علی امام نقوی کے ناول’’تین بتی کے راما‘‘ کا تنقیدی مطالعہ / عرفان احمد – ڈاکٹر نوشاد منظر
علی امام نقوی کی شناخت جدید فکشن نگار کی ہے۔انہوں نے افسانے بھی لکھے اور ناول بھی، مگر ان کو ادبی شناخت دلانے میں ان کے ناول تین بتی کے راما نے اہم رول ادا کیا۔دوسرے لفظوں میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ناول تین بتی کے راما ، علی امام نقوی کا شاہکار ہے۔
زیر تبصرہ کتاب’’علی امام نقوی کے ناول’’تین بتی کے راما‘‘ کا تنقیدی مطالعہ‘‘عرفان احمد کی پہلی کتاب ہے۔ عرفان احمد کا تعلق بہار کے کٹیہار سے ہے اورابھی وہ شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔عرفان احمد نے اپنی کتاب’’علی امام نقوی کے ناول’’تین بتی کے راما‘‘ کا تنقیدی مطالعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس کے علاوہ پیش لفظ اور کتابیاب بھی کتاب کا حصہ ہیں۔کتاب کا فلیپ معروف فکشن نگارڈاکٹر خالد جاوید نے تحریر کیا ہے ، جس میں انہوں نے علی امام نقوی اوران کے ناول تین بتی کے راما کی خوبیوں کو پیش کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا پہلا حصہ ’’ علی امام نقوی:سوانحی کوائف‘‘ ہے۔کتاب کے حصے میں فاضل مصنف نے علی امام نقوی کی پیدائش، ان کے خاندان، تعلیم، تخلیقی سفر کے علاوہ ان کی ادبی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔عرفان احمد نے علی امام نقوی کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۵۴ کو بتاتے ہوئے اس انٹرویوکا حوالہ دیتے ہیں جو ان ان کے افسانوی مجموعے ’’نئے مکان کی دیمک‘‘میں شامل ہے، حالانکہ ان کی ادبی زندگی کا آغازباضابطہ طور پر ۱۹۹۰ میں ہوا۔ مصنف نے علی امام نقوی کے دو ناول اور پانچ افسانوی مجموعے کا ذکر کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب کا دوسرا حصہ’’ اردو ناول۔ آغاز و ارتقا‘‘ ہے۔ عرفان احمد نے روایت سے ہٹ کر اردو ناول کے ارتقا پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے مغربی مفکرین کے خیالات کی روشنی میں ناول کی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ڈینیل ڈفو سے لے کرہینری فیلڈنگ، فرائڈ،میلان کنڈیرا وغیرہ کے خیالات کو پیش کیا ہے۔عرفان احمد کا خیال ہے کہ دنیا کا پہلا ناول سروینٹس (Cervantes)نے’’ڈان کہیوتے‘‘ کے عنوان سے ۱۶۰۵ء میں لکھا تھا۔اردو میں ناول کا آغاز ’’ مراۃ العروس سے ہوتا ہے، جسے نذیر احمد نے ۱۸۶۹ میں لکھا تھا۔عرفان احمد نے نہایت تفصیل کے ساتھ اردو ناول کے آغاز و ارتقا پر روشنی ڈالی ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کا تیسرا باب’’ علی امام نقوی کے معاصر ناول نگار ‘‘ ہے۔مصنف نے اس باب میں ’’کانچ کا بازی گر(شفق)‘‘، ’’دو گز زمین(عبد الصمد)‘‘،’’مکان(پیغام آفاقی)،’’بولو مت چپ رہو، فرات(حسین الحق)‘‘،’’نمبر دار کا نیلا(سید محمد اشرف)‘‘،’’ندی(شموئل احمد) کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ مذکورہ تمام ناولوں کی اشاعت کا زمانہ لگ بھگ وہی ہے جو علی امام نقوی کے ناول ’’ تین بتی کے راما ‘‘ کا ہے۔مذکورہ ناولوں کا شمار ۱۹۸۰ کے بعد لکھے گئے چند اہم ناولوں میں ہوتا ہے۔چونکہ مصنف کا ارادہ ۱۹۸۰ کے بعد لکھے گئے اہم ناولوں میں ’’تین بتی کے راما‘‘ اور علی امام نقوی کے مرتبے کا تعین کرنا معلوم ہوتا ہے ، مصنف نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کا مقصد علی امام نقوی کو ان کے معاصرین سے مختلف دیکھنے اور سمجھنے کا ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ مصنف نے مذکورہ ناولوں پرمحض تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصرے مختصر ضرور ہیں مگر ان کے مطالعے سے ناول کے موضوع، کرداراورناول نگار کے اسلوب کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب دراصل اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔اس باب میں مصنف نے ’’تین بتی کے راما‘‘ کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔عرفان احمد کا خیال ہے کہ یہ ناول اس وقت سامنے آیا جب اردو میں علامتی اور تجریدی فکشن کا بول بالا تھا، ان کا خیال ہے کہ ’’تین بتی کے راما‘‘ کا موضوع حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے ڈانڈے ترقی پسند فکر سے بھی ملتے ہیں ۔جہاں تک ناول کا تعلق ہے تو یہ ممبئی کی شہری زندگی کا ایک گھناؤنا روپ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے، جو اسکرین پلے کی طرح قاری کے اعصاب پر چھا جاتا ہے۔عرفان احمد نے اپنے اس مطالعے میں ناول سے کئی مثالیں بھی پیش کی ہیں،انہوں نے ناول کے چند اہم کردار کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے، جس سے ناول کی تفہیم میں مدد ملتی ہے۔
بہرکیف:زیر تبصرہ کتاب’’ علی امام نقوی کے ناول’’تین بتی کے راما‘‘ کا تنقیدی مطالعہ‘‘ایک اچھی کتاب ہے۔ مصنف نے نہایت سلیقے سے ناول کا تجزیہ کیا ہے۔ چونکہ علی امام نقوی نے محض دو ناول ہی لکھے ہیں لہذا اگر مصنف نے ان کے دوسرے ناول’’ بساط‘‘ پر بھی اظہار خیال کیا ہوتا تو علی امام نقوی کی ناول نگاری کو سمجھنے میں مزید مدد ملتی۔کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page