دل آج بھی روتا ہے (افسانوی مجموعہ ) / واجدہ تبسم گورکو – ڈاکٹر محمد یونس ڈار
زیر تبصرہ کتاب میں 15افسانے ہیں جن کے نام سراب ، معصوم تمنائیں ، چھڑا کر ہاتھ اپنوں سے،خواہشوں کا احترام ،دل آج بھی روتا ہے ،زندگی امتحان لیتی ہے ،نیند بھی میری خواب بھی میرے ،ریزہ ریزہ خواب،سپنوں کا سودا گر ،جہیز کی قیمت ،خوشیوں کا سفر،گرتی ہوئی دیوار،رشتے دل کے،ایک اجنبی،اچھا صلہ مجھے ملا میرے پیار کا۔پیش لفظ نور شاہ نے لکھا ہے ۔ڈاکٹر یونس ربانی چودھری کا ایک مضمون ”واجدہ تبسم گورکو کے اُردو افسانے“اور تبسم یعقوب نے ”آئینہ خیال “کے ذریعہ ان کی کہانیوں کے اسرار و رموز وا کرنے کے ساتھ ان کی شعوری ترنگوں کو بھی نمایاں کرنے کی سعی کی ہے ۔
”دل آج بھی روتا ہے “مصنفہ کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے۔”ڈولتی دنیا “کے عنوان سے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1993 ءمیں شائع ہوچکا ہے۔جسے ادبی دُنیا میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔افسانوی مجموعہ ”دل آج بھی روتا ہے“کی کہانیوں میں زندگی ،سماج اور اس سے متعلق دوسرے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے ۔مجموعہ کی پہلی کہانی ’سراب ‘ہے جس میں گھریلو زندگی میں پیش آنے والے روزمرہ کے مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے یہ ازدواجی زندگی میں تلخ تجربے کی کہانی ہے ۔افسانے کی عورت ظلم و جبر اور زیادتی سہنے کے باوجود بھی صبر و شکر کا پیکر بنی ہوئی نظر آتی ہے ۔مجموعہ کی دوسری کہانی ’معصوم تمنائیں ‘ایک بیوہ کی روداد ہے جو اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے در در کی ٹھوکریں اور محنت و مشقت کے باوجود بھی آخر میں اکیلی جان رہ جاتی ہے ۔کہانی میں امیر لوگوں کا دکھاوا اور غریبوں کی ناقدری کے کئی بلیغ اشارے بھی ملتے ہیں ۔آخر میں افسانے کے یہ الفاظ دل میں گھرکر لیتے ہیں کہ”مگر مجھے افسوس ہے کہ جن کے اندر چاند ستارے چھونے کی معصوم تمنائیں جاگتی رہتی ہیں انہیں موقعہ کیوں نہیں ملتا“۔’چھڑا کر ہاتھ اپنوں سے‘اس مجموعہ کی تیسری کہانی ہے جس میں شوہر کی عدم توجہی اور میاں بیوی کے مابین انا کی وجہ سے بارہ سال کی دُوریاں جنم لیتی ہیں ۔مجموعہ کی چوتھی کہانی ’خواہشوں کا احترام ‘ میں عورت کی جانب سے ازدواجی زندگی میں مرد کی خواہشوں کا احترام د کھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عورت اپنے مرد کو اس کی غلطیوں کا احساس دلاتی ہے۔’دل آج بھی روتا ہے ‘نامی کہانی میں بیٹے کی موت کے غم میں ماں کی بے چینی اور آہ وزاری دکھائی گئی ہے ۔یہ کہانی رشتوں کی قدر دانی کی عمدہ مثال ہے۔کہانی ’زندگی امتحان لیتی ہے ‘ازدواجی زندگی کی ان بن کی کہانی ہے۔کہانی ’نیند بھی میری خواب بھی میرے‘ میں مشرقی طرزاور رسم و رواج میں پلی زاہدہ کی کہانی ہے جو اپنے دمے کے مریض والد کے ہوتے ہوئے بھی ا پنی دو بہنوں کی پرورش کرتی ہے ۔کہانی ’ریزہ ریزہ خواب ‘کا موضوع اپنی پسند کے خلاف شادی ہے۔نجمہ کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کی جاتی ہے اس کے خوابوں کو سب نے مل کر ریزہ ریزہ کردیا ہے اس کی چُپی کو سب نے رضا مندی سمجھ لیا ۔یہی سبب ہے کہ وہ سسرال میں خوش نظر نہیں آتی ہے ۔کہانی’ سپنوں کا سودا گر ‘میں ناز و نعم سے پلنے والی عظمٰی کی زندگی اس وقت نیا موڑ لیتی ہے جب ایک حادثہ میں اس کے چہرہ پر ایک بدنما داغ لگ جاتا ہے اور شادی کے سبھی رشتوں میں درار پیدا ہوجاتی ہے۔دو گھرانوں کے آپسی تعلقات کی کہانی ’خوشیوں کا سفر ‘ میں سلیم کا بے مثال کردار اپنی شادی کے ذریعے ان دو رشتہ دار خاندانوں کو اس وقت آپس میں ملاتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہوچکے ہوتے ہیں ۔افسانوی مجموعہ کی کہانی ’گرتی ہوئی دیوار ‘میں عورت سسرال میں طعنے ،فکرو پریشانی اور نفرت کے تیر برداشت کرتے کرتے اس کا دل چھلنی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ لاعلاج بیماری کا شکار ہوجاتی ہے ۔اورپھربیماری کے دنوں میں اسے سسرال والوں کی جانب سے ملنے والا پیار بھی جھوٹا محسوس ہوتاہے۔’رشتے دل کے ‘میاں بیوی کی کہانی ہے۔آپسی اَن بن کی وجہ سے تین سال کی جدائی سہنا پڑتی ہے ۔کہانی میں عورت کا پیار اور انتظار مرد کو بے قرار کرتا ہے ۔کہانی میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ والدین کی دُوریوں کی وجہ سے سزا بچوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔کہانی ’ایک اجنبی‘مجموعہ کی چودھویں کہانی ہے جس میں ایک نیک سیرت ، صاف و شفاف ،پاکیزہ روح آشا کی کہانی ہے جسے ان اوصاف حمیدہ کے عوض ایک نیک شریف جیون ساتھی مل جاتا ہے افسانہ کے بین السطور میں یہ بات مضمر ہے کہ آج بھی دُنیا با وقار اور باحیا عورتوں کی طلب گار ہے۔ اور افسانوی مجموعہ کی آخری کہانی ’اچھا صلہ مجھے ملا میرے پیار کا ‘ اس مزدور کی بیوہ کی کہانی ہے جو وادی میں نامساعد حالات کی زد میں آکر شہید ہوچکا ہے۔بیوہ اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بُجھانے کی خاطر پڑوسیوں کے گھر جاکر محنت و مزدوری کرکے گُزارا کرتی ہےاورپیار ومحبت سے پالے پوسےبچے اپنی ماں کو ہی چھوڑ کر اس پیار کے بد لے اچھا صلہ نہیں دیتے ہیں ۔اصل میں یہ ان ہزار بیواؤں کی کہانی ہے جو وادی میں نامساعد حالات کی وجہ سے آفات کا شکار ہوچکی ہیں جن کی سیاسی ،سماجی آقاؤں تک کوئی رسائی نہیں ہے اور نہ ان تک کسی نے پہنچے کی کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پرمجبور ہوجاتی ہیں۔فی الجملہ مذکورہ افسانوی مجموعہ میں قاری روز مرہ زندگی کے مسائل سے ہمکلام ہوتا ہے مجموعہ کی اکثر کہانیوں میں عورت کو صبر وتحمل اور محنت و مشقت کا مجسمہ بناکر پیش کیا گیا ہے جبکہ تمام مرد کردار تھکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں نیز جابجا تانیثی ڈسکورس کی جذباتیت غالب نظرآتی ہے ۔بہرحال افسانوی مجموعہ ’دل آج بھی روتا ہے‘واجدہ تبسم گورکو کے اسلوب کا ایک منفرد اور شاہکار نمونہ ہے۔جسے توجہ اور دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔۔
صفحات : 151،قیمت :495 روپے ،
سنہ اشاعت 2019
ناشر : حاجی شیخ غلام محمد اینڈ سنز مائسمہ بڈ شاہ چوک سرینگر
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ ادبی میراث کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ادبی میراث پر آپ کا استقبال ہے۔ اس ویب سائٹ کو آپ کے علمی و ادبی تعاون کی ضرورت ہے۔ لہذا آپ اپنی تحریریں ہمیں adbimiras@gmail.com پر بھیجنے کی زحمت کریں۔ |
Home Page