(تصویر میں دائیں سے: پروفیسر غلام یحییٰ انجم، پروفیسر خالد محمود اور ناظمِ اجلاس جناب شاداب شمیم۔)
اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام منعقدہ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا تحقیقی وتنقیدی اور تخلیقی اجلاس اختتام پذیر
نئی دہلی۔26جولائی:
اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے دہلی کے بزرگ اور جواں عمر قلمکاروں کامقبول ترین پانچ روزہ ادبی اجتماع ’’نئے پرانے چراغ‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ مورخہ 25جولائی کو ’’تحقیقی وتنقیدی ‘‘اجلاس اکادمی کے قمررئیس سلورجوبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسکالرز نے منتخب موضوعات پر تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ ان موضوعات میں ’’دکن کی قدیم اردو شاعری اور اہم شعرا‘‘، ’’غزل کے بدلتے رجحانات‘‘ ، ’’اردو تحقیق اور اہم محققین‘‘، ’’قدیم اردو نثر اور اہم تصانیف‘‘، ’’اردو صحافت:ماضی، حال اور مستقبل کے امکانات‘‘ شامل ہیں۔
مجلسِ صدارت میں پروفیسرعبدالحق ، پروفیسر خالد محموداور پروفیسر غلام یحییٰ انجم شامل تھے جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹرمحمدشاداب شمیم نے انجام دیے۔اس اجلاس میں دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرفرحت انوار نے ’’اردو صحافت ماضی سے قبل‘‘،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرمنزہ قیوم نے ’’غزل کے بدلتے رجحانات‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر شمیم احمدنے ’’مثنوی چندر بدن و مہیارکا تہذیبی مطالعہ ‘‘،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالرعنب شمیم نے ’’رشید حسن خاں اور ان کی کتاب ادبی تحقیق مسائل و تجزیہ‘‘،دہلی یونیورسٹی کی شاہدہ فاطمہ نے ’’ہندوستانی ادب کے ممتاز محقق مسعود حسن رضوی ادیب’‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر عبدالباری نے ’’تدوین متن روایت اور مسائل ‘‘،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرمناظر ارشد نے ’’شکیل الرحمن کی اقبال شناسی‘‘،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرروبینہ پروین نے ’’رانی کیتکی کی کہانی کی تدوین متن کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر فرقان عالم نے ’’دارالمصنفین اور پروفیسر نجیب اشرف ندوی کی تحقیق ‘‘،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرعامر مظفر بٹ نے’’دکن کے ابتدائی دور کی مقبول صنف:جکری ایک تعارف‘‘،دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالرمنیبہ اختر نے ’’اردو میں وضاحتی کتابیات:تحقیق و تدوین‘‘،دہلی یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر عقیلہ نے ’’مختلف دور میں غزل‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر ابرار حسین نے ’’اردو تحقیق اور مولوی عبدالحق ‘‘، دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر محمد مصطفی نے ’’مکاتیب شبلی میں شبلی کی اردو شاعری ‘‘،دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سید عینین علی حق نے ’’اردو صحافت:عہدزریں سے زوال تک ‘‘ کے عنوانات پر اپنے مقالات پیش کیے۔
پروفیسر خالد محمودنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ اس پروگرام میں بہت اچھے مقالات پیش کیے گئے۔ یہ پروگرام میرا پسندیدہ ترین پروگرام ہے،اس میں اتنے سارے ارددو والے اساتذہ اور طالب علم یہاں جمع ہوتے ہیں اور کس طرح سے ان کی تربیت ہوتی ہے،یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس سے بہت زیادہ سیکھنے کو ملتا ہے، صرف طالب علم کو نہیں بلکہ اساتذہ کو بھی سیکھنے کو ملتا ہے،اساتذہ اس بات کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔موضوعات کے دائرے میں رہ کر مضامین لکھنے تھے اور آپ نے لکھے۔مقالات کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ سارے مضامین میں تنوع ہے۔موضوعات کا تکرار نہیں ہوا ہے اور یہ آسان نہیں ہوتا ہے۔مجھے اکثر مضامین کو سن کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ پروفیسر خالد محمود نے تلفظ کی خامیوں کی گرفت کرتے ہوئے کہاکہ تلفظ پہ اگر آپ زور نہیں دیں گے تو ہم میں اور دوسروں میں کیا فرق رہ جائے گا، ہمیں اس خامی کو دور کرنا چاہئے۔ میں طالب علموں اوراردو اکادمی کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اچھا پروگرام منعقد ہوا۔ پروفیسر غلام یحییٰ انجم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ مقالہ لکھنا اور پڑھنا دو مختلف خوبیاںہیں، اگر آپ کے پاس یہ دونوں فن ہیں تو آپ دل میں اتر جائیں گے۔ آپ محقق ہیں اور الفاظ کا استعمال کررہے ہیں تو اس پر آپ کی گرفت ہونی چاہئے۔ جملے کے ربط پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، آپ اردو والے غلط جملوں کا استعمال کریں گے تو وہ درست نہیں ہے۔نئے پرانے چراغ کا مقصد یہی ہے کہ نئی نسل میں اتنی پختگی آجائے تاکہ انہیں کہیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
ظہرانے کے بعد ’’تخلیقی اجلاس‘‘ کا آغاز ہوا، جس کی صدارت پروفیسر معین الدین جینا بڑ ے نے کی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ندیم احمد نے انجام دیے۔اس سیشن میں افسانہ/انشائیہ/ خاکہ وغیرہ پیش کیے گئے۔اس موقع پرڈاکٹر نگار عظیم نے ’’تعلق‘‘، ڈاکٹر نورین علی حق نے ’’ تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ‘‘،ثاقب فریدی نے ’’سونو کی اماں‘‘،ناظمہ جبیں نے ’’رشتوں کی ریت‘‘،ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے’’مٹی کی خوشبو‘‘، ڈاکٹر سفینہ نے’’غالب2022میں‘‘، محمد عمران عاکف نے ’’برزخی‘‘، ذبیح اللہ نے ’’سیٹھانی‘‘،ترنم پروین نے ’’علم‘‘، سنتوش کمار نے ’’مدد کی درکار‘‘ کے عنوانات سے اپنے افسانے پیش کیے۔
پروفیسرمعین الدین جینا بڑے نے صدارتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اردو اکادمی کا یہ جو پروگرام ہوتا ہے اس کا مقصد نئی نسل جو ادب کی جانب راغب ہو رہی ہے ان کے لیے اسٹیج فراہم کرنا ہے اور بزرگ فنکاروں کو وہ سنیں اورسن کر ایک فنکار کی حیثیت سے اپنے طور پر اثرات قبول کریں۔ افسانہ نئی نسل اور پرانے کو کچھ سکھانے کی حیثیت رکھتا ہے۔اچھا افسانہ کسے کہتے ہیں ،ادب کی دنیا بہت ہی عجیب ہے،قاعدے قانون بہت اوندھے ہیں۔ اچھا افسانہ ایک معجزہ ہوتا ہے جو ایک مرتبہ کبھی وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔وہ ایسا معجزہ ہوتا ہے،جسے فنکار نہیں دہرا سکتا ، جس نے خود وہ معجزہ انجام دیا ہے۔ فن لمحے کو اپنی گرفت میں لینے کا نام ہے ۔وقت کا ایک لمحہ اپنے اندر پوری دنیا رکھتا ہے۔ شرکا میں متعدد اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی اجلاس کے فوراً بعد ’’محفل شعر وسخن‘‘ کا آغاز ہوا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page