غرضی وغیرہ کی محبت اپنے دلوں میں بٹھا دی ہے جس کو دلوں سے نکالنا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم سنت جس کو اپنانے پر عزت و احترام نصیب ہوتا ہے۔ جیسے سچائی، وفاداری، ایثار وقربانی، رحمدلی، حق گوئی ،انصاف پسندی وغیرہ کی محبت اپنے دل سے ہٹا دی ہے جس کو قائم کرنا تھا۔ جو اللہ کے احکام اور رسول کی سنت کے سراسر خلاف ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہم لوگ سچ اور جھوٹ، حرام وحلال، نیکی اور بدی وغیرہ میں تمیز کرنا بھول گئے۔
ہم لوگ میٹھا کھانے کی سنت کو تو یاد رکھتے ہیں جو کھانے کے ذائقے کو بدل دیتا ہے لیکن اس سنت کو بھول جاتے ہیں جو زندگی کے ذائقے کو بدل دیتا ہے، اس کی سوچ و فکر کو بدل دیتا ہے، اس کے طرز عمل کو بدل دیتا ہے۔ ہم لوگوں نے ایک میٹھا کھانے تک اس (حکمت سے لبریز) سنت کو محدود کر دیا۔ غور کرنے کی بات ہے، اپنی سوچ و فکر پر ازسرنو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کی سنتوں کو کیا سے کیا کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے زمانے کی بات ہے۔ بیت اللہ کی وجہ سے شہر مکہ کو ہمیشہ عزت واحترام حاصل رہا ۔ جاڑے میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں ملک شام کی طرف تاجروں کا قافلہ آتا جاتا رہتا تھا۔ یہ مکمل طور پر قبائلی دور تھا۔ کوئی اصول اور نظام نہیں تھا۔اس میں لوٹ مار عام سمجھی جاتی تھیں۔ اس میں کوئی بعید نہ تھا۔ صرف شہر مکہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں ایسی حرکت ہوتی رہتی تھی۔
کسی کا مال یا سامان خرید کراس کو پیسہ نہیں دینا یا پریشان کرنا، اس زمانے کا عام رواج تھا۔ ان حرکتوں سے تاجر بہت پریشان رہتے تھے۔ اسی دور میں ملک یمن کا ایک تاجر اپنے سامان کو فروخت کرنے کے لیے مکہ آیا۔ اس نے ایک بڑے تاجر کو اپنا سارا سامان فروخت کر دیا۔ مگر وہ بڑا تاجر اس درویش (تاجر) کو پیسے کے لیے ٹال مٹول کرتا رہا۔ آخر کار وہ تاجر مکہ کے دوسرے لوگوں سے ملا اور انکو اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔ اس پر قبیلۂ قریش کی غیرت جاگ گئی اور انہوں نے بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم وغیرہ کو بلایا۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی شامل ہوئے جبکہ آپ کی عمر مبارک ابھی صرف بیس سال کی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کا تاریخی طور پر پہلا معاہدہ تھا جو 590ء میں قرار پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی قسم کاابھی کوئی تجربہ نہ تھا۔
شہر مکہ میں یہ معاہدہ امن و امان قائم کرنے کے لیے ہوا تھا۔ ظلم و زیادتی اور انسانی حق تلفیوں کے خلاف مظلوموں اور ستم رسیدہ انسانوں کے انجمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی تھی۔ انجمن میں جو باتیں طے ہوئیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ ملک سے بدامنی دور کریں گے 2- مسافروں کی حفاظت کریں گے 3- غریبوں کی مدد کریں گے 4۔ طاقتور لوگوں کو کمزور لوگوں پر ظلم و زیادتی سے روکیں گے۔
یہ پہلا عام انسانی معاہدہ تھا جس کے ذریعے انسانی حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں نہ تو کوئی قوم، نہ ہی مذہب، اور نہ ہی نسل کا فرق رکھا گیا۔ اگر قائم کیا گیا تو صرف انصاف کو۔ یہ معاہدہ (حلف الفضول) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر عزیز رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی کوئی شخص اس انجمن کے نام سے کسی مظلوم کی مدد کے لئے بلائے تو میں سب سے پہلے آگے بڑھوںگا۔ مظلوموں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت تھی کہ مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مذاہب اور قبائل سے جو دستاویزی معاہدہ کیا تھا اس میں یہ شرائط بھی شامل کی گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے فرمایا: اس معاہدے کے بدلے اگر کوئی مجھے سرخ اونٹ بھی دے گا تو بھی میں اس معاہدہ پر عمل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹوںگا۔ آج بھی کم و بیش ہر جگہ حق تلفی، زیادتی، لوٹ مار دیکھنے کو ملتی ہیں مگر کوئی اپنی زبان نہیں کھولتا۔
اے لوگوں! تم کو ہر چیزوں کی فکر ہے، دنیاوی اعتبار سے، اپنے اولادوں کے روزگاروں کی، دنیا داری کی، دوست و احباب کی، دنیاوی زندگی کی، مگر فکر نہیں ہے تو صرف الله کی، آخرت کی زندگی کی اور ابدی زندگی کی جہاں تم لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ "اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ (احکام الہی) کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں بھی اپنی جانوں سے غافل کر دیا۔ (سورہ حشر: 19)
آخر کس بات کی ضد ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت اور دین کو قائم کرنے سے گریز کرتے ہو؟ کتنے ہی دین کے نام لینے والے اپنی خوبصورت تحریروں اور تقریروں کے ذریعے دین کے نام پر کام کرنے والے اپنی زندگی میں اور اپنے گھروں میں دین (احکام الٰہی) کو قائم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ہم لوگوں کو بھی خود کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ آخر اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول کی سنت کو قائم کرنے سے کس نے روکا ہے؟
اسی طرح حقوق العباد کو کم سے کم ہم لوگ اپنے گھروں میں، اپنے رشتے داروں میں، اپنے پڑوسیوں میں تو قائم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینا، جو عام طور سے دینے میں گریز کرتے ہیں یا بہت جگہ دیا ہی نہیں جاتا ۔ یا صرف نام کے لئے دیا جاتا ہے۔ احکام الہی کے حساب سے تو دے ہی سکتے ہیں، جس سے ہم لوگ عموماً گریز کرتے ہیں۔ یتیموں کو ان کا حق دینے سے کس نے روک رکھا ہے؟
اللہ کے رسول نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو لاگو کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی اور راستہ دکھایا کہ یتیموں و بے سہاروں کی مدد کس طرح کی جاتی ہے، رشتے داروں کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے، پڑوسی اور ہمسائے کا حق کیسے ادا کیا جاتا ہے، نسلی امتیاز کو کس طرح سے ختم کیا جاتا ہے، عام لوگوں کے ساتھ کس طرح کا اخلاق پیش کیا جاتا ہے، محروموں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا جاتا ہے، جس کی کوئی مثال اور نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہ سارے کام نبوت کے پہلے بھی اور بعد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ شاعروں یا فلسفیوں کی طرح صرف لفظوں میں استعمال نہیں کیا۔ بلکہ جو بھی کہا اسے عملی جامہ پہنایا۔ پوری دنیا کے سامنے ایک اہم نظام حکومت قائم کر کے صرف 20 سال میں دکھا دیا کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے؟ سیاسی نظام کیا ہے؟ معاشی نظام کیا ہے؟ عسکری پالیسی کیا ہے؟ انسانی مساوات کیا ہوتی ہے؟ جبکہ اس وقت قبائلی دور میں انسانی مساوات کا تصور ناپید تھا۔ اسے ایک عیب کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ نظام حیات کن چیزوں کو کہتے ہیں دیکھ لو بعد میں یہ کہنے کو نہ رہے کہ آخری رسول نے ان چیزوں میں ہماری رہنمائی نہیں کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر حج کے وقت بنی نوع انسان کو وصیت کی۔ وہ ایک خطبہ ہی نہیں تھا بلکہ ایک اہم وصیت تھی، اس میں انسانیت کا عظیم سرچشمہ موجود ہے۔ اس پر عمل کرنا اس کے ماننے والے پر لازم اور فرض ہے۔ وہ اختیاری نہیں ہے۔
اس وصیت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لاکھ پچیس ہزار لوگوں سے گواہی لی اور اس کو آنے والی نسل تک پہنچانے کی تاکید فرمائی تاکہ قیامت تک انسانیت کا عظیم سرچشمہ پہنچتا رہے۔ کوئی بھی اس سے باقی اور اچھوتا نہ رہ سکے۔ اس کا ذمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو دیا اور اللہ سے بھی گواہی لی کہ اے اللہ تم لوگوں پر گواہ رہنا۔
نبی اصل میں اپنی قوم کا باپ ہوتا ہے۔ ایک ایسا باپ جو صرف اپنے بچوں سے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے بچوں سے بھی اسی طرح محبت کرتا ہے۔ وہ بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے کہ کہیں میرا بچہ غلط صحبت میں نہ پڑ جائے، کسی غلط راہ پر نہ چلا جائے اور بعد میں اسے پچھتانا نہ پڑے، اسکو شرمندگی محسوس ہو اور وہ اپنے باپ سے نظر نہ ملا سکے۔
اس لیے وہ کبھی اپنے بچوں کو خطبہ نہیں دیتا کہ میری بات چاہو تو مان لو یا نہ چاہو تو نہ مانو۔ بلکہ باپ ہمیشہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ میں جو بھی بول رہا ہوں وہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے ہے۔ تمہاری کامیابی وکامرانی اور فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو ناکامیاب ونامراد ہو جاؤ گے۔ بے حیثیت ہو جاؤ گے۔ بے قدر ہو جاؤ گے۔ ضلالت وگمراہی تمہاری مقدر بن جائے گی۔
محسن انسانیت صرف اپنے قوم سے ہی محبت نہیں کرتا ہے, بلکہ وہ نوع انسانی سے محبت کرتا ہے وہ نوع انسانی کو حکمت کی بات بتاتا ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں تم کو کس طرح کامیابی حاصل ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہمارا بچہ کہیں گمراہ نہ ہو جائے، غلط راہ کو نہ اپنا لے، قیامت کے دن ذلیل و رسوا نہ ہو جائے، اللہ کے یہاں مجرم نہ ہو جائے۔ آنکھ والا ہونے کے باوجود اندھا بن کر نہ اٹھایا جائے۔ خیال رہے کہ مجرموں کو قیامت کے دن اندھا اٹھایا جائے گا۔ آنکھ رہے گی مگر جس طرح وہ دنیاوی زندگی میں اللہ کے احکام سے اندھا بنا رہا تو اللہ بھی اسے اندھا اٹھائے گا۔ بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ نہ دے دیا جائے۔ گلے میں طوق نہ پہنا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کی بہت فکر تھی۔
نبی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے، اس کے علم میں ہے کہ دوسرے نبیوں کی قومیں کس طرح ذلیل ہوئیں، رسوا ہوئیں، اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوا، اللہ نے نبیوں کی دعائیں قبول نہیں کی، دنیا جہاں میں ان کا نام و نشان باقی نہ رہا، صف دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا دی گئیں، اپنے نبیوں کی بات نہیں ماننے کی وجہ سے۔ اپنے باپ کی بات نہیں ماننے کی وجہ سے۔
اللہ نے صرف کچھ ہی قوموں کا قرآن میں ذکر کیا ہے۔ اس کا ہم لوگوں پر احسان ہے کہ اس نے گمراہ قوموں کا ذکر کر کے سبق لینے کو اور بچ کر رہنے کو کہا ہے۔ ان گمراہیوں سے جس کی وجہ سے وہ قومیں تباہ کر دی گئیں، برباد کر دی گئیں، اور آخرت کا عذاب تو ایک الگ اور ہمیشہ باقی رہنے والا عذاب ہے۔ اللہ ہم لوگوں کو رسوائی اور ضلالت سے بچائے۔ آمین!
دنیا کے جو بھی مشہور خطبات ہیں، سب کے سب وقت کے ساتھ بے اثر ہو گئے، کیونکہ وہ سب ایک خاص وقت اور حالات کے لئے ہی تھے، ہمیشگی کے لئے نہیں۔ اور نہ اس بات پر خطیب کوئی ضمانت دے رہا ہے کہ دنیا اور آخرت میں تم کامیاب ہی رہو گے اور نہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آنے والے تبدیلئ وقت کے ساتھ یہ خطبہ اسی طرح اثر پذیر بنا رہےگا۔ جبکہ محسن انسانیت کے وصیت کے ساتھ اس بات کی ضمانت ہے کہ اس وصیت پر عمل درآمد کرنے پر دنیا اور آخرت کی کامیابی یقینی ہے۔ اسلام کے دور اول میں اس کے ماننے والوں کو کامیابی مل چکی ہے۔ پوری دنیا ان کے قدموں میں آ گئی، جب تک وہ لوگ اس وصیت پر عمل کرتے رہے۔ اس بات کی بھی ضمانت موجود ہے کہ نبی کی وصیت میں کہ اس کی بات ماننے پر اور عمل صالح کرنے پر قیامت کے دن آپ کا نبی آپ کے ساتھ کھڑا رہےگا، آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا، آپ کو رسوائی اور ضلالت سے بچائےگا، اللہ سے آپ کے حق میں مغفرت کی دعا کرے گا جبکہ آپ کا خطیب نہ تو دنیا میں آپ کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہے گا اور نہ آخرت میں۔ یاد رہے کہ جب محسن انسانیت کی وصیت کو ہم نے نہیں مانا، اس کی خلاف ورزی کی تو کس طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہیں یہ بات ہم سب کو معلوم ہے۔
خطبہ کا بنیادی نقطہ صرف دنیاوی کامیابی پر ہی ہوتا ہے، آخرت پر بالکل نہیں، اور ہر خطبہ ایک خاص وقت کے لیے ہی ہوتا ہے، اس کے بعد وہ خطبہ اس قوم کے لیے بھی بے اثر ہو جاتا ہے۔ جبکہ وصیت کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ محسن انسانیت نے اپنی زندگی میں کبھی بھی شعلہ بیان خطاب نہیں کیا، جبکہ دور جاہلیت میں عرب کی سرزمین اپنے شعلہ بیان خطیبوں سے بھری ہوئی تھی۔ محسن انسانیت نے جو کچھ کہا وہ بہت ہی نصیحت کے ساتھ اپنی قوم اور نوع انسانی سے کہا، وہ قیامت تک آنے والے لوگوں سے کہا، جیسا کہ معلوم ہے کہ دور جاہلیت میں عرب میں ایک سے بڑھ کر ایک شعلہ بیان خطیب ہوا کرتے تھے مگر خطاب کرنے والا کبھی بھی خود کو اس خطاب سے باندھتا نہیں تھا۔ وہ صرف مخاطب لوگوں کے لیے ہوا کرتا تھا۔ مگر رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں جو خطاب لوگوں سے کیا اس پر سب سے پہلے خود عمل پیرا ہونے۔
آخری نبی اپنی قوم کو وصیت کر رہا ہے کہ:
- اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
- لوگوں کی جان ومال اور عزت و آبرو کا خیال رکھنا، نہ تم لوگوں پر ظلم کرو، نہ قیامت میں تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا۔ تمہارا مال اور تمہارا خون ایک دوسرے پر حرام ہے۔
- کوئی امانت رکھے تو اس میں خیانت نہ کرنا، سود کو حرام قرار دیا اور اس کے نزدیک جانے سے روکا۔
- کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر اولیت حاصل ہے، اگر کسی کو اولیت حاصل ہے تو صرف تقوی پر۔ سب کا خدا ایک ہی ہے، تم سب کا باپ (حضرت آدم علیہ السلام) بھی ایک ہی ہے۔
- جو کچھ خود کھاؤ وہی اپنے غلام کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔
- عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، تم نے اللہ کا نام لے کر اپنی زوجیت میں اسے قبول کیا ہے، اس کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔
- اے لوگوں! آج میں جاہلیت کے تمام قواعد ورسوم کو اپنے قدموں تلے روندتا ہوں۔ میں جاہلیت میں قتل کے جھگڑے کو ملیامیٹ کرتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندانی مقتول ربیعہ بن حارث کے خون سے جسے بنو ہذیل نے قتل کیا تھا، دستبردار ہوتا ہوں، میں زمانہ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے خود اپنے خاندان میں عباس بن عبدالمطلب کے سود سے دستبردار ہوتا ہوں۔
- اے لوگوں! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے، بس تم سب اللہ کی عبادت کرو، نماز پنجگانہ کی پابندی کرو، رمضان کے روزے رکھو، خوش دلی سے اپنے مال کی زکوۃ نکالو، اللہ کے گھر کا حج کرو، حکام امت کے احکام مانو اور اپنے اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرو۔
- اے لوگوں! مذہب میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے کی قومیں اسی سے برباد ہوئی ہیں، اس کے بعد قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور دین اسلام پر اپنی رضامندی کی مہر لگا دی۔ (سورہ المائدہ، آیت: 3)
اے لوگوں! کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟ لوگوں کی بھاری بھیڑ ایک ساتھ بول اٹھی، ہاں اللہ کے رسول۔ تب اللہ کے رسول نے تین مرتبہ اس کو دہرایا۔ اے اللہ تو گواہ رہنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو قیامت تک کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ اللہ کی کتاب (قرآن) اور اپنی سنت (حدیث) دیا تا کہ تم کبھی گمراہ نہ ہو ، کبھی بھٹکو نہیں، تمہارے ارد گرد تاریکی نہ رہے، تمہارے فیصلے نوع انسانی کی بھلائی کے لئے ہوں، نوع انسانی کو راہ دکھانے کے لئے ہوں، دونوں جہان کی کامیابی کے لئے ہوں، لیکن امت نے کتاب کو چھوڑ دیا اور سنت کو ترک کر دیا اور اس راہ کو اپنا لیا جس پر انسان بھٹکتا رہتا ہے، ضلالت اس کو گھیرے رہتی ہے۔جس شخص سے انسان پیار کرتا ہے اس شخص کی تمام چیزوں سے انسان پیار کرنے لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی چند چیزوں سے پیار کرے اور بقیہ چیزوں کو نظر انداز کر دے۔ تب آپ اس شخص سے حقیقی پیار نہیں کرتے ہیں۔ ہم لوگ تو عاشق رسول ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ عاشق تو معشوق پر فدا ہونے کا نام ہے، اپنی جان کو نچھاور کرنے کا نام ہے لیکن ہم لوگ تو ایسے عاشق ہیں کہ معشوق پر فدا ہونا تو درکنار اپنے معشوق کی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور پھر بھی ہم عاشق رسول ہیں۔
ہمارے معشوق ( رسول اللہ ) نے حکمت کی بات بتائی، دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے کی بات بتائی، ایک اللہ پر توکل کرنے کی بات بتائی، صلاۃ کو قائم کرنے کی بات بتائی، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی بات بتائی، رشتے داروں کو حق دینے کی بات بتائی، اپنے بھائی بہنوں کو وراثت میں حصہ دینے کی بات بتائی، کسی کے ساتھ بھی حق تلفی نہ کرنے کی بات بتائی، پڑوسیوں کے حقوق کی بات بتائی (جو موجودہ دور میں دیکھنے کو نہیں ملتی)، اس کے حقوق کو سلب کیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ قطعی مسلمان نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔” (حدیث بخاری و مسلم) ہم خود اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ کیا ہم سے ہمارا پڑوسی محفوظ ہے؟
اللہ کے عہد پر قائم رہنے کی بات بتائی، حرام نہ کھانے کی بات بتائی، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی بات بتائی، صلہ رحمی کرنے کی بات بتائی، آپسی معاملات کو درست کرنے کی بات بتائی، تعلقات منقطع نہ کرنے کی بات بتائی، پسماندہ طبقات کو حق دینے کی بات بتائی، تعصب کو ختم کرنے کی بات بتائی، کتاب اور سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی بات بتائی جو گمراہی اور ضلالت سے بچاتی ہے۔ شریک حیات سے نیک سلوک کرنے کی بات بتائی۔ اپنی زندگی میں تقوی پر چلنے کی بات بتائی، جو نجات کا راستہ ہے، اللہ کا پسندیدہ راستہ ہے۔
ہمارے سامنے بے شمار عاشق رسول اور صحابہ کرام کی مثال موجود ہے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہوئے احکام الہی کو اپنی زندگی کا اہم ترین حصہ بنا لیا۔ رسول کی سنت اور احکام الہی کو عرب کی سرزمین سے نکال کر تمام دنیا میں پھیلا دیا۔ اپنی محدود کوششوں یا عزم سے لامحدود کارنامے کر کے دکھا دیے، جس کی دنیا میں دوسری کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ رسول کی سنتوں میں اہم سنت تھی کہ وہ نماز قائم کرنے والے تھے، اللہ کو سجدہ کرنے والے تھے، حضرت آدم اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کی سنتوں کو قائم کرنے والے تھے، ان سنتوں کو قائم کرنے والے تھے جن کو یہود و نصاری نے ضائع کردیا تھا۔
یہود و نصاریٰ کے یہاں پہلے شخصی طور پر نماز کو ترک کیا گیا اور پھر دھیرے دھیرے انہوں نے اجتماعی طور سے ترک کر دیا اور آخر کار صلاۃ کا تصور ہی ختم کر دیا گیا۔ کم وبیش ہم لوگوں کے یہاں بھی پہلے شخصی طور پر نماز کو ترک کر رہے ہیں جبکہ نماز رسول کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ رسول کی امت ہونے کے ناطے ہم لوگوں کا اہم ترین کام ہے کہ نماز قائم کرکے رسول کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچایا جائے۔
ایک مومن (مرد اور عورت) کا نماز کے بغیر تصور ہی ناممکن ہے، نماز کو ترک کر کے اس کا گلا نہ گھونٹا جائے، نماز کو ترک کرکے ہم لوگ ان نافرمان قوموں کی فہرست میں شامل ہو جائیں جو نماز کو ضائع کرنے والی قوم ہوگی۔ اللہ کے یہاں ہمارے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہ ہوگا۔
نماز صرف رسومی عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اللہ سے قرب حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وہ بہت سی انسانی برائیوں کو دور کرتی ہے، برے کاموں اور بہت سی بیماریوں سے انسان کو بچاتی ہے، ایکسرسائز ((Exercise کے ذریعے انسانوں کو بے روگ بناتی ہے۔ سجدہ جیسی دوسری کوئی بھی ایکسرسائز((Exercise نہیں ہے جس میں خون کو دماغ لاتی ہے وغیرہ۔ دن بھر میں نماز ایک مومن کو 48 رکعات کے ذریعے ایکسرسائز ((Exerciseکراتی ہے۔ وضو کے ذریعہ دن بھر میں پانچ مرتبہ نمازی کو تر و تازہ کرتی ہے، فحش کاموں سے انسانوں کو بچاتی ہے، ہم لوگوں نے اس کو ترک کر دیا ہے، اس لیے ہمارے یہاں غیروں کی طرح ہی فحش کا بول بالا ہے۔ برائیوں کا بول بالا ہے، زندگی میں اچھائی لانے والی چیزوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جو آپ کے محلے اور شہر میں آپ کو عزت و احترام عطا کرتی ہے اور موت کے بعد جنت۔ نماز کے ذریعہ اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے۔ یہی کسی بھی انسان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اے لوگوں! تمہارے آباؤ اجداد تو نماز قائم کرنے والوں میں سے تھے، اللہ کو سجدہ کرنے والے لوگوں میں سے تھے، زکوۃ دینے والے لوگوں میں سے تھے، بھلائی کا حکم دینے والے لوگوں میں سے تھے، اور برائی سے روکنے والے لوگوں میں سے تھے، اور آپ لوگوں نے اسے ترک کر دیا۔ اذان سن کر بھی نماز کی طرف نہیں آتے، اللہ کی طرف نہیں آتے، اگر معلوم کرنا ہے تو معلوم کر کے دیکھ لو اپنے آباء و اجداد کے بارے میں۔
اگر ہم لوگ نماز کو اسی طرح ترک کرتے رہے تو بہت اہم چیزوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اللہ سے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ اللہ سے آپ کی دعا قبولیت سے خالی رہے گی۔ آپ کے مانگنے کا ذریعہ ختم ہو جائے گا۔ آپ کی زندگی اللہ کی نصرت اور رحمت سے خالی رہے گی۔ اس اللہ کو بھول گئے جس نے آپ کو بال بچوں سے نوازا، رزق رسانی فراہم کی، روشن کتاب دیا جس میں اچھائی اور برائی کا فرق بتا کر زندگی کو اچھائی کی طرف لے جانے کی راہ بتائی۔ اس نے نوعِ انسان کو بھٹکا کر نہیں رکھا، اندھیروں میں نہیں رکھا کہ بعد میں نوعِ انسان یہ کہے کہ ہمارے پاس کوئی کتاب آئی نہیں تھی۔ جس کے ذریعہ ہم ہدایت پا سکتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب کو اللہ نے Hard Copy اور Soft Copy میں حفاظ کے قلب میں محفوظ کر دیا، جس کی نوعِ انسان کی تاریخ میں حفاظت کرنے کی دوسری کوئی بھی نظیر نہیں ملتی ہے۔ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے، اس لئے ہم لوگ اس کو سجدہ کرنے والے بنیں، صلاۃ قائم کرنے والے بنیں۔ رزق کی تنگی برقرار رہے گی اور برکت بھی ختم ہو جائے گی۔ پیسہ ہونے کے باوجود اس میں برکت نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی۔ آپ بال بچوں سے فائدہ اٹھانے سے خالی رہیں گے۔ بچے آپ کی بات کو نظر انداز کر دیں گے۔ باپ اور بیٹے کے تعلقات کمزور ہو جائیں گے۔ کیونکہ آپ نے بھی اپنے خالق (اللہ) سے تعلقات کو کمزور کردیا ہے۔ الجھن اور پریشانیوں کا سلسلہ قائم رہے گا۔ جنت کی کنجی گم ہو جائے گی۔ تلاش کرنے پر بھی نہ ملے گی، چونکہ آپ نے خود اس کنجی کو کھو دیا ہے، آپ نے ابدی زندگی کی کنجی کو کھو دیا ہے، عذاب قبر سے بچنے کی کنجی کو کھو دیا ہے، جب انسان کسی چیز کو جان بوجھ کر کھو دیتا ہے تو اس کو وہ دوبارہ نصیب نہیں ہوتی ہے، یہ قدرت کا نظام ہے۔ جوانی جیسی عظیم نعمت کو اللہ کی راہ میں لگانے سے چھوڑ دیا ہے تو وہ دوبارہ نصیب نہیں ہوگی۔ اگر رسول اللہ نعوذ باللہ دنیا میں تشریف نہ لاتے تو دنیا کیسی ہوتی، اس کا اندازہ لگا پانا بہت مشکل نہ ہوتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوہ افروز ہونے کے پہلے دنیا قائم تھی۔ انسان زندہ تھا مگر شرک کی وجہ سے اس کے احساسات مردہ تھے۔ اس کے قلب زنگ آلود تھے۔ اس کے پاس آنکھیں تھیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔ اس کے کان تھے مگر وہ سن نہیں سکتا تھا۔ اس کے پاس زبان تھی لیکن وہ حق بات بول نہیں سکتا تھا۔
اس کا کئی بار تجربہ خود انسان رسول اللہ کے جلوہ افروز ہونے سے پہلے کر چکا تھا۔ جب سے دنیا قائم ہوئی، اللہ نے بہت سے نبی بھیجے مگر بہت ہی قلیل وقت کے بعد ان کی قوموں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں لگ بھگ 900 سال تک تبلیغ کا کام کیا، لیکن خود ان کی بیوی اور بیٹے نے قوم کے ساتھ ساتھ ان کا انکار کر دیا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں صرف کچھ ہی حواریوں نے ان کی بات کو قبول کیا اور بقیہ لوگوں نے ان کی باتوں کو رد کردیا اور آج بھی رد کئے ہوئے ہیں۔
ان نبیوں کی قوموں کے پاس کان تھے مگر سماعت سے خالی تھے، آنکھیں تھیں مگر وہ دیکھ نہیں سکتی تھیں، زبان تھی مگر صداقت سے خالی تھی ، قلب تھے مگر وہ حق کو قبول نہیں کر سکتے تھے، صرف باطل کو ہی قبولیت حاصل تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک دنیا میں کتنے نبی آئے، شرک کا بادل چھٹتا تھا۔ اندھیرا ختم ہوتا تھا، روشنی آتی تھی، مگر کچھ ہی مدت کے بعد دوبارہ پھر اندھیرا قائم ہو جاتا تھا۔ اس لیے شرک کی وجہ سے انسان اندھا، بہرا اور گونگا بنا ہوا تھا۔ تمام نبیوں نے اس کو ختم کرنے کی کوششیں کیں لیکن مختصر وقت کے بعد انسانوں نے دوبارہ اپنے باپ دادا کے ہی راہ کو اپنایا، شرک کو ہی اپنایا، ایک خدا پر توکل نہیں کیا۔ حق کو قبول نہیں کیا، الگ الگ خدا پر توکل کیا۔ ان پر توکل کیا جو مخلوق تھے، خالق نہیں۔
تاریخ نویس تاریخ لکھتا اور دنیا میں انسان موجود ہے، اشرف المخلوقات موجود ہے، لیکن اس نے اپنی خاص خصوصیات کو کھو دیا ہے۔ انسانوں کی بھیڑ ہے جو اندھوں، بہروں اور گونگوں پر مشتمل ہے۔ جو حق دیکھنا، سننا اور بولنا نہیں جانتی۔ قلب ہے مگر حقیقت کو قبول کرنے سے قاصر ہے، صرف باطل کو ہی قبولیت حاصل ہے۔
Syed Sikandar Afroz
E-109, 2nd Floor
Near Hari Kothi, Abul Fazal Enclave -1, New Delhi 110025
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page