اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے: ایک جائزہ – محمد ریحان
روش کمار نے پروفیسر خالد جاوید کے ناول "نعمت خانہ” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ "مجھے خوشی ہے کہ میں خالد جاوید کو نہیں جانتا ہوں۔ کسی تخلیق کی قرأت سے قبل تخلیق کار کو جاننا یا اس کے بارے میں کسی بھی طرح کی جانکاری تخلیقی فن پارے کے مطالعے کی لذت کو متأثر کرتی ہے۔”
ڈاکٹر صغیر اشرف کی کتاب ” اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” جب میرے ہاتھ میں آئی اور اس کا مطالطہ شروع کیا تو میری زبان سے بھی بے ساختہ یہ جملہ ادا ہوا "مجھے خوشی ہے کہ میں ڈاکٹر صغیر اشرف کو نہیں جانتا ہوں۔” میری خوشی کا سبب مکمل طور پر وہ نہیں تھا جس کی بات روش کمار نے کی ہے۔ در اصل میری خوشی کا سبب یہ تھا کہ بعد از مطالعہ کتاب میں ڈاکٹر صغیر اشرف اور ان کی کتاب کے متعلق اپنی رائے قائم کرنے میں بہت آزاد اور معتدل محسوس کر رہا تھا۔ ایک خاص دوری سے چیزیں بہت صاف صاف دکھائی دیتی ہیں۔ میرے اور ڈاکٹر صغیر اشرف کی تحریر کے درمیان ان کی شخصیت حائل نہیں ہوئی۔ میں نے ان کے ادبی مقام و مرتبے کو ان کی تحریروں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور میری نظر میں یہی ٹھیک بھی ہے۔ مجھے یہاں ان کی ادبی حیثیت پر گفتگو نہیں کرنی ہے اور ایک کتاب کی مدد سے یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صغیر اشرف کی ادبی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ نظم و نثر کی بیشتر اصناف پر نہ صرف ان کی گہری نظر ہے بلکہ بقول ڈاکٹر نسیم احمد نسیم وہ ان کی تفہیم و تجزیے کا بھی بطریق احسن حق ادا کرتے ہیں۔ اس میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں کہ ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ "اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” ان کی شخصیت کا مکمل تعارف تو نہیں ہے تاہم یہ ان کی ادبی اور علمی اجتہاد کا نگار خانہ ضرور ہے۔
اگر کوئی شخص "اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” کا سرسری مطالعہ بھی کرے تو اس کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ ڈاکٹر صغیر اشرف کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔ کتاب کے مختلف اوراق پر یہ باتیں لکھی ہیں کہ وہ اچھے شاعر، فکشن نگار، ناقد، محقق، مضمون نویس، صحافی اور مصور ہیں۔ کتاب میں جہاں جہاں ان کی شخصیت کے جس حوالے سے بات کہی گئی ہے وہاں اس کی دلیل بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ اگرچہ ان کے متعلق لکھے گئے بیشتر مضامین کی نوعیت تبصرے کی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان پر بعض لکھنے والے اردو اور ہندی زبان و ادب کی مستند ادبی شخصیات ہیں۔ اردو کے جن اہم قلم کاروں نے ڈاکٹر صغیر اشرف کے فن اور ادبی نگارشات کو سراہا ہے ان میں پروفیسر افضال حسین، پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم عشرت ظہیر اور ڈاکٹر خان رضوان اہم ہیں۔ ہندی میں جے دیو ودروہی، ڈاکٹر اکھلیش کمار دوبے اور ڈاکٹر ستیہ پرکاش مشرا وغیرہ نے ڈاکٹر صغیر اشرف کے قلم کا لوہا تسلیم کیا ہے۔
"اردو تچقیق و تنقید کے حوالے سے” سات ابواب پر مشتمل ہے لیکن بنیادی طور پر اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ کتاب کا وہ گوشہ ہے جس میں مختلف موضوعات پر ڈاکٹر صغیر اشرف کے اپنے تنقیدی اور فکری مضامین ہیں۔ اس سلسلے کے سارے مضامین کتاب کے شروع میں رکھ دیے گئے ہیں، جن کی تعداد چودہ ہے۔ ان سارے مضامین میں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ فکشن تنقید، ادبی تاریخ، شاعری، فن موسیقی طنز و مزاح اور ہندوستانی و گنگا جمنی تہذیب پر ایک پڑھے لکھے عالم کی طرح گفتگو کی ہے۔ مجھے یہ کہنا چاہیے کہ یہی گوشہ اس کتاب مضبوط حصہ ہے۔ دوسرا حصہ ان کی شخصیت، علمی اور ادبی کاوشوں کا اعتراف نامہ ہے۔ اس ذیل میں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی زبانوں میں لکھنے والوں کی تحریریں بھی شامل ہیں ۔ ہندی مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا نام ہندی ساہتیہ میں بھی غیر معروف نہیں ہے۔ وہ اردو اور ہندی میں یکساں طور پر معروف و مقبول ہیں۔
"اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” کا بہت باریکی سے مطالعہ کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ شاعری اور افسانہ نگاری صغیر اشرف کی شخصیت کے دو بہت مضبوط حوالے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دیگر اصناف ادب اور علوم میں ان کی بڑی اہم خدمات ہیں اور ان کی قدر اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن میری نظر میں ان کی جو بنیادی شناخت بنتی ہے وہ بہر حال تخلیق کار کی ہی ہے جس کی چھاپ ہر جگہ مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر صغیر اشرف کی ایک کتاب ہے ” ٹھہرے ہوئے لمحے”۔ اب اس نام پر ذرا غور کریں۔ یہ نام جس قدر تخلیقی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی شعری یا افسانوعی مجموعہ ہے۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح "آئنہ در آئنہ” میں دیکھ لیں جو ہے تو مضامین کا مجموعہ لیکن گمان ہوتا ہے کہ کوئی افسانوی مجموعہ ہے۔ کتاب کے ناموں میں تخلیقیت کا یہ مظاہرہ بتاتا ہے کہ صاحب کتاب اصلا تخلیق کار ہیں۔
دوسری کتابوں کی بات چھوڑیے آپ "اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” کتاب میں صغیر اشرف کے مضامین کے عنوانات پر ذرا غور کریں:
مختلف الجہات ادبی شخصیت تھی علی سردار جعفری کی۔
خوش پوش و خوش فکر شخصیت تھی کنور مہندر سنگھ بیدی کی۔
سوچتا ہوں کہ پڑھوں آج میں صفیہ کے خطوط۔
مذکورہ بالا عناوین پہلی نظر میں اشعار کے مصرعے معلوم ہوتے ہیں۔ عنوان قائم کرنے کا یہ انداز چغلی کھا رہا ہے کہ صغیر اشرف کو تخلیقی رنگ و آہنک سے فطری لگاؤ ہے۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر صغیر اشرف پر اس حوالے سے مضامین نہیں لکھے گئے کہ ان کا فطری جھکاؤ تخلیق کی طرف کیوں ہے اور اگر لکھے گئے ہیں تو اس کتاب میں شامل کیوں نہیں ہیں؟ ان کے اوپر لکھے گئے مضامین میں اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے کو بہت اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ کتاب کے مشمولات پر نظر ڈالنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ اس میں کچھ مضامین اس طرح کے بھی ہونے چاہیے تھے جیسے:
ڈاکٹر صغیر اشرف کی تخلیقی جولانیاں اور اتراکھنڈ کے قدرتی مناظر۔
ڈاکٹر صغیر اشرف کی ذہنی تشکیل میں فطرت کا رول۔
ڈاکٹر صغیر اشرف، شاعری اور فطرت۔
یہ فریضہ خود صاحب کتاب بھی انجام دے سکتے تھے کہ اتراکھنڈ کی سرزمین اور وہاں کی آب و ہوا ان کو شاعر اور تخلیق کار بنانے میں کتنی مددگار ثابت ہوئی ہے۔ نیچر سے تخلیق کار کا رشتہ ازل سے ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے متأثر ہوئے ہیں۔
فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو نے اپنے ناول Les misérables میں ایک بڑی اچھی بات لکھی ہے:
C’est une triste chose de songer que la nature parle et que le genre humain n’écoute pas.
It is sad thing to think that the nature speaks and mankind does not listen.
صغیر اشرف صاحب کا تعلق اتراکھنڈ سے ہے. اتراکھنڈ بلند و بالا پہاڑی سلسلوں، ندیوں، جھیلوں اور جنگلوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں تقریبا اسی سے پچاسی فیصد حصے میں چھوٹے بڑے پروت ہیں۔ کہیں ندیاں اپنی موج میں بہہ رہی ہیں۔ کہیں قدرتی جھرنے رواں ہیں۔ کہیں دن میں سورج کی روشنی شفاف پانی پر رقص کرتی ہے۔ کہیں چاندانی رات میں نیلی جھیلوں کی پرسکون سطح پر چاند تیرتا نظر آتا ہے۔ یعنی اتراکھنڈ میں فطرت اپنی پوری راعنایئوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
وکٹر ہیو گو کے اقتباس سے یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ فطرت انسان سے کیا کہتی ہے؟ فطرت کو سننا سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک بہت دلچسپ موضوع ہے۔ ادب میں فطرت ایک اہم میٹر رہا ہے۔ بڑی زبانوں کے ادیبوں نے خاص طور پر ولیم ووڈز ورتھ، ایمرسن، کیٹس، تھورو اور علامہ اقبال وغیرہ نے فطرت کو سچائی اور حکمت و دانائی کے منبع کے طور پر دیکھا ہے اور اس پر اپنے قلم کی روشنائی صرف کی ہے۔ وکٹر ہیوگو اپنے مذکورہ بالا اقتباس میں در اصل یہ کہنا چاہتا ہے کہ فطرت مختلف علامتوں کے ذریعہ انسان کو بصیرت اور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ فطرت کی آواز کو شاعری یا یوں کہہ لیں کہ تخلیق سے بڑی مناسبت ہے۔ جو شخص فطرت کے قریب ہوگا وہ شاعری یا تخلیق کے قریب ہوگا۔ جس نے فطرت کی آواز سن لی وہ خود کو تخلیق کار ہونے سے نہیں روک سکتا۔ اونچے اونچے پروت کی کوکھ سے سورج کو ابھرتے ہوئے دیکھنا، جنگلوں میں طرح طرح کے پرندوں کی چہچہاہٹ سننا، پرسکون جھیل میں رات کے وقت چاند کو تکنا، ساحل دریا پر کھڑے ہوکر موجوں کی روانی دیکھنا، کتنا شاعرانہ اور کتنا رومانوی ہے۔ یہ مناظر آپ کو غیر محسوس طریقے سے شاعری یا فکشن کی دنیا میں لے جاتے ہیں اور پھر آپ شعر کہنے لگتے ہیں یا فکشن تخلیق کرنے لگتے ہیں۔
صغیر اشرف چونکہ شروع سے ہی فطرت کی گود میں پل رہے ہیں ایسے میں ان کا شاعر یا تخلیق کار ہونا بہت فطری ہے۔ صغیر اشرف صاحب کا جو بھی تخلیقی سرمایہ ہے وہ فطرت کی آواز کو غور سے سننے کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا ماحول تخلیق کے لیے بے حد سازگار ہوتا ہے۔ تخلیقی ذہن ویسے تو خدا دیتا ہے مگر ڈاکٹر صغیر اشرف کی تخلیقیت کو پروان چڑھانے میں اتراکھنڈ کے قدرتی مناظر کا اہم رول رہا ہے۔ ایسا مجھے لگتا ہے اور میرے غلط ہونے کا پورا امکان بھی ہے۔ لیکن کتاب میں حوالے کے طور پر پیش کیے گئے ان کے اشعار پڑھتے ہوئے میرے ذہن کے پردے پر بار بار کچھ فرانسیسی مقولے ابھر رہے تھے۔
فرانسیسی میں کہتے ہیں:
"La beauté brute des montagnes nourrit mon âme de poète”
The raw beauty of the mountains nourishes my poet’s soul.
پہاڑوں کی خام خوبصورتی نے ڈاکٹر صغیر اشرف کی روح کو بھی غذا پہنچائی ہے۔
اتراکھنڈ کے پس منظر میں یہ فرانسیسی کہاوت کتنی زندہ بات معلوم ہوتی ہے اور جس کا تعلق سیدھے طور پر ڈاکٹر صغیر اشرف کی شاعری سے ہے:
Chaque pierre, un souvenir.
Chaque breeze, un poème.
Each stone, a memory
Each breeze, a poem.
اب اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈاکٹر صغیر اشرف کی نظم "شام نینی تال” دیکھیے اور پھر غور کیجیے کہ اتراکھنڈ کے مناظر کس طرح ان کی شاعری پر اثر انداز ہوئے ہیں یا پھر ان کی شاعری میں رچے بسے ہیں۔
شام نینی تال
میں بہت تنہا اکیلا ہوں یہاں تیرے بغیر
آج پھر ویسا ہی موسم وہی تنہائی ہے
ہیں وہی دور تلک پھیلے ہوئے سناٹے
ہے وہی رت وہی ساون کی سہانی رم جھم
ہیں وہی شوخ ہواؤں کے حسیں زناٹے
ہے وہی جھیل وہی شام وہی پربت ہے
وہی سورج کی دھلی اور کھلی سی کرنیں
ہے وہی پیار کے موسم میں گھلی سی خوشبو!
اسی پرکیف سی شاداب حسیں وادی میں
اپنے ہونٹو سے مرے لب کو چھوا تھا تونے
پیار کی چھاؤں میں شانوں پہ مرے سر رکھ کر
دیر تک فضاؤں کو تکا تھا تونے۔
یہ نظم پڑھتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا جیسے ڈاکٹر صغیر اشرف وکٹر ہیوگو کی روح سے کہہ رہے ہوں کہ وہ اتراکھنڈ کے نواسی ہیں اور انہوں نے نیچر کی آواز نہ صرف سنی ہے بلکہ اسے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کے تخلیقی وجدان کو ندی، پہاڑ، جھیل، ہوا، سورج اور چاند نے بھرپور غذا پہچائی ہے۔
"اردو تحقیق و تنقید کے حوالے سے” کا تکنیکی تجزیہ بھی ضروری ہے۔ یہ کتاب 320 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈاکٹر صغیر اشرف کے چودہ مضامین نے 175 صفحات لیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 145 صفحات پر دوسروں کے مضامین اور تبصرے ہیں۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر صغیر اشرف ہیں۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ خود مصنف نے اپنے اوپر لکھے گئے مضامین اور تبصرے کو کتاب میں شامل کرکے کتاب کا نام ” اردو تنقید و تحقیق کے حوالے سے” کیوں رکھا ہے۔ اس میں اگرچہ مصنف کے مضامین ہیں لیکن ان کے اوپر لکھے گئے مضامین اور تبصرے کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کتاب کی جو نوعیت ہے اس کے حساب سے اس کا مرتب کسی اور کو ہونا چاہیے تھا اور کتاب کا نام "اردو تحقیق و تنقید اور ڈاکٹر صغیر اشرف” ہوتا تو تکنیکی اعتبار سے زیادہ معقول بات ہوتی۔ اس کتاب میں صرف مصنف کے مضامین اور ایک دو تبصرے ہوتے تو بھی کوئی مضائقہ نہ تھا۔ ان پر لکھے گئے مضامین اور تبصروں کی تعداد اتنی ہے کہ اس حوالے سے باضابطہ ایک الگ کتاب بھی شائع ہو سکتی تھی۔
اس کتاب میں ایک اور چیز مجھے کھٹک رہی ہے جس کی وضاحت صاحب کتاب سے درکار ہے۔ مصنف نے اپنے اوپر ہندی میں لکھے گئے سبھی مضامین اور تبصرے کو اردو میں منتقل کرکے کتاب میں شامل کیا ہے۔ لیکن جے دیو ودروہی کا شدھ ہندی بھاشا میں لکھا ہوا آلوچنامتک لیکھ جوں کا توں پستک میں سملت ہے۔ میں سچ بتاؤں تو مجھے جے دیو ودروہی کا لیکھ پڑھنے میں بڑی کٹھنائی ہوئی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اردو کو اردو رسم الخط میں اور ہندی کو ہندی لیپی میں پڑھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مذکورہ مضمون کو یا تو ہندی میں ہی رہنے دینا چاہیے تھا جیسے ایک انگریزی میں لکھا ہوا تبصرہ انگریزی میں ہی رہنے دیا گیا ہے یا پھر اسے اردو میں ترجمہ کرکے شامل کتاب کرنا چاہیے تھا۔
بہر کیف! میں ڈاکٹر صغیر اشرف کو نہ صرف اس اہم کتاب کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں بلکہ وہ جس دھن اور لگن کے ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے چلے آ رہے ہیں اس کے لیے بھی وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پوسٹل سروس والے بڑے اہم کام کر جاتے ہیں۔ ہم نے شمس الرحمان فاروقی کو دیکھا ہے اور اب ڈاکٹر صغیر اشرف کو دیکھ رہے ہیں.
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page