مہر فاطمہ
ریسرچ اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعری سرمایہ میں عشقیہ ادب زیادہ مشہور و مقبول رہا ہے۔ فارسی اور اردو شاعری سے اگر یہ نکال دیا جائے تو بے جان اور بے کیف ہوجائے گی۔ اردو شاعری میں امیر خسروؔ سے لے کرآج تک شاعری کا اہم موضوع عشق ہی رہا ہے۔ اردو شعرا نے عشق کے موضوع کو تمام موضوعات پر فوقیت دی۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ دوسرے موضوعات بالکل رد کردیے گئے۔ بلکہ سماجی اور سیاسی موضوعات بھی اگر غزل کی حدود میں داخل ہوئے تو عشق کا رنگ اختیار کرگئے۔ مثال کے طور پر سراج الدولہ کی گرفتاری ایک سیاسی سانحہ تھی۔ مگر جب غزل کا شاعر اسی سانحہ سے متاثر ہوا تواس نے اس طرح کہا :
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
اس طرح کے لاتعداد اشعار ہیں جو غزل کے انداز میں رچ بس کر اردو کے شعری ادب کی جان بن چکے ہیں۔ لہٰذا صنف غزل میں جن انفرادی کیفیات کی تصویر کشی ملتی ہے اس میں عشقیہ کیفیات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزل نے متنوع اورر نگارنگ عشقیہ کیفیات کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ اور ان جذباتی تقاضوں کو پورا کیا۔ ان عشقیہ کیفیات میں آفاقیت ہے۔ خسرو، ولی، سودا، درد، مصحفی، غالب اورمومن نے جن عشقیہ کیفیات کو پیش کیاوہ آج بھی ہمیں اپنی کیفیات معلوم ہوتی ہیں:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میںنے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اب رہی یہ بات کہ شاعروں نے اپنے اپنے زمانوں میں جن عشقیہ کیفیات کی ترجمانی کی ہے ان میں کہیں یکسا نیت یایک رنگی کی کیفیت نہیںبلکہ ہر ایک میں انفرادی خصوصیت اور امتیازی رنگ نمایاں ہے۔ ہر ایک کا رنگ بالکل منفرد اور علیحدہ ہے اور الگ پہچانا جاسکتا ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمدحسن’’اردو میں عشقیہ شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں۔
اردو شاعری میں عشق کا تصور ہر شاعر کے یہاں مختلف ہے اورجداانداز لئے ہوئے ہے۔ گوہر شاعر حسن، محبوب، عشق وعاشقی، وصال اور فراق ہی کی باتیں کرتا ہے۔ مگر شاعر کے اپنے تصورات کی بنا پر معانی اورمفاہیم بدلتے چلے جاتے ہیں۔ غالبؔ نے اسی بات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا ہے :
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر
( اردو میں عشقیہ شاعری،ص۱۳)
غز ل کی روایت میں گل وبلبل، شمع وپروانہ، مے ومیخانہ، گل چیں وباغباں، گلشن وصحرا، قیس ولیلیٰ، فرہاد وشیریں، یوسف وزلیخا اور طور وموسیٰ وغیرہ نہ جانے کتنے اشاروں ، تمثیلوں اور تلمیحوں کا استعمال ملتا ہے۔ ہر شاعر اپنے اپنے انداز میں ان کا استعمال کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی انفرادی خصوصیت علاحدہ نظرآجاتی ہے۔ اس میں شاعر کی شخصیت کا بھی دخل ہوتا ہے اور شخصیت بڑی حد تک ماحول کے اثر سے بنتی ہے۔ ہردور کا ماحول دوسرے دور کے ماحول سے کسی نہ کسی حد تک مختلف ہوتا ہے اوراس ماحول کے اثرات شاعر کی شخصیت پرمختلف زاویوں سے پڑتے ہیں۔ شاعر کا فن اس شخصیت کا عکس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ غزل کے ہر دور بلکہ ایک ہی دور کے مختلف غزل گو شعرا میں اس رنگا رنگی کا احساس ہوتا ہے۔ صرف میرؔ اور غالبؔ ہی ایک دوسرے سے مختلف نہیں، بلکہ خود میر، سودااور درد میں باوجود ایک ہی عہد میں پیدا ہونے کے بالکل مختلف ہیں۔مثلاً یہ کہاجاسکتا ہے کہ میرؔکے یہاں محبت سپردگی، ناکامی، اداسی اور سوگواری کا نام ہے۔ کیونکہ حالات نے ان پر کچھ اسی طرح کے اثرات چھوڑے۔ سوداؔ کے یہاں وہ کسی حدتک بدل جاتا ہے۔ یہاں سوگواری اور اداسی کی جگہ مسرت وشادمانی ملتی ہے۔ دردؔ کے یہاں حقیقت ومعرفت کی چاشنی نمایاں ہے۔ بالکل یہی معاملہ مصحفیؔ، انشاؔاور جرأتؔ کے یہاں بھی ہے۔ تینوںایک ہی عہد سے تعلق رکھتے ہیں لیکن بالکل مختلف رنگ کے حامل ہیں۔ مصحفی کے یہاں عشق سوز وگداز کانام ہے۔ جرأت کے یہاں وہ معاملہ بندی سے عبارت ہے۔ انشا کے یہاں محض خوش وقتی اور شوخی ہے۔ جیسا کہ ماقبل بھی ذکر آیا کہ کلاسیکی اردوغزل میں عشق کے مضامین کو مرکزیت حاصل ہے البتہ دیگر مضامین پر بھی پابندی نہیںاور تمام عشقیہ شاعری کل تین مرکزی کرداروں پر قائم ہے:
(۱) عاشق
(۲) معشوق
(۳) رقیب
غزل میں چونکہ ذاتی یاانفرادی عشق کا بیان نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ غزل کا عاشق تمام عاشقوں کا نمائندہ ہے،کوئی ایک شخص نہیں ہے۔ یہ عاشق معشوق کے لئے بے قرار ہے۔ لیکن معشوق کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وہ تقدیر کا پابند ہے۔ہجر اس کا مقدر ہے ۔ اوریہ بات بھی اہم ہے کہ ہجر اور حرماں نصیبی کو غزل کی شعریات میںنمایاں مقام حاصل ہے۔ محبوب سے محبت، اس کی جدائی کا کرب، محبوب کے کھودینے کا غم زندگی کا وبال بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت تقریباً تمام شعرا کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یعنی عشق کے بیان میں دو اہم موضوعات وصل وہجر ہیں۔
عاشق معشوق سے وصل کی خواہش کرتا ہے۔وصل کی تمنا میں ہی نئے نئے پہلو کو اشعارکے قالب میں ڈھالتا ہے اور ہجر کی کیفیات کو اپنے تخیل کی مدد سے اشعار میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ غزل کا معشوق بھی ایک فرد نہیں ہے بلکہ تمام معشوقوں کا نمائندہ ہے اسی لئے سب سے زیادہ حسین ہے اور جتنا حسین ہے اتنا ہی ظالم وجابر ہے۔ سنگدلی معشوق کی علامت ہے۔
رقیب کا کردار بھی غزل کا ذیلی کردار ہونے کے باوجود وسعت لئے ہوئے ہے۔کیونکہ یہ اغیار ناصح، محتسب اور حاکم سے لے کر تمام مخالفین بلکہ پوری دنیا اس احاطے میں آجاتی ہے۔ عشق کے بیان میں عاشق، معشوق، وصل وہجر، محبوب کی سنگدلی، محبوب کے حسن، رقیب، محتسب، ناصح اور زاہد وغیرہ کے مضامین نظم کئے جاتے ہیں۔
اردوغزل کے حسن وعشق کے باب میں اور سب سے اہم کردار رقیب کاہے۔ یہ کردار بڑی وسعت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے احاطے میں اغیار، ناصح، محتسب اور حاکم سے لے کر تمام مخالفین، بلکہ پوری دنیا اس میں شامل ہے۔ یہ موضوع ہر شاعر کے یہاں موجود ہے۔قنوطی سے قنوطی شاعر بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچاسکتااوریہ مضامین غزل میں عجیب بھی نہیں معلوم ہوتے کیونکہ غزل رندوں کی صنف سخن ہونے کی وجہ سے خود اپنے مزاج میں بھی ایک رندی کی کیفیت رکھتی ہے۔ غزل کی اسی رند مزاجی نے ان موضوعات کو غزل کے لئے مناسب بنادیا۔اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کی شعریات کا حصہ بن گئے۔ غزل میں ان موضوعات کا محرک وہی عشقیہ ماحول ہے جس سے غزل عبارت ہے اس عشقیہ ماحول نے غزل کو عقل وشعور کے بجائے جذبات واحساسات کا ترجمان بنایا ہے۔ اسی لئے غزل میں عقل سے زیادہ جذبات کی باتیں ہوتی ہیں۔ جنون اوردیوانگی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ غرضیکہ غزل کی مجموعی فضا صرف ایک چیز سے وابستگی کے خیال کو عام کرتی ہے۔ اوریہ خیال ہے عشق اور معاملات عشق سے دلچسپی اور ان معاملات سے یہ دلچسپی اس قدر بڑھتی ہے کہ اگر کوئی اس راہ میں حائل ہو تو غزل کی فضا اس کوبرداشت نہیںکرسکتی۔ اس صورت میں وہ افراد جو عقل کا درس دیتے ہیں اور عشق ومعاملات ِ عشق کی مذمت کرتے ہیں، اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں غزل میں ان کا مذاق اڑایاجاتا ہے ان پر پھبتیا ں کسی جاتی ہیں۔غزل میں یہ افراد ناصح اور واعظ کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ناصح اورواعظ عشق اور معاملات عشق کی مذمت کرتا ہے۔ عاشق کو ناصح کی نصیحت آمیز باتیں بالکل نہیں بھاتیں۔ چنانچہ ناصح اور واعظ کا مذاق اڑانا اوران کو رسوا کرناعاشق کاشیوہ ہے۔ ایسے مواقع پرغزل میں شگفتگی اور شوخی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔کلاسیکی اردو شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہم اس سے سیکھ سکتے ہیں کہ طنزو مزاح کو نہایت لطیف اور مہذب پیرایے کے وسیلے سے ادب عالیہ کاحصہ کیونکر اور کیسے بنایا جاسکتا ہے۔اردو کے قدیم اساتذہ شعر کو روایت کے طور پر فارسی کے نمائندہ شعرا مثلا حافظ،انوری یا سعدی کے شعری نمونے ملے تھے۔اس روایت میں طنزو مزاح کے اچھے نمونے بھی موجود تھے مثلا:
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می کنند
چوں بخلوت می روندآں کارے دیگر می کنند
یا:
اے کبک خوش خرام کجا می روی بایست
غرہ مشو کہ گربہ زاھدنماز کرد
لہذا اس پس منظر میں ہمیں اپنے کلاسیکی شاعروں کا لب و لہجہ تو بہت چونکا دینے والا تو نہیں لگتا ہے لیکن بات سے بات نکالنے کا فن اور ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا ہنر ان کی مشاقی اور مہارت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اس موضوع سے متعلق ابتدا سے آج تک عمدہ سے عمدہ اشعار غزل کے مختلف شاعروں کے یہاں ملتے ہیں۔ مثلاً :
میر:
عام حکم شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں
یوں بھی سر چڑھتا ہے اے ناصح کوئی مجھ سے کہ ہائے
ایسے دیوانے کو سمجھاتے ہیں سمجھانے کی طرح
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غم دل کی
ہے حق بہ طرف اس کے چکھے تو مزہ جانے
وہ پھری پلکیں اگر کھپ گئیں جی میں وہیں
رخنے پڑجائیںگے واعظ ترے ایمان کے بیچ
واعظ شہر تنک آب ہے مانند حباب
ٹک ہوا لگتی ہے اس کو تو ابھر جاتا ہے
غالب :
حضرت ناصح گر آئیں دیدہ ودل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شراب طہور کی
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اورکہاں واعظؔ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دو ست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
مومن :
ذکر اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
شرم کی بات نہیں ہے یہ اثر ہو کیونکر
نہ میں مومن ہوں نہ تو پیر مغاں اے واعظ
لگ جائے شاید آنکھ کو دم شب فراق
ناصح ہی کو لے آؤ اگر افسانہ خواں نہیں
یہ کون کہے اس سے کی ترک وفا میں نے
کر تو ہی ذرا ناصح پیغامبری اتنی
داغ :
اگرچہ بادہ کشی تھی گناہ اے زاہد
جو تجھ سے چھین کے پیتا تو کچھ عذاب نہ تھا
ناصح کا جی چلا تھا ہماری طرح مگر
الفت کی دیکھ دیکھ کے رفتار رہ گئے
ترا پیرہن میری باتوں سے ناصح
مرا ہی گریباں ہوا چاہتا ہے
ناصح کی گفتگو سے ہوئیں بدگمانیاں
ایسا نہ ہو رقیب کا درپردہ یار ہو
زاہد مزہ تو جب ہے عذاب وثواب کا
دوزخ میں بادہ کش نہ ہوں جنت میں تو نہ ہو
امیرمینائی:
باتیں ناصح کی سنیں یار کے نظارے کئے
آنکھیں جنت میں رہیں کان جہنم میں رہے
تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے
جگر:
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی، یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو
یہاں تنگ دل کا گزرنہیں یہاں اہل ظرف کا کام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلا ل ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
ناصح کم نگاہ سے کون یہ کہہ کے سر کھپائے
راز شکستگی سمجھ، رنگ شکستگی نہ دیکھ
واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اصغر:
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
یہ خانقاہ نہیں پی جا ارے زاہد
یہ مے کدہ ہے یہاں احتراز رہنے دے
نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظ ناداں
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میںنے جہاں رکھ دی
یہ اشعار عشقیہ پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کا محرک ایک عشقیہ ماحول ہی ہے۔ اس لئے یہ موضوعات غزل کی عام فضا سے نامانوس نہیں۔ ان کو اس فضا سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موضوعات غزل کی روایت کا ایک لازمی جز و بن گئے ہیں اورحسن وعشق کے باب میں ان کی اہمیت کم نہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ موضوعات غز ل کی عشقیہ روایت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ عشقیہ فضا میں اور شدت پیدا کرتے ہیں۔اور ان کے باعث عشقیہ اقدار میں استواری اور ہمہ گیری پیدا ہوتی ہے۔ غزل کی اسی رندانہ کیفیت نے تصوراتی اعتبار سے مذہب سے برگشتگی کے خیال کو عام کیا اور ایسے افراد کو آڑے ہاتھوں لیا جو اس فضا کو پیدا کررہے تھے۔ تصوف نے اس میں کچھ اور شدت پیدا کی۔ کیونکہ تصوف میں ایسے لوگوں کے لئے بالکل جگہ نہیں ہے جو سر گشتۂ رسوم وقیود ہوں۔ جن کے پاس مذہب کی آڑ ہو، غزل نے ایسے افراد کے ’’کارِ دیگر‘‘ کو اچھی طرح بے نقاب کیا۔ شیخ اور زاہد وغیرہ ایسے ہی افراد کی علامتیں ہیں۔ غزل کا ایک خاصا حصہ اسی موضوع کے مختلف پہلوئوں کی ترجمانی پر مشتمل ہے۔
یہ اشعار اس فضا کو پوری طرح پیش کردیتے ہیں جو غزل میں شیخ،زاہد اور واعظ سے متعلق معاملات کی ترجمانی سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کو پیش کرنے کے انداز میں ایک شوخی اور شگفتگی کودخل ہے، لیکن یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ یہ صرف تفنن طبع کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ان کے پیچھے بھی زندگی کے بعض گہرے حقائق ہیں۔ غزل ان حقائق کو پیش کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ غزل اس شوخی اور شگفتگی کو پیدا کرنے میں کچھ حدودسے باہر بھی گئی، لیکن انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ اس میں ایک بانکپن بھی ہے۔ایک سوچ اور لچک کی کیفیت ضرور پیدا ہوگئی ہے۔اس نے غزل سے قنوطیت کی فضا میں بڑی حدتک اجالا کردیا۔ اس کے ذریعے غزل میں تنوع پیدا ہوا۔ اردو غزل طنز ومزاح او رشوخ وشگفتگی سے آشنا ہوئی اور اس میں تنوع اور وسعت پیدا ہوا۔ اس طرح حسن وعشق کے باب میں تین اہم کردار عاشق، معشوق اور رقیب کے متعلق مضامین ہیں اور معشوق کے ہجر ووصال کی داستان ہے۔ رقیب کو بھی کھری کھوٹی سنائی گئی ہے تو وہیں شیخ زاہد اور ناصح پر بھی پھبتی کسی گئی ہے۔ اس باب میں کہیں سوز وگداز ہے تو کہیں طنز ومزاح۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دیکھنے سے تویہ صرف ایک موضوع ہے لیکن اس میں کتنے مضامین ہیں شعرا کا تخیل کہاں کہاں جاپہنچتاہے۔ کس کس طرح بات سے بات نکلتی ہے۔اسے دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عشق کا مو ضوع خود ایک بحر بے کراں ہے جس کی وسعت کااندازہ ناممکن ہے۔
٭٭٭٭٭
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |