اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زباں کی ہے
دوحہ قطر کی اولین وقدیم ترین اردو ادبی تنظیم بزم اردو قطر (قائم شدہ ۱۹۵۹) کے زیر اہتمام محفل وشعر و سخن
بعنوان ’ایک شام سخنوران کویت کے نام‘ کا انعقاد۔
بزم اردو قطر کے ذریعے ۵مئی۲۰۲۳ کو شالیمار ریسٹورینٹ ، نجمہ۔ دوحہ، قطر کے خوبصورت ہال میں ایک شعری محفل کا انعقاد کیا گیا ، جس میں قطر و بیرون قطر (کویت)کے شعرا نے شرکت کی۔مشاعرے کی صدارت بزم کے سرپرست اعلیٰ جناب حسن عبد الکریم چوگلے نے کی ۔مہمان خصوصی جناب لیاقت بٹ اور مہمانان اعزازی کی حیثیت سے جناب مسعود حساس و جناب بدر سیماب نے اسٹیج کو با رونق کیا اسٹیج پربزم کی نمائندگی صدرِبزم اعجاز حیدر نے کی۔
مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری بزم کے جنرل سکریٹری احمد اشفاق نے نبھائی ۔ پروگرام کا آغازمقامی وقت کے مطابق ۹ بجے بعد نماز عشا قاری سیف اللہ کی تلاوت کلام اللہ سے کیا گیا۔
استقبالیہ کلمات میں اعجاز حیدر نے تمام سامعین ،مہمانوں بالخصوص تمام نئے چہروں کا استقبال کیا۔ بزم کا تعارف اور بزم کی خدمات پر روشنی ڈالی، مزید بتایا کہ بزم اردو قطر اب تک سلور جبلی ، گولڈن جبلی کے ساتھ ساتھ سیکڑوں رزمیہ، حمدیہ، مزاحیہ،نعتیہ اور طرحی مشاعرے کامیابی کے ساتھ منعقد کر چکی ہے۔ انھوں نے بتایاکہ بزم کی ہی کاوشوں سے ۱۹۸۰ میں اردو ریڈیو قطر کا آغاز اور ایم ای ایس انڈین اسکول میں اردو زبان کی شمولیت ممکن ہو سکی ، اب تک بزم کے ذریعے اہم پروگرام اور ان میں شرکت کرنے والی ہندوستان اور پاکستان سے شامل ہونے والی اہم شخصیات اور شعراکا ذکر کیا ۔
محفل شعر و سخن کے آغاز سے پہلے مہمانوں کو تحائف دینے کا سلسلہ شروع ہوا، مہمان خصوصی لیاقت بٹ نے حسن عبد الکریم چوگلے سے ،مہمان اعزازی مسعود حساس نے خالد داد خاں سے ، بدر سیماب نے اعجاز حیدر کے ہاتھوں تحائف وصول کیے۔ اسکے بعد دو کتاب ڈاکٹر منصور خوشتر کی کتاب’ کاسۂ دل‘ اوردوسری ڈاکٹر بسمل عارفی و احمد اشفاق کی کتاب’ شعرائے سمستی پور‘ کی رو نمائی عمل میں آئی۔
شعری نشست کا باقاعدہ آغاز ۳۰:۹ بجے شروع ہوا ، جس میں شعرا کے پیش کیے جانے والے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں ۔
انمول اتفاق:
اس کو عزت سے دیکھتے ہیں سبھی
جس کے رخ پر حجاب ہوتا ہے
خدمتِ والدین سے بیشک
رب بھی راضی جناب ہوتا ہے
رضا حسین رضا:
بیگم یہ غصے سے چلّا کے بولی
ہے میری ہی قسمت میں کھانا پکانا
کہا میں نے عاجز مجازی خدا نے
حکومت ہی دیتی ہے قیدی کو کھانا
سانول عباسی:
مسکن یار نہیں بنتے جو دل
ان میں آسیب رہا کرتے ہیں
یاد کا پنچھی کہاں سوتا ہے
رات دن آہ و بکا کرتے ہیں
اشفاق دیشمکھ:
سن کے سب اشعار جب پوچھا مجھے کیا ہے ردیف
کہہ دیا میں نے مخاطب ہو کے پاگل عشق میں
راناانور علی
اپنے چہرے پہ محبت کی ضیا رکھتے ہیں
ایک ہم تھے کہ اندھیرے میں دیا رکھتے تھے
اطہر اعظمی:
میں جو مقتول ہوا اس پہ عدالت نے کہا
اب جنازہ بھی مرے کاندھے پہ ڈالا جائے
ڈاکٹر ندیم جیلانی:
غرور حکمرانی میں کوئی جب چور ہوتا ہے
تو رسوا پھر یونہی انصاف کا منشور ہوتا ہے
میں جنگل راج بھی کیسے کہوں اس بربریت کو
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
قیصر مسعود:
زندگی ہے کہ بار ہے مجھ پر
جیسے کوئی ادھار ہے مجھ پر
خوب صورت یونہی نہیں ہوں میں
تیرے غم کا نکھار ہے مجھ پر
زوار حسین زائر:
کیا بتلاؤں کیسا ہوں میں اپنے یاروں بیچ
چاروں جانب دیواریں ہیں مَیں دیواروں بیچ
منصور اعظمی:
یہ کیسا انصاف ہوا ہے آج عدالت میں
خوار ہیں قاتل کلیوں کے اور پکڑے جائیں گُل
کاش چمن کے ہر گوشے میں ایسی رُت آئے
بھونرے گائیں گیت خوشی کے سنتے جائیں گُل
احمد اشفاق:
سالہا سال سے ایک شور برپا ہے مجھ میں
جب کہ رہتا ہے کوئی آدمی تنہا مجھ میں
ایک مدت ہوئی اک پیاس خفا ہے ہے مجھ سے
آ ادھر دیکھ لے بے تابیے دریا مجھ میں
اعجاز حیدر:
اس میں صرف اپنا آپ دکھتا ہے
توڑ ڈالیں یہ آئینہ صاحب
اس سے اب کھیلتے نہیں بچے
پھینک دیجیے یہ جھنجھنا صاحب
ندیم ماہر :
بس اتنی بات تھی کہتے تو ہم ترمیم کر لیتے
سفر کو بانٹ لیتے ہم تھکن تقسیم کر لتے
اگر ہم سے شکایت تھی تو پھر اظہا ر کرنا تھا
معافی مانگ لیتے ہم خطا تسلیم کر لیتے
عزیز نبیل:
اک رات ہے اب تک آنکھوں میں
میری نیند کا غم کرنے کے لیے
کئی خواب سرہانے بیٹھے ہیں
روداد رقم کرنے کے لیے
عتیق انظر:
مجھے سچ اس کو دھوکا کھینچتا ہے
سبھی کو اپنا رشتہ کھینچتا ہے
ہتھیلی پر سجا کر راکھ اکثر
وہ اپنے گھر کا نقشہ کھینچتا ہے
بدر سیماب:
وقت سنتا ہے غور سے تجھ کو
کوئی جادو تیری زبان میں ہے
میں کہاں سے خرید لاتا بھلا
کیا محبت کسی دکان میں ہے
مسعود حساس:
بچا ہے قلب ہی سالم نہ ہی جگر میرا
یہ کوئی لُوٹ کر یوں لے گیا ہے گھر میرا
مرا جنون ہوا ہجرتوں پہ یوں مائل
لِپٹ کے پاؤں سے چلنے لگا سفر میرا
شعری نشست کے بعد لیاقت بٹ نے اظہار خیال پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے بزم اور اسکے اراکین کو مبارکباد دی،خوبصورت محفل کے انعقاد اور کویت کے تمام مہمانوں کی عزت افزائی اور محفل کا حصہ بنانے پر شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہا کہ جس بزم کے سرپرست حسن عبدالکریم چوگلے جیسے باذوق شخص ہوں اور محفل میں موجود ہوں تو محفل کی رونق میں اضافہ ہوتاہے اور اس بزم کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔مزید کہا کہ کسی بھی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت اسکے سامعین ہوتے ہیں ، قطر کے با ذوق سامعین نے اس بار بھی آخر تک اپنی موجودگی کا احساس دلا کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں اردو سے محبت کرنے والے حضرات کی تعداد کافی ہے۔آخر میں انھوں نے کہا کہ قطر کے باذوق سامعین کے درمیان موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا ۔
حسن عبد الکریم چوگلے نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس شعر سے آغاز کیا :
اپنے آپ کو ہمیشہ زیر سمجھو زبر نہیں
کیوںکہ کل پیش بھی ہونا ہے
مجلس سجانے والے تمام ذمہ داران کا شکریہ اداکرتے ہوئے قوم کے نام کچھ اہم پیغام بھی دیے۔
اپنی تقدیر کو خود ہی بدلنا سیکھو
کب تلک ٹھوکریں کھاؤگے سنبھلنا سیکھو
مزید کہا کہ اکثریت جب اقلیت سے ڈرنے لگے تو سمجھو اقلیت مضبوط ہو رہے ہیں ، باہمی اتحاد اور تعلیم پر زور دیا ۔اس بات کو بھی نوٹ کرایا کہ تعلیم نسواں بہت ضروری ہے مگر آج کے وقت میں لڑکوں کا تعلیمی تناسب لڑکیوں کے مقابلے بہت کم ہوتا جا رہا ہے ، اسے درست کرنے کی تلقین کی۔
احمد اشفاق نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ کے ساتھ مشاعرے کے اختتام کا اعلان کیا۔
رپورٹر: ابو حمزہ اعظمی
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |