ڈاکٹرعبدا لرزاق زیادی
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔67
E-mail: arziyadi@gmail.com, Mobile No.: 09911589715
ہندوستان دنیا کے قدیم ملکو ں میں سے ایک ہے۔ اس کی تہذیب و تمدن ، کلچر و ثقافت اور معاشرت و معیشت بھی زما نۂ قدیم سے چلی آرہی ہے۔جدیدتحقیق کے مطابق ہندوستان میں انسانی سر گرمیاں چار تا دو لاکھ سال قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں شروع ہو چکی تھی ۔ تاریخ میں اسی کو عہد قدیم سے تعبیر کیا جاتاہے۔دنیا کی کون سی تہذیب و ثقافت کتنی قدیم ہے اس پر ماہرین کے درمیان حد درجہ اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے سلسلے میں ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موہن جودڑو اورہڑپاکی کُھدائی سے حاصل ہونے والی باقیات کی بنیاد پر ہندوستان کی تہذیب وثقافت کو صر ف3500ق م سال قدیم ہے۔ہندوستان کی قدیم تہذیبی ورثے میں ویدک تہذیب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔عہد قدیم سے لے کرایک زمانے تک دنیا بھر کی مختلف قومیںہندوستان کی طرف اپنا رخ کرتی رہیں اور آباد بھی ہوتی رہیں مثلاً دراوڑ، ہڈپہ اور پھر آریائی قوموں کی یکے بعد دیگرے آمد اسی سلسلے کی کڑیاں اہم کڑیاں ہیں۔ ان اقوام نے اور ان کے ساتھ آئی ہوئی تہذیب نے جہاں ہندوستانی تہذیب کومتأثر کیا وہیں وہ خود اس سے مثاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس تہذیبی لین دین کے باوجود بھی ان کی انفرادی شناخت ہمیشہ برقرار رہی۔ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں :
’’جب ہم ہندوستانی تہذیب کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے یہ ہر گز نہ نکالناچاہئے کہ ہم نے ایک ساخت،اہم رنگ ، ہمواراور کبھی نہ ٹوٹنے والے تسلسل کوہندوستانی تہذیب کا نام دے دیا ہے ۔دوسرے ملکوں کی تہذیبوں کی طرح ہندوستانی تہذیب میں بھی ہمیشہ تغیرات ہوتے رہے ہیں ، اور یہاں دوسری سر زمینوں کی تہذیبو ں کے دھارے آکر ملتے رہے ہیں جن میں سے کچھ مقامی تہذیب میںاس قدر گھل مل گئے ہیں کہ ان کی انفرادیت ختم ہوگئی اور کچھ ایسے تھے جنھوں نے اگرچہ ہندوستانی تہذیب کو متاثر کیا اور خود بھی اس سے متاثر ہوئے مگر اپنے آپ کو اس میں ضم کر دینے پر کبھی امادہ نہ ہوئے ۔‘‘ 1؎
ڈاکٹر تارا چند کے اس قتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی وہ قدیم تہذیب ،جو صدیوں سے چلی آرہی تھی اور جس کے اثاثے میں ویدک تہذیب شامل تھی اور جو بعد میں آریائی،ہندو یا پھر ہندوستانی تہذیب کی شکل میںسامنے آئی ، مختلف قوموں کی آمد،ان کے آپسی میل جول اور لین دین کے بعد ایک نئی تہذیب پروان پائی جس کو آج ہم ہندوستانی یا مشترکہ کلچرسے تعبیر کرتے ہیںاور جس کی راہداریاںیکجہتی،آپسی بھائی چارہ، رواداری، میل ملاپ ، الفت ومحبت اورامن و آشتی کے چراغوں سے روشن ہے۔ ہندوستان کی قدیم تہذیبی فضا ، اس کے عناصر ترکیبی، نظام ِ فکر اور پھرمختلف قوموں کی آمد اور اس سے وجود پذیر ہونے والی تہذیب کی ایک تاریخ موجود ہے جس کا مطالعہ ہم کرتے رہتے ہیں ۔اس پوری تہذیبی بنت یا پھر اس کی تاریخ پر اظہار ِ خیال کرے ہوئے ڈاکٹر اقبال حسین رقمطراز ہیں :
’’ ہم جب ہندوستانی تہذیب کامطالعہ کرتے ہیں تو بہت سی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں مثلاً آریوں کی ہندوستان میں آمدکے نتیجہ میں قدیم ترین ہندوستانیوں کی ہڑپہ اور موہن جودڑو تہذیب کا خاتمہ اور ان کی جگہ آریوں کی سادگی اور انسانی قدروں سے معمورتہذیب کا عروج۔آریوں کی ابتدائی تہذیب میں رسم و رواج کا نہ وہ زور ہی تھااور نہ دیوی دیوتاؤں کے لیے گنجلک اور ناقابل فہم تصور۔ ایک خدائے بر تر و بزرگ کا تصور( گوکہ اس تک پہنچنے کے لیے ۳۳ دیوتاؤں کا تصور موجود تھا)سیدھی سادی مذہبی زندگی ، عورتوں کے حقوق، عزت و آبرو کا احترام اور ذات پا ت کی لایعنیوں سے آزاد، سیدھا سادھا معاشرہ تھا، جس میں ہر فرد اپنی اپنی جگہ اہم اور سماج کا ذمہ دار فر د تھا۔۔۔دسویںصدی کے اواخرمیں ہندوستان کو مسلمان حملہ آوروں سے دوچار ہونا پڑا، ملک ذات پات کی لعنتوں کی وجہ سے کچھ اس طرح منقسم تھا، جس کی وجہ سے اتحاد ناپید تھا۔۔۔محمود غزنوی کے کامیاب حملوں کے بعد ، محمدغوری اور بعد ازاں قطب الدین ایبک کی کامیابیوں کی بڑی وجہ ملک میں نااتفاقی تھی۔ قطب الدین نے ۱۲۰۶ء میں باقاعدہ طور پر ہندوستان میں تُرک حکومت قائم کردی۔ترک مذہباً مسلمان تھے اور دیگر بیرونی حملہ آوروں کی طرح جدا گانہ تہذیب اور زبان رکھتے تھے۔ترکی حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بیرون ملک سے مسلما ن صوفیوں کی آمد شروع ہو ئی ۔صوفیوں کی بے لوث خدمات، بے داغ زندگی اور رواداری و انسان دوستی نے ہندوستان میں تبدیلی ٔ مذہب کی راہیں ہموار کردیں، ذات پات، رسم و رواج اور بر ہمنوں کے بڑھے ہوئے اثر سے پریشان حال لوگ، جلد ہی صوفیوں کے مذہب،اسلام کے پیرو بننے لگے۔ یہ نو مسلم اپنے ساتھ اپنی تہذیب ، زبان اور رسم و رواج لائے۔اسلامی اور ہندو تہذیب کے اختلاط نے ، آہستہ آہستہ ایک مشترکہ تہذیب کو جنم دیا۔ مشترک تہذیب کے ارتقا میں لودی، سوراور مغل حکمرانوں کو خاص مقام حاصل ہے۔ـ‘‘ 2؎
اس طرح ہندوستان میں بیرونی ممالک سے آئی ہوئی اقوام کی آمد اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کے میل جول،آپسی لین دین اور بھائی چارے سے قدیم ہندوستانی تہذیب کو حد درجہ پھلنے پھولنے اور فروغ پانے کا موقع ملا۔مغل حکمرانوںنے اس کے عروج وترقی اور اسے پرُ ثروت بنانے کی نہ صرف کوششیں کیں بلکہ علمی طور پر اس میں حصہ بھی لیا۔اس کی سب سے بڑی مثال مغلوں کے عہد میں دوسرے مذاہب میں شادی بیاہ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ادوار میںمختلف مذاہب میں رہتے ہوئے شادی بیاہ کرنے اور ہر ایک کو اپنے اپنے مذہب اور رسوم و رواج کے مطابق پوری آزادی کے ساتھ عمل در آمد ہونے کی اجازت تھی۔ خود باہر سے آنے والے ان لوگوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت خاص طور پر ہندوانہ رسم و رواج کو اپنا لیا تھا اور انھیں اپنے آئین میں شامل بھی کر لیا تھا۔عید ، بقرعید،ہو لی، دیوالی ، دسہرہ یا پھر کوئی اور تیوہار ہو ہر ایک میں ہر کوئی شامل ہوتا اور خوشیاں مناتا ۔ یہ سلسلہ ان اقوام کی آمد سے لے کر انیسویں صدی تک قائم رہا جس کی بدولت یہاں کے باشندے ایک دوسرے سے بہت قریب آگئے ۔لوگوں کا رہن سہن ، طرز زندگی ، لباس و پوشاک، وضع قطع، دلچسپیاں، ادبی سرگرمیوں میں ہر ایک کی نمائندگی و شراکت اور ہر ایک کا ایک ملی جلی زبان بولنا وغیر ہ اس عہد کے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کی اہم مثالیں کہی جا سکتی ہیں ۔اسی طرح ان ادوار میں چونکہ عوام کی زندگی سادہ اور عام سی ہواکرتی تھی اس لیے لوگ آپس میں خلوص و محبت، ایثار و ہمدردی اورایک دوسرے کاروادار و غم خوارہ بن کرزندگی گزارتے تھے۔ہندوستان کا یہی وہ قدیم تہذیبی فضا اور رنگ ہے جس میں آج بھی ہم خود کو رنگے ہوئے پاتے ہیں۔ بلکہ بقول سید عابدحسین کہ ’ہندوؤں اور مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کے ذہنی عناصرسے قطع نظر کر کے دنیاوی عناصر پر نظر ڈالی جائے تو یہ دکھائی دے گا کہ جو اشتراک عہد مغلیہ کی ہندوستانی تہذیب نے ان میں پید ا کیا تھاوہ ناساز گار حالات کے باوجود بہت کچھ اب تک باقی ہے۔بلاشبہ وہی باقی ماندہ عناصر آج بھی ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں کی بدولت سارے جہاں میں ہندوستان کو وہ اعزاز و افتخار بھی حاصل ہے۔
فنون لطیفہ کی تمام اصناف میں ہندوستان کا تہذیبی رنگ موجود ہے۔ ادب ہو یا صحافت،مصوری ہو یاخطاطی،موسیقی ہو یامجسمہ ساز ی یا پھر فن تعمیر ہو یا کوئی اور فن ہر ایک میں اس کے واضح نقوش اور نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مگر ان تمام میں، ادب میں اس کا رنگ قدرے گہرا نظر آتا ہے کیوں ادب نہ صرف اپنی تہذیبی فضا کا آئینہ دار ہوتا ہے بلکہ وہ اس کی آواز بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسانی احساسات و جذبات کی مکمل تصویر کشی بھی شامل ہوتی ہے ۔ دنیا کے ہر ادب میںاس کے تہذیبی ورثے کو تلا ش کرنا کوئی مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی ہرزبان و ادب میں ہمیں اس کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی نظر آجاتی ہے۔ اردو زبان ادب میںبھی اس کی سیکڑوں مثالیںموجود ہیں بلکہ عام ہندوستانی زبانوںمیں اس کو اس اعتبار سے بھی امتیازحاصل ہے کہ خوداس کا وجود اسی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی دین تسلیم کیا جاتا ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن :
’’ہندوستان میں اردو ادب کاارتقا مخصوص معاشی اور اس سے پیدا ہونے والے تہذیبی عوامل و محرکات کے نتیجے کے طور پر ہوا۔ وسط اور مغربی ایشیاسے آنے والے ترک ایرانی اور مغل یہاں اسلام پھیلانے نہیں آئے تھے بلکہ ان کی معاشی اقتصادی ضرورتیں انھیں یہاں لائی تھیں۔ اس وقت یہ لوگ ایشیا ہی نہیں یورپ کے بازاروں تک رسائی رکھتے تھے بلکہ ان بازاروں کی رونق مدتوں تک انھیں کے دم سے قائم رہی۔یہ لوگ حکمراں کی حیثیت سے یہاں آنے سے قبل تاجر کی حیثیت سے آچکے تھے اور تاجر کی حیثیت سے ان کا رشتہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کے صناعوں سے قائم ہو چکا تھا۔ جب یہاں ایسی حکومت قائم ہو گئی جو اس تجارتی لین دین کو انتظامی مرکزیت اور سیاسی اقتدار کی پشت پناہی دے سکتی تھی تو دھیرے دھیرے فکری ہم آہنگی ، ڈھیلی ڈھالی نظریاتی وحدت (یارواداری کی گنجائش پیدا کرنے والی فلسفیانہ وحدت) کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ علاقائی اور مقامی بولیوں سے کَس بَل حاصل کرکے مغربی اور وسط ایشیا کے لسانی ادبی اور تہذیبی عناصر کو سمو کر آگے بڑھنے والی مِلواں زبان اور ادب بھی وجود میں آئے ،اردو زبان ایسی ہی زبان تھی اور اردو ادب اسی نہج کا ادب تھا ۔‘‘ 3؎
اس طرح اردو زبان و ادب کا آغازو ارتقا ہندوستان کے ایک خاص معاشی و معاشرتی نظام اور اس سے پیدا ہونے والے مخصوص سیاسی و تہذیبی محرکات و عوامل کا نتیجہ تھا ۔ چنانچہ جن بنیادوں پر یہ زبان وادب وجود میں آیا انھیں اساس پر اس نے ترقی کی منزلیں بھی طے کیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہمیں ہندوستان کی سرشاریت کا رنگ قدرے گہرا اور نمایاں نظرآتا ہے۔ اردو کے ممتاز شعرا ہی نہیں بلکہ ہر عہد کے تخلیق کاروں کے کلام میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اس کی منظر کشی مل جاتی ہے۔اسی طرح نثرنگاران ِ اردو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی صنف نثرو ادب سے ہو ، کے یہاں بھی ہمیں وہ سارے نقوش مل جاتے ہیں جن کو ہم اپنی تہذیبی وراثت کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان کا وہ تہذیبی ذہن، نظا م فکراورروایتی و ثقافتی رنگ و آہنگ جو صدیوں سے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا امتیاز و افتخار رہی ہے، لوگوں کے مختلف مذاہب اور اقوام کے ماننے والے ہونے کے باوجود بھی ان میں چلی آرہی ہے۔ اردو کے ابتدائی ادوار سے لے کر موجودہ عہد تک کے شعرا و نثر نگاران کے یہاں وافر مقدار میں جہاں اس کی مثالیں موجود ہیں وہیں انھوں نے اس پر باعث اعزاز وا فتخار کا اظہار بھی کیا ہے ۔ امیر خسروہویا ولی، میر ہو یاغالب، اقبال ہو یا فیض یا پھر بعد کے شعرا ہوں، اسی طرح وجہی ہو یا میر امن، رجب علی بیگ سرور ہو یا رسوا، پریم چند ہویا بیدی ،قرۃ العین حیدرہو یا رعصمت یا پھر بعد کے نثر نگار و فکشن نگار ہوںہر ایک کے یہاں ان تمام موضوعات و مسائل کا ذکر و بیان موجوہے جن کا تعلق ہماری تہذیبی و ثقافتی ، سماجی و سیاسی اور معاشی و معاشرتی زندگی سے ہے ۔اردو کے کم ہی ایسے شعراو ادباء اور نثر نگار ان ہوں گے جن کی تحریروں میں ہمیں ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی اور بو قلمونیتٖ کی عکاسی نہ دیکھنے کو ملتی ہو۔یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں ا ظہارو بیان کے تناسب میں فرق یا کمی و بیشی ضرور موجود ہے ۔
اردو زبان و ادب کے ابتدئی ادوار میں تخلیق کاروں کو جن موضوعات و مسائل نے اپنی طرف ملتفت کیا اور انھوں نے ان کواپنی نگارشات کا حصہ بنایا ان میں تصوف کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔ چونکہ اس عہد کے ہندوستان کی تہذیبی فضا اور اقدارو روایات میں دوئی یا غیر کے برخلاف لوگوں میں حد درجہ اشتراک و ہم آہنگی تھی بلکہ آج ہم جس کو وحدت میں کثرت یا کثرت میں وحدت سے تعبیر کرتے ہیں اس کا اطلاق سب سے زیادہ انھیں ادوار میں ہوتا تھا۔ ہر طرح کی عصبیت ،بھید بھاؤ اور اونچ نیچ سے پرے لوگوں کے درمیان موجود آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کو پیش کرنے کے لیے اس دور کے ادباء وشعرا کے لیے جو لفظ یا اصطلاح سب سے زیادہ موزوں و مناسب یا کار گر تھی وہ تصوف ہی کی اصطلاح تھی۔اس کے ذریعہ انھوں ہندوستان کی عوام کے ان احساسات و جذبات کو پیش کیا ہے جوصرف ہندستانیوں کی ہی نہیں بلکہ پور ی ا نسانیت کی آواز تھی۔پروفیسر محمد حسن اس نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو ادب کے مزاج اورتہذیبی فضا پر ایرانی اور فارسی اثرات کی نشان دہی کرتے وقت مشترک آریائی پس منظر کو یاد رکھنا ضروری ہے جس نے قدیم فارسی اصطلاحوں ہی کونہیں بلکہ تصورات اقدار اور تہذیبی رویوں کو بھی ہندوستان میں رچابسا دیاجسے تصوف کہا گیا وہ اس مشترک اور ان مشترک اقدار کا فکری اظہار تھا۔ اسلامی تصوف کی نشو و نما زیادہ تر انھیں علاقوں میں ہوئی جہاں بدھ وہا ر تھے۔بلخ اور بخارا اس کی مثال ہیں۔ ہندوستانی اور ایرانی تصوف کے درمیان مشترک اقدار کی بنا پر آزاد خیالی، وسیع المشربی اور رواداری کی روایات نے اردو میں رواج پایا۔‘‘ 4؎
اس طرح ان ادوار میں تصوف نے اظہار و بیان کی سطح پرنہ صرف ایک اہم موضوع قرار پایا تھا بلکہ تخلیق کاروں نے اسے ایک وسیلہTool کے طورپر استعمال بھی کیا اوراس کی مدد سے ہندوستا ن کی پوری تہذیبی و ثقافتی فضا کو پیش کیاہے۔ متصوفانہ ہونے کے باوجود بھی ان تخلیقات میں قدم قدم پر ہندوستان کی اس تہذیب و ثقافت کی رنگ آمیزی دیکھی جا سکتی ہے جس کی جڑیں اب بھی ہندوستان کے تہذیبی مزا ج میں پیوستہ نظر آتی ہیں اور جس کی بدولت ایمانی وروحانی اقدار کی سطح پر آج بھی ہم اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتے ہیں ۔امیر خسرو ہویا بعد کے ادوار کے شعرامثلاً ولی،میر ، نظیر،غالب، مومون، اقبال ، فیض یا پھر ہمارے عہد کے سخنوران، اسی طرح شمال و دکن کی داستانوی ادب ہو یا دیگر تخلیقات ہر ایک میں ہمیں ہندوستان کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کے واضح نقوش اپنی تمام تر تابانیوں اور بو قلمونیوں کے ساتھ نظر آجاتے ہیں۔
عام طور پر جب بھی اردو شاعری میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بات ہوتی ہے تو نظیر اکبر آبادی یااس جیسے کچھ شعراء سے آگے ہما را ذہن نہیں پہنچ پاتا ہے ۔حالانکہ ہر عہد کے شعراء کے یہاں،ان کی پوری شاعر ی تو نہیں البتہ کچھ اشعار ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن میں ہم ہندوستانی سماج اور یہاں کی تہذیب و ثقافت کا عکس و رنگ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گذرا ہے جس میں ایک فرد نہیں بلکہ اس کا پورا معاشرہ ہی شاعری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔گویا اس میں ایک فر د کی زبانی پورا معاشرہ بولتا ہوا سنائی دیتا ہے۔اس دور کی شاعری میں عشق و عاشقی ہو یا پھردیگر موضوعات و مسائل کا اظہار و بیان ہر ایک میں تہذیبی و سماجی رنگ غالب تھا ۔ اردو مثنویاں اس کی واضح مثال ہیں اور ان میں جو داستانیں منظو م ہوئی ہیں ان کوپورے معاشرے نے نہ صرف ذہنی اور جذباتی طور پر قبول کر لیا ہے بلکہ انھیں استناد کا درجہ بھی عطا کر دیا ہے ۔اس طرح یہاں ایک فرد یعنی شاعرصرف اپنی ذات کا نہیں بلکہ پورے معاشرے اور اس کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے ۔گرچہ بعد کے ادوارمیں شاعری کے اجتماعی اظہار کا تصور بدل جاتا ہے اور ہرشاعر کے یہاں انفرادی طور پر اپنے سماج او رمعاشرت کی ترجمانی نظرآنے لگتی ہے لیکن یہاں بھی پورا ہندوستانی سماج و معاشرہ اپنی تمام تر تہذیبی و ثقافتی اقدارو رویات کے ساتھ ہم نوا ہوتا ہے۔اردو شاعری میں اجتماعی معاشرتی اظہار کی روایت ولی تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتی ہے۔بقول پر وفیسر محمد حسن :
’’ولی سے پہلے اردو ادب کم و بیش معاشرتی اور اجتماعی اکائی کا ادب ہے۔۔۔ولی کے یہاں پہلی بار فرد الگ سے نظر آنے لگتا ہے۔ گو اب بھی معاشرہ ہم آواز ہے اور ولی درد فراق سے زیادہ محبوب کی صفات معاشرے کے قبول کردہ محاسن اور اقدار کی روشنی میں کرنے اور پورے دور کور وشنی دینے والی تشبیہوں اور استعاروں سے محبوب کا پیکر سجانے میں زیادہ محو ہیں مگر فرد کی انفرادیت کا ہلکا سا پر تو بھی کلام میں شامل ہو گیا ہے کہ ولی کا کلام نہ محض تصوف ہے نہ محض جمال پر ستی ۔ ولی ایک سانس لیتا ہوا جیتا جاگتا انسان بھی ہے ۔ ولی کا دیوان شمالی ہند پہنچا تو یہاں بھی معاشرہ ہی شاعری کر رہا تھا ۔ آبرو ، ناجی ، مضمون ، حاتم ، سبھی کی شاعری معاشرے کی شاعری ہے جس میں ان کی اپنی شخصیت محض رنگ کی ایک موج تہ نشیں کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس معاشرے کے ٹوٹنے بکھرنے کی آواز واضح طور پر پہلی بار شمالی ہند میں نظیر اکبر آبادی کے یہاں اُبھر تی ہے ۔ شہر آشوب اسی کا اظہار ہے ۔آگرے سے دہلی تک اقتصادی زندگی اور اس سے پیداشدہ معاشرے کا بحران عام تھا اس نے فر د کو معاشرے سے کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ نظیر کے ہاں فرد اور معاشرے کی اس بکھرتی ہوئی ہم آہنگی اور ٹوٹتی ہوئی اکائی کی آواز ہے مگر معاشرہ فرد سے پوری طرح الگ نہیں ہوا ہے اور فرد میں سماج کی آوا ز گونجنا بھولی نہیں ہے۔‘‘ 5؎
متذکرہ بالاا قتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اجتماعی و معاشرتی اکائی کے ٹوٹ پھوٹ کی یہ نئی روایت ولی سے شروع ہوکر میر ونظیر ،غالب و مومن ، اقبال اور فیض و فراق کے ادوار سے ہوتی ہوئی ہمارے عہد تک پہنچتی ہے۔ولی کے بعد کے ادوار میں شاعر کے فردو انفرادیت کے باوجود بھی اس کے یہاں پورا سماج و معاشرہ ہم آواز ہوتا ہے۔
کسی بھی عہد کا ادب اس وجہ سے بھی اپنے سماج کاآئینہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی سماج و معاشرے اور اقدار و روایات کی پیداوار ہوتا ہے۔کوئی بھی تخلیق کاراگر اپنی کوئی تخلیقی کاوش پیش کرتا ہے تو وہ فضا میں نہیں تخلیق ہوتی بلکہ اس کے لیے وہ اسی سماجی و تہذیبی زندگی سے مواد کشید کرتا ہے ۔اردو کے ادباء و شعرا اورنثر نگاران اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انھوں نے بھی ہندوستان میں صدیوں سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہندو مسلم قوموں کی زندگیاں، ان کے مسائل و معاملات،طور طریق، رہن سہن ، فکر و مذہب، مزاج و مذاق، اخلاق و عادات، رسم و رواج ، علمی و ادبی ذوق وشوق یہاں تک کہ ا ن کی اقدار و روایات کو بڑی خوبی و فنکاری کے ساتھ اپنی نگارشات میں جگہ دی ہے ۔ ذیل میں نمونے کے طور پر غزل کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :
تسبیح تیری زلف کو کہتے ہیں اے صنم
اک تاروسے کسے رشتہ زنار کررکھوں
( ولی )
کیا شیخ کیا بر ہمن جب عاشقی میں آوے
تسبی کرے فرامش زنار بھو ل جاوے
(آبرو)
میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا ، دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا
(میر)
نہیں کچھ سبحہ و زُنار کے پھندے میں گیرائی
وفادار ی میں شیخ و بر ہمن کی آزمائیش ہے
( غالب)
اللہ رے گمرہی بت و بتخانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو ایک پارسا کے ساتھ
(مومن)
یہ عظمت رہ کے زاہدان بتوں میں ہم نے پائی ہے
کہ کعبہ ہم کو لینے تا در مے خانہ آتاہے
(امیر)
کوئی دیر وحر م تک میری فریاد پہنچا دے
وہ شیخ و برہمن کیا جونہ رہ سکتی ہوں انساں میں
(حسرت)
تو کہاںہے کہ تری راہ میں یہ کعبہ و دیر
نقش بن جاتے ہیں ، منز ل نہیں ہونے پاتے
یہ اور اس طرح کے اور بھی بڑی تعداد میں غزل کے اشعار مل جائیں گے جن میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اوراس کے عناصر کو بڑی خوبصورتی کے پیش گیا ہے۔ان میں ہندوستان کے فکرو فلسفہ،ایمانیات و روحانیات، تصوف و مذہبیات،حسن وعشق، سیرو تفریحات جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ ہندو اورمسلمان کے تیوہار بھی موجود ہیں۔نیز ان میں مختلف مقامات و تیوہار میں ہر قوم کے لوگوں کے شریک ہونے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا ذکربھی دیکھا جا سکتاہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظمیں نہ صرف اس کی عمدہ مثال ہیں بلکہ نظیرکو تو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا مفسر و ترجمان تسلیم کیا گیاہے۔ ان کی نظموں میں جو تہذیبی فضا ابھر کر سامنے آتی ہے اس میں آج بھی پورا ہندوستان سانس لیتا ہوا نظر آتاہے۔
اردو شاعری کے مزاج کا یہ حصہ رہا ہے کہ اس کے شعرا نے ہمیشہ سے اپنے دین و مذہب سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کی خوبیوں اور ان کے تلازمات کو اپنے کلام میں سراہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نظیر ایک مسلم شاعر تھے مگر انھوں نے جس طرح اپنے مذہبی امور ، عقائد و معاملات اور تیوہاروں کا ذکر کیاہے اس سے کہیں زیادہ دیگر مذاہب کے مذہبی عقائد و فسلفے اورتیوہاروں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ جس طرح اردو کے غیر مسلم شعراکے یہاں مسلموں کے عقائد و نظریات اور ان کے طرز زندگی کی ترجمانی ملتی ہے اسی طرح یا اس سے بھی کہیں زیادہ زوردار انداز میں نظیر کی نظموں میں ہندوانہ عقائد و مذہبیات اور رسم و راج دیکھنے کو ملتے ہیں بلکہ بقول ایک ہندی ادیب کہ’نظیر نے آذان بھی دی اور سنگھ بھی پھونکا، تسبیح بھی لی اور جنیو بھی پہنا، محرم میں روئے تو ہولی میں بھانڈ بھی بنے، رمضان میں روزے رکھے تو سلونوں پر راکھی باندھنے کو مچل پڑے ، شبرات(شب برات) پر مہتابیاں چھوڑیں تو دیوالی پر دیپ سجائے ، نبی ، رسول، ولی، پیر، پیغمبرکے لیے جی بھر کے لکھا تو کرشن ، مہادیو، نرسی، بھیروں اور نانک کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا۔ گل و بل پر کہاتو آم اور کوئل کو پہلے یاد رکھا۔ پر دے کے ساتھ بسنتی کی ساڑھی بھی یاد رہی ۔اور تو اور گرمی ، برسات اور سردی پر بھی لکھا۔ بچوں کے لیے ریچھ کا بچہ ، کوّا اور ہرن ، گلہری کا بچہ ، تربوز، کنکوے بازی ، بلبلوں کی لڑائی ، ککڑ ی ، تیراکی، تل کے لڈؤں پر لکھنے بیٹھے تو بچہ بن گئے ، ہر ایک بچہ گلی کوچے میں گاتا پھر رہا ہے۔ جوانوں اور بوڑھوں کو پنددینے بیٹھے تو لوگ وجد میں آگئے۔ جیسے قرآن ، حدیث، وید، گیتا، اپنشد، پُران ، سب گھول کر پی جانے والا کوئی پہونچا ہوا بزرگ بول رہا ہو۔ـ‘ اس حوالے سے نظیر کی نظموں میں ہولی ، ہولی کی بہاریں، بلدیو جی کا میلا، دوالی کا سامان ، راکھی کے ساتھ ساتھ عیدالفطر، عیدگاہ اکبرا ٓباد وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں۔نظم’ ہولی‘ ملاحظہ ہو:
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا جب حسن دکھایا ہولی نے
ہر آن خوشی کی دھو م ہوئی یوں لطف جتایا ہولی نے
ہر خاطر کو خرسند کیا ہر دل کو لبھایا ہولی نے
د ف ، رنگیں، نقش سنہری کا جس وقت بجایا ہولی نے
بازار گلی اور کوچوں میں غل شور مچایا ہولی نے
یا سوانگ کہوں یا رنگ کہوں یا حسن بتاؤ ں ہولی کا
سب ابران تن پر جھمک رہا اور کیسر کا ماتھے ٹیکا
ہنس دینا ہر دم ناز بھر ا ، دکھلانا سج دھج شوخی کا
ہر گالی ، مصری قند بھری، ہر ایک قدم اٹکھیلی کا
دل شاد کیا اور موہ لیا یہ جوبن پایا ہولی نے
کچھ طبلے کھٹکے ، تال بجے، کچھ ڈھولک اور مر دنگ بجی
کچھ جھڑیں بین ربابوں کی، کچھ سارنگی اور چنگ بجی
کچھ تار طنبوروں کے جھنکے کچھ ڈھمڈھمی اور منہ چنگ بجی
کچھ گھنگھرو کھٹکے جھم جھم جھم کچھ گت گت پر آہنگ بجی
ہے ہر دم ناچنے گانے کا یہ تار بندھایا ہولی نے
ہرا ٓن خوشی سے آپس میں سب ہنس ہنس رنگ چھڑکتے ہیں
رخسار گلالوں سے گلگوں ، کپڑوں سے رنگ ٹپکتے ہیں
کچھ آگ اور رنگ جھمکتے ہیں، کچھ مے کے جام چھلکتے ہیں
کچھ کو دیں ہیں ، کچھ اچھلیں ہیں، کچھ ہنستے ہیں ، کچھ بکتے ہیں
یہ طور، یہ نقشہ عشرت کا ہر آن بنایا ہولی نے
ہیں کیا کیا سر میں رنگ بھرے اور سوانگ بھی کیا کیا آتے ہیں
کر باتیں ہر دم چہل بھری ، خوش ہنستے اور ہنساتے ہیں
کچھ جو گی چیلے بیٹھے ہیں، کچھ کانیوں کی گاتے ہیں
کچھ اور طرح کے سوانگ بنیں کچھ ناچتے ہیں ، کچھ گاتے ہیں
ہر آن نظیر اس فرحت کا سامان دکھایا ہولی نے
ہولی ہو یا دیوالی یا پھر دسہرہ ہر ایک کی نظیرکے یہاں نہ صرف بھر پور عکاسی دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ان میں خود بھی بہت دلچسپی لیتے اور ہر تہوار و جشن میں شریک ہو کرخوب لطف اٹھاتے۔یقینا یہ تب کی بات ہے جب ہندو مسلمان قوموں میں کوئی علاحدگی و بیگانگی نہ تھی بلکہ اس کے برخلاف سارے ہندوستانیوں کے درمیان میل ملاپ کا ماحول تھا اور ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ہر تہوار منایا کرتے تھے۔ہولی ودیوالی اسی طرح عید وبقرعید کسی ایک قوم کا تہوار نہ ہو کر کے ہندوستان کے ہر باشندے کا تہوار ہوا کرتا تھا اور سارے لوگ ہر خوشی و جشن میں شریک ہوتے تھے۔ یہ ہماری ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور مشترکہ کلچر کی عمدہ مثال تھی۔ ہولی ہر عہد میں تہوار کے ساتھ ساتھ دل بستگی کا بھی ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ نظیر بھی اس کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں اور خود بے نوا کا سوانگ بھر کرخوش رو ؤں کے ہمراہ ہوجاتے ہیں اور گلیوں کا گشت لگاتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ خود نظیر کے زمانے میں اور آج بھی کچھ علاقوں اور سطحوں پر یامہذب نگاہوں میں ہولی بد تہذیبی کا ایک کامل مظاہرہ ہے ۔
نظیر اکبر آبادی کی طرح اردو کے دیگر نظم گو شعرا کے یہاں بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کے نمونے بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔میر حسن اور دیا شنکر نسیم کی مثنویاں،سودا ، ذوق اور محسن کاکوروی کے قصائد، انیس و دبیر کے مرثیے صدیوں سے چلی آرہی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے حقیقی مظہر کہے جا سکتے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی، علامہ اقبال، چکبست، جمیل مظہری ، خلیل الرحمان اعظمی،کمار پاشی، شاد عارفی ،حرمت الاکرام،ن۔م ۔ راشد، مراجی،مخمور سعیدی،اسلم آزاد، پرویز شاہدی،مظہر امام، وزیر آغا، صلاح الیدن پرویز اور شہریار وغیرہ کا شمار اردو کے ممتاز نظم نگار شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کی متعدد نظموں میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ مناجات بیوہ ( حالی)ہندوستانی بچوں کا قومی گیت(اقبال) میں گوتم نہیں ہوں(خلیل الرحمان اعظمی) ولاس یاترا(کمار پاشی)،اندھیر نگری سہرہ، ہولی،دیوالی، گنگا اشنان،مندرجانے والی(شاد عارفی)، اماو س کاچاند(حرمت الاکرام)،پرانی فصیل، تبدیلی، گوزہ گر(اختر الایمان) حرامی،ترغیب، تو پاربتی میں شو شنکر، دور کرو پیراہن کے بندھن کو( میراجی)، سرسوتی، گنگا آدرش(مظہرامام)شگون (مخمور سعیدی)، زہر کا سمندر (لطف الرحمان)،چتا( اسلم آزاد)،کاکا(محمد علی)، نروان، یاترا، ملن( وزیر آغا)، دیو داس( صلاح الدین پر ویز) وغیرہ اردو کی ایسی شاہ کار نظمیں ہیں جن میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے ہزاروں جلوے بیک وقت نظر آتے ہیں۔ ذیل میں نظمیہ شاعری کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
ابر کے دوش پرلاتی ہے ہوا گنگا جل
گھر میں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل
جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک طول امل
کالے کو سوں نظر آتی ہے گھٹائیں کالی
ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا عمل
شاہدِ کفر ہے مکھڑے سے اٹھائے گھونگھٹ
چشمِ کافر میں لگائے ہوئے کافر کاجل
جوگیا بھیس کئے چرخ لگائے ہے بھبھوت
یاہ بیراگی ہے کوئی پربت پہ بچھائے کمّل
راکھیاں لے کے سلونوں کی برہمن نکلیں
تار بارش کا توٹوٹے کوئی ساعت کوئی پل
دیکھے ہو گا سرلی کرشن کا کیونکر درشن
سینۂ تنگ میں دل گوپیوں کاہے بے کل
( قصیدہ محسن کاکوروی)
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میںوحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
جس نے حجازیوں ے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
(اقبال)
بادشاہ بیٹے کی خاطر جیتے جی مر لیتا ہے
دوا، دعا، تعویذاور گنڈے سبھی جتن کر لیتا ہے
بیگم سے ہر ملّا سیانا’’نذر‘‘پیٹ بھر لیتا ہے
پہلا مرغ و مشک دوسرا گھنیٹا گو گر لیتا ہے
قسمت دور سے ٹھینگا دکھلاتی ہے امیدیں روتی ہے
(نظم’اندھیر نگریـ‘،شاد عارفی)
صندل کی ہے چتا بنائی اور پھولوں سے سنواری
سولہ سنگاروں سج کر آتی ہے تیری پیاری
پہلے برہا کی اگنی میں رات ہوئی تھی جل کر
پھر سکھ سیج کی راتیں دیکھیں گود میںتیری مچل کر
لیکن تونے بات نہ رکھی چھوڑ گیا یوں پیچھے
جیسے ساون رت بھادوں کے تیرگی جھڑیاں چھوڑے
(نظم ’آخری سنگار‘، میراجی)
آنکھوںسے سر شک جگمگا تا مکھڑا
وہ جشن ِ رخصتی سہانا تڑکا
جھرمٹ میں سہیلیوں کے اٹھتے ہیںقدم
وہ گھر کی عورتوں کا بابل گانا
جب جھولا جھولنے میں وہ ساون گائے
کروٹ قوسِ قزح کو رہ رہ کے دلائے
وہ پیگ بڑھانے میں لچکا ہو اجسم
آئینہ نیل گو ں میں بجلی لہرائیے
نرمل جل سے نہا کے رس کی پتلی
بالوں سے ارگجے کی خوشبو لیٹی
ست رنگ کی طرح بانہوں کو اٹھائے
پھیلاتی ہے الگنی پہ گیلی ساڑی
(فراق گورکھپوری)متذکرہ بالا مختلف اصناف کے ان بندوں یا اشعار سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیںکہ اردو کے نظم نگار شعرا نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو اپنے شعری سرمایے میں شامل کیا ہے ۔ان نظموں میں مختلف لفظیات و ڈکشن، تشبیہات و استعارات اور اعلام و تلازمات کی مدد سے ہندوستان کے تہذیبی ذہن و فکر سے لے کر یہاں کے مذہبی عقائد و نظریات ، رسم و رواج ، عادات و اطوار، رہن سہن ،افکار و نظریات وغیرہ سبھی کچھ پیش کر دیا گیا ہے۔ہندوستان کا گاؤں دیہات، کھیت کھلیان،لوگوں کی بود وباش، رہن سہن ،شادی بیاہ ، ملبوسات وسنگار، اس کی ندیاں نالے ، موسموں ،بدلتے رتوں یہاں تک کہ کسی کی ولادت و وفات تک کی ساری رسمیں اردو نظموں میں اپنی تمام تر نزاکتوں، نشیب و فراز اور حسن و خوبی کے ساتھ موجود ہیں۔
اردو شاعری کی متعدد اصناف کی طرح اردو فکشن میں بھی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور اس کی اقدار وروایات کی عکاسی کی مثالیں قدم قدم پر دیکھی جا سکتی ہیں ۔ شاعری کی بہ نسبت فکشن میں ہر سماج و معاشرے کی تصویر کشی زیادہ صاف اور واضح ہوتی ہے ۔ اردو فکشن بھی اس اعتبار سے تہی دامن نہیں بلکہ اس کا پورا داستانوی ادب اس طرح کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔داستان ہویا ناول یا پھر مختصر افسانے ہر ایک میں قدم قدم پر اس کے ہزاروں جلوے دیکھے جا سکتے ہیں ۔اردو فکشن کی تمام اصناف میں داستان کو اس حیثیت سے بھی تقدم حاصل ہے کہ اس کا دامن حد درجہ وسیع ہوتا ہے اور اس میں پوری ایک کائنات کو سمو لینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ناول اور افسانے کے مقابلے داستانوں میںہمارے لوازمات زندگی ، رہن سہن، طور طریق، آداب و اطوار، عقائد و مذہبیات کا ذکر پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ساتھ ہی ان میں مختلف گروہوں،طبقوںاور افراد کا ذکر ایک وسیع پیمانے میں ہوا ہے۔ سیدہ جعفر رقمطراز ہیں:
’’یہ ہماری تہذیبی زندگی ، معاشی ، سیاسی، ادبی اور مجلسی زندگی اور ہمارے تہذیبی ورثے کاقیمتی خزانہ ہیں۔ ان میں ماضی کے بہت سے نقوش محفوظ ہیں۔قدیم ہندوستانی زندگی کے لا زوال مرقعے ، ہمارے قدیم تصورات ، ہمارے رسم و رواج اور ہماری ساری ثقافتی زندگی کا عکس ان داستانوں میں موجود ہے ۔ بوستان خیال ،باغ وبہار ، فسانۂ عجائب ہندوستان کی تہذیب، یہاں کی مجلسی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں اورکلچر کی رنگا رنگ دلکشیوں کی آئینہ دار ہیں۔‘‘ 6؎
گویااردو کی یہ داستانیں ہماری سماجی زندگی، بودو باش اور معاشرت و معیشت کے مرقعے ہیں اور ان میں وہ تمام تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات موجود ہیں جن پر آج ہماری تہذیب و ثقافت کا قلعہ کھڑا نظر آتاہے ۔ مختلف علاقوں کے رہن سہن، مذہبی تصورات و عقائد،لباس و پوشاک، بول چال کی زبانیں ،ندی نالے، پھل پھول، اٹھنے بیٹھنے کے ادب و آداب،کھان پان،مختلف مواقع پرانجام پانے والے رسوم و رواج، بولی ٹھولی غرض یہ کہ ان داستانوں میں ان تمام عناصر و عوامل کو بڑی خوبصورتی اور فنکاری کے سا تھ پیش کیا گیا ہے جن کو ہماری تہذیبی و ثقافتی سرمایے میں گراں قدر اہمیت و قعت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین کا یہ بھی موقف رہا ہے کہ ’داستان امیرحمزہ سے ساحری اور عیّاری نکال لیجئے تو باقی جو رہے گی وہ لکھنؤ کی تہذیب ہے۔‘یہ بات صرف ’داستان امیر حمزہ ‘تک ہی محدود و مخصو ص نہیں بلکہ اس کا اطلاق ہر اردو داستان یا داستانوی ادب پر کیا جا سکتا ہے۔اس امر کی مزید تائید کے لیے ذیل میں اردو داستانوں کے کچھ اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’دن رات دکانیں کھلی رہیں ، قریب قریب ناچ ہو، ان کے کھانے کا صرف تعرفی باورچی خانے میں ٹھہرا۔ ہندوؤ ں کو پوری کچوری ، مٹھائی ، اچار، مسلمانوں کو پلاؤ، قلیہ ، زردہ ، قورمہ ، آبی ، دوسرے شیرمال ، فرنی کا خوانچہ ، طشتری کباب کی بہت آب تاب کی۔‘‘ 7؎
’’ایک بڑھیا ، شیطان کی خالہ۔ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھول کر بدھڑک چلی آئی ، اور سامنے ملکہ کے کھڑے ہو کر دعا دینے لگی۔ ’’ الہٰی ! تیری نتھ جوڑی سہاگ کی علامت رہے ، اور کماؤ کی پگڑی قائم رہے ! میں غریب رنڈیا فقیر نی ہوں ۔ ایک بیٹی میری دو جی ہے پورے دنوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ میں اتنی وسعت نہیں کہ ادّھی کا تیل چراغ میں جلاؤں ، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گور کفن کیوں کر کہوں گی اور جنی تو دائی جنائی کو کیا دوں گی اور جچّا کو ستھورا چھوانی کہاں سے پلاؤں گی؟ آج دو د ن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے ۔ اے صاحبزادی ! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا ، تو اس کو پانی کا ادھار ہو۔‘‘ 8؎
ان اقتباسات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ داستانوں میں نہ صرف ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور انسانی سماج و معاشرے کی تصویر کشی موجود ہے بلکہ ہر داستان اپنے آپ میں ایک تہذیبی تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان داستانوں کی مدد سے ہم ہندوستان کے ان ادوار کی تاریخی و سماجی ، تہذیبی و ثقافتی اور مذہبی و معاشرتی زندگیوں سے بھی واقفیت حاصل کرتے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ داستانیںوجود میں آئیں تھیں یا پھر جن کو موضوع بنا کر ان کی تخلیق عمل میں آئی تھی۔داستان امیرحمزہ ہو یا فسانۂ عجائب،باغ و بہار ہو یا کوئی اور داستان ہر کوئی اپنے عہد کا مرقع معلوم ہوتی ہیں۔ سید عابد حسین اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ معاشرتی زندگی میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے جو اثر ایک دوسرے پر ڈالا ہے اس کی وجہ سے ان کے رسم و رواج میں جو یکسانی پیدا ہوئی وہ حیرت انگیز ہے اس لیے کہ دونوں کے معاشرتی ادارے ان کے مذہبی عقیدوں سے بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں اور ان عقیدوں میں بہت کچھ اختلاف ہے ۔ ڈاکٹر تار ا چند فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستانی زندگی کے مختلف شعبوں پر جو اثر ڈالا اس کو جس قدر اہمیت دی جائے کم ہے ۔ مگر سب سے زیادہ فصاحت اور خوشنمائی کے ساتھ یہ اثر روز مرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں گانے بجانے میں ، وضع قطع اور لباس میں ، کھانے پینے کی طریقوں میں اور شادی اور بیاہ کی رسموں میں میلوں اور تہواروں میں مرہٹہ ، راجپوت اور سکھ رئیسوں کے دربار کے آداب نظر آتے ہیں۔‘‘ 9؎
داستانوں کی طرح اردو ناولوں اور کہانیوں میں بھی ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے نقو ش بڑے پیمانے پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ نذیراحمد ، راشدالخیری،عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار،قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی ، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ہوںیا بعد کے ناول نگاران، اسی طرح کہانی کاروں میں پریم چند ہو یا بعد کے ادوار میں سامنے والے افسانہ نگاران یا پھر آج کے دور میں جو ناول اور افسانے تخلیق کرنے والے ہیں ہر ایک کی تخلیقات و نگارشات میں ہندوستان کی وہ تہذیبی و ثقافتی فضا ضرور دکھائی دیتی ہے جس کو ہم مشترکہ تہذیب یا کثر ت میں وحدت اور وحدت میں کثرت سے تعبیر کرت ہیں ۔ ابتدائی دور کے ناولوں میں اگرچہ اس کے نقوش دھندلے دھندلے سے نظر آتے ہیں مگر بعد کے اور بالخصوص آزادی کے بعد لکھے گئے ناولوں وہ زیادہ واضح اور صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ آزادی کے بعد اس نوعیت کے ناو ل زیادہ تعداد میں لکھے گئے جن میں ہندوستان کی تہذیبی روایت کی شکست و ریخت یا پھر اس کی بازیافت کی داستان بیان کی گئی ہے ۔پروفیسر انور پاشا لکھتے ہیں:
’’اردو ادب اور خصوصاً ناول تہذیبی و ثقافتی سطح پر انہی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کی عکاسی سے عبارت ہے۔ہندوستان کے ناول نگاروں میں قرۃ العین حیدر کا نا م اس ضمن میں سب سے نمایاں ہے ۔ وہ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافتی وراثت کی پیش کش میں اپنے عہد کے تمام ناول نگاروں پر سبقت رکھتی ہیں۔ اس عہد کے ان کے تقریباً تمام ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ سے لے کر ’’ کار جہاں دراز ہے ‘‘ تک ہندوستان کی مشترکہ تہذیبی وراثت اور جاگیر دارانہ عہد کی معاشرت او ر اقدار و روایات کا مر قع ہیں ۔ قرۃ العین حیدر کے بیشتر ناولوں میں پیش کر دہ تہذیبی فضا ، اودھ اور خاص کر لکھنؤ کی تہذیبی فضا ہے اور وہ بھی طبقۂ اشرافیہ کی تہذیبی اقدار و معیار پر محیط ۔ جسے اس وقت کے فرما رواؤں ، نوابوں اور جاگیر داروں کی سر پرستی حاصل تھی۔ یہ طبقہ اپنے طرز معاشرت، نطام ِ ریاست اور اقدارو روایات کے سلسلے میں تنگ نظری پر وسیع النظری تعصب پر رواداری اور تفریق پر ہم آہنگی کو فوقیت دیتا تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کی ریاست میں مذہبی عقیدے کے فرق کے باوجود ہندوؤ ں اور مسلمانوں کے لباس ، زبان اور آداب و اطوار میں چنداں فرق نہ تھا۔ مذہبی رواداری ان کا ایمان تھی۔ تمام اہم تیوہار یکساں جوش و خروش سے منائے جاتے تھے ۔ چونکہ لکھنؤ کے والیِ ریاست اور نوابین عقیدتاً شیعہ تھے اس لیے باالخصوص محرم کا اہتمام بڑے دھوم دھام سے کیا جاتا تھا۔ لیکن اس دھوم دھام میں مذہبی عقیدہ سے زیادہ رواداری اور مشترکہ روایتوں کا دخل تھا۔‘‘ 10؎
قرۃالعین حیدر کے بیشتر ناولوں میں اگرچہ طبقۂ اشرافیہ کی تہذیبی قدریں اور ثقاتی اقدار وروایات کی ترجمانی کو فوقیت حاصل ہے مگر اس نسل کے لکھنے والے دیگر اور بیشتر ناول نگاروںکے یہاں وہی ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور عوامی زندگی موجود ہے جس کوہم ہندوستانیت کا نام دیتے ہیں ۔قاضی عبدالستار، جیلانی بانو،حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی ، کرشن چندر، عصمت چغتائی ، ظفر پیامی، پیغام آفاقی ، غضنفر،پیغام آفاقی، سید محمد اشرف، خالد جاوید، انور خان اور شبیر احمد وغیرہ کے نام ا س حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ان ناول نگاروں کی تخلیقات کی قرأت سے ہم بڑی آسانی کے ساتھ ہندوستان کی تہذیبی تاریخ، ثقافتی زندگی اوراس کے ذہن و فکر کو تلاش کر سکتے ہیں۔ کچھ اہم ناولوں کے اقتباسات آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
’’مذہبی تفریق کو پرجا کا خالص ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ محرّم میں ہوئے نہیں ہوتے، مسجدوں کے سامنے باجا بجایا جاتا ہے ،ہندو تعزیہ داری کرتے ہیںاور مسلمان دیوالی مناتے ہیں، کیسا الٹا زمانہ ہے ۔ نواب بہو بیگم ہر سال ہولی منانے فیض آبادسے اپنے بیٹے کے پاس لکھنؤ آتی ہیں۔ ساری سلطنت میں ان گنت ہندو راجاؤں نے مساجدیں اور امام باڑے بنوا رکھے ہیں۔لکھنؤ سے اسّی مل کے فاصلے پر بہرائج ہے جسے ہزاروں برس پہلے شراوستی کہتے تھے، جہاں سالار مسعود غازی کی درگاہ ہے۔ جنھو ں نے شراوستی کے سورج کند کے مندر کو مسمار کیا تھا اور شراوستی کے آخری ہندو راجہ سہدیو کے تیر سے شہید ہوئے تھے ۔ ان کی عمر ا س وقت صرف اٹھارہ سال تھی۔ تب سے اب تک بڑی دھوم دھام سے ہندو مسلمان مل کر ان کی بارات نکالتے ہیں ، جیٹھ مہینے میں ان کا میلہ لگتا ہے ۔سرخ نیزے اور جھنڈے اٹھائے ہوئے ڈفلی بجاتے ہوئے ہزاروں ہندو مسلمان دیہاتوں سے ان کے مزار کا رخ کرتے ہیں۔بنگال کے مسلمان صوفی ستیہ پیر کی مانندجو ستیہ نرائن بن چکے تھے ، سالار مسعود عر ف بالے میاں نے ( جس وقت وہ شہید ہوئے تھے ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی)اودھ کے ہندوؤں کے لیے بال ناتھ کا درجہ حاصل کر لیا ہے ۔ ان کے مقبرہ کے قریب کا اگن کنڈ بالا رکھ کی دھونی کہلاتا ہے ، در گاہ کی نذر مجاور اور پوجا کے محاصل پنڈے حاصل کرتے ہیں ۔پنڈوں اور مجاوروں میں آپس میں آمدنی کی تقسیم کے متعلق معاہدہ ہے۔‘‘11؎
’’حیدر آباد کی اس مشترکہ تہذیب کی بنیاد قطب شاہ رکھ گیا تھا۔ اس نے بھاگ متی کو ملکہ بنا ہندوستانی لباس پہن کر، ہندوستانی تہوار منا کر اور تیلگو میں شاعری کر کے ہندوستانی تہذیب کو ملانے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ وہ اس کلچر میں رنگ جانے پر مجبور تھا جو اس کے آس پاس تھا۔یوں ہی جیسے اکبر غیر شعوری طور پر ہندوستانی تہذیب میں رنگتا چلا گیا۔ واجد علی شاہ نے ہولی کھیلی ۔‘‘
’’انھوں نے ( نظام نے)جاگیر ، منصب اور خطاب دیتے وقت کبھی ہندو اور مسلمان کی اصطلاح میں نہیں سوچا تھا۔ حیدر آباد کے برہمن شیروانی پر تُرکی ٹوپی پہنتے تھے اور اردو اخبار پڑھنے سے کبھی ان کا دھرم خطرے میں نہیں جا پڑتاتھا، بہت سی ہندو عورتیں ڈیوڑھیوں میں بیگمیں بنی بیٹھی تھیں ، مگر کسی ہندو کو غیر ت کی ٹھیس نہیں لگتی تھی۔ چیچک کی وبا پھیلتی تومسلمان عورتیں دیوی پر چڑھا وے چڑھاتی تھیں اور درگاہوں کے عُرس میں ہندوؤں کی جانب سے نذروں کے خون آتے ۔بی بی کے علم پر مسلمانو ں سے زیادہ ہندوؤں کی جانب سے شربت کی سبیلیں لگتی تھیں۔ چاندی کے چاند اور پنجے چڑھاتے تھے ، رمضان میں ہندوؤ ں کے ہاں سے مسجدوں میں افطار بھیجی جاتی تھی۔‘‘
’’ریاست کا ہر مسلمان تیلگو جانتا تھا، تمام ہندو لڑکے اردو میڈیم سے پڑھتے تھے مگر انھیں کبھی مادری زبان کی طرف سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھاکیونکہ ابھی ان کے دلوں میں شک و نفرت کی ایسی آگ نہیں بھڑکی تھی جو خلوص کے ہر پھول کو جلاڈالتی ہے ۔‘‘ 12؎
مذکورہ بالا اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ناولوں میں ہندوستان کی وہی تہذیبی فضا موجود ہے جس میں ہندوستان صدیوں سے سانس لے رہاہے اور جس پر اسے فخر و امتیاز بھی حاصل ہے۔ ہندوستانی کہانی کاروں کی طرح پاکستان کے ناول نگاروں کی نگارشات میں بھی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا رنگ نمایاں ہے۔ آزادی کے بعد لکھنے والوں یا پھر تقسیم کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے جانے والے تخلیق کاروں میں انتظار حسین ، عبداللہ حسین ، جمیلہ ہاشمی ، خدیجہ مستور، فضل احمد فضلی، شوکت صدیقی، رضیہ فصیح احمد، ممتاز مفتی وغیرہ کے نام خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ ہندوستان میں لکھے گئے ناولوں میں براہ راست ہماری تہذیبی و ثقافتی ورثے کی ترجمانی موجود ہے مگر پاکستانی کہانیوں میں اس کی پیش کش کا رویہ بدل جاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں ناآسودگی ، ماضی کی طرف مراجعت، تقسیم ، ہجرت اور دیگر مسائل و معاملات اہم موضوع قرار پاتے ہیںمگر ان کی تہوں میں بھی وہی لے موجود ہوتی ہے جس کا تعلق ہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی یا اس کی شکست وریخت سے ہے۔ کیونکہ تقسیم کے بعدپاکستان میں لکھنے والوں کو وہ معاشرتی فضا میسر نہیں تھی جو ہندوستانیوں کے حصے میں آئی تھی بلکہ اس کے بر خلاف وہاں کی ایک بڑی آبادی اپنی زمین اورجڑوں سے کٹ گئی تھی اور وہ اسے تقسیم کی مار جھیلنی پڑ رہی تھی ۔ ان نامساعد حالات میںانھیں ایک نئے تہذیبی پس منظر کی دریافت و جستجوتھی۔گرچہ ان کا ماضی کھو چکا تھا لیکن ان کی جڑیں اسی ماضی میں پیوست تھیںاس لیے ان ناول نگاروں کے یہاں ان جڑوںکی تلاش وجستجو اور ان کی از سرِ نو دریافت کا عمل شدت سے ابھر کر آیا بلکہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر اظہار کے اس رویے نے ان کے ناولوں میں نسٹلجیا کا رنگ اختیار کر لیا ہے۔اس حوالے سے پروفیسر انور پاشا رقمطراز ہیں:
’’ہندو پاک کے ناول نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد نے اپنی تہذیبی اثاثے کو کھنگالنے کی کوشش کی ہے ۔ انھو ں نے اپنے ناولوں میں ماضی کی مشترکہ تہذیبی و ثقافتی اقدار کو نگاہ تحسین سے دیکھا اور تقسیم کو اس مشترکہ وراثت پر شدید حملہ تصور کیاہے۔ ہندو پاک کے بیشتر ناول نگاروں نے ذہنی وجذباتی سطح پر ماضی اور ماضی کی تہذیبی قدروں کو جس زاویے سے دیکھا اور پیش کیا ہے اس سے ا س میں ایک نسٹلجیاتی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور اس کیفیت کی گونج ہندو پاک کے ناول نگاروں کے یہاں یکساں طور پر سنائی دیتی ہے۔ہندوستانی ناول نگاروںمیں قرۃ العین حیدر کے یہاں ماضی کی صدائے بازگشت کا رنگ زیادہ گہرا ہے ۔ان کے اولین ناول ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ سے لے کر اس عہد کے آخری ناول’’ کار جہاںدراز ہے‘‘ تک یہ رنگ نہ صرف تکرار کے ساتھ برقرار رہتا ہے بلکہ مزید گہرا ہوتا گیا ہے۔ وہ تہذیبی تشخص کی تلاش میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کی تہوں تک پہونچتی ہیں۔ انھوں نے ماضی کے اتارچڑھاؤ کے تناظر میں برِ صغیر کی تہذیبی تہوں اور پرتوں کی نشاندھی کی ہے۔ انھوں نے عہد بہ عہد اور نسل بہ نسل قوموں اور ان کی تہذیبی و معاشرتی اقدار کے زوال اور ارتقا کی مکمل تصویر اپنے ناو ل ’’ آگ کا دریا ‘‘ میں پیش کی ہے۔ ہندوستان کی تہذیبی فضا کی یہی جھلک کچھ زمانی و مکانی فرق کے ساتھ قاضی عبدالستار ، جیلانی بانواور حیات اللہ انصاری کے یہاں بھی موجود ہے۔ عصمت چغتائی کا ناول’’ ایک قطرہ خوں ‘‘ بھی ماضی کی جانب مراجعت کا ہی اشاریہ ہے ۔پاکستانی ناول نگاروں کے یہاں تہذیبی جڑوں کی تلاش کا اظہار زیادہ شدت کے ساتھ ہو ا ہے ۔ تقسیم کے بعد پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی آبادی احساس بے دخلی ، تبادلۂ آبادی، ہجرت کے تجربے ، چھت کی تلاش اور نامانوس اور نامساعد حالات سے دو چار تھی۔ وہ اپنی زمین اورجڑوں سے کٹ چکی تھی اورر ایک نئے تہذیبی پس منظر کی دریافت و جستجو میں سر گرداں تھی۔ ان کا ماضی کھو چکا تھا لیکن ان کی جڑیں اسی ماضی میں پیوست تھیں۔ لہذا ان جڑوںکی تلاش اور جستجو اور ان کی از سرِ نو دریافت کا عمل وہاں کے ناول نگاروں کے یہاں شدت سے ابھر کر آیا۔ ان کے ناولوں میں تہذیبی و ثقافتی سطح پر نسٹلجیا کا رنگ غالب ہے‘‘۔13؎
اردوناول کی طرح کثیر تعداد میں ایسے افسانے بھی تخلیق ہوئے اور آج بھی ہو رہے ہیں، جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے مرقعے کہے جاسکتے ہیں۔پریم چند سے لے کر معاصر اردو افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر ایک نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہ ہوگا کہ ان میں ہماری سماجی و معاشرتی ا ور تہذیبی و ثقافتی زندگی نمائندگی موجود ہے ۔پریم چند، حیات اللہ انصاری،کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی، منٹو، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر، انور عظیم، رام لعل ، اقبال متین، واجدہ تبسم، اقبال مجید، جوگندر پال، غیا ث احمد گدی، رتن سنگھ، قاضی عبدا لستار، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، بلراج کومل ، شرون کمار ورما، ترنم ریاض، شوکت حیات، جیلانی بانو، کمارپاشی، شفق، حمید سہر وردی، قمر احسن،شموئل احمد،غضنفر، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق، انور خان، سید محمد اشرف، خالد جاوید، ذکیہ مشہدی اور صادقہ نواب سحروغیرہ اردو افسانے کے اہم نام ہیں۔ ان کے افسانوںمیں ہمیں اپنی جیتی جاگتی تصویریںنظر آتی ہیں۔ ان میں جہاں زندگی اور مسائل زندگی سے متعلق موضوعات موجود ہیں وہیں ان میں وہ تہذیبی عناصر بھی موجود ہیں جن کی بدولت آج ہماری تہذیبی زندگی روشن و تابناک ہے۔
عام طور پر ابتدا سے ہی ہندوستان کی سماجی و معاشی پست حالی، عشق و محبت، ہندوستان کی سیاسی جد وجہد ، مذہبی کھوکھلا پن اور انتہاپسندی کے خلاف جہا د وغیرہ اردو کہانیوں کے موضوعات رہے ہیں۔ جنس کاتصور، زندگی کو نئے نقطہ ٔ نگاہ سے دیکھنے اور برتنے کا تصور، سرمایہ داری کے خلاف آواز اور مساوات کے تصورات وغیرہ کوفروعی موضوعات کے طور پر ہر افسانہ نگار نے اپنے اپنے طور پر برتنے اور انھیں اپنے بیانیہ کاحصہ بنانے کی کو شش کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی کہانیوں میںشعوری اور غیر شعوری طور پر ہندوستان کا تہذیبی رنگ بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے ۔ قرۃ العین کے ساتھ ساتھ د یگر افسانہ نگاروں کے یہاں بھی گرچہ جاگیردارانہ تہذیب کے زوال اور اس کی ٹوٹتی بکھرتی زندگی کے گہرے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو ہرافسانہ نگار نے اپنے افسانوں اور کہانیوں میں اسی زندگی اور اس کے مسائل و معاملات کو پیش کیا ہے جس کا کوئی نہ کوئی سرا ہماری تہذیب وثقافت سے ضرور ملتا ہے ۔ بلکہ افسانے کی تاریخ ہی ہماری تہذیبی و معاشرتی زندگی سے عبارت ہے بقول صغیر افراہیم:
’’ پچھلے سو برسوں میں بر صغیر کے مختلف علاقوں کی تہذیب ، وہاں کی سیاسی اُتھل پُتھل ، اقدار کی شکست و ریخت اور اُن کا کھوکھلا پن، رومان اور حقیقت کا ٹکراؤ ، فطرت نگاری، طبقاتی جدو جہداور فرد کا فطری و جبلی اظہار، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے صنفِ افسانہ کو استعمال کیاگیا ہے ۔ طبقہ وارانہ تقسیم اور ذاتی مفاد کی بنا پر مسخ کیے ہوئے کر دار اور اُن سے وابستہ واقعات و حادثات کی ایک مکمل دستاویز افسانے کی ایک صدی سے مرتب کی جا سکتی ہے، اور یہ برصغیر کی تاریخ کو تخلیقی تناظر میں دیکھنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کے بغیر روایتی تاریخ نگاری نہ صرف ادھوری بلکہ واقعات کی فہرست پر مبنی ایک رسمی تحریر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے۔۔۔موضوع کی سطح پر کائنات سے ذات تک سمٹنے اور پھر ہیئتی سطح پر اس میں نت نئی تبدیلیوں کے عمل کی روداد ایک صدی کو محیط ہے۔ پچھلے سو برسون میں برِصغیر کے مختلف علاقوں کی تہذیب ، وہاں کی سیاسی اتھل پتھل ، اقدار کی شکست و ریخت اور اُن کا کھوکھلا پن ، رومان اور حقیقت کا ٹکراؤ، فطرت نگاری، طبقاتی جدو جہد اور فرد کا فطری و جبلی اظہار، غرض کہ زندگی کے ہر پہلو کے لیے صنف ِ افسانہ کو استعمال کیا گیا ہے۔‘‘ 14؎
اس طرح اردو افسانوں میں کائنات سے لے کر ذات تک کے جہاں ہر طرح کے موضوعات کا بیان ہے وہیں ان میں ہماری تہذیب زندگی اور اس کی اقدارو روایات کی ترجمانی و پیش کش بھی اپنی تمام تر نزاکتوں اور نشیب و فراز کے ساتھ موجودہے۔ہندوستان کوجس طرح تہذیبی و ثقافتی اعتبار سے ایک گلستان کی حیثیت حاصل ہے اسی طرح کے دامن میں کھِلے ہر پھول کی اپنی ایک انفرادیت بھی ہے۔ اردو افسانے جہاںہندوستان کی ملی جلی تہذیب و ثقافت کا ایک خوبصورت البم ہیں وہیں وہ تہذیبی و ثقافتی سطح پر اس انفرادیت کو بھی پیش کرتے ہیں جو ہندوستان کے ہرخطے وعلاقے کا اپنا اختصاص و امتیاز ہے۔
غرض یہ کہ ہندوستان کو تہذیبی و ثقافتی سطح پر پوری دنیا میں افتخار و امتیاز حاصل ہے ۔اس کا تہذیبی ورثہ پُر ثروت و متمول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تایخ بھی حد درجہ قدیم ہے ۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت جہاں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا خاصہ ہے وہیں اس کا مشترک کردار اس کی روح تسلیم کی جاتی ہے۔ ہندوستان کوجن اسبا ب و عوامل اور وسائل و ذرائع کی بنیاد پر سونے کی چڑیا سے تعبیر کیا گیا ان میں ایک سبب اس کا یہ تہذیبی و ثقافتی کر دار بھی ہے۔ ہندوستان کی دیگر زبانوں اور فنون لطیفہ کی مختلف اصناف کی طرح نہ صرف اردو زبان ادب میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی بڑے پیمانے پر نمائندگی وترجمانی موجود ہے بلکہ اس نے اس کے فروغ میں ہر عہد اور ادوار میں کلیدی رول بھی ادا کیا ہے اور یہ خود ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا استعارہ بن گئی ہے۔
٭٭٭
مراجع و مصادر:
1۔ ہندوستانی کلچر کا ارتقا تاریخ کے آئینے میں، تارا چند، شائع کردہ شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی1967، ص: 15
2۔ ہندوستانی تہذیب، اقبال حسین، اتر پردیش اردو اکادمی ، لکھنؤ، 1982ء، ص: 12,14
3۔ دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر(عہد میر تک)، محمد حسن، ادارہ ٔ تصنیف، ڈی ۷، ماڈل ٹاؤن، دہلی ، ص:19
4۔ ایضا، ص: 10
5۔ ایضا، ص: 20
6۔ فن کی جانچ، سید ہ جعفر، ص: 118-129
7۔ فسانہ ٔ عجائب، ص: 198
8۔ باغ و بہار، میر امن ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی ، ص: 202
9۔ ہندوستانی تہذیب، سید عابد حسین ، مطبوعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1958ص: 64-65
10۔ ہندو پاک میں اردو ناول: تقابلی مطالعہ ، انور پاشا، پیش رو پبلی کیشنز، نئی دہلی ، 1992، ص: 15-16
11۔ آگ کا دریا، قرۃ العین حیدر، سر د لیتھو پریس دہلی،ص: 242-43
12۔ ایوانِ غزل ، جیلانی بانو، ناولستان ،جامعہ نگر، نئی دہلی ، 1976، ص: 100-109
13۔ ہندو پاک میں اردو ناول: تقابلی مطالعہ ، انور پاشا، پیش رو پبلی کیشنز، نئی دہلی ، 1992، ص: 278-279
14۔ اردو افسانہ : تعریف ، تاریخ اور تنقید، صغیر افراہیم، براؤن بُک پبلی کیشنز،نئی دہلی، 2018 ،ص: 7-22
Name and Address:
DR. ABDUR RAZZAQUE ZIYADI
House No.372/14 (Fourth Floor), Ghaffar Manzil
Jamia Nagar, Okhla, New Delhi-110025
Mobile No.: +919911589715, E-mil: arziyadi@gmail.com
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |