نقش رائیگاں/ نوید انجم – ڈاکٹر زاہد ندیم احسن
نوید انجم کا شعری مجموعہ” نقش رائیگاں” پیش نظر ہے. نوید انجم سے میری واقفیت ان کے بڑے بھائی جاوید حسن کے توسط سے ہوئی ـ جاوید حسن ہمارے سینئر ساتھیوں میں سےہیں ـ اگر میں یہ کہوں کے استاذ ساتھی ہیں، یعنی ان کی رفاقت نے میرے علمی ذوق کو جلا بخشی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا. جاوید بھائی جب ساتھ ہوتے تو اکثرنوید انجم کی غزلیں اور نظمیں مجھے سنایا کرتے. حالانکہ نویدانجم سے میری رسمی ملاقاتیں تو رہی ہیں مگر ان کی شاعری سے روبرو جاوید بھائی کے ذریعے ہی ہوا.
آج جب نوید انجم کا شعری مجموعہ مجھے ملا تو جاوید حسن سے ملاقات اور ان کی شخصیت کے ساتھ ان کی ذہانت اور علمی وادبی فراست کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ چیزیں کہیں نہ کہیں خاندانی ورثہ ہوتی ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں اور کسی نہ کسی تخلیقی صورت میں منظر عام پر آتی ہیں. "نقش رائیگاں” بھی اسی کا ایک مظہر ہے. دراصل جہاں تک میرا خیال ہے شاعری وہبی عمل ہے بلکہ شاعری ہی کیا کوئی بھی تخلیقی عمل ایک وہبی عمل ہے، اگر چہ اسے کسب کے پیرائے میں ڈھال کر خوبصورت بنایا جاتا ہے لیکن کوشش سے یا بالارادہ کسی خیال کو شعری پیکر میں نہیں ڈھالا جا سکتا. "نقش رائیگاں” کی غزلیں اور نظمیں بھی کچھ اسی طرح کی ہیں جسے پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ شاعر کی ذات اور شعور میں ڈھل کر ظہور پذیر ہوئی ہیں. غزلوں سے کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے:
نظموں میں خاص طور سے جو والدہ کی موت کے بعد لکھی گئی ہیں اس کی حساسیت اور جذباتیت کا اندازہ آپ خود پڑھ کر لگا سکتے ہیں. ایک نظم سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
اندھیرا ہے ہر ایک سوٗ
(ماں کے لیے)
اندھیرا ہے ہر اِک سو
گھر بڑا ویران رہتا ہے
جو کمرے تھے مرے گھر میں
وہ اب تاریک خانے ہیں
سیہ کونوں میں اب جن کے
تمہاری یادوں کے بس دیپ جلتے ہیں
تمہاری چیختی، پُر شور یادیں سب
سماعت میں مرے، احساس میں
اک شور برپا کرتی رہتی ہیں
ہمارے درمیاںتم اب نہیں لیکن
گماں کیوں ہوتا ہے ہر پل
یہیں ہوتم
ہر اِک دم اور ہر پل
بڑے بوجھل ہیں اب دن رات سارے
مری صبحیں،مری شامیں
مری سب زیست کے لمحے
کبھی گویا ہوا کرتے تھے جو تم سے
تمہارے ساتھ ہنستے، کھلکھلاتے، گنگناتے تھے
وہ سب اوندھے پڑے ہیں
وہ اب مایوس رہتے ہیں
بتاؤ تو
کبھی آ پاؤگی تم
پرسشِ احوال کی خاطر؟
کہیں بستر پہ پہروں بلبلاتا ہے
وہ کتھئی رنگ کا مانوس سا تکیہ
سرہانے جس کو رکھ کر تم
کئی قسطوں میں چنتی تھی
شبِ بیدار میں کچھ نیند کے موتی
بغیر اس کے
تمہیں کب نیند آتی تھی
وہ تکیہ پوچھتا ہے اب کہاں ہو تم؟
نہ جانے کون سی بستی میں اب کے گھر لیا تم نے
جہاں نہ کوئی ٹیلی فون ہے، نہ پوسٹ آفس ہے
ذرا بولو تو
اس مانوس تکیہ کو
بھلا میں کیسے سمجھاؤں
کہاں ہو تم؟
وہ اودے، گہرے پیلے رنگ کا صوفہ
کے جس پہ بیٹھ کر پہروں
مری خاطر
دعائیں مانگتی رہتی تھیں
وہ صوفہ غم زدہ ہے اب
وہ سب تسبیح کے دانے
جو جنبش سے تمہاری انگلیوں کی
سدا حرکت میں رہتے تھے
لرزتے رہتے تھے تاریک راتوں میں
دھڑکتے رہتے تھے دن کے اجالے میں
وہ اب خاموش رہتے ہیں
ترستے ہیں
تمہاری انگلیوں کی
جنبش پیہم کے اب بھی منتظر ہیں
ڈرائنگ روم کی دیوار پہ لرزاں
وہ ٹک ٹک کرنے والی اِک گھڑی جس نے
تمہارے ساتھ اکثر ٹکٹکی باندھے
ہماری راہ میں آنکھیں بچھائی تھیں
وہ اب بیزار رہتی ہے
دیا ہے چھوڑ اس نے وقت کا دامن
مجھے اس کے کسی نیلے سے اک کانٹے میں
تمہاری نبض کا احساس ہوتا ہے
بہت خاموش، ساکت، منجمد
اندھیرا ہے ہر اِک سو
گھر بڑا ویران رہتا ہے
¯
میرا ارادہ ہے کہ جب بھی کشا کش دنیا سے مجھے فرصت ملے گی، میں نوید انجم کی شاعری پر ایک بھر پور مضمون لکھوں گا. فی الحال میں ” نقش رائیگاں” کی اشاعت پر ان کو دل کی گہرائیوں سےمبارک باد دیتا ہوں اور اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک انہیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
(اگر زحمت نہ ہو تو ادبی میراث کے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں https://www.youtube.com/@adbimiras710/videos
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page