شعر کو سمجھ کر پڑھنا اس سے محظوظ ہونا طالب علموں کے لیے لازمی ہے :عارف نقوی
بیت بازی جیسے مقابلے طالب علموں کو زبان سکھانے میں مفید اور معاون ہو سکتے ہیں:پروفیسر انشوکیڈیا
شعبۂ اردو ،سی سی ایس یو اور ایوسا کے ادب نما کے تحت’’مقابلۂ بیت بازی‘‘ کا انعقاد
میرٹھ2؍مارچ2023ء
شعر کو سمجھ کر پڑھنا اس سے محظوظ ہونا طالب علموں کے لیے لازمی ہے۔آج کی بیت بازی اسی لیے کامیاب ہے کہ طلبا نے اشعار کو سمجھ کر محسوس کر کے اور ان کی ادائیگی نے ایک خاص لطف پیدا کیا ہے۔یہ الفاظ تھے جرمنی سے معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کے جو شعبۂ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد ہفتہ واری ادب نما پروگرام ’’مقابلۂ بیت بازی‘‘میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے شعبۂ اردو کے اراکین کو اس خوبصورت بیت بازی کے لیے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگرام منعقد کرتے رہنا چاہئے ساتھ ہی انہوں نے طلبہ کی محنت کو بھی سرا ہا اور انہیں مزید دیگر ادبی پروگراموں میں بھی اسی طرح جوش وخروش سے حصہ لینے کی صلاح دی۔
مقابلے میں دو ٹیمیں شامل تھیں۔ٹیم غالبؔ میں محمد معاذ،مرزا ریحان بیگ، محمد یوسف عارف، امِ ہلال، کہکشاں خاتون جب کہ ٹیم میر ؔ میں محمد راغب الحق، ام رقیہ، فائزہ انصاری، محمد رضا، محمد ندیم اخترشامل رہے۔اس سے قبل پرو گرام کا آغازمحمد معاذ نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیہ نعت کہکشاں خاتون نے پیش کیا۔ پروگرام کی سرپرستی صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔ جب کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر انشو کیڈیا(پرنسپل کھن کھن جی پی جی کالج، لکھنو) ،ججز کے بطور ڈاکٹر عارف حسن خاں اور ڈاکٹر پروین شجاعت نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ارشاد سیانوی نظامت آ یوسا کی صدر ڈاکٹر ریشما پروین نے کی ۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو اور معروف افسانہ نگار و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ بیت بازی ایک ادبی کھیل ہے جس کے ذریعے طالب علم کھیل کھیل میں زبان کی باریکیاں سیکھتا ہے، بیت بازی جیسے پروگراموں سے معیاری اور غیر معیاری زبان کا فرق سمجھ میں آ تا ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر انشو کیڈیا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ بیت بازی جیسے مقابلے طالب علموں کو زبان سکھانے بہت مفید اور معاون ہو سکتے ہیں۔ایسی روایت کو زندہ رکھنے اور نئی نسل تک پہنچا نے کے لیے ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایسے مقابلوں کو آگے بڑھانا چاہئے جو یقینا زبان و ادب کے لیے نہایت مفید ہوں گے۔
ڈاکٹر پروین شجاعت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ طالب علموں کو اپنے سا منے اشعار پڑھتے دیکھ رہی ہوں اور اب تک تقریباً81 سے سے زائداشعار پڑھے جاچکے ہیں لیکن اب بھی ان کے جوش و خروش میں کمی نہیں آئی ہے۔ادب سے طلبہ کی اس طرح کی دلچسپی اردو زبان و ادب کے لیے خوش آئند ہے۔
ڈاکٹر عارف حسن خان نے کہا کہ اردو زبان کے کلچر اور تہذیب کو باقی رکھنے کے لیے بیت بازی کا انعقاد ایک اہم قدم ہے۔ ایسے پروگرام اردو ادب کے طلبا کے لیے دلچسپی کا سبب بھی ہوتے ہیں۔
پروگرام میں ڈاکٹر آصف علی،ڈاکٹر شاداب علیم،محمد شمشاد، فیضان ظفر وغیرہ موجود رہے۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page