شعبۂ اردو، اردو گورنمنٹ ڈگری کالج سدّی پیٹ، تلنگانہ میں ‘‘عصر حاضر میں ادب اطفال ‘‘کے موضوع پر یک روزہ سیمینار کا انعقاد
(پریس ریلیز) قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان،وزارتِ تعلیم،حکومتِ ہند،نئی دہلی کے مالی تعاون سے شعبۂ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج سِدّی پیٹ ریاستِ تلنگانہ میں مؤرخہ ۶/مارچ 2021 کو,,عصرِ حاضر میں ادبِ اطفال،،کے موضوع پر یک روزہ قومی سیمینار کا کامیاب انعقاد عمل میں آیا،جس کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹرسی ایچ۔پرساد نے کی،انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں شعبۂ اردو اور صدرِ شعبہ کی ادب ِ اطفال کے حوالہ سے کارکردگی کی تعریف و توصیف کی،اور تمام مہمانوں خصوصاً دور دراز سے آئے ہوئے مہمانانِ خصوصی اور مقالہ نگاران کا شکریہ ادا کیا۔پروفیسر سیّد فضل اللہ مکرّم صدر شعبہ اردو ، یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اپنے کلیدی خطاب میں بچوں کے ادب کی اہمیت،ضرورت،افادیت اور عصری تقاضے پر تفصیلی روشنی ڈالی،انہوں نے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ بچوں کا ادب تحریر کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،اس کے لئے بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات سے آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے،جس طرح ہم بچوں سے باتیں کرنے کے لئے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوتے ہیں،تاکہ ان سے آنکھیں ملا سکیں اور اپنی بات کو سمجھا سکیں،اسی طرح زبان و بیان کو ان کی سطح پر لانا ہوتا ہے، ورنہ ترسیل کا عمل مکمّل نہیں ہو پائے گا،عصرِ حاضر میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھما دیاہے،اور تعلیم و تربیت سے بے فکر ہو گئے ہیں،آج بچے سب کچھ موبائل اور ٹی وی سے ہی سیکھ رہے ہیں،اور ادب و ثقافت اور سماج و معاشرت سے کٹ گئے ہیں،وہ صرف میکانکی زندگی جینا جانتے ہیں، ایسے میں تہذیبی و ثقافتی اقدار پامال ہو رہے ہیں،اور ہم ایک عظیم نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں،آج کے تشکیک وانتشار کے دور میں بچوں کی نصابی تعلیم کے علاوہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔اب ان کے ہاتھوں سے موبائل یا ٹکنالوجی واپس لینا کارِ عبث ہے،بلکہ اس ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان کی ذہنی،جسمانی،روحانی اور جذباتی سطح پر تربیت کرنا بے حد ضروری ہے،مختلف ویب سائٹس پر بچوں کے ادب کو اپ لوڈ کرنا چاہئے،دل چسپ آڈیو اور ویڈیو کلپس تیّار کئے جائیں،انہوں نے اپنے کلیدی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بچوں کے ادیب و شعراء پر لازم ہے کہ وہ موجودہ دور کے بچوں کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھیں،ان میں سائنٹفک اپروچ پیدا کرنے کی کوشش کریں،اپنی تحریروں کے ذریعہ اوہام پرستی،نسلی بھید بھاؤ،جنسی عدمِ مساوات اور سماج ومعاشرے کی مختلف امراض کا خاتمہ کرنے کی تلقین کریں،آپسی بھائی چارگی،امدادِباہمی اور محبّت و الفت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں،حقیقی مو ضوعات پر پوری صداقت کے ساتھ مواد تیّار کریں۔آج کا بچہ بہت باشعور ہو چکا ہے،سوال کرنا جانتا ہے،ہر چیز کی وضاحت طلب کرتا ہے،اپنی تحریروں میں بچوں کی موجودہ صلاحیتوں کو سامنے رکھیں،تبھی وہ آپ کی طرف متوجّہ ہو گا،ورنہ آپ کی تحریریں آپ کا منھ چڑاتی رہیں گی،اپنی تحریروں کے ذریعہ ان میں حوصلہ اور شجاعت کے جذبات پروان چڑھائیں،تاکہ وہ حقیقی معنوں میں ملک و قوم کا سرمایہ ثابت ہو سکیں،گھروں اور خاندانوں میں چلڈرن سرکل کا احیا کریں،تاکہ اجتماعی طور پر بھی ان کی تربیت ہوسکے۔
سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر سیّد اسرارالحق صدر شعبہ اردوکلّیہ ہٰذا نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں معزّز مہمانوں کا استقبال و خیر مقدم کرنے کے بعد کہا کہ یہ شعبہ اردو اور اہلِ سدی پیٹ کے لئے مسرّت اور سعادت کی بات ہے کہ یہاں دوسری مرتبہ بچوں کے ادب پر قومی کونسل کے تعاون سے سیمینار منعقد ہو رہا ہے،ہمارا اور ہمارے فکر مند احباب کا ارادہ ہے کہ سدی پیٹ کو نونہال طلبہ و طالبات کی علمی،ادبی،تہذیبی وثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے،یہاں نوخیز نسل کی ایسی تربیت کی جائے کہ وہ مستقبل میں اچھے قلم کار،ادیب،شاعر،صحافی،مصنّف،سائنس داں،ماہرِ تعلیم،ماہرِ قانون، ماہرِطب،فرض شناس سیاسی و سماجی قائد،اچھے انسان اور اچھے شہری بن کر نہ صرف سدی پیٹ بلکہ پورے ملک و قوم کا نام روشن کریں۔انہوں نے پروفیسر مولابخش کے حوالہ سے کہا کہ عصرِحاضر میں اب ملکوں کی خوش حالی کامعیارنہ تو ان کی فوجی طاقت ہے،نہ ان کے دارالسلطتنتوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں،بلکہ ان کی ترقّی کا معیار بچوں کی نشو ونمااور پنپتے دماغ کا تحفّظ یا ان کے حقوق کا تحفّظ ہے،کیوں کہ آج یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اقتصادی ترقی سماجی ترقی کی ضامن نہیں ہے،آپ اچھی طرح جان لیجئے کہ ادبِ اطفال ہی بچوں کی ذہن ساز ی کا بہترین ذریعہ اور ان کے دماغ کے تحفظ کا نہایت مؤثر ہتھیارہے۔
بچوں کے شاعر و ادیب پروفیسر مجید بیدارسابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد نے اپنے تفصیلی خطاب میں فرمایا کہ اپنے جذبات واحساسات کو ریاضی کی زبان میں ادا نہیں کیا جاسکتا،اس کوادب کی زبان میں بیان کرنا ہو گا،اردو زبان اور اس کے ادب کی یہی خصوصیت رہی ہے کہ اس میں علوم و فنون کے ذخیرے ہی نہیں،بلکہ سائنس و ٹکنالوجی اور تاریخ و سیرت کے بے شمار اثاثے موجود ہیں،دکنیات کے حوالہ سے اردو کے ادبی ذخیرے میں بچوں کے ادب کی اصناف آہستہ آہستہ ترقی پاتی رہیں۔دورِ حاضر میں بچوں کی کہانیوں کی طویل فہرست ہے،لیکن عام طور پر ٹی وی سیریل میں بچوں کی دل چسپی کے لئے جن کہانیوں کو وقفہ وقفہ سے پیش کیا جاتا ہے،ایسی کہانیوں میں شکتی مان اور اسپائڈر مین ہی نہیں،بلکہ سون پری،ہیمین اور سوپر مین کے کارنامے دکھائے جاتے ہیں،در حقیقت اس قسم کے قصّے جن میں انسانی غصے،خوشی اور غم کے علاوہ ناراضگی کو شدید طور پر بتایا جائے اور اس سے بے شمار نقصانات کا اندیشہ ظاہر کیا جائے،غرض اس قسم کا ادب چاہے کسی زبان میں پیش کیا جائے اسے ساگا ادب کہا جائے گا،سراج انور نے اردو ادب میں ساگا ناول کی بنیاد رکھی،موجودہ دور میں بچوں کے ادب کے لئے ایسے عجیب و غریب واقعات کو پیش کرکے شعر و ادب میں نئے انداز کی نمائندگی کی جارہی ہے۔عام طور پر ایسے قصوں سے قاری کو دیکھنے اور حیرت میں مبتلا ہونے سے دل چسپی دکھائی جاتی ہے،جس میں حیرت میں مبتلا کرنے کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں،چنانچہ موجودہ دور کی کہانی نویسی میں نئے امکانات کو شامل کرتے ہوئے بچوں کے ادب میں جس قسم کی شاعری اور نثر نگاری پیش کی جارہی ہے اس میں ساگا ادب کا عنصر شامل ہے۔
معروف افسانہ نگار و ناول نگار محترمہ قمر جمالی صاحبہ نے اپنے خصوصی خطاب میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور تربیت سازی پرزور دیا،انہوں نے طلبہ و طالبات کو کہانیاں لکھنے کی ترغیب دی،اور خود ان کی تصحیح کرنے کا وعدہ فرمایا۔بچوں کے سینئرادیب و صحافی جناب محمد سراج عظیم نئی دہلی نے بہ حیثیت مہمانِ اعزازی افتتاحی نشست میں شرکت کی،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہانیوں اور ناولوں میں سائنسی فکر ورجحان،سائنسی ربط و تعلق اور عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں مؤثر،مفید اور لائقِ توجّہ بنانا چاہئے۔سنبھل یوپی سے تشریف لائے ہوئے بچوں کے مقبول و معروف ادیب و شاعرڈاکٹر رضاء الرحمٰن عاکف سنبھلی اسسٹنٹ پروفیسر ایم جی ایم کالج سنبھل نے افتتاحی نشست میں مہمانِ اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی،انہوں نے براہِ راست بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کو نصابی کتب کے علاوہ غیر نصابی کتب اور ادبِ اطفال کے مطالعہ کی ترغیب دی،انہوں نے موجودہ دور میں اردو کی صورتِ حال اور اس کو در پیش مسائل کے تناظر میں فرمایاکہ اردو کا سب سے بڑا المیہ ہمارا اپنے گھروں سے اردو کو نکال دینا اور اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم سے محروم کر دینا ہے،اگر ہم اردو کی بقا اور اس کی نشوو نما کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں،تو ہمیں اپنے گھروں میں اردو کو رائج کرنا ہوگا،اردو ماحول اپنے اطراف میں قائم کرنا ہوگا،آج کے سیمینار کے حوالہ سے میں یہاں تشریف فرما تمام حضرات و افراد سے یہی اپیل کرتا ہوں کہ اردو کو اپنے گھروں،دوستوں اور اپنے ماحول میں رائج کریں،اردو کی کتابیں پڑھیں،یہی حقیقی معنوں میں اردو کی خدمت ہے،اور یہی اردو کی محبت ہے۔
باٹنی لکچرر محترمہ معراج فاطمہ کی نظامت میں افتتاحی نشست کا آغاز قاضی ظہیرالدین بابر کی تلاوتِ کلام ِ پاک و ترجمہ اور محمد فخرالدین صدر میوا و نائب کنوینر کی حمدِباری سے ہوا۔ڈاکٹر عبدالقدوس اسسٹنٹ پروفیسرگورنمنٹ ڈگری کالج حسینی علم حیدرآباد نے معزز مہمانوں کا مختصر و جامع تعارف کرایا۔ افتتاحی نشست کا اختتام سیمینار کے معاون کنوینر محمد شاہدالرشید لکچرر اردو پرتیبھا ڈگری کالج سدی پیٹ کے شکریے سے ہوا۔
دوپہر میں ظہرانہ کے وقفہ کے بعدپروفیسر مجید بیدار کی صدارت میں مقالات کی نشست کا آغاز ہوا،جس میں ڈاکٹر رضاء الرحمٰن عاکف سنبھلی(سنبھل،یوپی)جناب محمد سراج عظیم(نئی دہلی) ڈاکٹر سید حامد ماہتاب(جگتیال،تلنگانہ)رفیع الدین ناصر(اورنگ آباد،مہاراشٹرا)فوزیہ حبیب(وانمباڑی،تمل ناڈو)نادرہ بیگم(وانمباڑی)انیسہ بیگم(وانمباڑی)ڈاکٹر شاہ جہاں بیگم(کرنول،آندھرا پردیش)جویریہ قاضی(بھیونڈی،مہاراشٹرا)شیخ محمد سراج الدین ریسرچ اسکالر(حیدرآباد)تبسم آرا ریسرچ اسکالر(حیدرآباد)اوردہلی یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالرزصلاح الدین اور اعجاز احمد لون اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالرز بلال احمد گنائی اور شیخ بدر الدین نے اپنے مقالات پیش کئے،نشست کے صدر پروفیسر مجید بیدار نے مقالات پر مفصل تبصرہ کیا،اور تمام مقالہ نگاران کو ان کی محنت، جستجو اور عمدہ پیش کشی پر ان کی تحسین کی اور انھیں مبارک باد دی۔ شعبہ اردو کی طرف سے تمام معزز مہمانوں،مقالہ نگاران اور ریسرچ اسکالرزکو تہنیت پیش کی گئی،ان کی شال پوشی کی گئی اور ان کو مومنٹو اورسند پیش کی گئی۔سیمینار کے کنوینر ڈاکٹر سید اسرارالحق کے فرداً فرداً شکریے پر اختتامی نشست انجام پذیر ہوئی۔