تحریک آزادی میں خواتین کا کردار بھی مردوں سے کم نہیں ہے:پروفیسرفاروق انصاری
شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں دو روزہ قومی سیمینار اختتام پذیر
میرٹھ07؍ دسمبر2024ء
باری تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا۔قوت گویائی انسان کو اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔شاعری ہماری زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ دنیا کی پرانی زبان سنسکرت اور نئی زبان اردو بھی یہاں یعنی ہندوستان میںموجود ہے۔ہندو مسلم کا فرق انگریزوں نے ڈالا۔ وہ زبان جو فارسی رسم الخط میںلکھی جائے وہ اردو ہے اور جو دیو ناگری میں لکھی جائے وہ ہندی ہے۔ سچا محب وطن وہ ہے جو یہاں کی زمین کے ساتھ یہاں کے انسانوں سے بھی محبت کرے۔ یہ الفاظ تھے پروفیسرتنویر چشتی کے جو شعبۂ اردو میں منعقد دو روزہ قومی سیمیناربعنوان’’ تحریک آزادی اور شاعری‘‘میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔
اس سے قبل صبح گیارہ بجے قومی سیمینار بعنوان’’تحریک آزادی اور شاعری‘‘ کے دوسرے دن پروگرام کا آ غاز شعبے کے طالب علم محمد ندیم نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ ہدیۂ نعت فرحت اختر نے پیش کیا۔بعد ازاں مہمانوں کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیا۔ تکنیکی اجلاس کی محفل صدارت پر پروفیسر اسلم جمشید پوری، پروفیسر فاروق انصاری، پروفیسر عنوان چشتی، ڈاکٹر شعیب رضا وارثی اور آفاق احمد خاں رو نق افروز رہے۔ مقالہ نگار کے بطور عظمیٰ سحر،میرٹھ نے’’ تحریک آزادی اور حضرت بیگم محل‘‘،ڈاکٹر نوید خان ، سنبھل نے’’ تحریک آزادی میں سنبھل کا کردار‘‘، ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے’’ تحریک آزادی اور مولانا محمد علی جوہر‘‘، ڈاکٹر ابراہیم افسر دہلی،نے1857ء کی جنگ آزادی میں میرٹھ کا کردار‘‘ اور ڈاکٹر وصی اعظم انصاری، لکھنؤ نے’’تحریک آزادی اور مولا ابو الکلام آزاد‘‘ عنوانات سے اپنے شاندار مقالات پیش کیے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے۔
اس مو قع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف ادیب و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ آزادی میں اردو اور دیگر زبانوں کا کیا کردار رہا ہے۔ اسے نئی نسل تک پہنچایا جائے اور شعبۂ اردو اس طرح کے پروگراموں کا انعقاد کرتا رہ تا ہے جس سے ہما را مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام،نئی نسل اور طلبہ و طالبات تک ایسی تمام ضروری چیزیں پہنچ جائیں جس سے وہ لا علم یا کم واقفیت رکھتے ہیں۔ میں سبھی شرکاء کا دل کی گہرا ئیوں سے استقبال کرتاہوں۔
آفاق احمد نے کہا کہ سیمینار میں پڑھے گئے سبھی مقا لے معیاری تھے۔ مو ضوع کے اعتبار سے اور سیمینار کے موضوع کے لحا ظ سے مقالے تحریر کرنے چا ہئیں اور جو مو ضوع ہو اسی پر بات ہو نی چاہئے۔
این آئی او ایس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شعیب رضا وارثی نے کہا کہ کہ سبھی مقالہ نگاروں ایمانداری سے مقالے کا حق ادا کیا ہے۔ مقالوں کو سن کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ تمام منا ظرآ نکھوں کے سامنے ہوں۔درسی کتابوں میں اصل نصاب این سی ای آر ٹی کرتا ہے۔افسر میرٹھی کو بھی اسماعیل میرٹھی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو تمام اردو داں طبقے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کو بھی ضرور پڑھنی چاہئیں۔ میرٹھ کے ذکر کے بغیر1857ء کا ذکر نا ممکن ہے۔ این آ ئی او ایس ایسا نصاب ہے جس میں تمام زبانوںکی کتابیں ہیں اور سبھی در جات کے امتحانات ریجنل زبانوں میں ہوتا ہے۔ زبان کسی ایک قوم کی نہیں ہوتی بلکہ اردو پورے ہندوستان کی زبان ہے۔
پروفیسر فاروق انصاری نے کہا کہ تحریک آزادی اور شاعری جیسے مو ضو عات آج کی نوجوان نسل کے لیے بے حد ضروری ہیں تا کہ اپنے بزرگو ں کی خدمات اور ان کی حب الوطنی اور قربا نی کو یاد رکھا جاسکے۔NEP 2020 میں اس طرح کی باتوں پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ تحریک آزادی کے عنوانات کے حوالے سے ہونے والے سیمینار وقت کی اشد ضرورت ہیں۔ تحریک آزادی میں خواتین کا کردار بھی مردوں سے کم نہیں ہے۔
پروگرام میں ڈاکٹر الکا وششٹھ،ڈاکٹر رام گوپال بھارتیہ،اسرار الحق اسرارؔ،وارث ،وارثی،طلعت سروہا،سرتاج احمد ایڈوکیٹ،ڈاکٹر عفت ذکیہ،ڈاکٹر فرح ناز، بھارت بھوشن شرما،دل تاج محلی،شہناز پروین،فائزہ آصف،علما نصیب، محمد نصیب،لائبہ ، نزہت اختر،فائزہ، عارفین،محمدمستجاب ، عابد سیفی،عمائدین شہر اور کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شر کت کی۔
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page