سر زمین بنگال جو علم و فن کا گہوارہ اور تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ یہاں کی سر زمین یعنی بنگال کی سوندھی مٹی ادب اور سائنس کے لیے بہت زرخیز ہے۔ ہندوستان کے تقریباً تمام Noble Laureate کا تعلق بنگال سے ہی ہے۔ شہر نشاط کلکتہ میں بہت سے ادبا اور شعرا نے جنم لیا ہے۔ ایک جانب جہاں ہم فراموش نہیں کرسکتے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور، اجنندر ناتھ ٹیگور، سرت چٹرجی، مدھو سدن دتہ، سوامی وویکا نند، ایشور چندر ودیا ساگر اور نذرالاسلام کو۔ تو دوسری جانب وہیں طوطئ بنگالہ علامہ رضا علی وحشت، پرویز شاہدی کلکتوی، شاکر کلکتوی، شمس کلکتوی، علقمہ شبلی، نصر غزالی، پروفیسر اعزاز افضل اور ابراہیم ہوش کے نام بھی ادبی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ کولکاتہ کے مضافاتی علاقوں میں بھی قابلِ قدر شعرائ و ادبائ نے جنم لیا۔ کلکتہ سے جڑے شمالی چوبیس پرگنہ کے بیشتر مضافاتی علاقے دریائے ہگلی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں کھردہ، ٹیٹاگرھ، بارکپور، شیام نگر، جگتدل، کانکی نارہ اور مارواڑی کل حاجی نگر ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر شعرائ ایسے رہے جو جوٹ مل یا پیپر مل میں مزدور اور ملازم تھے۔ انہوں نے نامعقول مشاہرہ، غربت اور کسمپرسی میں اپنے شب و روز گزارے۔ کچھ تو شدید محنت کش مزدوری اور راج مستری کے پیشے سے بھی منسلک رہے۔ آج کے اقربائ پرور شعرائ و ادبائ ان غریب خادمانِ شعر و ادب کو فراموش کرکے صرف اپنے بابا، ماما، بھائی، بھتیجا،اور کزن کو ہی ادبی صفحہ ٔ قرطاس پر زندہ رکھنے یا نمایاں کرنے کی طاق میں دِکھتے ہیں۔ افسوس ایسا ہی کچھ عکس راجدھانی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے! سوچئے اُن غریب شعرائ و ادبائ کے کاندھوں پر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات، بہنوں کی شادی کی ذمہ داریاں، ضعیف والدین کی تیمارداری اور خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں تھیں۔ تاہم ان نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی انھوں نے گیسوئے شعر و ادب کو قابلِ ذکر طور پر سلجھانے کی حتی الامکان کامیاب کوششیں کی ہیں۔ ان مضافاتی نادار شعرائ و ادبائ کی ادبی و شعری حیات 3 یا 4 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق ان چند ناموں میں عابد شاہ آبادی(ٹیٹاگڑھ)، اُمی بارکپوری، حیراں ٹیٹاگڑھی، انجم ٹیٹا گڑھی، پرنم بلیاوی،زار غازی پوری، ارمان شام نگری، وحید عرشی اور خلش امتیازی ہیں، جن کو اردو والوں نے قریب قریب فراموش کر دیا۔ مخصوص ادبی لابی محض اپنی اور اپنے اقربا کی سرگرمیوں کی اچھی نمائش کر ادبی بازار میں سر بازار کرتے ہیں، کہیں کہیں تو پورا گھرانہ ملکر ایسا کرتے ہیں۔ حد ہے کہ کوئی نیا راقم اسی روش کو گر ذرا سا اختیار کرلے تو اس پر تنقیص کرتے کرتے غیبت کی چوکھٹ تک پہنچ جاتے ہیں یا اور نیچے اتر کے اپنی اوقات پر آجاتے ہیں۔ تف ہے کہ پھر بھی خود کو مہذب اور اچھے خانوادے کا گردانتے ہیں۔ ایسے میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی انتہائی غنیمت ہے، معاشی طور پر کمزور ادبائ کے لیے، جو اپنی مالی تعاون اور قابل ستائش پہل سے مالی طور پر کمزور ادبائ، شعرا اور مصنفین کی تعاون کر ان کو ادب میں زندہ رکھنے کا بہتر کام کر رہی ہے۔ لہذا اردو اکیڈمی کے تمام عہدیداروں اور پوری ٹیم کو مبارکباد۔
ہر دور میں قدرت اپنے خزانے سے لعل و گہر کو ظاہر کرتا رہا ہے۔ اسی طرح بنگال کے موجودہ علمی و ادبی منظر نامے پر ایک ہونہار اور جواں سال نام علی شاہدؔ دلکش کا ہے۔ شاہدؔ صاحب بنگال کے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ کے کانکی نارہ میں مقیم ہیں اور سائنس اسٹریم کی انگلی تھامے اپنی بے لوث ادبی خدمات اردو سماج کو دیے جا رہے رہیں۔ ان کی قلمکاری کی رسائی ہندوستان کے دیگر مختلف صوبوں میں دور دور تک دیکھی جا رہی ہے۔ اس کم عمری میں ہی علی شاہدؔ دلکش کے قلم کی آب و تاب ہندوستان کے میعاری جریدے، ویب سائٹ اور ادبی پورٹل اور پرنٹ میڈیا کے توسط سے پڑوسی ممالک تک پہنچ کر اپنے جلوے بکھیر رہی ہے۔ چونکہ راقم الحروف کے بھی مضامین آئے دن ان ادبی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے قارئین ادب تک پہنچ پاتے ہیں۔ لہذا میری گہری نظر رہتی ہے اس پلیٹ فارم پر۔اس لئے میں خوب واقگ ہوں۔ واضح کر دوں کہ موصوف علی شاہد دلکش اردو میڈیم (کانکی نارہ حمایت الغربائ ہائر سکنڈری اسکول) سے فارغ ہوکر سائنس گریجویٹ بنے پھر کمپیوٹنگ سائنس و انجینئرنگ اور لائبریری سائنس میں ماسٹرز بھی ہیں۔ فی الحال نارتھ بنگال کے کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج میں بی ٹیک اسٹوڈنٹس کیلئے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ جواں سال ادب کا خدمتگار خاموشی سے اپنی قلمکاری کی سحر انگیزی میں مستغرق رہتا ہے مگر ان کی نگارشات بغیر بیجا نام و نمود کے شاہدؔ صاحب کے ٹیلینٹ کی چغلی کرتی رہتی ہے۔ ادب والوں کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھ کر وسعتِ قلبی دکھاتے ہوئے ایسے نیوکمرعلمی و ادبی بندے کو ہاتھوں ہاتھ لینا چاہئے مگر افسوس! یہاں معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ چونکہ میں بھی اردو کی ادنیٰ سا خادم ہوں۔ اردو کی محبت میں اپنی معمولی سی اردو نثر نگاری کی شکل میں گزشتہ کئی برسوں سے اپنی بساط بھر خدمتِ اردو ادب کرتی چلی آرہی ہوں مگر مخصوص لابی و ذہنیت کے حامل اردو ادب والوں کی غیر حِسی اور غیر ادبی روش سے نالاں ہوکر کبھی کبھی ترکِ خدمت ِ ادب کے دہانے تک پہنچ جاتی ہوں۔ ہمارے بزرگ محققین کے مطابق سطحی ذہن والے ادبائ و شعرائ کی وجہ سے موجودہ زمانے کے ادبی حلقوں میں سب سے زیادہ ‘بے ادبی’ ہو رہی ہے۔ اللہ کی ذات سے مستقبل میں بہتری کی امید ہے۔
اللہ کریم ہمارے نو وارد شاعر و ادیب علی شاہدؔ دلکش کو ایسے مخصوص پراگندہ ادبی ماحول اور ہر علاقے میں پائے جانے والے دو چار سطحی اور نیرو مائنڈ ادبی لوگوں سے بچائے رکھے اور کھلے ذہن اور بڑے دل والوں کے درمیان رکھے۔ بحرالحال شاہدؔ صاحب کی جادوئی قلمکاری سے متاثر ہوکر راقمہ بھی بذات خود ان کی مداح ہے اور مزید سوشل میڈیا پر ہماری گہری شناسائی بھی۔ رواں سال کی ابتدا میں حاجی نگر مارواڑی کل میں ڈاکٹر ناصر علی امینی مرحوم پر کتاب (مرتب: ڈاکٹر وحیدالحق) کے رسم اجرائ میں میری اولین ملاقات بھی شاہدؔ صاحب سے ہوئی۔ جہاں محترم جاوید احمد خان (وزیر حکومت مغربی بنگال) کی موجودگی میں راقم الحروف کو اپنے تاثرات معروف زمانہ نقیب خواجہ احمد حسین کی نظامت میں پیش کرنے کا موقع بھی ملا تھا۔ بنگال کے چاروں اور علی شاہدؔ دلکش کے قلم کے بکھرے ہوئے جلووں کی نذر کسی شاعر کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے جو آپ کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں ؎
بارش کی علامت ہے جب ہوتی ہو ہوا بند
فضا کی خاموشی یہ آثار بتا دیتی ہے کہ طوفان کی آمد ہے یا موسم خراب ہونے کو ہے یا کس قدر بارش ہو سکتی ہے۔ جس طرح گلوکار کی پہلی تان اور گیت کار کی شروعاتی فکر ہی اس کی کامیابی کی آگاہی کر دیتی ہے۔ اسی طرح علی شاہدؔ دلکش کی خاموش ادبی کارکردگی مستقبل کے روشن امکانات کی پیشن گوئی کر رہی ہے۔ بچپن تا نوجوانی بڑی جد و جہد کر کر کے برسرپیکار ہوتے ہوتے بر سر روزگار ہونے والے اس جواں سال شاعر و ادیب کو اللہ خزاں کی نظر ِ بد سے بچائے رکھے، آمین۔ معروف شاعر سید انظار البشر ؔ بارکپوری کا ایک شعر جو ملت کے اس ہونہار نوجوان علی شاہد ؔ پر صادق نظر آتا ہے، یوں ہے ؎
مجھ کو بشر ؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا ٭ میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے
انظار بھائی و دیگر اقاربِ شاہدؔ دلکش کے مطابق کانکی نارہ کے محمد نصیرالدین اور رضیہ خاتون کے یہاں10/اپریل 1983ئ کو ایک معصوم صحتمند بچے نے جنم لیا جس کا نام شاھد علی رکھا گیا۔ انہیں کہاں اندازہ تھا کہ یہ شائستہ فرزند ایک دن علی شاہدؔ دلکش جیسا ملت کا لعل و گہر ثابت ہوگا۔ انہوں نے بحر تلاطم جیسے کٹھن شب و روز کی کتنی مشکل گھڑیاں دیکھیں ہوں گی۔ اس کا قیاس آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ ان کے والد محترم جوٹ مل میں مزدور تھے اور محنت کش محترم کو چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کی کفالت کرنی تھی۔ جوٹ مل کی نامعقول مزدوری اور گاہے گاہے تالا بندی کے باعث رکشہ چلاکر یا ہاؤکری کرکے گھر چلانا پڑتا۔ لیکن جنونِ تلاشِ علم نے علی شاہد دلکش کی پیروں پر بیڑی نہ لگانے میں اپنا رنگ دکھایا۔ پرائمری کے بعد سکنڈری، ہائر سکنڈری، بی ایس سی، بی ایڈ، ماسٹر اِن لائبریری سائنس، پوسٹ گریجویٹ ان سافٹ انجینئرنگ اور پھر پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ماسٹرس ان انگلش مزید کمپیوٹر ٹیچر ٹریننگ کورس کے اخراجات ٹیوشن پڑھا کر مکمل کیا۔ ہمارے کریم و رحیم رب نے اس دوران مستقل ملازمت سے قبل این سی پی یو ایل، منسٹری آف ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، حکومت ہند کے ماتحت کانٹریکچول ٹیچنگ جاب بحیثیت سنیئر فیکلٹی (کانکی نارہ حمایت الغربائ ہائی اسکول >کیم ڈی پی سنٹر<) نواز کر بڑی راحت کا وسیلہ فراہم کیا۔ طویل انتظار اور تگ و دو کی گھڑیاں کا اختتام کرتے ہوئے رزاقِ کائنات نے کیے امتحانات و آزمائشوں سے گزار کر ڈائریکٹ گورنمنٹ بی ٹیک کالج میں پریکٹیکل کلاس لینے کی ذمہ داریاں ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ یہ صبرہی کا پھل ہی ہے۔مثالی بات یہ ہے کہ پختہ ارادہ والے علی شاہد ؔ دلکش اس سے پہلے ویسٹ بنگال پرائمری، اپر پرائمری، اسکول سروس کمیشن اور پبلک سروس کمیشن کے مقابلہ جاتی اکزامز کے علاوہ دیگر صوبوں کے کمپیٹیشن اکزام میں کامیاب بھی ہوئے مگر فائنل پینل میں نام آنے کی وجہ سے انتظار انتظار اور بس انتظار۔۔۔ کرتے کرتے جہد مسلسل کا دامن نہیں چھوڑا۔ حقیقی معنوں میں اتنے لمبے عرصے تک کی تعلیمی اور معاشی جدو جہد قابل داد و دُعا ہے۔ انہوں نے ادبی رقمطرازی 2010ئ سے شروع کیا۔ آغاز میں نثرنگاری اور ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے شاعری بھی کر رہے ہیں۔ ان کی تخلیقات اور رشحات قلم اپنی مادر ریاست کے علاوہ کشمیر سے کنیا کماری (انڈیا کے لیڈنگ اردو نیوز پیپر کے ادبی صفحوں پر) اور میعاری رسالوں و جریدوں تک ہی نہیں بلکہ پڑوسی ممالک کی سرحدوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی پہلی تخلیق اخبار کے بعد 2013ئ میں اردو دوست ڈاٹ کام اور اولین آن لائن گلوبل اردو میگزین ”کائنات” میں اور دی مسلم انسٹیٹیوٹ کے سہ ماہی ”پرواز” میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد شاہدؔ صاحب کی ادبی پرواز نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قومی کونسل کا ماہنامہ ‘اردو دنیا’ کے علاوہ نصف درجن یو جی سی کیئر لسٹ میں شامل اردو جریدوں تک ان کے مضامین کی رسائی ہو چکی ہے۔ ان دنوں علمی و ادبی راہوں پر موصوف کی تیز گام کی قابل ذکر پیش رفت مشاہدے میں آرہی ہے۔ میں باوثوق طور پر کہہ سکتی ہوں کہ مضافات کے کانکی نارہ و جگتدل کی نئی نسل میں شاید ہی دوسرا ایسا سائنس اسٹوڈنٹ ہو، جو اردو ادب میں بھی اس قدر قابل ذکر و تحسین جلوے بکھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اوپر بیان کئے گئے سارے مواد کو ذہن میں رکھتے ہوئے خاکسار ڈاکٹر مظفر نازنین نے اپنے مضمون کا عنوان کسی شاعر کے زیر نظر مصرع پر رکھا ؎
نہیں بحر تلاطم میں کوئی لعل و گہر ایسا
گزشتہ حالیہ دنوں میں صاحب دیوان استاذ شاعر محترم حلیم صابر کی صدارت اور بین القوامی شہرت یافتہ حبیب ھاشمی و دیگر قدآور علمی و ادبی شخصیات کی موجودگی میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے مولانا آزاد آڈیٹوریم میں منعقد شاندار مشاعرے میں پڑھی گئی ان کی ایک غزل پہ خوب داد و تحسین ملی۔ علی شاہدؔ صاحب کی اس غزل کے خاکسار اپنے پسندیدہ اشعار سے آپ کو بھی محظوظ کرنے کی سعی کر رہی ہے ؎
بھلے ہی حاصل نہیں میں تجھ کو ٭ مگر یہ میری دغا نہیں ہے
نہ جانے کیسے ہے سن لیا سب ٭ جو کچھ بھی میں نے کہا نہیں ہے
طلب ہو اپنے لیے ہی سب کچھہ ٭ دعا یہ ہرگز، دعا نہیں ہے
وزیر کو ہے دستیاب سب کچھ ٭ غریب کو کیوں، قبا نہیں ہے
وفا ہی کرتا رہا ہے شاہدؔ ٭ خمیر میں ہی جفا نہیں ہے
میں اپنے چھوٹے بھائی علی شاہدؔ دلکش کیلیے بارگاہ خداوند قدوس میں دعا گو ہوں کہ کامیابی کی بلندترین چوٹی انہیں نصیب ہو۔ ہر گام کامرانی و سرفرازی ان کے قدم چومے۔ اللہ اِنرجیٹک عمر درازی عطائ کرے بلکہ عمر خضر عطائ کرے۔ کسی شاعر کے مندرجہ ذیل شعر پہ ناچیز اپنا قلم روک رہی ہے۔
دائم رہے قائم رہے تیرا جہد مسلسل ٭ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ّّّّّّّّّّّّّّّّّ___________________________
ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتہ، مغربی بنگال
muzaffar.naznin.93@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

