ہر سال پانچ ستمبر کو ملک میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سروپلّی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انکی پیدائش ۵ ستمبر۱۸۸۸کو تامل ناڈو کے تیروّلور ضلع میں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ملک کے دوسرے صدر ، پہلے نائب صدر اور سوویت یونین میں ہندوستان کے دوسرے سفیر تھے۔ ان کے اہم خدمات کے لئے ۱۹۵۴ میں انہیں بھارت رتن کے انعام سے نوازا گیا ۔ انہوں نے اپنی کیریئر کی شروعات فلسفہ کے استاد کے طور پر چنئی کے پریزیڈنسی کالج سے کی اور اپنی تعلیم و تربیت کے کام کا اختتام بنا رس ہندو یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے طور پر کی۔ انہوں نے تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی زندگی کا اہم اور قیمتی وقت دیا ہے۔ اسی وجہ کر ان کے یوم پیدائش کو ے یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
ایک اچھے سماج کی تشکیل میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ استاد بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھاتا ہے اور ہر نئی چیز سے آگاہ کراتا ہے جو ان کے لئے بالکل نئی ہو ۔ استاد بچوں کو تعلیم و تربیت کے دوران اس کو ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے اور اس کو دنیا کو دکھنے کا ایک نیا نظریہ بھی دیتا ہے۔ وہ بچوں کی ذہن سازی کے ساتھ اسے ایک اچھے انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ یہ بچے اچھے انسان بنکر ایک اچھے سماج کی تشکیل کر سکیں۔ اس طرح سے اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک بچوں کو ایک با شعور شہری بنانے میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے جسے کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے ۔
آج ہندوستانی سماج میں استاد کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو کچھ مایوسی ہوتی ہے۔ اس مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان میں کچھ استاد اپنا اہم فریضہ بھول چکے ہیں ۔وہ بچوں کو ایک اچھے انسان اور اچھے شہری بنانے اور انکی اچھی کردار سازی کرنے سے کوسو دور ہو چکے ہیں ۔ وہ بچوں کو ایک ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر رہے ہیں جو ملک کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ابھی کے کچھ حالیہ مثال ہمارے سامنے ہےـ دوسری جانب اگر آج استاد کی پاکیزہ ذاتی کردار کی بات کی جاے تو وہ بھی بہت حد تک گر چکی ہے۔ اسکول سے لے کر کالج تک کچھ استاد اپنے شا گرد کے عصمت کو پامال کرنے سے باز نہیں آتے۔ آئیے دن استاد کے ذریعہ آبروریزی ، عصمت دری جنسی طور پر ہراساں کی خبر آتی رہتی ہیں۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کے آج ہمارے سماج میں استاد کا کرداری معیار کتنا گر چکا ہے۔ آج استاد اور شاگرد کے باہم رشتے میں بھی بہت بڑی گر اوٹ آئی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ تعلیم و تدریس کے میدان میں سرمایہ داری کا داخل ہونا ہے۔ تعلیم کے اس خریدو فروخت میں استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی ایک بازارو رشتہ بن کر رہ گیا ہے اور اس رشتہ کی اہمیت بھی کم ہو چکی ہے۔ آج شاگرد سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم پیسہ دے کر خریدا ہے اور استاد ایک سروس فراہم کرنے والا شخص ہے۔ مگر جو تعلیم انہیں اپنے استاد سے ملتی ہے وہ ایک انمول شئے ہے جس کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی ہے۔
ہندوستانی ثقافت و تہذیب میں استاد کا مقام بہت اونچا رہا ہے۔ یہاں کے سماج میں استاد کا مقام خدا کے بعد اور والدین سے پہلے رکھا گیا ہے۔ اگر ہندو دھرم شا شتر میں دکھا جاے تو استاد کا مقام بھگوان کے برابر رکھا گیا ہے۔ مگر آج استاد کی ہر جانب سے گرتے کردار اور عوام کی بے توجہی کہ وجہ کر ان کا وہ مقام نہ رہ پا یا ہے۔ اگر سماج میں عوام کے ذریعہ استاد کی عزت پذیرائی کی بات کی جائے تو اس میں بھی بہت کمی آئی ہے۔ آج ہر شاگرد کے اچھے کارنامے اور کامیابی کے لئے اس کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی جاتی ہے اور انہیں انعامات سے نوازا جا تا ہے۔ مگر ان کے کامیابی کے پیچھے جس استاد کا اہم کردار ہوتا ہے اسے بالکل بھلا دیا جا تا ہے۔ آج شاگرد بھی اپنے استاد کی عزت وتعظیم کرنا بھول چکے ہیں اور ان کے عزت و عظمت کو پامال کر رہے ہیں ۔ ان دنوں شاگرد اپنے استاد پر ہاتھ اٹھانا اور انہیں مارنا پیٹنا معیوب نہیں سمجھتے ۔ آج ہمارے سماج میں پھر سے استاد کو ان کا اصل سماجی مقام دینے کی ضرورت ہے ۔ استاد اور شاگرد کے مابین اچھے رشتے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی استاد کو بھی اپنی ذاتی و اخلاقی معیار اور کردار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی سماج میں ایک استاد اپنا اہم فریضہ انجام دے پائے گا اور اچھے انسان اور اچھے شہری بنانے کا کام با آسانی چلتا رہے گا ۔ قومی یکجہتی کو بھی تقویت ملتی رہے گی اور آ پسی اتحاد بھی برقرار رہے گا۔ تب جا کر یوم اساتذہ منانے کے اصل فوائد سامنے آئیں گے ورنہ یہ یوم اساتذہ ایک رسم بن کر رہ جا ے گا۔
ڈاکٹر مشرف عالم (پی ایچ ڈی)، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |