اُردو شاعری خصوصاً اُردو غزل میں مرزا غالب کو کئی لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، اُن کی شاعری کی معنوی تہیں سطح آب پر کسی چمکیلی شئے کی طرح چمکتی جاتی ہیں ۔غزل ،رباعی،قصیدہ،مرثیہ اور خطوط ، گویا کہ غالب بہ یک وقت اردو شعر و ادب میں ایک ایسی شخصیت بن کر عِیاںہوتے ہیں جن پر رَوا روِی میں اظہار خیال کرکے مطمئن نہیں ہوا جا سکتا ۔شعر و ادب کے ناقدین ا ور دوسرے بہت سے لوگوں نے غالب کی شخصیت ، اُن کی زندگی اور شاعری کو فی زمانہ اپنے اپنے نقطٔ نظر سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں کی ہیں ۔ ڈراما ہو یاٹی وی سیریل، فلم ہو یا مصوری یا پھر موسیقی ،مرزا غالب اپنے جوہر کی وجہ سے ہر جگہ سب پر غالب نظر آتے ہیں ۔ میرے خیال سے غالب اُردو کی واحد ایسی شخصیت ہیں جن پر کئی زاویوں سے لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے ۔در اَصل غالب جیسے فنکار کی زندگی میں اِتنی تہیں، اِتنے پہلو ہیں کہ کوئی بھی حساس انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ دیگر موضوعات اور پہلوئوں کے ساتھ خاصی تعداد میں غالب پر ڈرامے بھی تحریر کئے گئے بالخصوص ’’غالب صدی‘‘ تقریبات کے انعقاد کے زمانے میں بہت سے ڈرامے لکھے اور اسٹیج کئے گئے۔ غالب پر تحریر کردہ ڈراموں اور فیچرزمیں چند کے نام اِس طرح ہیں۔ ’’غالبؔ جدید شعرا کی مجلس میں ‘‘(کنہیّا لال کپور) ، ’’مرزا غالب ‘‘( منجو قمر) ، ’’قید حیات‘‘ ( سریندر ورما) ’’غالب چچا‘‘( اظہر افسر) ،’’میرے بعد‘‘(حبیب تنویر)، ’’غالب کون ہے؟‘‘(سید محمد مہدی)، ’’غالب کے ڈرامے‘‘، شوکت تھانوی ، ’’کہرے کا چاند‘‘ ، ’’ تماشہ اور تماشائی‘‘ اور’’ نقش فریادی‘‘( پروفیسر محمد حسن) ’’غالب کی واپسی‘‘ (اے ۔آر۔ کادار)،’’ می غالب‘‘( اوم بھُتکر)، ’’غالب‘‘ ، ’’غالب کا خط‘‘ اور ’’غالب اِن نیو دہلی‘‘( ڈاکٹرایم سعید عالم)۔ یہ تما م ڈرامے بہت مقبول ہوئے اور اِن میں سے بعض اَب بھی اکثر اسٹیج کیے جاتے رہتے ہیں۔
میں نے اظہار خیال کے لیے پروفیسرمحمد حسن کے تحریر کردہ دوڈرامے کا انتخاب کیا ہے، ’’ کہرے کا چاند‘‘ اور ’’تماشہ اور تماشائی‘‘ ۔ یہ دونوں ڈرامے بہت دِلچسپ ہونے کے ساتھ غالب شناسی میں بھی اہم ہیں۔غالب پر لکھنے والوں میں محمد حسن کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اس لیے کہ انھوں نے اپنی تخلیقات میںغالب کو مختلف زاویۂ نگاہ سے پرکھاہے اوراُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کو شش کی ہے۔محمد حسن کو غالب کی شخصیت اور اُن کی تخلیقات، نظم و نثر ہر زمانے میں متاثر کرتی رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے غالب کی شاعری اور مکتوب نگاری پر کئی تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔خدا بخش لائبریری سے ’’غالب ماضی ،حال ،مستقبل‘‘ عنوان سے شایع اپنی کتاب میں محمد حسن ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ …میرا افتخار ہے تو صرف اتنا کہ غالب کی زندگی اور کردار کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ غالب کی شخصیت میں اُن کے اپنے زمانے کا تناؤ اور ٹکراؤ جیسے مجسّم ہو گیا تھا۔ یوں بھی غالب جیسے ایک شخص کا نام نہ ہو بلکہ اُسی کے لفظوں میں گویا محشر خیال ہو ،جس میں خیالات ہی کے نہیں زندگی کے مختلف ٹکڑے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور یہی ٹکراؤ ہے جو غالب کے ہاں مجھے انوکھے ڈھنگ سے ملتا ہے…غالب کا ایک روپ تو یہ ہے کہ گھر سے ہوادار پر سوار ہوئے بغیر نے نکلے دوسرا یہ کہ اسی کوچے سے گرفتار ہوئے اور کشاں کشاں عدالت اور پھر جیل خانے پہنچے دوسرا روپ غالب کا یہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر کے استاد ہیں اور انگریزی جہانِ اقتدار سے بھی ربط ضبط ہے مگر عالم یہ ہے کہ اپنے گھر پر جوا کھلانے پر اس لئے مجبور ہیں کہ اسی طرح یافت کی کوئی صورت نکلے تیسرا روپ یہ ہے کہ کلکتے جاتے ہیں مرزا قتیل کے غول بیانی کو للکارتے ہیں اور اپنی وحدہُ لا شریک فارسی دانی کا طبل اس صور سے بجاتے ہیں کہ کہ کوئی سمجھے ، کوئی نہ سمجھے سبھی کے منہ سے واہ نکل جائے ۔ پندار کا یہ عالم کہ دلی کالج کا پرنسپل اگر ہوادار سے اتروانے کو نہ آئے تو واپس لوٹ جائیں اور شاید اسی عالم پندار کی گواہی ان اشعار میں بھی موزوں ہو جائے :
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گو و خوش گُفتار
اور ناداری و کسمپرسی کا یہ عالم کہ کپڑوں میں جوئیں بخیے سے سوا ہیں اور بقول خود کہ جب مروں تو میرے عزیز اور دوست میرا منہ کالا کریں اور سی سے باندھ کر شہر کے تمام گلی کوچوں اور بازاروں میں تشہیر کریں۔
ڈرامے کے لیے ایسی بلندی اور ایسی پستی کے کردار سے بہتر کسی دوسرے معیاری کردار کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا…‘‘
(’’غالب ماضی ،حال ،مستقبل‘‘ محمد حسن ، ص۔۹۔۱۰)
محمد حسن ہندوستانی تاریخ و تہذیب پر گہری نظر رکھتے تھے ،لہذا اُنھوں نے ادبی تاریخ و تہذیب کو سامنے رکھتے ہوئے مرزا غالب کی حیات ا ور فن پر ڈراما ’’ کہرے کا چاند‘‘ لکھا ،جسے شعبۂ اُردو، دہلی یونیورسٹی نے کتابی شکل میں شائع کیا۔ یہ ڈراما تین اَیکٹ اور چھ مناظر پر مشتمل ہے۔اِس میں کرداروں کی مجموعی تعداد سترہ(۱۷) ہے۔ڈرامے کے پہلے ایکٹ کو آرزو، دوسرے کو شکستِ آرزو اور تیسرے ایکٹ کو عرفان کا عنوان دیا گیا ہے۔ڈرامے کا آغاز نظیر اکبر آبادی کے شَہر آشوب سے ہوتا ہے:
بے وارثی سے آگرہ ایسا ہوا تَباہ
پھُوٹی حَویلیاں ہیں تو ٹوٹی شَہر پَناہ
ہوتا ہے باغباں سے ہر ایک باغ کا نِباہ
وہ باغ کس طرح نہ لُٹے اور نہ اُجڑے آہ!
جس کا نہ باغباں ہو نہ مالک نہ خار بند
ابتدامیں کچھ لوگ فقیروں کے لباس میں چمٹوں پر گاتے ہوئے گذرتے نظر آتے ہیں۔ اِس منظر کے ذریعہ آگرہ اور شمالی ہندوستان کی معاشی بدحالی اور مخصوص تہذیبی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے ۔اُس وقت مرزا غالب کی عمر تقریباً ۱۱-۱۲ سال کی ہے۔ جب چوَبدار فقیروں کو واپس کردیتے ہیںتو غالب سے یہ دیکھ کر رہا نہیں جاتا اور وہ اپنا چھوٹا سا فرغل اور کُلاہ سائل کو دے دیتے ہیں۔ یہاں ڈراما نگار نے غالب کی کُشادہ دِلی اور جوَدتِ طبع کو ظاہر کرنا چاہا ہے۔ پہلے ایکٹ کے پہلے سین میں انیسویں صدی کاآگرہ نظر آتا ہے جس میں سماجی پہلوئوں کو نمایاں کرنے کی کو شش ملتی ہے اور غالب کو اُن کی شخصیت کے عین مطابق دکھانے کی کو شش بھی ۔غالب اور اُن کے بچپن کے ساتھی بنسی دھر کے تعلقات کا بیان ہے جو ساتھ شطرنج کھیلتے تھے ۔ اِسی حصے میں ہمیں غالب کی اِنسان دوستی بھی نظر آتی ہے ۔ اُن کے احباب کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ہندو مسلم سبھی شامل ہیں۔ یہ قومی اتحاد، مَساوات اور گنگا جمنی تہذیب کی نشانی ہے ۔پہلے ایکٹ کے دوسرے سین میں گلی قاسم جان کے قریب ایک چوراہے پر داستان گوئی کی محفل سجی ہوتی ہے جہاں لوگ تفریح ِطَبع کے لیے جمع ہیں۔یہاں ایک داستان بیان کی جارہی ہے۔ اِس حصے میں مولانا صاحب کی تقریر سے اُس خاص عہد کے سماجی و سیاسی حالات کا پتہ چلتا ہے ۔ چند مکالمے ملاحظ ہوں :
’’داستان گو: تو صاحبو! بہزاد خان نے ملکہ کو اوراُس فقیرکو…
مولانا: بس میر صاحب!داستان ہوچکی ۔ اَب اجازت ہو میں کچھ دین ایمان کی باتیں کروں؟ اے ایمان والو! کُفرنے جو اُشغُلہ اٹھایا ہے اورفِرنگی نے جس طرح اَقلیم میں غضب ڈھایا ہے، آپ حضرات نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، بزمِ تیموری کا آخری چراغ جل رہا ہے پتہ نہیں کب بھڑک کر خاموش ہوجائے۔ دن رات نہ جانے کتنے ہندو مسلمان بے دین ہورہے ہیں ،مدرسے تباہ ، خانقاہیں ویران، دفتر آباد اورفِسق و فُجور کا بازارگرم ہے۔ اَب سنتا ہوں غازی الدین حید ر کے مدرسے کو انگریزی کے مدرسے میں بد ل دیا جائے گا اور علمِ دین کی جگہ گِٹ پِٹ سکھائی اورلادینی بتائی جائے گی۔ ملک ویران ہورہا ہے دین تباہ، اپنے بیگانے اور امیر تاراج ہورہے ہیں۔‘‘ (محمد حسن ،کہرے کا چاند، ص: ۱۷-۱۶)
غرَض یہ کہ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو المناک حالات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہندوستانی اشراف، علما اور فُضَلا تقریباً سبھی انگریزی سرکار کے شکنجے میں نظر آتے ہیں۔ شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب نا مساعد حالات اور بُرے وقت کے کہرے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ نہ اُن کو اولاد کا سُکھ ملا نہ اہلِ خانہ کی خوشی ۔ غمِ دوراں سے بدحال شاعر شراب نوشی شروع کردیتا ہے۔اُس عہد کے اُمرائے سلطنت نے ان کے خونِ جگر سے کشید کی ہوئی شاعری کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا اور لائق ِاِلتفات نہ سمجھا تو اِس درد نے اُن کو اپنی شاعری کی قدرداں ایک ڈومنی کے دروازے تک پہنچا دیا۔ اِسی سین میں لڑکی کا انتقال ہو جاتا ہے اور پہلے ایکٹ کا اختتام اس شعر پرہوتا ہے ۔
شرمِ رُسوائی سے جا چھُپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے اُلفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ اَبھی وَحشت کا رَنگ
رہ گیا تھا دِل میں جو کچھ ذَوقِ خواری ہائے ہائے
دوسرے ایکٹ میں دو مناظرہیں ۔ پہلے سین میں بیس سال بعد کی دہلی نظر آتی ہے۔ اِس حصے میں کرداروں کے مکالموں میں کہیں کہیں بے جا طوالت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ دوسرے سین میں پھول والوں کی سیر اپنے تہذیبی پس منظر کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ طوائفیں بہادر شاہ کی غزلیں گاتی ہیں۔ مکالموں کے ذریعہ غالب کے حالات و واقعات کا اظہار ملتا ہے ۔غالب کو غمِ جاناں اور غمِ دَوراں سے نِڈھال دکھایا گیا ہے۔ مغلیہ حکومت اپنی تمام تر ضَو اَفشانیوں کے باوجود زوال پذیرہے۔ غالب نے اُن سب کا بغور مشاہدہ کیا کیوں کہ وہ بھی اُسی تہذیب کے پروردہ تھے۔ اقتصادی مشکلات میں قرض خواہوں نے ڈگری حاصل کرلی ہے۔ کاظم علی جواں کے کہنے پر مرزا اپنی حویلی میں قِمار بازی کی محفل آراستہ کر کے چند سکّوں کی خاطر اپنی رسوائی کا سامان مہیا کرلیتے ہیں اور اِسی جُرم میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ بعد میں قید سے آزاد ہو کر واپس آتے ہیں اور قلعہ معلی میں مغلیہ خاندان کی تاریخ لکھنے کے کام پر مامور ہو جاتے ہیں۔ ڈرامے کے آخری ایکٹ (جس کوڈراما نگار نے عرفان کا عنوان دیا ہے) میں پردہ اُٹھنے پر غالب اپنے دیوان خانے میں غزل لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ۱۸۵۷ ء کے غدر کا پُرآشوب زمانہ ہے۔ ملک سے فرنگیوں کو مار بھگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔مگر پانسا پلٹ جاتا ہے اور فرنگیوں کے سپاہی غالب کی حویلی میں گھُس آتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت کا نظارہ غالب کا مقدر بن جاتا ہے۔یہاں غالب کی دور اندیشی اور بے بِضاعتَی کا اندازہ ہوتا ہے، اَب اُن کی زندگی میں ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے پھر بھی وہ اپنی بیگم سے انگریزوں کی فتح کی خوشی میں چراغاں کرنے کو کہتے ہیں۔ ڈرامے کا اختتام غالب کے اس شعرپر ہوتا ہے:
لکھتے رہے جُنوں کی حِکایاتِ خُوں چکاں
ہَر چند اِس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
مذکورہ ڈرامے میں کچھ فنی کمیاں بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاً بعض جگہوں پر مکالموں کا بہت طویل ہونا اور وحدت مکاں سے انحراف…،یا پھرجو واقعات پیش کیے گئے ہیں وہ ایک جگہ رونما نہیں ہوئے ہیں۔ پہلے کرداروں کو ہم آگرے میں دیکھتے ہیں پھر دلّی میں۔ اس کے باوجود کردار نگاری کے نقطۂ نظر سے ’کہرے کا چاند‘ ایک اہم ڈراما ہے۔ مکالمہ نگاری ڈرامے کے فن کا اہم ترین مرحلہ ہے ، اِس مشکل اور نازک مرحلے کو بھی محمد حسن نے کامیابی سے طے کیا ہے۔ اُنہیں زبان و بیان پر فنکارانہ قدرت حاصل تھی۔ الفاظ اور محاوروں کا استعمال ماحول اور مقام کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔ اِس ڈرامے میں چاند غالب کی علامت ہے۔ وہ پورا عہد، پورا ماحول اور حالات مکدّر ہیں جس سے بچائو کے لیے وہ اپنے فنِ شعر میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ یہ ڈراما غالب شناسی کے ضمن میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
غالب اور عہدِ غالب سے متعلق محمد حسن کا دوسرا ڈراما ’’تماشا اور تماشائی ‘‘ ہے۔ اِس ڈرامے میں فلیش بیک کی تکنیک کا استعمال ہوا ہے اور سب سے خاص بات یہ کہ مصنف نے غالب کی ذات کو دو شخصیتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک طرف نواب زادہ کی حیثیت سے ، جواپنی عزت و وقار کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جو فارسی کے شاعروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا ۔ یہ دونوں شخصیتیں آپس میں مُتصادِم ہوتی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ چنانچہ اسی نوعیت کے تصادم سے پورے ڈرامے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ آغاز سے ہی یہ دکھایا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک ہی وقت میں مختلف شخصیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں جو کبھی باہمی ٹکراؤ کی بھی صورت اختیار کرلیتی ہیں ۔مگر محمد حسن کسی ایک شخصیت میں مختلف اور متضاد شخصی خوبیوں اور خامیوں کی یکجائی کو کُل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ وہ الگ الگ شخصیتوں کو انسان کی ایک ہی شخصیت کا مختلف پرتو سمجھتے ہیں۔ اپنے مضمون ’’دو غالب ‘‘ میں وہ لکھتے ہیں :
’’ جیسے غالب اپنے سے دَست و گرِیباں ہوں ۔جیسے غالب کے اندر دو غالب ہوں ۔ ایک وہ جو زندگی کے اُبھرتے ہوئے سورج پر نگاہ رکھتا ہو ، جسے حیات کی برکتوں کا احساس ہو، جو ذوق ِخرام ِساقی و ذوقِ نوائے چنگ ہی سے نہیں حسرت ِتعمیر سے بھی بے قرار اور نَغمہ بَر لَب ہو ، دوسرا وہ غالب جس کی قسمت میں منجملئہ اَسباب ِ وِیرانی لکھا جانے کے سِوا اور کچھ نہ ہوجس کے دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں …‘‘ (عرض ہنر ، ص: ۱۴۔۱۳)
اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ڈراما ’تماشا اور تماشائی‘ میں غالب کی داخلی کشمکش کو نُمایاں کیا گیا ہے۔غالب کی صد سالہ برسی منائی جارہی ہے۔ اِس تقریب کو شاعر غالب اپنی برسی سمجھتے ہیں اور مرزا نَوشہ اُسے اپنی زندگی کا یادگار جشن مانتے ہیں۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجئے:
’’مرزا: یہ لوگ برسی منا رہے ہیں۔
غالب : تو پھر حرج کیا ہے؟
مرزا : پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ کس کی برسی منارہے ہیں۔ میری یا تمہاری؟
غالب: ظاہر ہے برسی منائی جارہی ہے شاعر غالب کی۔
مرزا: نہیں۔ برسی مرزا اسد اللہ خان عرف مرزا نوشہ کی ہے، ۱۰۵ سال پہلے میر ی موت ہوئی تھی۔
غالب: تم سے کسی کو کیا دلچسپی ہے، تم تومحض ایک امیر زادے تھے۔
مرزا: اورتم؟
غالب: میں شاعر غالب ۔میرا ایک ایک شعر آج بھی زندہ ہے ۔
مرزا : کس کی بدولت؟میری او ر صرف میری۔
غالب: یہ جھوٹ ہے ۔شاعر امیر زادے کے محتاج نہیں۔تم فقط میرا جسم تھے۔ میری روح میری شاعری تھی۔
مرزا: بھولو مت، میں نے تمہیں نام دیا ، ہستی دی ،ہنستے ہوئے ہونٹ، روتی ہوئی آنکھیں دیں۔ ترستا ہوا دل اور آسمانوں سے بھی زیادہ بلند پرواز کرنے والا دماغ دیا۔
غالبؔ: سارے امیر زادے اسی طرح بڑے بول بولا کرتے ہیں ۔یہ صحیح ہے مرزا نوشہ،مرے تم تھے زندگی بھر مرے کبھی کسی کو مار رکھا، کبھی خود مرگئے۔‘‘
(محمد حسن ،تماشا اور تماشائی، ص:۲-۱)
اس ڈرامے میں مکالمے برمحل اور برجستہ ہیں۔ ڈومنی کے دل میں ایک طرف پیار کے جذبات ہیں تو دوسری طرف رسوائی کا خوف ہے۔وہ خود کشی کرکے اپنی موت کا ذمّہ دار مرزا نوشہ اور شاعرغالب کو ٹھہراتی ہے مگر دونوں ہی اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں:
’’لڑکی: تم دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہے؟‘‘
غالب : پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
لڑکی : کیوں ؟
مرزا : کچھ پوچھنا تھا ۔
لڑکی : …آپ دونوں میں سے مرزا نوشہ کون ہیں ؟
مرزا: جی فرمائیے مجھے مرز ا نوشہ کہتے ہیں۔
غالب : تم غلط آدمی کو پوچھ رہی ہو، شاید تم غالب سے ملنا چاہتی ہو۔ شاعر غالب جس کی غزلیں تم نے گنگنائیں۔ جس کی زندگی میں تم نے تھوڑی دیر کے لئے سکو ن کی چاندنی فراہم کردی ۔
لڑکی: بولو۔ میرے قتل کا ذمہ دار کون ہے ۔ میرا خون کس کی گرد ن پر ہے؟
غالب: شاید وہ شاعر جس کا قتل زمانے کی گردن پر ہے۔
لڑکی : میں کہتی ہوں تم دونوں میرے قاتل ہو۔ میرے قاتل ! ایک نے میری آواز کا سود ا کیا دوسرے نے میری خوبصورتی کا۔اور تم میں سے کسی نے بھی اس عورت کو نہیں دیکھا جو قربانی دے کر صرف محبت کی طلبگار تھی۔ میں کہتی ہوں تم نے مجھے کیا دیا؟ــــ‘‘
(محمد حسن ، تماشا اور تماشائی، ص: ۱۷)
حالات و واقعات اور کرداروں کے مابین خارجی و داخلی نوعیت کا تصادُم آغاز سے انجام تک برقرار رکھا گیا ہے۔ شاعر غالب اور امراؤ بیگم کے درمیان بھی ایک کش مکش موجود ہے، جسے خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے ۔ چند مکالمے ملاحظہ ہوں:
’’غالب:… بیگم ،تم؟ دیوان خانے میں!
بیگم: آپ کو محل سرا میں آنے کی فرصت کہاں! مجھی کو آنا پڑا۔
غالب : کہو۔
بیگم : کیا کہوں؟
غالب: کہو گھر میں خرچ کی تکلیف ہے۔
بیگم : ہاں۔
غالب : کہو کہ قرض خواہوں کے تقاضوں سے تنگ آ گئی ہوں کہ پنشن کے باسٹھ روپیوں میں مہینے کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ اس طرح کب تک کام چلے گاگھر کا ۔
بیگم: پھر اس کا کچھ انتظام ؟
غالب : مجبوری ۔
بیگم: تو پھر اس امیرالامرائی کو سلام کیجئے، آن بان ختم کیجیے، محنت مزدوری ہی سہی گزر بسر تو ہو۔‘‘
(تماشا اور تماشائی، ص: ۲۲-۲۱)
’تماشہ اور تماشائی ‘‘ فکری و فنّی لحاظ سے ایک اہم ڈراما ہے جس میں غالب کی ذات اور شخصیت کو دو علیحٰدہ حیثیتوں سے پیش کرنے کا اچھوتا تجربہ کیا گیا ہے ۔ ایک مخصوص سیاسی اور تہذیبی پس منظر کے ساتھ غالب کی داخلی کیفیات اور خارجی حالات سے اُن کے تصادم کو فن کارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔یہ ڈراما اسٹیج کے تقاضوں کو بھی بہت حد تک پورا کرتا ہے جس میں داخلی اور خارجی شخصیت کا ٹکرائو موجود ہے ۔ غالب گردشِ ا یّام کا شکار ہیں۔ ۱۸۵۷کا ناکام انقلاب، ہندوستانیوں کی شکست، بہادر شاہ ظفر کا دردناک انجام، انگریزوں کا ہندوستان پر مکمل تسلط، ملکی معیشت کی تباہی و بربادی، غالب کے بھائی مرزا یوسف کی موت، یہ ساری وارداتیں غالب نے دیکھیں ، برداشت کیں اوراُس آگ کے دریا سے گذرے۔
(یہ بھی پڑھیں اردوڈرامے میں دیومالائی فضا-ڈاکٹر زاہد ندیم احسن )
دیگر ڈراما نگاروں نے جہاںچند تبدیلیوں کے ساتھ غالب کی زندگی کوسیدھے سادے طور پر اسٹیج کے حوالے کر دیا ہے محمد حسن کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے مرزا غالب شخص اور شاعر کو مختلف زاویۂ نگاہ اور کئی جہتوں کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد حسن کے تحریر کردہ مذکوبالا ڈرامے غالب کی شخصیت ، اُن کی زندگی اور شاعری کے علاوہ اُس پورے عہد کوسمجھنے میں دیگر ڈراموں کے مقابلے میں زیادہ معاون ہیں۔ مضمون کے آخرمیں مجھے محمد حسن سے لیا گیا ایک انٹر ویو یاد آ رہا ہے جس میں میں نے اُن سے سوال کیا تھا کہ آپ بار بار مرزا غالب کو اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں ؛ غالب پر آپ اب تک تین ڈرامے لکھ چکے ہیں، اِس کی وجہ کیا ہے ؟ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ غالب کی شخصیت میں اتنے shades اوراتنے dimensions ہیں کہ تین ڈرامے لکھنے کے باوجود بھی مجھے لگتا ہے، جیسے ابھی بھی کوئی گوشہ ر ہ گیا ہے، زندگی رہی تو میں غالب پر ایک ڈراما اور لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن افسوس اُن کو اِس کی مہلت نہیں مل سکی۔ مرزا غالب پر جتنے ڈرامے لکھے اور اسٹیج کیے گئے ہیں، اُن میں بلا شبہ محمد حسن کے ڈرامے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔
٭٭٭
نوٹ: مضمون نگار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں گیسٹ ٹیچر ہیں۔
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |