ایک شخص دل ربا سا : سوانحی ادب کا حسین مرقع – ڈاکٹر جسیم الدین
سوشل میڈیا بطور خاص واٹس ایپ اور فیس بک کے پلیٹ فارم پر پے درپے نمودار ہونے والی ناہموار، غیر مربوط اور لفظی ومعنوی اغلاط سے پر تحریروں نے جہاں سنجیدہ طبیعت کو مکدر کردیاہے ، وہیں بعض ماہر قلمکاروں کی بھی تحریریں اسی پلیٹ فارم پر نشر ہوتی ہیں ،جن سے طبیعت میں بشاشت آجاتی ہےاور سوشل میڈیا جیسے ارزاں ورخیص پلیٹ فارم پربھی ان کی تحریریں گراں مایہ ثابت ہوتی ہیں، نایاب حسن بلاشبہ انھی قلمکاروں میں سر فہرست ہیں،جن کی پوسٹ کردہ ہرتحریر قاری کو فکروفن کی ایک نئی کائنات سے روشناس کراتی ہے، فکروتحریر کی پیش کش کاان کا جو انداز ہے ، وہی انھیں معاصر قلمکارو ں سے ممتاز ومنفرد کرتاہے۔ ان کی پرکشش نثری تحریریں معلومات آفریں ہونے کے ساتھ ساتھ سحر آگیں ہوتی ہیں، یہ صرف میرا احساس نہیں ہے ، بلکہ سوشل میڈیا پر موجود ان کے ہزاروں مداحوں کا ہے ، جس کا ہم آئےدن مشاہدہ کرتے ہیں۔’ایک شخص دل ربا سا‘ میں شامل بیشتر تحریریں کتابی شکل میں منظر عام آنے سے قبل ’فیس بک ‘اور ’واٹس ایپ گروپ‘پر قسطوں میں نشر ہوچکی ہیں، مجھے یاد آرہاہے کہ جب پہلی قسط آئی تھی تو قارئین وناظرین کی طرف سے دوسری ،تیسری ،چوتھی اور اس طر ح ’ہل من مزید ‘ کی صدا بلند ہوتی رہی حتیٰ کہ ’ایک شخص دل ربا سا‘ مجسم طور پر سامنے آگئی۔
اس کتاب کی ظاہری وباطنی خصوصیات وامتیازات پر مشاہیر سے لے کر نو آموز قلمکاروں کی درجنوں تاثراتی ومعروضی تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں ، میری عدیم الفرصتی نے مجھے ’السابقون الاولون‘ کی صف میں آنے کے اعزاز سے محروم رکھا ، حالاں کہ تقریباًچھ ماہ قبل مجھے یہ بیش قیمت کتاب اس نوٹس کے ساتھ دی گئی تھی کہ ’انقلاب‘ میں بھی مجھے اس پر تبصرہ کرناہے‘۔لیکن صد افسوس میں بروقت تعمیل حکم سے قاصر رہا، وقت کی رفتار اتنی تیز رہی کہ آج ہم ۲۰۲۲ سے ۲۰۲۳ میں قدم رکھ چکے ہیں اوراب تعمیل حکم کا موقع میسر آیا، ہرچندکہ میں نے دوماہ قبل ۲؍نومبر ۲۰۲۲ کو دہلی سے پٹنہ کےریل کے سفرکے دوران کتاب کے نصف حصے کو بالاستیعاب پڑھا اور میں نے یہ طے کرلیا تھاکہ پوری کتاب مکمل کرکے ہی کچھ لکھوں گا،اس دوران صاحب تصنیف سے اکاد بار بات چیت بھی ہوئی اور مجھے احساس ندامت بھی دامن گیر رہی، لیکن یہ باعث مسرت ہے کہ ۲۰۲۲ کے اختتام کے ساتھ میں نے بھی یہ کتاب مکمل پڑھ لی۔
اس کتاب کے مطالعہ سے میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک صاحب فضل وکمال استاذ کے لیے بھی باعث عزوشرف یہ بھی ہے کہ ان کو بہت ذہین وفطین اور باصلاحیت قلمکار شاگرد بھی میسر آجائے ، جو ان کے فضل وکمال سے چہار دانگ عالم کو روشناس کرادے۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی کی شخصیت عدیم المثال تھی ،وہ ایک مقبول استاذ، باکمال مربی ، بے باک صحافی اور یگانۂ عصر ادیب تھے، جس نے بھی ان سے کسب فیض کیا،وہ چشم دید گواہ ہوں گے کہ ان کا طرز تدریس کتنا دل نشیں تھا، گفتار پر انھیں کتنی قدرت حاصل تھی اور اپنی بات کو سامع کے قلب میں اتاردینے کا کتنا ملکہ انھیں حاصل تھا۔کبھی مصنف کی وجہ سے کتاب کو اعتبار حاصل ہوتا ہےاور کبھی کتاب کی وجہ سے مصنف کو اعتبار کا درجہ ملتا ہے ، یہ کتاب ایسی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے شیر وشکر ہوگئے ہیں، کتاب جن کے بارے میں لکھی گئی ہے، وہ خود سرتاپا قرطاس وقلم کے شہ سوار رہے ہیں اور جنھوں نے یہ کتاب لکھی ہے ،وہ خود بھی قلم وقرطاس کے دھنی ہیں، ان کے اشہب قلم سے متعدد دل نشیں تصانیف منظر عام پر آکر شرف قبولیت حاصل کرچکی ہیں، جن میں ’دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظر نامہ‘، ’ور ق ورق درخشاں ‘، ’عکس ونقش‘ ، ’مولانا اسرار الحق قاسمی: جادہ بہ جادہ، منزل بہ منزل‘ اور ’عہد عباسی میں ترجمہ نگاری(ترجمہ)‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ ان تصانیف کو پڑھ کر نایاب حسن کی علمی وفکری ابعاد کا تعین ہوتاہے ،وہ اپنے معاصرین میں بہت تیز روہیں ،جن کے روزوشب کا مشغلہ کتب بینی اور کتب نویسی ہے، وہ صلہ وستائش کی پروا کیے بغیر نہایت انہماک سے اپنی شخصی تعمیر وترقی میں لگے ہوئے ہیں، جس ہنر کو انھوں نے اپنے اساتذہ سے سیکھا اوربرتا ہے ، اس پر پورے استحکام کے ساتھ گامزن ہیں، ان کی یہ کتاب ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ ،انھوں نے جس طرح اس کتاب کے ظاہری وباطنی حسن کو سجایا اور سنوارا ہے ،یہ انھی کا حصہ تھا۔اس کتاب کا سب سے اہم حصہ ’یاد داشتیں‘ ہے، جس کو پڑھ کر آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں کہ مولانا مرحوم کے ابتدائی روز وشب کتنے مشاکل ومصائب سے گذرے اور کس طرح انھوں نے عزت نفس کو صدمہ پہنچائے بغیر خود کوفضل وکمال کے اوج ثریا پرپہنچایا۔
نایاب حسن نسل نو کے لیے آئیڈیل ہیں ، ان کی تحریر کی شگفتگی قاری کی دلجمعی کو برقرار رکھتی ہے۔برمحل تعبیرات واستعارات کاا ستعمال ان کی تحریروں کو دو آتشہ بنادیتاہے، یہی وجہ ہے کہ استاذ محترم بھی ان کے مداح تھے، اور ان کے ہر علمی کام کی ستائش کرتے تھے۔ تادم زیست مولانا مرحوم سے علمی وتصنیفی کاموں کے حوالے سےنایاب حسن کا تبادلۂ خیال ہوتارہا، مولانا مرحوم کا یہ بہت بڑا کمال تھا ،وہ اپنے باصلاحیت شاگردو ں کی حوصلہ افزائی کرنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لیتے ، بلکہ انھیں صیقل کرتے اور گاہے بگاہے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہتے۔ انھیں اس بات سے سخت بیزاری تھی کہ ان کا کوئی بھی شاگرد سہل پسند ہوجائے، وہ ہمیشہ حرکت وعمل کے لیے مہمیز کرتے تھے۔
راقم الحروف نے بھی ’تکمیل ادب عربی‘ کے سال میں آپ سے کسب فیض کیا۔ہم وطن (سیتامڑھی، مظفر پور)ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار مولانا کے دولت خانے پر بھی عصر ومغرب کے دورانیہ میں حاضر ہوتا اور ان کے مفید وکار آمد پند ونصائح سے مستفید ہوتا، مولانا مرحوم کی پوری زندگی جہاں سنت وشریعت کے تقاضوں کے مطابق گزری، وہیں وہ زمانے کے تقاضوں سے بھی بخوبی آشنا تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مجھے عصری درسگاہ ،جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی میں آنے پر اظہار مسرت کیا اور اپنے صاحبزادے اسامہ نور کو بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونیورسٹی بھیجا۔انھوں نے عصری درسگاہوں کا رخ کرنے والے طلبہ کے ساتھ کبھی ترش روئی کا مظاہرہ نہیں کیا،ہاں یہ ضرور کہتے تھے کہ اپنے وضع قطع ساتھ زندگی کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھو۔
کتاب میں ممتاز ومنفرد قلمکار وصحافی حقانی القاسمی کی بیش بہا تحریربھی جہاں مولانا مرحوم کو شاندار خراج ہے ، وہیں نایاب حسن کی قلمی صلاحیتوں کا اعتراف نامہ ہے۔نایاب حسن خود جوان ہیں ہی ان کا عزم وحوصلہ بھی شباب پر ہے۔میری دعاہے کہ ان کے شباب پر کبھی خزاں کا سایہ نہ پڑےاور ان کا قلم یونہی رواں دواں رہے۔مجھے بے پناہ خوشی ہے کہ نایاب حسن نےجس پرکشش اسلوب میں مولانا کی فکری و علمی کائنات کو کمال زرف گاہی وہنرمندی سے ابھاراہے ،وہ ضرب کلیمی کا درجہ رکھتاہے۔
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا ، وہ ہنر کیاہے
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page