ہر قوم کی ترقی کا وسیلہ صرف تعلیم ہے : پرو فیسر نوین چند لوہانی،ڈین فیکلٹی آف آرٹس
شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ میں جشن سر سید تقریبات اختتام پذیر
ریختہ فاؤنڈیشن دہلی کوسر سید انٹر نیشنل ،جدید فاؤنڈیشن ٹرسٹ،دہلی کونیشنل اور ڈاکٹر معراج الدین کو سر سید نیشنل ایورڈ2021
میرٹھ22؍ اکتوبر2021ء
’’تعلیم ہی معاشرے کی فضا خوشگوار کر سکتی ہے۔کیونکہ اساتذہ کی کوئی ذات برادری نہیں ہو تی اور نہ وہ مذہب کی بنیاد پر اپنے طالب علموں سے کسی طرح کی تفریق کرتا ہے۔سر سید نے بھی تعلیم کو ہی سب سے زیادہ اہمیت دی اور خصوصاً جدید تعلیم کوکیونکہ وہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کی ترقی کے خواہاں تھے اور یہ سب تعلیم سے ہی ممکن تھا۔ہم سب کی سر سید کے لیے سچی خراج عقیدت یہی ہو گی کہ ہم ان کی دکھائی راہ پر چلتے ہوئے ان کے مشن یعنی تعلیم کو خوب پھیلا ئیں اور جہا لت کے اندھیروں کو دور کردیں‘‘یہ الفاظ تھے پرو فیسر وائی وملا کے جو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شعبۂ اردو،چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ ،سر سید ایجو کیشنل سو سائٹی اور بین الاقوامی نوجوان اردو اسکالرز ایسو سی ایشن کے مشترکہ اہتمام میں مفکر قوم،معروف دانشور اور ماہر تعلیم سرسید احمد خاں کے یوم پیدا ئش ۱۷؍ اکتوبر کے مو قع پر جشن سر سید تقریبات کے اختتامی اجلاس میں شعبے کے پریم چند سیمینار ہال میں ادا کررہی تھیں۔
واضح ہو کہ سالہا ئے گذشتہ کی طرح امسال بھی محسن قوم، عظیم تعلیمی رہنما سر سید احمد خاں کی یوم پیدا ئش کے مو قع پر جشن سر سید تقریبات کا اختتام شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی،میرٹھ میں ہوا۔ صدارت کے فرائض ڈین فکلیٹی آف آرٹس پرو فیسر نوین چند لوہانی نے انجام دیے۔مہمان ذی وقار کے بطور ڈاکٹر ہاشم رضا زیدی نے شر کت کی استقبال ڈاکٹر آصف علی،شکریہ سر سید ایجو کیشنل سوسائٹی کی صدر نایاب زہرا زیدی نے اور نظامت کے فرائض ڈا کٹر شاداب علیم نے انجام دیے۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز محمد صائم نے تلا وت کلام پاک سے کیا بعد ازاں مہمانوں نے مل کر شمع رو شن کی اور مہمانوں کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیا۔اس موقع پر تین ایورڈ تقسیم کیے گئے جن میں سر سید انٹر نیشنل ایورڈ برا ئے ادبی خدمات ریختہ فائونڈیشن،دہلی،سر سید نیشنل ایوارڈ برائے تعلیمی خدمات جدید فا ئونڈیشن، دہلی اور سر سید نیشنل ایوارڈ برا ئے سماجی خد مات ڈا کٹر معراج الدین احمد کو دیے گئے ۔ایوارڈ یافتگان کا تعارف باالترتیب تابش فرید، سیدہ مریم اور فرح ناز نے پیش کیا۔
اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ریختہ فاؤنڈیشن کے نمائندے نے ایوارڈ حاصل کر نے کے بعد کہا کہ ہم شعبۂ اردو اور اس کی مشترکہ تنظیموں کے بے حد شکر گذار ہیں کہ انہوں نے ایک عظیم شخصیت کے نام پرہماری خدمات کو سراہتے ہوئے ریختہ فاؤنڈیشن کا انتخاب کیا۔سر سید اس ملک کی روح ہیں۔ہمیں سر سید کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا تبھی ہم ان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر پائیں گے۔
جدید فاؤنڈیشن ٹرسٹ،دہلی کے نمائندے نے کہا کہ میں شکر گذار ہوں شعبۂ اردو کا جنہوں نے ایوارڈ کے لیے ہمارے ٹرسٹ کا انتخاب کیا۔یہ ایوارڈ ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ ہمیں سر سید کے مشن کو آگے بڑھانا ہوگا۔
شعبے کا شکریہ ادا کرنے کے بعدڈاکٹر معراج الدین نے کہا کہ سر سید نے ایسے پر آشوب دور میں قوم کی اصلا ح کی کمان سنبھا لی تھی جب ہر طرف تاریکی ہی تاریکی نظر آتی تھی۔انہوں نے قوم کو حوصلہ بخشا اوران حالات میں سر سید نے قوم کی فلاح و بقا کے لیے اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا۔
اسی دوران سر سیدتحریری و تقریری مقابلوں کے اول ،دوم،سوم اورکونسلیشن انعامات بھی بالترتیب تحریری مقابلے میں شعبۂ اردو کی ایم اے کی طالبہ افشاں خانم کو اول اور اسماعیل نیشنل پی جی کالج کی طالبہ اقرا پروین کو دوم انعامات سے نوازا گیا۔بی اے سطح پر ہوئے تحریری مقابلے میں،اسماعیل ڈگری کالج، دیوبند کے محمد صا ئم کو اول شعبۂ ہندی کے نکنج کودوم اور اسما عیل نیشنل پی جی کالج کی طا لبہ نزہت کو تیسرا اور محمد ارشد فیض عام ڈگری کالج کو کونسلیشن انعامات سے نوازا گیا۔بی اے سطح کے تقریری مقابلے میں رگھو ناتھ گرلز ڈگری کالج کی طالبہ لذینہ نقوی کو اول،اسلامیہ ڈگری کالج، دیوبند کے محمد صا ئم کو دوسرا،مسلم ڈگری کالج بلند شہر کی مو نیسہ کو تیسرا اور شعبۂ ہندی کے نکنج کوکو نسلیشن پرائز دیے گئے ۔ایم اے سطح کے تقریری مقابلے میں شعبۂ اردو کی علما ملک کو اول ،اسما عیل نیشنل پی جی کالج کی طالبہ ہما سیفی کو دوسرا انعامات سے سر فراز کیا گیا۔
پرو فیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ اس پر آشوب دور میں ایک فرد واحد کا اتنا بڑا کار نامہ ہماری ذہنی و تہذیبی تاریخ کا ایک مہتمم بالشان اور عجیب و غریب واقعہ ہے۔سر سید احمد خاں نے نہ صرف سیاسی ،مذہبی، معاشرتی، اقتصادی اور تہذیبی اصلا ح کے کامیاب منصو بے تیار کیے بلکہ اردو زبان کو بھی انہوں نے بہت کچھ دیا۔در باری اور خواص کی زبان کو سادہ،رواں اور عام فہم زبان میںلکھ کر اردو کو اس قابل بھی بنا دیا کہ وہ نہ صرف عوام کی دسترس میں آ گئی بلکہ علمی اور سائنسی موضوعات کی بھی متحمل ہو گئی۔
آخر میں اپنے صدا رتی خطبے میں پروفیسر نوین چند لو ہانی نے کہا کہ ہر قوم کی ترقی کا وسیلہ تعلیم ہے۔سر سید نے عصری تعلیم کے حوالے سے جو عظیم کار نامہ انجام دیا وہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔بچے جب تک تعلیم سے آراستہ نہ ہوں گے تب تک ان کی کامیابی نہا یت مشکل ہے ۔آج ہر شخص کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سائنس، سماج، کمپیوٹر،ٹیکنالوجی،انٹر نیٹ، وغیرہ کی تعلیمات سے سر فراز کریں تو یقینا معاشرے میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔اور اس سے سماج بھی ترقی پذیر ہوگا۔
پرو گرام میں پروفیسر جمال احمد صدیقی،ڈاکٹر یونس غازی،ڈاکٹر آمرین،ڈاکٹر فرحت خاتون ،ڈاکٹر انور پاشا،ڈاکٹر ارشاد سیانوی،سشیل سیتا پوری،حاجی عمران صدیقی،بھارت بھوشن شرما ،انل شر ما،مفتی محمد رضوان قاسمی،آفاق خاں، ذیشان خاں،طاہرہ پروین،مدیحہ اسلم، طلبہ و طالبات اور کثیر تعداد میں عمائدین شہر موجود رہے۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |