ڈراما ایک ایسا فن ہے جس کی روح اِس کی پیشکش ہے ۔ یوںتھئیٹر سے اس کا براہ راست تعلق روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ڈرامائی ادب کی ترویج اور تھئیٹر کے استحکام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا کردار بہت نمایاں رہا ہے ،جس کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے اور آئندہ بھی کیا جائے گا، اس لیے کہ اردو ڈرامے کی تاریخ میں اس کی حیثیت سنگ میل کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈراما و تھئیٹر کے ذکر کے بغیر اردو ڈرامے کے ارتقا کی تاریخ ادھوری اور نامکمل ہوگی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عظیم ادارے میں اردو ڈرامے لکھنے اور اسٹیج کرنے کی ایک روشن تاریخ موجودہے ۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے البتہ پہلے جیسی رفتار اب باقی نہیں ہے لیکن اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ’’دنیا اُمید پر قائم ہے‘‘ ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ دانشوروں اور ادیبوں نے جو ڈرامے لکھے وہ یہاں مختلف مواقع خاص طور پر یوم تاسیس اور تعلیمی میلے کے دوران اسٹیج کیے گئے۔ مختلف زمانوں میں تحریر اور اسٹیج کردہ ڈراموں نے فی زمانہ بہت مقبولیت حاصل کی ۔ اس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ابتدا سے ہی اردو ڈرامے کی ترویج و اشاعت اور اسٹیج کی روایت ملتی ہے۔ ہماری جامعہ ایک مقصدی اور تحریکی ادارہ ہے ،جس نے اپنے قیام کے ابتدائی زمانے سے ہی تعلیمی اور تہذیبی مقاصد کے حصول کے لیے اس جانب توجہ کی اور جس کے بڑے دور رس نتائج اور خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ۔ اس سلسلے میں پروفیسر صادقہ ذکی ایک جگہ لکھتی ہیں:
’’ڈراما ایک دور میں جامعہ کے تعلیمی اور تہذیبی نصب العین کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعۂ اظہار رہا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو ڈرامے لکھنے اور اسٹیج کرنے کی روایت ۱۹۲۷ء سے ملتی ہے۔ اس وقت اردو میں سنجیدہ ڈراموں کی روایت خاصی کمزور تھی اور یہ ڈرامے اسٹیج تکنیک سے تقریباً عاری تھے۔ اس لیے جامعہ کے دانشوروں اور ادیبوں نے اپنی ضرورتوں کے لیے خود اسٹیج ڈرامے لکھے جو اسٹیج ہوتے رہے، جامعہ کے ادیبوں نے ڈراما کی تخلیق کے ساتھ مختلف زبانوں کی غیر ملکی ڈراما نویسی کی تاریخ و تنقید بھی لکھی اور بعض دوسری زبانوں کے ڈراموں کو کرارود میں منتقل بھی کیا۔‘‘
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو ڈرامے کے گہرے اور تاریخی روابط رہے ہیں۔ اکابر و معماران جامعہ نے اردو ڈرامے اور تھئیٹر کی روایت کو پروان چڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا۔ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر سید عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب جامعہ ملیہ اسلا میہ میںڈرامائی ادب اور تھئیٹر کے سر خیل ہیں ۔یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک اور استاد مولوی عبد اغفار مدھولی کی کوششوں کا ذکر ناگزیر ہے جنھوں نے کئی اچھے ڈرامے لکھے اور ان کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔عبد الغفار مدہولی کے تحریر کردہ ڈرامے مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قوم پرست طالب علم(۱۹۲۷ء)،
۲۔ اسکول کی زندگی (۱۹۲۸ء)
۳۔ بچوں کا انصاف (۱۹۳۲ء)،
۴۔ محنت (۱۹۳۴ء)
۵۔ کایا پلٹ (۱۹۳۶ء)،
۶۔ جھوٹا لڑکا (۱۹۴۲ء)
۷۔ چور لڑکا بچوں کی عدالت میں (۱۹۴۳ء)
۸۔ غیر ذمے دار لڑکا (۴۴۔۱۹۴۳ کے آس پاس)
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے ڈراما نگاری اور اسٹیج دونوں کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کے دو ڈرامے جو بہت مشہور ہوئے وہ ہیں ’’دیانت ‘‘اور’’ کھوٹا سکّہ‘‘۔ ’’دیانت ‘‘ کو توجامعہ میں تحریر کردہ ڈراموں میں اولیت حاصل ہے اور’کھوٹا سونا ‘ بھی ایک اچھا ڈراما ہے جس کویوم تاسیس کے موقع پر اسٹیج کیا گیا۔
ڈاکٹر سیدعابد حسین نے بھی کئی ڈرامے لکھے ہیں۔ ڈراما ’’ شریر لڑکا‘‘ کا موضوع جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کی، اقامتی زندگی سے وابستہ ہے ۔انھوں نے جامعہ کی ابتدائی زندگی میں جو ڈرامے تخلیق کئے، وہ اردو کے ادبی ڈرامے کی روایت کا حصہ بننے کے ساتھ موضوع و مواد اور فکر و فن کے اعتبار سے بھی اس عہد میں اپنی منفردمعنویت رکھتے ہیں۔ ان ڈراموں میں نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان انسانی و اخلاقی قدروں کا تصادم نمایاں ہے۔ ان کاموضوع روایتی اور فرسودہ سماج کے ساتھ نئی نسل کے متوسط زمین دار طبقے کے وہ افراد بھی ہیں جو جدید تعلیم اور روشن خیالی کے باوجود روایتی سماج اور اس کے جامد رسم و رواج کے پابند نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر عابد حسین کے تخلیق کردہ اہم ڈرامے حسب ذیل ہیں:
پردۂ غفلت: اس ڈرامے میں روایتی زمین دار طبقہ کی تہذیب و معاشرت، اخلاق و اقدار کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ متوسط طبقے کی فکر و نظر کوبھی موضوع بنایا گیا ہے۔ یہاں ایک ایسے سماج اور اس کے افراد کو موضوع بحث بنایا گیاہے جو اپنی معنویت اور قدر و قیمت کھو چکے ہیں۔ اس ڈرامے میں کئی مقامات پر مکالمے بہت طویل ہیں ۔ صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے:
’’شیخ جی: جی ہاں ، یہی بے زبان لڑکی سارے جہان کا مقابلہ کرے گی۔ میں کہہ چکا ہوں کہ آپ اس لڑکی کو نہیں پہچانتی ہیں۔ سنیے، دنیا کے دو تمدنوں کے ٹکرانے سے ایک شرار پیدا ہوا ہے جس کا مخزن اس لڑکی کا دل ہے۔ ایشیا کے مغرب سے ایک قوم عزم ، حوصلہ اور جرأت لے کر آئی اور مشرق میں ایک دوسری قوم تھی جو صبر ،ایثار اورد رد رکھتی تھی۔ دونوں کے صدیوں تک ساتھ رہنے سے ایک نئی سیرت کا خمیر تیار ہوا ،جس کے اجزا میں دونوں قوموں کے جوہر ملے جلے تھے۔ تعجب کی بات ہے کہ ان دونوں قوموں کے مردوں نے اس دولت کے لینے سے انکار کیا اور کہا یہ ہماری چیز نہیں ہے، مگر عورتوں نے چپکے سے اپنے قلب میں چھپا لیا۔ اب چونکہ عورتوں کے دل پر جہالت اور غفلت کے بندوں نے پہرہ بٹھارکھا ہے اس لیے بہت سے بیش بہا خزینوں کی طرح یہ امانت بھی زمانے کی نظروں میں پنہاں ہے۔ اس سعیدہ نے خوش قسمتی سے ایساباپ پایا ہے جس کی بدو لت وہ کم سے کم خود اس سے واقف ہو گئی ہے کہ اس کے پاس کیا بے بہا دولت ہے ۔ اب آپ کی اور سارے زمانے کی مخالفت کو صبر، خاموشی اور مسکینی سے برداشت کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ بہن بھائیوں کی سختی نے اس کے عزم کو دبا دیا ہے اور اس کے حوصلے کو توڑ دیا ہے تو آپ سے بڑھ کر کوئی غلطی پر نہیں وہ دن آرہا ہے کہ آپ پر بھی اصل حقیقت عیاں ہوجائے گی ۔
رقیہ خاتون کا جوابی مکالمہ ہے:
’’رقیہ : شکر ہے آپ نے بس تو کی، میں تو سمجھی تھی شام ہوئی۔ اب مجھے آپ کے سٹھیاجانے میں مطلق شبہ نہیں رہا ۔ خدا جانے کہاں کی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ لڑکی کے دل میں پورب ، پچھم ، خمیر،خزانہ ، خاک ، دھول ، خدا جانے کیا کیا ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر عابد حسین کے ڈرامے ان کی ادبی زندگی کے ابتدائی دور کی یادگار ہیں اور اردو ادبی ڈرامے کی روایت کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ موضوع و مواد اور فکروفن کے اعتبار سے آج بھی ان کی معنویت برقرار ہے۔ عابد صاحب کے راہ میں جہاں نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان فکر و نظر کے تصادم اور تضاد کو پیش کرتے ہیں وہ یہ جدید و قدیم افکار اور رسم رواج کی معنویت پر سوالیہ نشان بھی قائم کرتے ہیں۔
ڈراما ’’معدے کا مریض‘‘ ایک مزاحیہ ڈراما ہے اور موضوع کے اعتبار سے انسانی زندگی کے بنیادی مسئلے پر مبنی ہے۔ اس میں جدید تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ طبقے کے ایسے افراد کو موضوع سخن بنایا گیاہے جو نہ تو اپنی صحت کا خیال رکھ پاتے ہیں نہ ہی اپنی قلیل تنخواہ کی وجہ سے مکمل طور پر اپنا علاج ہی کراپاتے ہیں۔
اسی طرح سے ’’ حساب اور رومان‘‘ میں حسن و عشق کی چاشنی ملتی ہے، تاہم ہجرو وصال کاقصہ دکھانے کے بجائے محبت کے بارے میں نئی نسل اور پرانی نسل کے مابین فکر و نظر کے اختلاف کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عابد حسین کی ڈراما نگاری پر تحریر کردہ اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں:
’’عابد صاحب کے یہ ڈرامے جہاں ان کی فکری و فنی شعور کے آئینہ دار ہیں، وہاں اس کے آئینہ میں 1857ء کے بعد تین نسلوں کی ذہنی و جذباتی کیفیت، بدلتی ہوئی نفسیات اور افکار و اقدار کے تصادم اور متوسط طبقہ کے مسائل کامطالعہ کیا جاسکتا ہے، ان کی زبان اور اسلوب اگرچہ سادہ، سلیس اور شگفتہ ہے لیکن استدلال کی زیریں لہر ہر جگہ موجود رہتی ہے، جو شدت تاثر کے ساتھ غور و فکر کے لئے مجبور بھی کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ اردو ڈرامے کی زندہ روایت کا حصہ نظر آتے ہیں‘‘۔
جامعہ میں ڈرامائی ادب کے سلسلے میں بے حد ا ہم نام پروفیسر محمد مجیب کا ہے،جنھوں نے متعدد ڈرامے لکھے۔ ان ڈراموں میں سے اکثر اس عظیم دانش گاہ یعنی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تدریسی ضرورتوں کے پیش نظر لکھے گئے،جن میں سے بیشتر کئی مرتبہ اسٹیج ہوئے۔ پروفیسر محمد مجیب کا تحریر کردہ ڈراما’کھیتی‘ ۳۰، اکتوبر ۱۹۳۱ ء کویوم تاسیس کے موقع پراسٹیج کیاگیا۔اس ڈرامے کا پس منظر وہ سیاسی صورت حال ہے، جب پورے ملک میں قومی آزادی کے مطالبات شدت اختیار کر رہے تھے ۔چونکہ پروفیسر محمد مجیب کی نظر ہندوستانی سماج اور اس کے بدلتے ہوئے حالات پر بہت گہری تھی، لہذا س ڈرامے کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستانی نوجوانوں کو انگریزوں کی غلامی اور بے جا وقت کو برباد کرنے کے بجائے زراعت کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور گھریلوں صنعتوں میں دلچسپی لینی چاہیے تاکہ ملک کی تہذیبی قدریں مضبوط ہوں۔
ا ن کا ایک دوسرا ڈراما ’آزمائش‘ ہے، جو جولائی ۱۹۵۷ میں منظر عام پر آیا۔یہ ڈراما ۱۸۵۷ کے ہنگامی واقعات کے پس منظر میں لکھا گیا ایک تاریخی ڈراما ہے جس میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی فوج کی بغاوت کی اولین کوشش اور حریت پسندی کے عزم وحوصلے کو پیش کیا گیا ہے۔اس ڈرامے میں پروفیسر محمد مجیب نے ۱۸۵۷ کے واقعات کے سلسلے کو ۱۹۴۷کی جنگ آزادی سے وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے جو اس زمانے کے قومی اور سیاسی رجحانات کا مظہر ہے ۔
ڈراما ’’انجام‘‘ میں سماجی ناانصافی اور اس پر پشیمانی کو موضوع بنایا گیاہے اور ’’ ہیروئن کی تلاش‘‘ میں سماجی و اخلاقی قدروں کے ساتھ کسی فن پارے بالخصوص ڈرامے کے لئے کیا اخلاقیات ضروری ہیں، ان کو موضوع سخن بنایا گیاہے۔ ’’دوسری شام‘‘ کا موضوع ازدواجی زندگی کے مسائل ہیں۔ ڈرامہ نگار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ازدواجی زندگی اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب میاں بیوی میں مکمل ہم آہنگی ہو اور دونوں ایک دوسرے کاخیال رکھیں۔’’ خانہ جنگی‘ ڈرامے میں شاہجہاں کے آخری دورِ حکومت میں دارا شکوہ اور اورنگ زیب کے باہمی اختلافات کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والی خانہ جنگی کی صورت ، فتنہ و فساد اور انتشار و بے چینی کی فضا کو موضوع بنایا گیا ہے۔’’ حبّہ خاتون‘‘ کا شمار ان کے اہم ترین ڈراموں میں ہوتا ہے۔ یہ اس وقت لکھا گیا جب کشمیر آگ اور خون کے خوفناک کھیل سے گزر کر، ایک نئی منزل کی جستجو میں مصروف تھا۔ اس ڈرامے میں حبّہ خاتون ایک جمہوریت پسند خاتون ہے، جس نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی اور سیاسی استحکام کے لئے کوشش کی۔’’ آزمائش‘‘ کا پس منظر 1857ء کا غدر ہے۔
اس کے بعد گویا ڈراما نگاری کی روایت مزید مستحکم ہوتی چلی گئی ۔ کئی ڈراما نگار منظر نامے پر آئے۔ مثال کے طور پر خواجہ عبد المجید نے ’’نئی روشنی کے لڑکا لڑکی‘‘ کے نام سے اپنی من حسند شادی کے موضوع پر ڈرامہ لکھا۔ جامعہ کے ایک طالب علم عارف نیازی نے ایک ڈرامہ ’’ایوان غالب صاحب‘‘ لکھا جسے تعلیمی میلے کے موقع پر فیاض عالم نے معمولی ترمیم کے ساتھ دوبارہ لکھا اور اسٹیج ہوا۔ اہل جامعہ کے ڈرامہ نگاروں میں ایک نام احسان الحق مرحوم کا بھی ہے۔ ان کے نو (9) ڈراموں کاایک مجموعہ ’’9 ڈراموں‘‘ کے نام سے 1968ء میں پروفیسر مجیب کے تعارفی کلمات کے ساتھ شائع ہوا، جو ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری میں موجود ہے۔یہاں طبع زاد اور اسٹیج ڈراموں کی روایت کے ساتھ ساتھ ڈرامے کی تحقیق و تنقید اور تراجم کا کام بھی بحسن و خوبی انجام دیا گیاہے اس کے بھی مفصل بیان سے یہاں گریز کیا جاتا ہے اس لیے کہ دامن وقت میں گنجائش کم ہے۔ صرف چند نام بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں جو رسالہ جامعہ میں شائع ہوئے:
ڈراما ’’بت تراش ‘‘جس کے مصنف ہیں پروفیسر اشتیاق حسین قریشی ۔ یہ دسمبر 1936 کے شمارے میں موجود ہے ۔ اسی طرح ، بیخودی: حیات اللہ انصاری دسمبر 1934، پاٹ: حیات اللہ انصاری، فروری 1929، جذباتی : علی عباس حسینی ،اگست 1937 ، ڈراماخود کشی کے مترجم ہیں سید ناصر الدین شمسی جو اگست 1940 میں شائع ہوا، خطابت کی سحرکار یاں ، ایک ترجمہ ہے جس کے مترجم ہیں محب اللہ ندوی اور یہ اپریل1932کے شمارے میں شامل ہے ۔ دل بہلاوا، علی عباس حسینی کا ڈراما ہے جو ستمبر 1948 میں شائع ہوا۔ روز جزاء : ایک ترجمہ ہے جسے سید نصیر احمد جامعی نے کیا، یہ جون 1938 کے شمارے میں شامل ہے، شادی کا پیغام مترجم پروفیسر محمد مجیب ہیں، فاؤسٹ کے چند اوراق، سید عابد حسین نے ترجمہ کیا جو فروری 1929 کے شمارے میں ہے، لاڈلا بیٹا، انصار ناصری نے لکھا جواپریل1936 کے شمارے میں ہے ، ماموں جان: کے مترجم ہیں جلیل احمد قدوائی ہیں جو چیخوف کے ڈرامے کا ترجمہ ہے، جولائی 1928کے رسالہ جامعہ میں شائع ہوا ۔ (یہ بھی پڑھیں غالب پرتحریر کردہ ڈرامے اور محمد حسن- ڈاکٹرجاوید حسن)
اس طرح دیکھا جائے تو جامعہ میں ڈرامے کی ایک بڑی طویل فہرست ہے جس میں ٹرانسلیشن اور ایڈیپٹیشن سب شامل ہیں۔ابتدا میں قومی تعلیمی ضرورت ڈرامے لکھے گئے لیکن رفتہ رفتہ تعلیمی سفر ڈرامہ نویسی کے موضوع بنایا گیا اور اس طرح سے سے اسٹیج ڈراموں کی روایت کے ساتھ جامعہ میں ڈرامے کی تحقیق و تنقید اور تراجم کا سرمایا بھی کم نہیں ہے جس کی وجہ سے اردو، ڈراما کی فکری و فنی سطح کو اعتبار حاصل ہوا ہے۔اسی تسلسل میں حبیب تنویر اور ان کے ڈرامے آگرہ بازار کا ذکر لازمی ہے۔پروفیسر شمیم حنفی اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ’’حبیب صاحب کے لیے جامعہ نئی جگہ نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی برس یہاں گزارے تھے اور بیگم قدسیہ زیدی کے ساتھ ہندوستانی تھیئٹر اور اس کے بعد IPTA کی سرگرمیوں میں شریک رہے تھے۔ حبیب صاحب نے جامعہ میں اسٹیج ڈرامے کے ایک نئی روایت قائم کی تھی ۔سیدھی سادی نارمل زندگی گزارنے والوں میں نئے اداکار ڈھونڈ نکالے تھے۔ آگرہ بازار ا اسی ربط خاص کا تحفہ اور نتیجہ تھا۔ اب کے وہ جامعہ آئے تو انھوں نے طلباکی تربیت کے لئے اپنے کچھ اسکرپٹس سنائے اور اپنے چھتیس گڑھی کلاکاروں کو بھی دو چار مرتبہ ساتھ لائے۔مٹی کی گاڑی، مرزا شہرت، راجا رکت ، جمعدارن ، چرن داس چور، پونگا پنڈت وغیرہ ڈرامے ان کی اسی تنظیم کی یادگار ہیں۔‘‘ پروفیسر شمیم حنفی حبیب تنویر کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ حبیب تنویر ہماری ادبی روایت کے ان چند افراد میں شامل ہیں جو جیتے جی لیجینڈ بن گئے ۔ کیسی زندہ ، توانا ، رنگا رنگ شخصیت تھی اور وہ آج کی دنیا اور اجتماعی زندگی کا کتنا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اردو والوں نے انھیں صرف آگرہ بازار کے واسطے سے جانا اور اس غیر معمولی واقعے کو نظر انداز کر گئے کہ حبیب تنویر ہمارے معاشرے میں قلم کی طاقت اور مزاحمتی روایت کے بہت سر گرم نمائندے بھی تھے۔ انھوں نے اُردو تھئیٹر کو لوک روایت کا راستہ دکھایا اور اپنی بظاہر نا تراشیدہ ناٹک منڈلی کے ذریعے اس دیس اور دنیا کے کئی علاقوں کو با مقصد ڈرامے کے جادو سے بھی رو شناس کرایا ۔ وہ سچ مچ ادب اور کلچر کی دنیا میں قلم کے سپاہی تھے ۔‘‘
آگرہ بازار جو حبیب تنویر کی شناخت کا بنیادی وسیلہ ہے، اس کی تیاری اور اس کے اسٹیج کرنے یعنی ’میکنگ آف آگرہ بازار‘ کی ایک دلچسپ داستان ہے جس سے آپ سب واقف ہیں اس لیے کہ یہ سب شائع ہو چکے ہیں ۔
اس ضمن میں پروفیسر شمیم حنفی کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ ان کے ڈرامو ں کا مجموعہ ’’ مجھے گھر یاد آتا ہے ‘‘،جس میں پانچ ڈرامے شامل ہیں ، مکتبہ جامعہ سے شائع ہوا ۔ ان کا دوسرا مجموعہ’’ مٹی کا بلاوا‘‘ میں بھی کئی ڈرامے شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’ بازار میں نیند‘‘ بھی ایک مقبول ڈراموں میں سے ہے۔ اس کے پیش لفظ میں پروفیسر شمیم حنفی لکھتے ہیں :
’’پچھلے ڈراموں کی طرح یہ ڈرامے بھی کچھ جیتی جاگتی آنکھوں کا تجربہ ہے کچھ خوابوں کے سامنے آئے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ زندگی کا وہ حصہ جو خوابوں میں بسر ہوا کسی بھی طرح اس سے کم گنجان اور وسیع نہیں ہے جس کا تعلق بیداری سے ہے ۔میرے لیے خواب اور بیداری حو اس پر گزرنے والی دو کیفیتیں کبھی نہیں رہی یہ دونوں حواس کے دو منطقے ہیں جن کے مابین ایک مضبوط رشتہ ہمیشہ استوار رہا ہے، میں اپنی سوجھ بوجھ اور داخلی ضرورت کے مطابق ایک سے دوسرے منطقے میں برابر آتا جاتا رہتا ہوں ۔‘‘
موجودہ عہد میں شمیم حنفی، مظفر حنفی ،پروفیسر اصغر وجاہت ، پروفیسر دانش اقبال وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈرامے کی صنف اور تھئیٹر کو فی زمانہ جلا بخشنے اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچانے میں اس عظیم ادارے اور یہاں سے وابستہ اراکین نے انتہائی اہم کردار کیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
٭٭٭
حوالہ جات /کتابیات :
۱۔پردۂ غفلت ، ڈاکٹر سید عابد حسین،مکتبہ جامعہ، طبع دوم ،۱۹۳۹ء
۲۔ آزمائش، محمد مجیب ، مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، دہلی ،جولائی، ۱۹۵۷ء
۳۔رسالہ پیام تعلیم ( ڈراما نمبر) مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر ، دہلی ،فروری، ۱۹۷۲ء
۴۔ محمد مجیب ،حیات اور خدمات ،ڈاکٹر صادقہ ذکی ،خواجہ پبلیکیشنز، جامعہ نگر ، نئی دہلی ، اکتوبر ۱۹۸۴ء
۵۔ جامعہ کی کہانی، عبد الغفار مدہولی ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ، ۲۰۰۴ء
۶۔ حبیب تنویر کلا رنگ منچ ، مرتبہ مسعود الحق دلّی کتاب گھر ، مارچ ۲۰۱۲ء
۷۔ اردو کے فروغ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا کردار ، مرتبہ پر و فیسر صغریٰ مہدی ، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ، نئی دہلی ، ۲۰۱۳ء
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
1 comment
[…] فکر و عمل […]