ایک مدت سے کانگریس کی قیادت کا کوئی ایسا عمل سامنے نہیں آرہا ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اسے ملک میں اقتدار کی طلب ہے!!
بنگال اور پھر اترپردیش میں کانگریس نے جس طرح دوسری جماعتوں سے سمجھوتا کیے بغیر آزادانہ طورپر خود کو حوصلے کے ساتھ میدان میں اتارا ا ور سَو شرم ساری کے ساتھ بے آبرو ہوکر میدانِ انتخاب سے باہر ہوئی؛ اس کا کئی زاویوں سے تجزیہ کیا جانا ضروری تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود انڈین نیشنل کانگریس یا اس کے روایتی قائدین بھی کب یہ چاہتے ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوں۔ان کے اعمال، ساری سیاسی سرگرمیاں، تنظیمی کوششیں اور عملی سطح پر لوگوںکو جوڑنے کے بجاے توڑنے کا جو سلسلہ ہے، اس سے ایک لمحے کے لیے بھی اس بات کا یقین نہیں ہوتا ہے کہ یہ پارٹی ماضی میں پچاس برسوں تک مرکزی حکومت کی کمان سنبھال چکی ہے اور اسی طرح ہندستان کے اکثر صوبوں میں تیس سے چالیس سال کی حکومت کا اسے تجربہ ہے۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اس پارٹی کو نہ اپنی تاریخ یاد رہتی ہے نہ ہی ہندستانی سیاست میں اپنے مقام و مرتبے کی کچھ خبر رہتی ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ اس پارٹی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ عوامی سطح پر اس کے لیے کون سی توقعات پیدا ہورہی ہیں اور ان کے مطابق اپنی پارٹی کو کون سا نیا مزاج اور زاویۂ نظر بخشنا چاہیے؟
ہندستان کی گذشتہ چالیس برسوں کی سیاست میں محاذی رویے کی صداقت قائم ہوئی۔ ایک وسیع و عریض ملک میں جہاں بھانت بھانت کے لوگ اور طرح طرح کی زندگیاں موجود ہوں، وہاں کسی ایک سیاسی پارٹی کی طاقت اگر حکومت بنانے کے مطابق نہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طاقت کے بڑھنے کا دور شروع ہوا، اس وقت سے کانگریس اور اس کی مخالف دونوںجماعتوں نے محاذ قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ محاذ میں اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کو فائدے حاصل ہوتے رہے ہیں مگر یہ بھی سچائی ہے کہ کبھی کبھی بڑی پارٹیوں کے سامنے محاذ میں بہت چھوٹے قد کا سیاسی آدمی بڑی جگہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی ہوتا ہے ک حکومت سازی کے پیچیدہ عمل میں بڑی جماعتوں کو قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی بڑی تعداد کے باوجود بہار میں نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنائے رکھا ہے۔ چندرشیکھر وزیر اعظم ہوئے، ان کے پاس صرف چھتیس ممبرانِ پارلیامنٹ تھے۔ انھیں کانگریس نے باہر سے مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی پچھلے انتخاب سے ہی مرکز میں سیٹوں کی تعداد کے مطابق آسانی سے حکمرانی کرسکتی ہے مگر اس نے محاذی سیاست کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنائے رکھا ہے اور حکومت میں تمام حلیف جماعتوں کو حصہ دینے سے گریز نہیں کرتی ہے۔
اس کے برعکس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کو محاذی سیاست پر دل سے کوئی اعتبار نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پارٹی کو آگے رکھتی ہے اور بار بار مات کھانے کے باوجود شہہ زوری کے آداب کے ساتھ میدان میں آزمانے کے لیے خود کو قائم رکھتی ہے۔ پچھلے دنوں مغربی بنگال میں کانگریس کو تمام سیٹوں پر لڑنے کے لیے آخر کس سیاسی حوصلے سے میدان میں آنا چاہیے تھا۔ اترپردیش میں بھی اسمبلی ا نتخاب میں کانگریس نے جس طرح سے خود کو میدان میں اتارا ؛ ہر کس و ناکس اس بات کا اظہار کرنے لگا تھا کہ کانگریس بھارتیہ جنتاپارٹی کو جیتنے کے لیے اور راستہ دے رہی ہے۔ پورے پانچ برس یہ پارٹی نہ کوئی نیا تنظیمی ڈھانچہ تیار کرتی ہے، نہ ہی اس کے سیاسی بازیگر کبھی دور دراز کے علاقوں میں عوامی بیداری کی مہم چلاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی الیکشن قریب آئے گا، اس پارٹی کے قائدین کی باتیں پھیلنے لگتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سیکولر ہندستان کو بچانے کی حقیقی جواب دہی کانگریس ہی ادا کررہی ہے۔
کانگریس میں قیادت کا کھیل اور تماشہ عجیب بچکانا طریقے سے چلتا رہا ہے۔ راجیو گاندھی کی وفات کے بعد سونیا گاندھی میدان میں تو آگئیں مگروہ بیراگی کی طرح برتائو کرنے لگیں۔ وہ تو خیر منموہن سنگھ نے دس برس ایسے نبھا دیے کہ سرکار بھی قائم رہی اور سونیا گاندھی اور ان کے بچوں کی سیاسی پرورش اور دخل اندازی بھی چلتی رہی۔ مگر ان دس برسوں میں سیاسی تربیت کے نام پہ راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور سونیا گاندھی کبھی بھی نہ اپنی کارکردگی ابھار سکیں اور نہ ہی ملک کو کبھی یہ محسوس ہوا کہ ان لوگوں کے دم سے منموہن سنگھ ملک چلا رہے ہیں۔ منموہن سنگھ کی شخصیت کی چھاپ اور روایتی قیادت کے تئیں خود سپردگی نے حکومت کو تو بچا لیا مگر کانگریس کی نئی نسل یا سونیا اور راہل گاندھی کس طرح اس سیڑھی سے اقتدار کی بلندی تک پہنچ پائیں گے، اس میں بہت طرح کی توقعات نہ پیدا ہوسکیں۔ نتیجے کے طور پر نریندر مودی نہ صرف یہ کہ منموہن سنگھ سے اقتدار چھیننے میں کامیاب ہوئے بلکہ رفتہ رفتہ کانگریس اور دوسری مخالف جماعتوں کی کمر توڑنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اب دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کانگریس پارٹی کے دل سے اقتدار کے حصول اور اس کے لیے مشقتیں اٹھانے کا شوق پورے طور پر مٹ چکا ہے۔ اب جو بچا ہے، وہ دکھاوا ہے یا وقت گزاری کی ایک کوشش۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کا تقاضہ یہ ہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر سیاست کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے محاذ سے مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کی قیادت میں ایک مضبوط محاذ تیار ہونا چاہیے۔ محاذ کے قیام میں ایک لچیلا رخ بھی ہو اور الگ الگ صوبوںمیں الگ الگ طریقے سے پارٹیوں کو جوڑا جائے تاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابلے میں ایک متبادل حکومت کا تصور سامنے آسکے۔ کانگریس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ بڑی پارٹی اور اقتدار کے پرانے تجربے کا اس میں ایک ایسا نشہ ہے جس سے وہ اپنے طور پر مست ہاتھی کی طرح خود پہ فدا رہتی ہے۔ اسے ممتا بنرجی سے بھی دشواری ہے، لالو یادو سے بھی پریشانی ہے، اکھیلیش یادو یا مایاوتی سے بھی رہ رہ کر بیر ہوجاتا ہے۔ پھر الیکشن میں شکست کھانے کے فوراً بعد استعفا دینا، استعفا لینا اور آپسی رنجشوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کے بعد وہاں سیکھنے کا عمل اور اپنی شکستوں سے نکلنے کا طور اور بے لگام ہوتا ہے۔ محاذ بنانے میں جہاں اسے بڑے بھائی اورسرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے، وہاں ہر جگہ مقابلِ اول کی طرح سے وہ میدا ن میں آتی ہے۔ اس کے پاس کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہ ہو، کوئی قائد نہ ہو مگر سمجھوتہ نہ ہونے کی صورت میں وہ ساری سیٹوںپر میدان پر اترنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ کانگریس نہ ہوئی کوئی جادوئی چھڑی اس کے ہاتھ میں آگئی کہ جہاں اس کے کارکن نہ گئے، جہاں اس کے لیڈر خوف میں مبتلا پڑے ہوئے ہیںمگر وہ ہر حلقۂ انتخاب سے ضمانت ضبط کرائے گی اور اپنی حقیقی طاقت کے بغیر کانگریس میں بیان دینے، اعلان کرنے یا محاذ بنانے کی ایک ہوڑ ہوتی ہے۔ راہل گاندھی کی کورونا کے دوران کی ان میٹنگوں کو یاد کیجیے جب وہ کسی نئے موضوع پر یا ملک کے کسی نئے مسئلے پر سرگرم تھے اور لوگوں سے محوِ گفتگو تھے۔ یہ سلسلہ آگے بھی چلتا ہی رہا۔ محدود پیمانے پر عوام سے رابطہ کرنا اور قوم و ملت کے مسائل کے سلسلے سے تبادلۂ خیال کرنا کانگریس کا میدانِ عمل سے بھاگنے کے دوران کا ایسا نسخۂ کیمیا ہے جس نے اسے زوال کی ان حدوں تک پہنچا دیا۔ راہل گاندھی کی بڑی بہن محترمہ پرینکا گاندھی پچھلے کئی انتخابات میں اترپردیش کی کمان سنبھالتی رہی ہیں۔ وہ راہل گاندھی سے بھی زیادہ اَن گڑھ سیاست داں ہیں۔ ماں کے ساتھ بھائی بہن نے مل کر ایسا لگتا ہے کہ یہ طے کرلیا ہے کہ انھیں پھر سے اقتدار نہیں چاہیے۔ اس لیے محاذ قائم کریںگے تو ڈھیلا ڈھالا، سمجھوتے کرنے میں اتنی دیر کریںگے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تب تک اپنی منزل تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
سیاست دانوں کے بارے میں سنجیدہ حلقے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ سب سے بے اعتبار قوم ہے۔ کب کس سے سمجھوتہ کرلیں گے اور کب کون کہاں چلا جائے گا، اس کا اندازہ مشکل ہے۔ سونیا گاندھی اور راہل کی قیادت والی کانگریس کے بارے میں ایک حلقہ اب یہ کہنے لگا ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ ملک میں ان کی کارکردگی پر کوئی ووٹ نہیں دے گا۔ پرانی پارٹی ہونے کی وجہ سے ہر صوبے سے دو چار سیٹیں پارلیامنٹ میں مل ہی جائیںگی اور دو چار ریاستوں میںبھولے بھٹکے سے حکومت بھی قائم ہوجائے گی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعد دوسرے مقام پر رہ کر وہ اپنی آسان سیاست کو جاری رکھ سکتی ہے۔ ایسے میں اسے اپنی جان لگانے یا ہر صوبے میں محاذ قائم کرنے اور بھارتیہ جنتاپارٹی کو اقتدار سے روکنے سے کیا مل جائے گا، اگر یہ درست ہے تو ملک کے وہ لوگ جو ہر سیکولر سیاسی کام کے لیے کانگریس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، ان کی مایوسی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ خدا کرے کہ کانگریس کی اس پوزیشن کو دوسری سیاسی جماعتی سنجیدگی سے دیکھیں اور بغیر کانگریس کے غیر فرقہ وارانہ حکومت سازی کے خوابوں کو مستحکم کرنے کے لیے کسی نئی پہلی کی کوشش کرنی ہی چاہیے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]
safdarimamquadri@gmail.com
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
| ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page

