مشہور مغربی ناقد میتھیو آرنلڈ کا کہنا ہے کہ ”ادب تنقیدِ حیات ہے-” وسیع معنوں میں ادب کسی قوم کی اجتماعی زندگی ،داخلی کیفیات اور اس قوم کے انفرادی اور اجتماعی ترجیحات کا عکاس ہوتا ہے۔حادثات اور سانحاتِ زندگی ہی ادب کے سب سے بڑے محرک ہیں۔اب اگر ادب کی مذکورہ تشریحات پر غور کیا جائے تو تخلیق کار معاشرے کے ایک عظیم المرتبت مفسر کے رُوپ میں سامنے آتا ہے۔چوں کہ فرد کی پہچان اُس کے معاشرے سے ہوتی ہےاس لیے ادب اور ایک عام آدمی غیر مفروق ہیں اور دونوں رفیقِ راہ ہیں۔
جہاں تک تخلیق کار کا تعلق ہے تو زندگی کو مثالیت کے زاویے سے دیکھتا ہے اور اس حوالے سے معاشرتی روّیوں میں تبدیلی کا آرزومند ہوتا ہے۔ایک طرف وہ اپنی داخلی دُنیا کی بے چینی کو ختم کرنے اور باطن کی آسودگی کی خاطر روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے حوادث پر خیال آفرینی کی سعی بلیغ کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے پیشِ نظر عملی زندگی کے مختلف پیچیدہ مسائل سے پردہ چاک کرنا اور عام آدمی کو ان سے شناسائی دلانا ہوتا ہے۔ادیب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے احساسات و کیفیات کو اس قدر مؤثر قرینے سے بیان کرے کہ اُس کے فن پارے کی افادیت صرف ادبی حلقوں تک محدود نہ رہے بلکہ اُس کی تخلیقی کاوِش سے انفرادی اور اجتماعی زندگی دونوں احسن طریقے سے مستفیض ہوسکیں۔اور وہ سماج کے جمود کو توڑ کر اسے درست سمت میں حرکت دے۔
فن پارےکا خالق سماجی زندگی کو نگاہ بصیرت سے دیکھتا ہے۔جس طرح ایک معالج اپنے مریض کے لیے ہمدردی کا روّیہ رکھتے ہوئے دورانِ تشخیص مختلف طریقوں سے مرض معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے بالکل اسی طرح تخلیق کار بھی ادبی دائرہ کار کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ایک سماجی معالج کے رُوپ میں سامنے آتا ہے۔چناں چہ فن پارہ تخلیق کرتے وقت اس کے پیش نظر یہ اہداف ہوتے ہیں کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں؟ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان کو حل کرنے کے بعد معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان کے کیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے؟ سماج میں امن،محبت،مساوات اور انسانی دوستی کے رویے کیسے تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔۔فن پارے کی تخلیق کی افادیت کیا ہوگی؟ اسی طرح کٸی سوالات ادیب کے ذہن میں اُٹھتے ہیں اور تخلیق کار ان مختلف قسم کےسوالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فکر وخیال کی گھتیاں تخلیقی انداز میں ہوں سلجھاتا ہے کہ اس کے پس منظر اور پیش منظر کی وضاحت ہو سکے۔اور وہ تخلیق پارہ ادبیت کے اولین مقصد یعنی ترفع کو پا سکے۔گویا تخلیق کار کی ادبی کاوشیں عوامی زندگی کو فلاح کی طرف گامزن کرنے کا تخلیقی عمل ہے۔
کوئی بھی ادب پارہ بغیر مقصد کے نہیں لکھا جاسکتا۔چاہے وہ ادب برائے ادب کے نظریے کے زیر اثر ہو یا ادب برائے زندگی کی فکر کے زیر اثر۔دراصل تخلیق کار کی ذہنی سطح بہ نسبتِ عام آدمی ارفع ہوتی ہے۔چناں چہ جب وہ کسی موضوع پر قلم اُٹھاتا ہے تو اُس کے پیشِ نظر ایک مقصد یا چند مقاصد ہوتے ہیں اور ان مقاصد کا تعلق صرف ادبی حلقوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ سماجی زندگی کے ساتھ بھی اس کا گہرا رشتہ ہوتا ہے کیوں کہ دونوں طبقوں کا تعلق بہرحال سماج ہی کے ساتھ ہے۔لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب کا کینوس اس قدر وسیع و بسیط ہے کہ اس میں زندگی کی تفسیر سے لے کر شخصی اور معاشرتی زندگی،زندگی کے فلسفے اور تنقیدِ حیات کے پیچاں معاملات تک کا بیان پڑھنے کو مل سکتا ہے۔(اور ہونا چاہیے)
جس طرح انسانی زندگی میں تغیّر و تبدّل کا عمل جاری رہتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تغیرات پیدا ہوتے رہتے ہیں ،اسی طرح ادب میں بھی تبدیلیوں اور ارتقا کا یہ سفر از ابتداء تاحال جاری ہے۔ادب چوں کہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے لیے اپنی آغوش میں بسیط گنجائش رکھتا ہے اس لیے ہر نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ اس کے موضوعات اور اسالیب میں جدّت پیدا ہونا ادب کا فطری مزاج ہے۔اگرصرف افسانوی ادب (داستان،ناوِل،افسانہ اور ڈراما) پر غور کیا جائے تو ان کے موضوعات زیادہ تر وہ مسائلِ زندگی ہوتے ہیں،جن کا تعلق ہمارے سماج کے ساتھ ہے۔ ( یہ بھی پڑھیں تدوین متن کا معروضی جائزہ – نثار علی بھٹی )
اسی طرح عالمی ادب ہو یا اُردو ادب، دونوں میں ایسی تحریکیں گزری ہیں جن کا بنیادی مقصد عوامی زندگی کو پیش آمدہ مسائل کو حل کرنا ہی تھا۔یہاں اگر اُردو ادب کی بات کی جائے تو علی گڑھ تحریک کے چیدہ چیدہ زرخیز فکر قلم کاروں مثلاََ سرسید احمد خان،مولانا الطاف حسین حالی،مولانا شبلی نعمانی،ڈپٹی نذیراحمد اور محسن الملک وغیرہ نے اپنے تخلیق پاروں میں سادہ پیرایہء اظہار میں ایک طرف برِصغیر کے مسلمانوں کو درپیش مصائب و مشکلات سے روشناس کرایا تو دوسری طرف اُن کو ایک روشن مستقبل کی نویدسُنا کر اُنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس بھی دلایا۔علاوہ ازیں ترقی پسند تحریک اور بعد میں آنے والی مختلف تحریکوں نے بھی اپنے عہد میں عوام کو درپیش مختلف قسم چیلنجز سے نمٹنے کا حوصلہ دیا۔
ادب کی اس اہم جہت میں ادبا و شعرا قدم بہ قدم چلتے رہے۔مختلف دبستانوں اور تحاریک سے وابستہ تخلیق کاروں نے بھی عوامی مسائل کی ترجمانی بھرپور انداز میں کی ہے۔کلاسیکی اور جدید فکر کے شعرا مثلاََ میرتقی میر،خواجہ میر درد،مرزا رفیع سودا،ابراہیم ذوق،نظیر اکبر آبادی،مومن خان مومن،مولانا حسرت موہانی،فیض احمد فیض اور علامہ اقبال وغیرہ جیسے عظیم شعرا کی ایک طویل فہرست موجود ہے جنھوں نے سماجی مسائل کو اپنے اندر رچاتے ہوئے اپنی سُخن دانی کے ذریعے بھرپور انداز میں عوامی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔
بطور خاص اگر قبال کا ذکر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانانِ ہند کو اپنے وطن سے محبت کا درس دیا۔اقبال کے عوامی شاعر ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ ایک طرف سیاسی عوامی نمائندہ گان اپنی تقاریر میں اُن کے اشعار کا سہارا لیتے ہوئے اپنی اپنی سیاسی جماعت کا منشور عوام کے سامنے رکھتے ہیں تو دوسری طرف علمائے کرام اُن کے کلام کے مفاہیم سے آگاہ ہیں اور کلامِ اقبال کو مقدّس سمجھتے ہوئے وعظ و نصیحت میں اس کو بہ طور حوالہ بیان کرتے ہیں۔وطنِ عزیز اقبال کا خواب تھا۔انہوں نے مسلمانانِ پاک وہند کو ایک سوچ دی ،جس کو لے کر ہی آگے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکا۔
عوام کے لیے ادب کی افادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چوں کہ موجودہ دور کا انسان مختلف قسم کی سماجی پیچیدگیوں کی وجہ سے ذہنی اضطراب کاشکار رہتا ہے ،جس کے باعث وہ چاہتا ہے کہ اُس کی ذہنی تشفی ہوجائے ۔اب ہر عام آدمی کی دلچسپی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔وہ اپنے لحاظ سے ادب پارے سے حظ اور فائدہ اُٹھاتا ہے۔فن پاروں کے علاوہ مشاعروں اور دیگر ادبی مجالس کی صورت میں اُس کی عطش بجھانے کے لیے وافر سامانِ مسّرت دستیاب ہوتا ہے۔لہٰذا ایک عام آدمی ان ادبی محفلوں میں شریک ہوکر ذہنی کبیدگی سے کافی حد تک چھٹکارا پاسکتا ہے۔
الغرض ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ادب اور عوامی زندگی لازم وملزوم ہیں ،اور ظاہری بات ہے کہ ادب کی افادیت کا دائرہ محدود نہیں۔لہٰذا عوام کے لیے بھی اس کی افادیت وہی ہے جو ادبی حلقوں کے لیے ہے۔عہدِ نَو میں مختلف سطحوں پر عوامی زندگی کو مختلف چیلنجز کاسامنا ہے،ایسے میں تخلیق کار کے لیے نت نئے موضوعات پر قلم اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ساتھ ہی تخلیق کار پر یہ ذمہ داری عاٸد ہوتی ہے کہ وہ جس موضوع کو بھی افشا کرنا چاہے اس پر اظہارِ خیال کرنے میں فنی اور تخلیقی تقاضوں سمیت حقیقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔دوسری طرف ہر سطح کے قاری کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فن پارے سے نہ صرف حظ اُٹھائے بلکہ اس کی افادیت پر بھی غوروفکر کرے تاکہ فن پارے کے خالق نے قلمبند موضوع کو جس مقصد کے تحت لکھا ہے وہ بارآور ثابت ہوجائے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب معاشرہ ادبی فن پارے کی اہمیت اور اس کی افادیت کو جان سکے گا،کوئی شک نہیں کہ وہ معاشرہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا۔اور وہ ایک روشن فکر،ترقی یافتہ اور انسان دوست معاشرے کے روپ میں سامنے آئے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |