اردو قصیدے کی تاریخ میں مرزا رفیع سودا اور ان کے بعد شیخ ابراہیم ذوق کا نام بہت اہم ہے ۔مطبع منشی نول کشورسے شائع شداکلیات سودا میں سودا کے قصیدوں کی تعداد ۴۴ ہے جبکہ قائم چاندپوری نے سودا کے قصیدوں کی تعداد ۵۴ بتائی ہے۔ذوق نے تیس قصیدے کہے ہیں۔سودااور ذوق کے قصیدوں کے مقابلے میں انشاء نے اگر چہ کم قصائد کہے ہیں لیکن اردو قصیدہ کی تاریخ میں انشاء کے قصیدے بہت اہم ہیں۔ قادرالکلامی،پر شکوہ لب و لہجہ اور بلند آہنگی ان کے قصیدوں کا اہم وصف ہے۔انشاء کے قصیدوں کی سنگلاخ زمینیں اور مشکل قافیے ان کا امتیازی حسن ہیں۔عربی الفاظ اورترکیبیں تفہیم کی سطح پر مشکلیں توپیدا کرتی ہیں لیکن ان کا بر محل اور فنکارانہ استعمال قاری کو متاثر بھی کرتاہے۔
محمد عسکری لکھنؤنے انشاء کے اردو کلام کو مرتب کیا تھا۔ان کے مرتبہ’’کلام انشاء‘‘میں انشاء کے قصیدوں کی تعداد دس ہے۔ انشاء نے ایک حمدیہ قصیدہ ،تین قصائد حضرت علی کی منقبت میں اور چھ درباری قصیدے لکھے ہیں۔انشاء کے مذہبی قصیدے درباری قصیدوں کے بالمقابل مشکل معلوم ہوتے ہیں ۔انشاء کے سرکار ودربار سے وابستہ قصیدوں میں تشبیب اور ممدوح کی مدح بہت آسان پیرائے میں ہے۔اس سادہ بیانی کا مقصد یہ بھی ہو سکتاہے کہ ممدوح تک متکلم کے خیالات کی بآسانی ترسیل ہو سکے۔پھر درباری قصیدوں میں مذہبی قصیدوں کے بالمقابل عربی الفاظ کی کثرت نظر نہیں آتی۔انشاء کے قصیدوں کے متعلق یہ بات عام ہے کہ انہوں نے مشکل اور سنگلاخ زمینوں میں قصیدے کہے ہیں۔بطور مثال انشاء کا یہ قصیدہ بھی پیش کیا جاتاہے جس کا مطلع ہے ۔
سحرِ بہار کی خوشبو میں آگئی یہ لپٹ
کہ صاف چاند سے مکھڑوں کے کھل گئے گھونگھٹ
انشاء کے اس قصیدے کے قافیے بہت دلچسپ ہیں۔اس قصیدے میںلپٹ،چمٹ پلٹ، کروٹ،اچٹ،جمگھٹ،گھبراہٹ،پنگھٹ،چوپٹ،تلچھٹ اورچوکھٹ جیسے خوبصورت قا فیے آئے ہیں۔چٹ ،پٹ ،گھٹ، اور نپٹ جیسی آوازیں طبیعت میں نشاط پیدا کرتی ہیں اور قاری قافیوں کے صوتیاتی حسن میں گم ہو جاتا ہے۔اس طرح کے قافیے تلاش کرنا اور اس زمین میں قصیدہ کہنا انشاء کے لئے آزمائش سے پر ہوگا۔لیکن تفہیم کی سطح پرانشاء کا یہ قصیدہ مشکل نہیں ہے۔انشاء کے اس قصیدے کے مقابلہ میں انشاء کاحمدیہ قصیدہ زیادہ سخت ہے۔اس کے قافیوں میں عربی الفاظ کا استعمال زیادہ کیا گیاہے۔ حضرت علی کی منقبت میں کہے گئے قصیدے بھی مشکل زمین میں ہیں۔حضرت علی کی منقبت میں کہے گئے ایک قصیدے کا مطلع یہ ہے۔
گر چہ افلاک نے سب پھونک دے اطباقِ آتش
منہ تو دیکھو کہ کرے آ مجھے احراقِ آتش
اس قصیدے میںانشاء نے بہت مشکل قافیے باندھے ہیں ۔اس میں قافیے اضافتوں کے ساتھ آئے ہیں۔چقماق آتش،اطلاق آتش،حراق آتش،قبچاق آتش،الصاق آتش،شلاق آتش،مطراق آتش،شلتاق آتش،اشواق آتش،احداق آتش،قیماق آتش،میثاق آتش اورغاق آتش جیسے قافیے دیکھ کرکلیجہ منھ کو آتاہے اورقرأت کے دوران زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ان قافیوں میں لفظ آتش کے ساتھ اضافت میں استعمال کئے گئے بیشتر الفاظ عربی زبان کے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ انشاء نے اس قصیدے میں صرف اسی طرح کے مشکل قافیے باندھے ہیں بلکہ قافیوں کی اس فہرست میں بعض آسان قافیے بھی ہیں۔انشاء کا یہ طویل قصیدہ ہے جس میں باون اشعار ہیں۔
انشاء نے حضرت علی کی منقبت میں ایک غیر منقوطہ قصیدہ بھی کہا ہے۔انشاء کے اس قصیدے کو سب سے مشکل قصیدہ کہا جائے گا۔اس قصیدے کا مطلع یہ ہے۔
ہلاؤ مروحۂ آہِ سرد کو ہر گام
کہ دل کو آگ لگاکر ہوا ہوا آرام
انشاء نے اس مطلع میں پنکھا کی جگہ مروحہ کا لفظ استعمال کیاہے۔مروحہ عربی زبان میں پنکھے کو کہتے ہیں۔پھر پنکھا جھلنے کی جگہ ہلاؤ کا فعل نقطہ سے احتراز کے لئے آیاہے۔انشاء نے پورے قصیدے میں منقوطہ الفاظ سے بچنے کے لئے عربی زبان کا سہارا لیاہے۔وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں فارسی کے بالمقابل غیر منقوطہ الفاظ کا ذخیرہ زیادہ ہے۔ انشاء نے اس قصیدے میں اوہام، الہام،کلام ، سہام ،کرام اعلام ،احکام اورعلام جیسے عربی قافیے استعمال کئے ہیں ۔قصیدے کے بیشتر الفاظ اس قدر سخت ہیں کہ لغات دیکھے بغیر معنی کی تفہیم مشکل سے ہوتی ہے۔انشاء کا پہلا قصیدہ ذات باری کی حمد ہے۔اس قصیدے کا مطلع ہے۔
اے خداوندِ مہ و مہر وثریا و شفق
لمعۂ نور سے ہے تیرے جہاں کو رونق
اس قصیدے کے ہر قافیے کا آخری حرف ’’قاف ‘‘ہے۔ سودا کے لامیہ قصیدے کو مشکل خیال کیا جاتاہے۔انشاء کاقافیہ قصیدہ لامیہ قصیدے سے بھی زیادہ مشکل معلوم ہوتاہے۔اس قصیدے میں بھی انشاء نے بعض نہایت مشکل قافیے باندھے ہیں ۔ علق،مرفق، اشفق ،ارفق،زورق ،زیبق ،الیق ،افسق ،شبق، اوفق جیسے قافیے تفہیم کی سطح پر مشکل پیداکرتے ہیں۔ اشفق ،ارفق الیق ،افسق اور اوفق اسم تفضیل کے صیغے ہیں۔انشاء نے اس قصیدے میں کہیںکہیںایک ہی شعرمیں کئی عربی الفاظ استعمال کئے ہیں۔
واسطے فائدے کہ سب یہ بنائے اعضا
عاتق و کتف و ید ساعد و رسغ و مرفق
اس شعر میں عاتق ،کتف،ید،ساعد ،رسغ اور مرفق عربی زبان کے الفاظ ہیں۔عاتق کے معنی کندھا،کتف کے معنی شانہ،ید کے معنی ہاتھ،ساعدکے معنی کہنی اور کلائی کے درمیان کاحصہ،رسغ کے معنی پاؤں کا گٹا،مرفق کے معنی کہنی کے ہیں۔عربی زبان میں اگر چہ یہ الفاظ روز مرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اردو میں لفظِ ساعد کے علاوہ کوئی اور لفظ نہیں ہے۔اردو شاعری میں معشوق کے ہاتھوں کے لئے ساعد سیمیں کی ترکیب بہت استعمال کی گئی ہے۔مثلاً میر کا مشہور شعر ہے۔
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لاکر چھوڑ دیے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
لفظ ِساعد کے علاوہ عربی نہ جاننے والوں کے لئے عاتق ،کتف،ید،رسغ اور مرفق کی تفہیم مشکل ہے۔انشاء نے اس روش کے علاوہ اپنے قصیدوں میں عربی محاوروں کا بھی استعمال کیاہے۔
داورا سچ کہ سزاوار پرستش تو ہے
بے شک و شبہ سمعنا واطعنا الحق
اس شعر میں سمعنا و اطعنا عربی زبان کا محاورہ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے۔الحق کا لفظ قسم کے لئے ہے۔البتہ ذات باری کے لئے سزوار پرستش کی ترکیب غیر مناسب معلوم ہوتی ہے۔فارسی الفاظ کے بالمقابل عربی زبان کے الفاظ اور تراکیب کااستعمال ان کی طبیعت کا حصہ ہے۔بعض موقعوںپر وہ عربی کے بھی مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
تو نم فیض نہ چھڑکے تو میاہ الابحار
اڑ چلیں ابخرۂ ارض سے مثل زیبق
اس شعر میں میاہ ماء’’کی جمع ہے۔ماء کے معنی پانی کے ہیں۔اسی طرح ابحار بحر کی جمع ہے اور بحر بمعنی سمندر ہے۔شعر کے دوسرے مصرع میں ابخرۂ ارض کی ترکیب بھی عربی زبان کی ہے۔ارض کے معنی تو زمین ہے پھر ارض کا لفظ اردو زبان میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔ابخر ۃکو دیکھ کر اولاً تو اندازہ ہوتاہے کہ یہ بخرہ کی جمع ہوگی۔ اردو میں ابخرۂ ارض کی جگہ کرۂ ارض استعمال کرتے ہیں۔بخرہ فارسی کا لفظ ہے ۔بخرہ کے معنی ٹکڑے اور حصے کے ہیں لیکن اس کی جمع بخرے اور جمع غیر ندائی بخروں آتی ہے۔یعنی بخرہ کی جمع ابخرۃ نہیں آتی ۔انشاء نے ارض کے ساتھ جس ابخر ۃ کی ترکیب بنائی کی ہے وہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے تمام حروف متحرک ہیں اور اس کا تلفظ۔’الف‘ اور’ ب‘ پہ زبر،’ خ‘ پر زیر اور ’ ر‘ پر زبر کے ساتھ اَبَخِرَۃ ہے ۔اَبخرۃ بخار کی جمع ہے۔بخار بمعنی بھاپ یا اسٹیم کے ہیں۔اس طرح شعر کے پہلے مصرعے میںموجود نم ،چھڑکے، میاہ اور ابحارجیسے الفاظ کی رعایت سے ابخرۃ کا لفظ بہت بامعنی ہو جاتا ہے اور ابخرۃ کے لفظ کا استعمال انشاء کے تخیل کی بلند پروازی قرار پاتی ہے ۔یہ لفظ غیر مانوس ضرور ہے لیکن شعر کے دوسرے الفاظ سے اس کی گہری مناسبت ہے۔
اس قصیدے کے مطلع میں انشاء نے ذات باری کے نور کا ذکر کیا ہے اور اس کے نور کی رعایت سے ماہ ،مہر ثریا اور شفق کی رعایت قائم کی ہے۔ آسمان کے درخشاں ستاروں میں خدا کے نور کی جلوہ گری دیکھنے کا مضمون کلاسیکی روایت کا اہم حصہ ہے۔اس مضمون کو دیکھتے ہی سب سے پہلے میر کا مشہور شعر یاد آتاہے۔
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
یعنی خورشیدجو کہ بظاہر انسان کو سب سے زیادہ روشن نظر آتاہے اس کی روشنی بھی خدا باری تعالی کے نور سے مستعارہے۔میر کے اس شعر میں ’’بھی ‘‘کا لفظ اس طرف اشارہ ہے کہ خورشید کے علاوہ دیگر ستاروں میں بھی جو چمک ہے وہ ذات باری کے نور سے مستعارہے۔انشاء نے اول مصرع میں ماہ ومہر اور ثریا و شفق میں خدا کے نور کا ذکر کیاہے۔پھر دوسرے مصرعے میں تمام جہاں کی چمک کو ذات باری کے نور کا پرتو قرار دیاہے۔شاد عظیم آبادی نے کہا تھا۔
وہ عالم گیر جلوہ اور وہ حسن مشترک تیرا
خداجانے ان آنکھوں کو ہوا کس کس پہ شک تیرا
شاد عظیم آبادی کے یہاں اس نوع کے مضامین بہت ہیں ۔انہوں نے بھی مختلف موقعوں پر کائنات کے ذروں میں ذات خدا کی جلوہ گری کا ذکر کیاہے۔شاد کے شعر میں کہیں ماہ ومہر اور ثریا وشفق کے الفاظ نہیں ہیں لیکن شاد کی تشکیک ان جیسے تمام الفاظ کو اپنے احاطے میں لے لیتی ہے۔
انشاء کے حمدیہ قصیدے میں مطلع کے بعدہی خدا باری تعالی کی مدح شروع ہو جاتی ہے۔انشاء نے اس قصیدے کی تشبیب میں تخلیق انسانی کا ذکر کیاہے۔انسان کی تخلیق بھی خدا کی تعریف ہے ۔لہذا اس تشبیب میں بھی ذات باری کی مدح موجود ہے۔
روح کو حکمِ تعلق بہ جسد فرمایا
تاکہ اشکال و ہیولا و صور ہوں مشتق
خلق انساں کو کیا نامیہ اس کو بخشی
ہیئتِ جسم کو کر کے متشکل زعلق
سمع و ذوق و بصر ولمس و وہم و خیال
بن کہے تو نے دیے ہم کو کریمِ مطلق
تشبیب کے ان اشعار کی قرأت کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ انشاء کے قصیدوں کی مشکل پسندی کا انحصار عربی الفاظ پر ہے۔ اگر ان الفاظ کے معنی کا علم ہو توانشاء کے قصائد کی تفہیم آسان ہو جائے گی۔ خیال کی سطح پر ان میں ابہام اور پیچیدگی نظر نہیں آتی ۔انشاء قصیدوں میں عموما ً کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو بہت مغلق یا نا قابل تفہیم ہو،یا جس کو سمجھنے کے لئے دماغ کو مشقت میں ڈالنا پڑے۔اوپر پیش کی گئی تشبیب میں بیشتر باتیں بالکل سامنے کی ہیں۔ان میں تخیل کی بلندپروازی اور دور از کار خیالات کی جولانی نظر نہیں آتی ۔اسی طرح مدح کے اشعار میں بھی پیچیدہ مضامین بہ مشکل نظر آتے ہیں ۔انشاء عموماً وہی مضامین استعمال کرتے ہیں جن سے ہم واقف ہیں۔
روزو شب حضرتِ خلاق ترے حکم میں ہیں
عرش و لوح وقلم و شش جہت وہفت طبق
بھلہ رے قلعۂ اقطارِ سموات علا
قاف پشتہ نہ ہو جس کا نہ سمندر خندق
حمد کے بعد یہ شکریہ ادا کرتا ہوں
شکر صد شکر ہے اے حمد وثنا کے الیق
مدح کے ان اشعارمیں تفہیم کی سطح پر مشکل محسوس نہیں ہوتی ۔پہلے شعر میں خدا کو حضرت خلاق سے مخاطب کیا گیاہے۔اس شعر میںروز وشب ،عرش و لوح وقلم، شش جہت اور ہفت طبق پر خداکی حکمرانی کا ذکر ہے۔اس حکمرانی سے خدا کی تمام کائنات پر برتری نمایاں ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ روز و شب ،عرش وفلک ،لوح و قلم اور ہفت طبق کائنات کی پر قوت اور عظیم طاقت ہیں ۔ان پر خدا کی حکمرانی خدا کی عظمت کا اظہار ہے۔دوسرے شعر میں آسمان کی وسعت کا ذکر آیا ہے۔اقطار سموات کی ترکیب قرآن کریم میں بھی آئی ہے۔اقطار قطر کی جمع ہے ،اس کے معنی ملک اور صوبہ کے ہیں۔قرآن کریم میں بھی آسمان کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہی اقطارالسمواۃ کی ترکیب آئی ہے۔انشاء نے اپنے قصیدوں میںکئی موقعوں پر قرآن کریم کے واقعات اور تراکیب سے استفادہ کیاہے۔انشاء کا مصرع ’’ہیئت جسم کو کر کے متشکل زعلق‘‘ خلق الانسان من علق کی تفسیر ہے۔آخری شعر میںالیق کا لفظ ،لفظ لائق کے اصل مادے لیّق کی اسم تفضیل ہے۔
(یہ بھی پڑھیں قصیدہ نگاری کے باب میں نقدِ ذوق کے بعض تسامحات – اقرا سبحان )
مرزا محمد رفیع سودا اردو کے سب سے بڑے قصیدہ نگار ہیں ۔شیخ ابراہیم ذوق نے بھی سودا کے قصیدوں سے خوشہ چینی کی ہے۔کلاسیکی قصیدے کی فضاء کچھ ایسی تھی کہ مشترکہ زمینوں اور مقاصد کی یکسانیت کے سبب قصیدے میں مماثلت پیدا ہوگئی۔مگر قصیدہ نگاروں نے بھی اپنے اپنے طور پر صناعی کا مظاہرہ کیاہے۔انشاء کے یہاں ذوق کے بالمقابل یہ روش کم نظر آتی ہے لیکن انشاء نے بھی مضامین کی سطح پر سودا کے مضامین سے خوشہ چینی کی ہے۔سودا کا شعر ہے۔
ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر سوار
رکھتا نہیں ہے دست عناں کا بہ یک قرار
یہ شعر سود ا کے قصیدے کا مطلع ہے ۔سودا نے ا س مطلع میں ابلق ایام پر چرخ کی حکمرانی کا مضمون باندھا ہے۔اردو شاعری میں آسمان یوں بھی ستم شعار واقع ہوا ہے۔اس کی ستم شعاری کے آگے انسان کیا روز و شب بھی معذور ہیں۔ابلق عربی زبان کا لفظ ہے اور ثلاثی مجرد کے باب سے اسم تفضیل ہے۔ابلق کے معنی دو رنگاخصوصاًسیاہی اور سفیدی مائل جسے چتکبرا بھی کہتے ہیں ۔ابلق چتکبرے گھوڑے کو بھی کہتے ہیں۔اس طرح دن اور رات کی مناسبت سے ابلق ایام کی ترکیب بہت بامعنی ہو جاتی ہے۔ اردو شاعری میں ابلق ایام کی ترکیب سودا نے ہی سب سے پہلے استعمال کی تھی۔میر کے یہاں ابلق کا لفظ شاذ ہی نظر آتا ہے۔غالب نے ابلق ایام کے بجائے ابلق دوراں کی ترکیب استعمال کی ہے۔ غالب کا شعر ہے۔
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلق دوراں بھی رام ہو
دوراں اور ابلق کے درمیان رعایت یہ ہے کہ زمانے کا وجود بھی دن اور رات کی گردش سے ہی ممکن ہے۔اس طور سے ابلق دوراں کی ترکیب بھی بامعنی ہے۔لیکن ابلق دوراں کے مقابلہ میں ابلق ایام کی ترکیب زیادہ واضح اور بامعنی ہے۔اب انشاء کے قصیدے میں ابلق کے کے لفظ کا استعمال دیکھئے۔
لطف فرما جو ترا ظل ہما یوں ہو ٹک
چشم تحقیر سے عنقا کی طرف دیکھے بق
فی المثل توسن ایام ولیالی پر بیٹھ
چرخ کو گر متوہم ہو کہے میرا ابلق
انشاء نے ابلق ایام یا ابلق دوراں کی ترکیب کی جگہ توسن ایام ولیالی کی ترکیب بنائی ہے۔توسن کے معنی بھی اسپ اور گھوڑے کے ہیں۔سودا کے مضمون میں چرخ کی حکم رانی کا مضمون آیا تھا جب کہ انشاء نے چرخ کی حکمرانی کو ختم کر کے چرخ پر انسان کی حکمرانی کا مضمون باندھاہے۔اس طرح انشاء نے سودا کے مضمون کی تقلیب کی ہے۔چرخ میں بھی سفیدی اور سیاہی کا رنگ شامل ہے ۔اسی مناسبت سے انشاء نے چرخ کو ابلق کہا ہے۔انشاء نے آخر میں دعائیہ پر اس قصیدے کا اختتام کیاہے۔شکریہ کا حصہ کچھ طویل ہو گیاہے۔اس حصے میں انشاء نے خدا باری تعالی سے روز قیامت میں گناہوں کے تئیں در گزر کرنے کی درخواست کی ہے۔
مان اس عرض تمنا کو تجھے لازم ہے
خاطر احمد مختار و صی بر حق
قلم عفو مری لوح جرائم پر کھینچ
ازپئے حیدر کرار امام اصدق
ہاتھ سے ساقی کوثر کے پلا دینا جام
عطش روز قیامت سے نہ ہو مجھ کو قلق۳

