آزادی کے بعد اردو افسانوں میں قومی یک جہتی: بہار کے تناظر میں / ڈاکٹر عبد البرکات- ڈاکٹر نوشاد منظر
تقسیم ہند نے مجموعی طور پر تمام ہندوستانیوں کو جو تکلیف پہنچائی ، جس درد سے انھیں گزرنا پڑا اس کی دوسری مثال ملنی مشکل ہے۔ تقسیم نے صرف زمین کے حصے کو دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا بلکہ زمین کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں کو بھی تقسیم کردیا۔ ایسے وقت میں یہ ضروری تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جو دو قوموں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ان میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ اردو فکشن نگاروں نے اس جانب سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی۔ ان لوگوں نے تقسیم اور اس کے بعد ہونے والے فسادات کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ کئی بہترین افسانے اور ناولیں منظر عام پر آئیں جن میں تقسیم کے درد و کرب کو آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔
میرے پیش نظر ڈاکٹر عبد البرکات کی کتاب ‘‘آزادی کے بعد اردو افسانوں میں قومی یک جہتی: بہار کے تناظر میں’’ ہے۔ڈاکٹر عبد البرکات بہار یونیورسٹی مظفر پور میں اردو کے استاد ہیں۔آپ کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، یہی نہیں ادبی میراث کے لیے بھی انھوں نے کئی تحریریں بھیجی ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں بھی ان کی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں جن سے ایک بڑا طبقہ استفادہ کرتا ہے۔
مذکورہ کتاب ‘‘آزادی کے بعد اردو افسانوں میں قومی یک جہتی: بہار کے تناظر میں’’ کو مصنف نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ آخر میں محاکمہ بھی شامل ہے۔ محمد عارف اقبال کی تحریر ‘ حرف چند ’ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے، جس میں انھوں نے مذکورہ کتاب کا تعارف پیش کیا ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ ‘افسانے کا فن ’ ہے ۔ افسانے کے فن پر باضابطہ کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ڈاکٹر عبد البرکات نے طلبا کی آسانی کے لیے ان مباحث کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ افسانہ کیا ہے، اس کے فنی لوازمات سے لے کر اس کی تکنیک ، موضوع، اسالیب اور اجزائے ترکیبی پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ انھوں نے مختلف مثالوں کے ذریعے افسانے کے فن کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔افسانے میں زبان کی اہمیت کی جانب بھی انھوں نے اشارے کیے ہیں اور راوی کی اہمیت کا بھی احساس ان کی تحریر کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ‘‘ بہار میں اردو افسانے کا ارتقا ’’ ہے۔ بہار علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کے ساتھ دبستان عظیم آباد کی اپنی اہمیت اور شناخت رہی ہے۔ اور بقول منور رانا‘ بہار کی مٹی میں سونا نہیں ہے بلکہ بہار کی مٹی ہی سونا ہے’۔ جہاں تک اردو افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اردو افسانے کا جب آغاز ہوا اس کے ساتھ ہی بہار میں بھی اردو افسانے کا آغاز ہوا ۔ ڈاکٹر عبد البرکات نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے اردو فکشن نگاری میں بہار کی روایت کا ذکر کیا ہے۔ انھوں سید احمد قادری کا ایک اقتباس بھی پیش کیا ہے جس میں سید احمد قادری نے لکھا ہے کہ علی محمود کا افسانہ ‘‘چھاؤں ’’ جس کی اشاعت مخزن کے جنوری 1904 کے شمارے میں ہوئی تھی اگر یہ افسانہ ایک ماہ قبل شائع ہوجاتا تو اولیت کا تاج علی محمود کے سر باندھا جاتا۔اور اس لیے کہ راشد الخیری کا افسانہ ‘‘نصیر اور خدیجہ’’ مخزن کے ہی دسمبر 1903 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ڈاکٹر عبد البرکات نے بہار کے ابتدائی دور کے افسانہ نگاروں میں علی محمود، محمد مسلم عظیم آبادی، نور الہدیٰ ندوی، علی اکبر کاظمی، آفتاب حسن، جمیل مظہری اور حنیف فائز عظیم آبادی وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔مگر ساتھ ہی انھوں نے اس دور کے افسانے کو افسانہ کہنے کے بجائے کہانی کہنے پر زور دیا ہے۔ مگر اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آخر افسانے کو کہانی کہا جائے۔بہرحال ڈاکٹر عبد البرکات نے بہار کے کئی اہم افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے اور ان کی کچھ کہانیوں سے اقتباس بھی پیش کیے ہیں اور ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔بہار میں افسانہ نگاری کے تعلق سے یہ بے حد اہم حصہ ہے، اس میں ابتدا سے 2015 تک کے اہم افسانہ نگاروں کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب کے تیسرے حصے کو ‘‘ قومی یک جہتی کی تفہیم ’’ کا عنوان دیا گیا ہے۔ آج ہم یکجہتی، اجتماعیت اور قومی یگانگت و قومی یک جہتی جیسی اصطلاح تو سنتے ہیں مگر اس کے اصل مفہوم تک شاید ہماری رسائی نہیں ہو پا رہی ہے، شاید یہی سبب ہے کہ ہر طرف نفرت کا بازار گرم ہے۔ ڈاکٹر عبد البرکات نے قومی یکجہتی کی اصطلاح کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔انھوں نے موجودہ صورت حال کے پیش نظر قومی یکجہتی کی رفتار کو بڑھانے پر زور دیا ہے اس سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ اس موضوع پر سیمینار اور سمپوزیم کرانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
کتاب کا چوتھا حصہ ‘‘آزادی کے بعد اردو افسانوں میں قومی یکجہتی (بہار کے تناظر میں) ہے۔ جو اس کتاب کا عنوان بھی ہے۔ اس لحاظ سے یہ باب کافی اہم ہے۔جیسا کہ میں نے ابتدا میں بتایا تقسیم ہند کا درد کوئی معمولی درد نہیں تھا۔ اس تقسیم نے سیاسی نظریات کے ساتھ ساتھ ہمارے رہن سہن کو ہی بدل دیا۔ جہاں تک بہار میں لکھے گئے افسانوں کا تعلق ہے تو ڈاکٹر عبد البرکات نے لکھا ہے کہ بہار کے اردو افسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے قومی یکجہتی کے مسئلے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اول ایسی کہانیاں جن میں فسادات کی ہولناکی، خون ریزی، اور ظلم و زیادتی کو موضوع بنایا گیا ہے وہیں دوسری جانب ایسے افسانے بھی ہیں جن میں امن و آشتی اور باہمی اخوت و محبت کی قدیم روایت میں نئی زندگی پیدا کرنے ، انسانیت کی بنیاد، مساوات، ہمدردی اور مذہبی رواداری کے جذبہ کو فروغ دینے، ملک میں جمہوری نظام اور آئین کی بقا کو مستحکم کرنے کی کوشش ملتی ہے۔چونکہ بقول ڈاکٹر عبد البرکات پہلے حصے کے افسانوں میں تخلیقی فقدان ہے اس لیے انھوں نے دوسرے زمرے کے افسانوں کو ہی عبد البرکات نے اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔یہ کافی اہم اور دلچسپ حصہ ہے۔ مجموعی طور پر جن افسانوں کا ذکر عبد البرکات نے کیا ہے ان میں ہندو مسلم اتحاد پر زور ملتا ہے۔ قومی یکجہتی کی اہمیت اور لوگوں کے دلوں میں مشترکہ کلچر اور قومیت کے جذبے کو فروغ دینے کی کوشش ملتی ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر عبد البرکات نے اپنی کتاب میں نہایت تفصیل کے ساتھ موضوع کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں طلبا کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے افسانے کے فن اور بہار میں افسانہ نگاری کی روایت کا تفصیلی جائزہ بھی لیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب طلبا کے لیے کافی مفید اور کار آمد ہے، بہار کی افسانہ نگاری کے حوالے سے ریسرچ کرنے والے اسکالرز کے لیے بھی یہ کتاب اہمیت رکھتی ہے۔ میں ڈاکٹر عبد البرکات صاحب کو اس اچھی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page