آپ بیتی مرزا غالب مرتّبہ ڈاکٹر خالد ندیم – صدف فاطمہ
ندرت خیال حق کی جانب سے چنندہ اذہان کو ودیعت کیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر خالد ندیم کے جملہ سندی و غیر سندی بشمول تحقیقی و تالیفی کام کا جائزہ لیا جائے تو ہوشمند ندرت آرائی پر داد تحسین پیش کریں گے ۔ خردہ گیری ، ارمغان علمی کی روایت، منظوم پہلی ،فرضی مکتوبات ، منظوم مکتوبات جیسے عنوانات نہ صرف ندرت خیال بلکہ عرق ریزی و شب و روز کی سخت کوشی کے طلبگار ہیں۔ آفریں،صد آفریں!کہ ڈاکٹر صاحب کا جو بھی کام دیکھا ، پڑھا ، سمجھا ، آخر میں دست بستہ ایک ہی سوال پوچھا گیا۔ یہ کام آپ کیسے کر گزرے ؟ جواب ہمیشہ شگفتہ و جامع مسکراہٹ کے پردے میں لپٹا موصول ہوا۔
’شبلی کی آپ بیتی ‘ اور ’آپ بیتی اقبال ‘ کے بعد ’آپ بیتی مرزا غالب ‘ ڈاکٹر صاحب کی زنبیل سے نکلی اپنے قبیل کی تیسری کتاب ہے ۔ ۲۰۱۹ میں غالب کی ایک سو پچاسویں برسی کے موقع پر اس کتاب کی اشاعت دربار غالب میں خراج تحسین سے کم معلوم نہیں ہوتی ۔ نشریات لاہور کی عمدہ پبلی کیشنز نے کتاب کی خوبصورتی کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ کتاب کیا ،ہے خالد صاحب کی غالب کے لیے محبت و انسیت ہے ۔ ڈاکٹر خالد ندیم اپنے کام کو کرنے کا ہمیشہ جواز فراہم کرتے ہیں ۔ سو اس منصوبے کا جواز بھی مقدمے کی ذیل میں پیش کیا ہے :
’’معلوم نہیں ہمارے ہاں شخصیات کی مکمل تصویر کشی کیوں نہیں کی جاتی ۔ ہم ہمیشہ شخصیت کے صرف ایک ہی پہلو پر زور دیتے ہیں اور اگر کوئی دوسرے پہلو پر توجہ دلائے بھی تو ہم اسے قبول نہیں کر پاتے ۔‘‘
گویا ڈاکٹر خالد ندیم غالب کی مکمل تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے :عظیم شخصیات کا یہ حق تو ہے کہ ان کی ایک ایک ساعت ، ایک ایک ادا اور ایک ایک لفظ کو محفوظ کر لیا جائے ۔مذکورہ کتاب کی یہی خاصیت و افادیت ہے ۔ ٹکڑوں میں بٹی غالب کی دھندلی تصویر کو تاریخی تسلسل سے ایک مکمل شخصیت کے طور پر پیش کر دیتی ہے ۔ غالب خود کو کس طرح دیکھتے ہیں، غالب کی نگاہ سے کلکتہ کیسا نظر آیا،الٰہ آباد سے کیا شکوے رہے ، کالے اور گورسے کی اسیری کیا تھی اس سب کو سمجھنے کے لیے ’آپ بیتی مرزا غالب‘ایسی کھڑکی ہے جس کا ہر صفحہ غالب کی زندگی کا نیا منظر نامہ خود انھی کی نگاہ سے واضح کر تا ہے ۔
ڈاکٹر خالد ندیم ایک زیرک فہم محقق ہیں ۔ یہ نہ صرف اپنے کام کی افادیت و مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہیں بلکہ اس نوعیت کے پیشتر کیے گئے کام کا جائزہ بھی بخوبی پیش کرتے ہیں۔مقدمے میں ڈاکٹر خالد نے ’آپ بیتی مرزا غالب‘ سے قبل اس نوعیت کے تمام کام کا جائزہ لیا ہے ۔ اس جائزے کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ کتاب ’نکات ِغالب‘ مرتبہ نظامی بدایونی ، ’غالب کی آپ بیتی‘مرتبہ نثار احمد فاروقی اور ’کہانی میری ، زبانی میری‘مرتبہ حفیظ عباسی ، جو کہ غالب کی خود نوشت آپ بیتیوں کے ابتدائی نمونے ہیں،سے زیادہ عمدہ اور جامع ہے۔تینوں مرتّبہ خود نوشتیں غالب کے اردو خطوط پر منحصر ہیں لہٰذا مختصر و نامکمل ہیں ۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے ’آپ بیتی مرزا غالب‘ کے ضمن میں نہ صرف اردو بلکہ غالب کی فارسی تحریروں سے بھی خوشہ چینی کی ہے ۔ فارسی تحریروں کے لیے اردو تراجم’کلیات مکتوبات فارسی غالب‘(پرتوروہیلہ )اور ’پنج آہنگ‘(ڈاکٹر تنویر احمد علوی )کو اساس بنایا ہے ۔
کتاب کی ابواب بندی تاریخی تسلسل سے کی گئی ہے ۔ دس ابواب پر مشتمل ’آپ بیتی مرزا غالب‘کی ابتدا ’ناداں چہ کار کرد(دیباچہ)‘سے ہوتی ہے ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے خود دیباچہ لکھ کر رکھا ہو کہ بعدازاں یوں مالا کے موتیوں کی مانند ترتیب سے پرو دیا جائے گا ۔شروع کے چھ ابواب ابتدا سے ۱۸۵۷تک تیزی سے سفر کرتے ہیں،پنشن کی ذیل میں غالب کی آپ بیتی دوسرے اور تیسرے باب میں کسی قدر سست معلوم ہوتی ہے مگر چھٹے باب تک رفتار تیز ہو جاتی ہے ۔ پھر ساتویں باب یعنی ۱۸۵۷ سے جبکہ غالب نےمحتاط مکتوب نگاری پر خوب زور دیا ،کہانی اپنی جزئیات کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ۔ اگلے چار ابواب ۱۸۵۷ سے ۱۸۶۹ تک کے سالوں پر محیط ہیں ۔ ڈاکٹر خالد نے آپ بیتی کے تمام مآخذ کو مقدمے میں صراحت سے بیان کیا ہے ۔ تراجم کے نسخوں کی نشاندہی بھی کی ہے اور دورانِ ترتیب وتالیف جن کتب سے استفادہ کیا انھیں ’کتابیات‘کی ذیل میں آپ بیتی کے آخر میں پیش کیا ہے ۔ کتابیات کے علاوہ سات صفحات پر مشتمل مختصر فرہنگ بھی دی ہے جبکہ تصنیف کا اختتام ’حرف آخر ‘ بقلم ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے کیا ہے ۔ ڈاکٹر پاریکھ کا ایک ہی جملہ کل کتاب کے تعارف میں کافی ہے:
’’نہایت ذمہ داری سے عرض کرتا ہوں کہ مستند ترین مآخذ کی مدد سے مرتب کی گئی یہ غالب کی مستند ترین سوانح ہے ۔‘‘
آپ بیتی مرزا غالب کا متن مختلف مکتوباتی ٹکڑوں کو تاریخی تسلسل سے جوڑ کر ترتیب دیا ہے ۔ہر ٹکڑے کا حوالہ پاورق میں درج ملتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پاورق میں مختصر حوالہ درج کیا ہے ،جس کے بقیہ مکمل کوائف کتابیات سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔جہاں کہیں فارسی متون کے تراجم کا حوالہ درج ہے وہیں اصل فارسی متن کا حوالہ بھی دیا ہے ۔چونکہ ایک ہی واقعے کو غالب نے مختلف مقامات پر درج کیا ہے ایسی صورت میں جزئیات کی تفصیل میں واضح فرق فطری بات ہے ۔ خالد صاحب نے ایسے مقامات پر بھی کمال مہارت سے تسلسل و حسن ترتیب کو زائل نہیں ہونے دیا ۔اس لیے تمام واقعات و کیفیات قوی تاثر پیدا کرتے ہیں۔
متن میں مختلف ٹکڑوں کو جوڑنے اور تسلسل کو قایم رکھنے کے ساتھ ساتھ حوالے کی سند کی فراہمی پر مرتب کی جانب سے خوب توجہ دی گئی ہے ۔جس کے باعث کہنی دار بریکٹ و قوسین کا استعمال کثرت سے نظر آتا ہے ۔ یہ بریکٹس مختلف مقاصد کے تحت استعمال کی گئی ہیں ۔ مثال کے طور پر کہیں غالب نے روانی میں دن کی طرف اشارہ کیا تو بریکٹ میں تاریخ درج کر دی گئی ،بعض مقامات پر اشخاص کی بابت اشارہ کیا گیا جسے بریکٹ میں واضح کیا گیا ہے ۔
’’بعد [نجف خاں کے] انتقال [ ۲۶ اپریل ۱۷۸۲]کے ، جو طوائف الملوکی کا ہنگامہ گرم تھا ، وہ علاقہ [میرے دادا کے قبضے میں] نہ رہا۔‘‘
آپ بیتی مرزا غالب ، مرتبہ خالد ندیم ،۲۰۱۹، ص:۲۸
بعض مقامات پر جملے کا ربط قایم رکھنا ضروری تھا، جس کے تحت بریکٹ کا استعمال کیا گیا ہے ۔
’’نواب علی اکبر خاں [کو] جب یہ بات معلوم ہوئی کہ کونسل کے صاحبان اختیار نے میری کار برآری (مقدمہ کے کاغذات)کو حاکمان دہلی کے سپرد کر دیا۔۔۔‘‘
آپ بیتی مرزا غالب ، مرتبہ خالد ندیم ،۲۰۱۹، ص:۶۵
بریکٹس کا ایسا مسلسل استعمال ابتدا میں قاری کو پریشان کرتا ہے لیکن متن کے تسلسل اور حوالہ کی سند کے لیے از حد ضروری معلوم ہوتا ہے ، جو قاری کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنایا گیا ہے ۔آپ بیتی مرزا غالب کا ایک مزید دلچسپ پہلو اس میں کلام غالب کو موقع محل کی مناسبت سے اندراج ہے ۔ یہ ایسی خوب ترکیب ہے جس سے متن کا تاثر کئی گنا دلچسپ و لطیف ہو جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ۱۸۵۳ میں بادشاہ کی بیماری کے بیان کو کلام سے مزید تقویت دی ہے :
’’ناگاہ، حضور ِ والا[بہادر شاہ] بیمار ہو گئے اور مرض نے طول کھینچا ۔
شاہ کے ہے غسل ِ صحت کی خبر دیکھیے ، کب دن پھریں حماّم کے‘‘
آپ بیتی مرزا غالب ، مرتبہ خالد ندیم ،۲۰۱۹، ص:۱۵۹
اسی طرح کلکتے کے باب میں ۱۸۲۸ کو بسبیل خط مرزا یوسف کے متعلق درج ٹکڑے کے بعد اشعار سے تاثر کو دونا کر دیا ہے ۔
’’خدا کی قسم ، اس کی صحت مجھے پدرِ مرحوم کے زندہ ہو جانے سے عزیز تر ہے ۔
دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ زندگی میرزا یوسف ہے ، غالب! یوسف ثانی مجھے ‘‘
آپ بیتی مرزا غالب ، مرتبہ خالد ندیم ،۲۰۱۹، ص:۶۲
ممکنہ طور پر اس ترکیب کے پیش نظر غالب کی تصویر مکمل و حقیقی سطح پر سامنے آتی ہے ۔قاری کی سہولت کے پیش نظر ہی ڈاکٹر صاحب نے غالب کی املا میں زیادہ رد و بدل نہیں کیا سوائے ان الفاظ کے جنھیں لکھتے خود غالب ہی کو سہو ہوا یا کاتب کی کارستانی بتائی گئی یا جواب بری طرح متروک کیے گئے ہیں۔ چند ایک مقامات پر فارسی اشعار کا اردو ترجمہ بھی بریکٹ میں درج ہے لیکن ایسا ہر جا نہیں کیا گیا ۔ اس سے متن کے تسلسل کو کوئی فرق نہیں آیا ، یہی اس سوانح عمری کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
غالب کو غم رہا کہ ’ہزاروں کا میں ماتم دار ہوں ، میں مروں گا تو مجھ کو کون روئے گا؟‘۔ اب دیکھیے کیسی کثیر تعداد ہے جو غالب کی آہ میں آہ بھرتی ہے اور غالب سے مغلوب ہے ۔ غالب شناس کی بدولت آج غالب کے طرفداروں میں کیسا غل ہے ۔ آپ بیتی مرزا غالب اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اسی پہلو کو لطیف انداز سے بیان کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر خالد ندیم ویسے بھی مزاج ، رواج اور خراج کے اعتبار سے تفصیل ، تعمیل اور تکمیل کے آدمی ہیں۔۔۔اور اس آپ بیتی میں تو اپنے میرزا اسد اللہ خاں غالب مکمل آب و تاب اور پورے طُمطراق سے سامنے آگئے ہیں۔‘‘
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |